Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت پیر محمد شاہ

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت پیر محمد شاہ

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب - 9

    حضرت پیر محمد شاہ پیرِ لاثانی ہیں، عارفِ اسرار و معارفِ الٰہی ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ غوث الاعظم میراں محی الدین حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی اولاد سے ہیں، آپ کے دادا کا نام شاہ علاؤالدین ہے، وہ قادری، حسنی اور حسینی ہیں، حضرت امام حسن کی اولاد میں ہونے کی وجہ سے حسنی اور حضرت امام حسین کی اولاد میں ہونے کی وجہ سے حسینی ہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کے آبا و اجداد بغدا میں رہتے تھے، بغداد سے ان میں سے کچھ لوگ سکونت ترک کے ہندوستان آئے اور ہندوستان آکر بیجاپور میں رہنے لگے۔

    والد ماجد : آپ کے والد ماجد کا نامِ نامی اسمِ گرامی امین الدین ہے، ان کے تین بھائی تھے، ایک کا نام سید عبدالرحمٰن جو سید علّا کے لقب سے مشہور تھے، یہ سب بڑے تھے اور آپ کے والد شاہ امین الدین سے بڑھے تھے، آپ کے دوسرے بھائی کا نام شاہ حسن ہے جو حضرت صاحب کے لقب سے مشہور ہیں، ان کے تیسرے بھائی کا نام سید شاہ حسین جو ”ننھا میاں کے لقب سے مشہور تھے، شاہ حسن اور شاہ حسین آپ کے والد سے چھوٹے تھے، آپ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔

    والدہ ماجدہ : آپ کی والدہ ماجدہ کا نام شاہ بی بی ہے، وہ حسینی تھیں اور حضرت سید محمد گیسو دراز کے خاندان سے تھے، اس طرح سے آپ کو حسنی اور حسینی ہونے کا فخر حاصل ہے۔

    ولادت : آپ 15 شعبان 1100ہجری کو بیجاپور میں پیدا ہوئے۔

    نامِ نامی : آپ کا نام سید محمد ہے۔

    خطاب : آپ پیر محمد کے خطاب سے مشہور ہیں۔

    لقب : آپ کا لقب حبیب اللہ ہے۔

    بچپن کا صدمہ : ابھی آپ سنِ بلوغ کو نہ پہنچنے پائے تھے کہ والدہ ماجدہ کی محبت اور شفقت سے محروم ہوگئے، آپ کی والدہ کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش کا بار آپ کی پھوپھی پر پڑا۔

    تعلیم و تربیت : والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد آپ کی پھوپھی نے آپ کی پرورش کی، اور ”اُو را“ ہیچ برادر نیست و پرورش بخانۂ عمہ یافتہ و پدرش در زمانِ حمل شریف وفات یافت“

    (اور ان کے کوئی بھائی نہ تھا اور ان کی پرورش پھوپھی کے گھر ہوئی اور ان کے والد کا انتقال جب کہ وہ شکمِ مادر میں تھے، اس وقت ہوا) آپ کی اصلی تعلیم و تربیت آپ کے عم مکرم حضرت سید عبدالرحمٰن کے کنارۂ عاطفت میں ہوئی، سات سال کی عمر میں آپ نے قرآن شریف حفظ کیا، اس پر سب کو حیرت تھی اور ایک دوسری بات یہ ہوئی کہ جس نے لوگوں کو حیرت میں ڈالا کہ 1007 ہجری میں آپ نے رمضان کے مہینے میں تراویح خود پڑھائی، علومِ ظاہری کی تکمیل کے بعد مزید علم حاصل کرنے کی غرض سے آپ مکہ معظمہ و مدینہ منورہ گئے اور وہاں کے مشہور اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا۔

    بیعت و خلافت : آپ کے عمِ مکرم حضرت سید عبدالرحمٰن نے آپ کو 1109ہجری میں اپنی بیعت سے سرفراز فرمایا اور سلسلۂ قادریہ میں منسلک کرکے آپ کو رموزِ معرفت کی تعلیم دینا شروع کی، آپ نے خود ”پیرنامہ“ میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔

    چنیں یاد درام من از پیر خویش

    کہ او قادری حق نمائیش کیش

    بدہ سید وعبدرحمٰن بہ نام

    بہ سید علی عرف او درا نام

    کہ یک روز فرمود تلقین مرا

    بااسرارِ پیران واز ماجرا

    مرا کرد از چار پیر ودر پیر

    ہم از چار دہ خانوادہ خبر

    ترجمہ :- مجھے یاد ہے کہ میرے مرشد جو حقائقِ اشیا کے دکھلانے والے سید عبدالرحمٰن قادری تھے جن کو لوگ سید علی کہتے تھے، ایک دن مجھ کو سلسلۂ قادریہ کی تلقین کی اور تمام راز سے آگاہ کیا اور پھر چودہ خانوادوں کا حال مجھ سے بیان کیا۔

    پیرومرشد کی ہدایت : آپ کے چچا پیرومرشد نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ آپ مکمہ معظمہ جائیں اور وہاں کچھ عرصے رہ کر علم حاصل کریں۔

    شجرۂ بیعت : آپ کا شجرۂ بیعت حسبِ ذیل ہے۔

    حضرت پیر محمد شاہ، حضرت سید عبدالرحمٰن علی قادری بیجاپوری، مولانا سید محمد مدرس بیجاپوری، شیخ عبدالعظیم مکی، سید شاہ صبغۃ اللہ بھروچی، حضرت شاہ وجیہ الدین گجراتی، حضرت سید محمد غوث گوالیاری، شیخ حمیدالحق حاجی حضور ”ابوالفتح سرمست“ شیخ قاضن قادری، شیخ عبدالوہاب، شیخ عبدالرؤف، شیخ محمود قادری، شیخ عبدالغفار، سید محمد قادری، سید علی قادری حسینی، سید جعفر احمد، شیخ ابراہیم، شیخ عبداللہ قادری، تاج الدین سید عبدالرزاق، حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی، شیخ ابو سعید علی، شیخ ابوالحسن علی، شیخ یوسف طوسی، شیخ عبدالعزیز یمنی، ابوالقاسم احمد، ابوبکر عبداللہ شبلی، ابوالقاسم جنید بغدادی، حضرت شیخ سری سقطی، حضرت شیخ معروف کرخی، حضرت علی موسیٰ رضا، حضرت موسیٰ کاظم، حضرت جعفر صادق، حضرت محمد باقر، حضرت علی زین العابدین، حضرت امام حسین، حضرت امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت محبوبِ خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔

    دیگر سلسلوں سے وابستگی : قادری سلسلے میں منسلک ہونے کے باوجود آپ کو حسبِ ذیل سلسلوں میں شرفِ بیعت حاصل تھا۔

    شطاریہ، چشتیہ، سہروردیہ، فردوسیہ، خلوتیہ، ہمدانیہ، نقشبندیہ، مداریہ، اویسیہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ قادری سلسلے سے آپ کو خاص لگاؤ تھا اور آپ کو زیادہ فیض بھی اسی سلسلے سے پہنچا۔

    مکہ کو روانگی : پیرومرشد کا حکم پاکر آپ بیجاپور سے سورت تشریف لائے اور سورت سے مکہ معظمہ روانہ ہوئے، اس وقت شجاعت خاں گجرات کے صوبہ کا حاکم تھا اور بندرگاہ سورت کے پورٹ کمشنر امانت خاں کے انتقال کے بعد نظر علی عارضی پورٹ کمشنر مقرر ہوئے، شہنشاہ اورنگ زیب نے دیانت خاں کو مستقل حاکم مقرر کرکے بھیجا۔

    مکہ میں آمد : آپ قافلہ کے ساتھ مکہ معظمہ پہنچے اور وہاں پہنچ کر اپنے پیرومرشد کی ہدایت کے مطابق تحصیلِ علم میں مشغول ہوئے، آپ کے پیرومرشد نے آپ کو یہ بھی ہدایت فرمائی تھی کہ تجوید، تفسیر اور تصوف کو خاص طور سے حاصل کرو اور ان پر خاص توجہ دو، چنانچہ مکہ معظمہ پہنچ کر آپ نے ان علوم کو خاص طور سے اور کافی محنت سے حاصل کرنے کی کوشش کی اور آخر کار کامیاب ہوئے۔

    مکہ کے علما : مکہ معظمہ میں اس وقت اس وقت بلند پایہ استادانِ فن موجود تھے جو تشنگاہِ علم کی پیاس بجھاتے تھے، خاص خاص کے نام حسبِ ذیل ہیں۔

    عبدالرحمٰن بن محمد ذہبی، عبداللہ بن طرفہ، عبدالملک بن حسین عصامی، ابو عبداللہ جمال الدین، محمد بن احمد بن سعید عقیلہ، محمد بن شیخان بن عمر سالم، مصطفیٰ بن فتح اللہ مکی، شیخ عیسیٰ جعفری، شیخ محمد بن سلیمان، شیخ محمد شرنیلالی، علامہ جمال عبداللہ ابن سالم بصری، شہاب احمد بن محمد نخلی، بدر حسن بن علی عجمی، تاج الدین بن احمد مکی، ملا الیاس بن ابراہیم کورانی، شیخ حسین بن عبدالرحیم نملی، شہاب احمد بن محمد دمیاطی، سید محمد بن علی الاحمدی، سید عبداللہ بن علی با حسین مقاف، شیخ قاسم بن محمد بغدادی، شیخ محمد ابوالواہب بن عبدالباقی، شہاب الدین بن عبداللہ مکی، علی بن جمالی، سید محمد شلی، محمد بن سلیمان مغربی۔

    استفادہ : آپ چھ سال مکہ میں رہے اور سید عبدالرحمٰن کے علاوہ عبداللہ بن طرفہ، محمد بن احمد بن سعید، محمد بن شیخان بن عمر سال، مصطفیٰ بن فتح اللہ مکی سے آپ نے علم حاصل کیا اور دیگر علما کی صحبت سے بھی فیضاب ہوئے۔

    مدینہ میں آمد : آپ نے مکہ میں چھ سال قیام کرکے 1115ہجری میں مدینہ کو کوچ فرمایا، مدینہ پہنچ کر آپ نے وہاں سات سال قیام فرمایا اور اس سات سال کے عرصے میں آپ علم حاصل کرنے میں ہمہ تن مشغول رہے۔

    مدینہ اس وقت علوم وفنون کا گہوارہ تھا، بلند پایہ اور مشہور علما و فضلا وہاں رہتے تھے، ان میں سے خاص خاص کے نام حسبِ ذیل ہیں۔

    احمد یکدست، مولانا سعد اسکداری، مولانا عبدالرحمٰن سمہوری، مولانا عبدالکریم خلیفتی، مولانا سید عبداللہ الحداد، مولانا علی بن ابراہیم شروانی، علی بن احمد قریشی مغربی، محمد ابراہیم بری، علامہ ابوطاہر محمد بن ابراہیم کورانی، شیخ ابوطیب محمد بن ابی حسن، محمد خلیفتی عباسی، محمد بن عبدالہادی سندھی، مولانا یحییٰ بن ابراہیم احمد، مولانا سیف بن ابراہیم بن محمد اکمل الدین شروانی، یوسف خطیب مدنی، آپ نے ان اساتذہ، علما اور فضلا کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور بعض سے علوم و فنون حاصل کرنے میں مدد لی۔

    ذوق و شوق : علمی ذوق وشوق آپ کو بے چین رکھتا تھا، ہر چشمہ پر جاتے اور سیرات ہوتے تھے، مدینہ میں جن علما سے آپ نے خاص طور سے علم حاصل کیا ان کے نام حسبِ ذیل ہیں۔

    مولانا احمد یک دست، مولانا احمد اسکداری، مولانا عبدالکریم خلیفتی، سید عبداللہ الحدادی، علی بن ابراہیم شروانی، محمد بن عبدالہادی سندھی، یوسف بن ابراہیم شروانی یوسف خطیب مدنی۔

    حج : قیامِ مکہ اور مدینہ کے دوران آپ نے ایک سے زیادہ حج کئے۔

    ہندوستان میں آمد : مدینہ منورہ میں سات سال قیام فرما کر آپ ہندوستان تشریف لائے، یہ وہ زمانہ تھا جب بہادر شاہ کی لاہور میں وفات ہوچکی تھی اور جہاندار شاہ دہلی کے تخت پر بیٹھا تھا، اس وقت گجرات کا گورنر آصف الدولہ اس خاں تھا اور اس کا نائب یعنی نائب حاکم سربلند خاں تھا اور وقت بندرگاہِ سورت کا پورٹ کمشنر یعنی مصدی محمد بیگ خاں تھا۔

    احمدآباد میں سکونت : ہندوستان آکر احمدآباد تشریف لے گئے، آپ نے احمد آباد آکر شہر سے باہر راج پور محلہ بی بی کی مسجد میں قیام کیا، اس وقت راپور کا محلہ بہت آباد اور با رونق تھا، راج پور محلہ کے متعلق علی محمد خاں نے لکھا ہے کہ

    ”راج پور بسیار کلاں مشابہ شہرے آباد بود تجارت پیشگاں و اہلِ کار و خدمات و کاسب پیشہ و جماعت کبیر بواہیر و جماعہ خرد بیشترے بہ تجارت براری و بحار می می پرداختند، ساکن بودند و عماراتِ مطبوع دلکش عالی کہ بہ صرف مبلغہا عمارت شدہ بود“

    ترجمہ : راج پور ایک بڑا محلہ مثل شہر کے آباد تھا اور ہر قسم کے اہلِ صنعت و حرف اور تاجر یہاں رہتے تہیں، سنّی بوہرے اور داؤدی جو خشکی اور تری کی تجارت میں مشغول ہیں، اسی جگہ رہتے ہیں، لوگوں نے بڑی بڑی بلندی، عالیشان، خوبصورت عمارتیں بنا رکھی ہیں۔

    ایک واقعہ : ایک دن آپ ایک معتقد کے کارخانہ میں تشریف لے گئے اور ایک لکڑی کے تختہ پر ٹیک دے کر بیٹھ گئے، اس شخص نے آپ کو کسی اچھی جگہ بٹھانے کی کوشش کی لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا، تھوڑی دیر وہاں بیٹھے رہے، بات چیت کرتے رہے پھر اپنی قیام گاہ کو تشریف لے گئے، آپ کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص کو نظر اچانک اس لکڑی کے تختہ پر پڑی، اس کو یہ دیکھکر بہت تعجب ہوا کہ اس لکڑی کے تختہ پر آپ کے جسمِ مبارک کا نشاہ پڑ گیا تھا، اس بات کا چرچا ہوا اور لوگوں کا اژدہام ہونے لگا۔

    سکونت میں تبدیلی : آپ شہرت پسند نہ کرتے تھے، آپ راج پور سے سکونت ترک کے کالو پور میں رہنے لگے۔

    اظہارِ کرامت : ایک دن آپ کہیں جارہے تھے، راست میں ایک دوکان پڑی، وہاں ایک شخص بیٹھا ایک کتاب پڑھ رہا تھا، آپ وہاں جاکر کھڑے ہوگئے، دوکان دار نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہے، اس نے آپ سے پوچھا کہ کیا چاہتے ہو، آپ نے جواب دیا کہ پانی پلاؤ، اس نے آپ کو پانی پیش کیا، پانی پیتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کا حل فلاں صفحہ پر اور فلاں بحث میں ہے، اس شخص نے وہ صفہ اور وہ بحث نکالی تو واقعی حل موجود تھا، یہ دیکھ کر اس کو آپ سے محبت اور عقیدت پیدا ہوئی، اس شخص کا نام محمد فاضل تھا اور جوکتاب وہ پڑھ رہا تھا اس کا نام فصوص الحکم تھا جس کے مصنف حضرت محی الدین ابن عربی ہیں اور جو تصوف کی ایک مشہور کتاب ہے، محمد فاضل جب پیالہ اندر رکھ کر باہر آئے تو دیکھا کہ آپ (حضرت پیر محمد شاہ) وہاں نہیں ہیں، یہ دیکھ کر وہ دوکان کھلی چھوڑ کر آپ کی تلاش میں نکلا اور گلی کوچے آپ کا پتہ لگاتا ہوا اور لوگوں سے پوچھتا ہوا کہ اس اس حلیہ کا کوئی آدمی ادھر سے تو نہ گذرا، ناکام واپس اپنی دوکان پر آیا تو کیا دکھتا ہے کہ آپ وہاں کھڑے مسکرا رہے ہیں اور دکان کھلی ہے۔

    آپ کی یہ کرامت دیکھ کر محمد فاضل نے آ پ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور آپ کو لے کر گھر آئے اور ما حضر پیش کیا، آپ اکثر دوکان پر جاتے اور محمد فاضل سے تصوف کے مسائل پر گفتگو کرتے، ایک دن آپ نے محمد فاضل سے فرمایا کہ میں نے تمہارا نام محمد ظہور رکھا ہے، اس نام نے کچھ ایسی شہرت حاصل کی کہ محمد فاضل آج تک محمد ظہور کے نام سے ہی مشہور ہیں۔

    چلہ کشی : آپ نے 1123ہجری کے آخر میں درگاہ حضرت شاہ وجیہ الدین میں شب و روز چالیس دن تک چلہ کشی فرمائی، دنیا اور دنیا والوں سے ان ایام میں بالکل کنارہ کش رہے اور حضرت شاہ وجیہ الدین کی روحانی دولت سے مالا مال ہوتے رہے اور ان کی روح پُرفتوح سے فیض پاتے رہے، غرض

    ”سید پیر محمد شطاری، سیدنا عبدالقادر جیلانی غوث الصمدانی کی اولاد میں ہیں، ولیٔ کامل عامل درجات تھے شاہ وجیہہ الدین گجراتی اور ان کے جانشین شاہ عبداللہ گجراتی سے فیوضاتِ ظاہری اور باطنی اخذ کئے“

    جامد مسجد میں قیام : آپ کالو پور سے سکونت ترک فرما کر جامع مسجد میں رہنے لگے اور بقیہ عمر جامع مسجد میں گذاری، کہیں آتے جاتے نہ تھے، البتہ حضرت شاہ وجیہہ الدین کی درگاہ پر پابندی سے حاضری دیتے تھے، جامع مسجد آپ کی رشدوہدایت کا مرکز بن گیا، رشدوہدایت فرماتے اور عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے تھے، پس

    ”درِ مسجد جامع احمد آباد سکنا مد زیدند و تا آخرِ زندگی ہمانجا بسر بردہ و صاحبِ طریقت وسلوک بودند و اکثرے را تلقین و ارشاد نمودند وگوشہ نشینی وعزلت گزینی اختیار کردند وہیچ جا آمد ورفت نہ می کردند مگر در جناب حضرت شاہ وجیہہ الدین ہر روز بلا ناغہ برائے قدم بوسی می آمدند“

    ترجمہ : احمدآباد کی جامع مسجد میں قیام فرمایا اور آخر عمر تک اسی جگہ رہے، آپ صوفی واقفِ طریقت و شریعت تھے، اکثر لوگوں کو آپ نے ہدایت فرمائی، آپ نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی اور کسی جگہ آتے جاتے نہ تھے مگر درگاہ حضرت شاہ وجیہہ الدین پر روزانہ بلا ناغہ فاتحہ خوانی کے لئے حاضر ہوتے۔

    خدمت : یہ خدمت آپ کے سپرد مراقبہ میں روحانی طریقہ سے کی گئی تھی کہ مسجد میں جو لوگ آئیں آپ ان کے پیر دھلائیں، آپ نے یہ خدمت بخیروخوبی انجام دی، ہر جانے والے کے جو ننگے پیر ہوتا آپ پیر دھلاتے تھے۔

    انور خاں کی باریابی : جواں مرد خاں بابی نے احمدآباد پر مستقل قبضہ کرکے اپنا اقتدار قائم کرلیا، جواں مرد خاں بابی تین بھائی تھے، ان کے ایک بھائی کا نام انور خاں تھا، انور خاں کو درویشوں اور فقیروں سے بڑی عقیدت تھی، وہ اہلِ علم کی بھی قدر کرتا تھا اور علما کی عزت کرتا تھا۔

    ناظمِ گجرات مبارز الملک کے زمانہ میں 1144ہجری میں انور خاں کو صدر خاں کا خطاب ملا اور پانصدی منصب اور رادھن پور کی فوجداری تھی دی گئی اور جوان مرد خان کی شرکت میں ان کو تیس ہزار بیگہ زمین بھی ملی، انور خاں نے 1147ہجری میں پرگنہ موندہ، ماترا اور نریاڈ ٹھیکہ پر لیا لیکن مرہٹوں کی یورش سے ان کو ٹھیکہ میں نقصان ہوا، انور خاں 1149ہجری میں پٹن کےنائب فوجدار ہوئے، اپنے بھائی جواں مرد خاں بابی کے احمد آباد پر قبضہ کرنے کے بعد سے یعنی 1156 ہجری میں وہ بھائی کو سہولت پہنچانے اور اس کی مدد کرنے کی غرض سے احمدآباد میں رہنے لگے، یہ وہ زمانہ تھا کہ آپ (حضرت پیر محمد شاہ) کا چاروں طرف شہرہ تھا اور مخلوق آپ کے چشمۂ فیض سے مستفید ہو رہی تھی، انور خاں کو چونکہ درویشوں سے بے حد عقیدت تھی، آپ کا شہرہ سن کر آپ کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوا، پہلی ہی ملاقات میں وہ آپ کا ایسا گرویدہ ہوا کہ وقت نکال کر آپ کی خدمت میں پابندی سے حاضر ہونے لگا۔

    انور خاں کی استدعا : انور خاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا، ایک دن اس نے عرض کیا کہ

    ”حضور سے ایک درخواست ہے اگر قبول ہو تو زہے قسمت حضور ! اپنے دستِ مبارک پر بیعت فرما کر اس عاجز اور گنہگار کو شرف بخشیں، اگر حضور اپنے غلاموں میں مجھے شامل کریں تو اس سے بڑھ کر میری کیا خوش قسمتی ہوگی“

    جواب : حضرت نے انور خاں کو جواب دیا کہ

    ”فقیری اور درویشی آسان نہیں، یہ ہر ایک کے بس کا کام نہیں، تم اس کے اہل نہیں اور نہ یہ کام تم انجام دے سکو گے، بات یہ ہے کہ فقیروں کا کام فقیر ہی کر سکتا ہے، تم ! امیر ہو، صاحبِ دولت ہو، صاحبِ ثروت ہو، تم جیسے لوگوں سے بھلا یہ کام کیوں کر اور کیسے ہوگا“

    اصرار : انور خاں اپنی دھن میں لگا رہا اور برابر عرض کرتا رہا، ایک دن اس نے نہایت عاجزی سے غلاموں مین شامل کرنے کے لئے عرض کیا۔

    شرط : حضرت نے اس مرتبہ بجائے صاف انکار کرنے کے ایک شرط رکھی کہ اگر انور خاں وہ شرط پوری کرے تو مرید بن سکتا ہے، آپ نے انور خاں سے فرمایا کہ تم کو ایک شرط پر بیعت کرسکتا ہوں اور وہ شرط یہ ہے کہ ایک دن تم سارے احمدآباد میں گلی کوچے میں جاؤ اور در در بھیک مانگو۔

    حکم کی بجا آوری : انور خاں نے ایک سچے اور مخلص طالب کی طرح بغیر کسی پس و پیش کے شرط قبول کی، دوسرے ہی دن وہ کشکولِ گدائی ہاتھ میں لے کر گھر سے نکلا اور احمدآباد کی سڑکوں پر، گلیوں اور محلوں میں در در بھیک مانگتا پھرا، لوگوں نے انور خاں کو جب اس حال میں دیکھا تو ان کو سخت تعجب ہوا، بعض کہنے لگے کہ عجیب بات ہے کہ حاکمِ شہر جوان مرد خاں بابی کا بھائی بھیک مانگ رہا ہے، اس میں کوئی مصلحت معلوم ہوتی ہے، وہ ضرورت مند تو نہیں ہے، سب لوگوں نے انور خاں کو بڑی بڑی رقمیں پیش کیں لیکن انور خاں نے وہ رقمیں لینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ صرف ایک بادام یا ایک پیسہ کشکول میں ڈالیں، اس سے زیادہ وہ نہ لے گا، دن بھر بھیک مانگنے کے بعد شام کو کشکولِ گدائی ہاتھ میں لئے آپ کے (حضرت پیر محمد شاہ) کے دربار میں حاضر ہوئے اور پیروں پر گر گئے اور دست بستہ عرض کیا کہ حکم کی تعمیل میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

    بیعت : آپ نے انور خاں کو راسخ العقیدہ دیکھ کر اور اس کے ذوق و شوق سے متاثر ہوکر اس کو اپنے دستِ حق پرست پر بعیت فرما کر سرفراز فرمایا۔

    جواں مرد خاں بابی کی مخالفت : انور خاں کے بھائی جوان مرد خاں بابی حاکمِ شہر کو جب اس بات کا علم ہوا کہ اس کے بھائی نے در در بھیک مانگی ہے تو اس کو سخت ناگوار ہوا اور جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ اس کے بھائی نے آپ کے (حضرت پیر محمد شاہ) کے حکم سے ایسا کیا ہے تو وہ سخت غصہ ہوا اور آپ کی مخالفت پر آمادہ ہوا، اس نے آپ کی گرفتاری کا حکم صادر کیا لیکن جب سپاہی آپ کو گرفتار کرنے کی غرض سے جامع مسجد آیا تو اس پر آپ کا ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ ناکام واپس گیا جو ابن مرد خان بابی کچھ سپاہی لے کر جامع مسجد میں آیا لیکن وہ بھی آپ کو گرفتار نہ کرسکا اور شرمدنہ ہوکر واپس چلا گیا، انور خاں کو جب یہ معلوم ہوا تو اپنے بھائی جوان مرد خاں بابی سے ناراض ہوکر ادے پور چلا گیا، اس کے بھائی جوان مرد خاں بابی نے اس کو راضی کرکے احمدآباد بلایا اور اس کو اپنا قائم مقام بنایا یعنی نائب صوبہ دار کا عہدہ اس کے سپرد کیا۔

    ایک اہم واقعہ : ایک شخص زین العارفین بن اخوند عبدالعزیز سنّی بوہروں کی جماعت میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا تھا، وہ سنّی بوہروں میں وعظ کہا کرتے تھے، ان کو آپ کا اقتدار ناگوار تھا، اکثر آپ کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے تھے، آپ کے معتقدوں اور مریدوں کو یہ بات ناگوار ہوئی، ان کے خلاف ناراضگی اس حد تک پھیلی کہ خیال ہوا کہ کہیں جھگڑا بڑھ کر فتنہ و فساد کی صورت اختیار نہ کرلے، اکابرینِ قوم نے یہ طے کیا کہ اس جھگڑے کو آپس میں بیٹھ کر طے کرلیا جائے، چنانچہ یہ طے پایا کہ حضرت شاہ وجیہہ الدین کی درگاہ میں بیٹھ کر اس کو خوش اسلوبی کے ساتھ طے کرلیا جائے۔

    حضرت شاہ وجیہہ الدین کی درگاہ میں سب جمع ہوئے، وہاں زین العارفین بن اخودن عبدالعزیز کو بھی بلایا گیا، وہ اپنے لڑکے کو ساتھ لے کر آئے، معاملات زیرِ بحث آئے، ان کی طرف سے جو شبہ تھا کہ وہ آپ کے (حضرت پیر محمد شاہ) کے مریدوں کو آپ سے بدظن کرنے کی کوشش کریں گے اور آپ کے معتقدین کو ورغلا کر اپنا مرید بنانے کی کوشش کریں گے اس کا بھی حل تلاش کیا گیا، جب سب معاملات بخیروخوبی طے پا گئے تو یہ طے پایا کہ ایک اقرار نامہ یا عہد نامہ تیار کیا جائے جس پر اس کے زین العارفین بن اخوند کے دستخط ہوں، وہ اس بات پر راضی ہوگئے، عہد نامہ پر زین العارفین بن اخوند عبد العزیز نے بخوشی دستخط کئے اور اس کے لڑکے عبدالرحیم نے بھی دستخط کئے، اس عہد نامہ پر اکابرین قوم و مشائخِ عظام نے بھی دستخط کئے، عہد نامہ حسبِ ذیل ہے۔

    ”باعثِ تحریر ایں سطور آنکہ منکہ زین العارفین بن ملان عبدالعزیز بن عبدالرحیم از قوم بواہیر بحضور عیان مشایخِ عظام وجماعت مسلمین در روضۂ متبرکہ حضرت العارفین زبدۃ الواصلین حضرت شاہ وجیہہ الدین قدس اللہ سرہٗ الیقین، اقرار صحیح کردم واعتراف معتبر نمودم بریں معنی کہ من مقر در مدت العمر شجرۂ ارادت بکسے ندادہ ام و آئیندہ کسے را نخواہم داد ومریدہم نکردہ ام و نخواہم کرد و منصف وعظم فقط امید وارم وبمردم میمن پندو نصیحت می کنم ونیّر تنکیر سیادتِ حقانی ومعارفِ آگاہ حضرت سید محمد شاہ صاحب مد ظلہ وخلافتِ مختلف از سلسلۂ بندگی حضرت میانجی صاحبِ سطور ونیستم و در نہاں بحضور کسے نگفتم ونخواہم گفت ونگویم اگر خلاف نوشتہ مانی الصدور ایں معنی بہ وقوع آید مجرم وگنہگار شرع شریف باشم۔ بنا بر آں ایں چند کلمات بطریقِ دست آویز وبند نوشتہ دادہ شد کہ ثانی الحال عند الوقت بکار آمد۔ تحریر فی التاریخ پانزدہم شہر ربیع الثانی سنہ 1163 ہجری (15 ربیع الثانی سنہ 1163 ہجری)

    العبد ملان زیں العارفین آنچہ سطور داست در متن منظور است۔

    العبد عبدالرحیم بن ملاں زین العارفین ولد ملاں عبدالعزیز آناچہ در متن مسطوراست قبول است

    ملاں زین العارفین کتبہ نوشتہ دادہ در روضۂ مبارک حضرت شاہ وجیہہ الدین قدس اللہ کہ مرید نہ کنم و در جناب حضرت شاہ محمد صاحب سخنہائے بے ادبی نکنم۔ مطلاع صلاح الدین۔

    من الشاہد بن فقیر عطاء اللہ بن سید رحمت اللہ

    ذالک کذالک اطلعت علی ذالک حررہ محمد باقر بن سید غنی محمد عفی اللہ عنہا۔

    من الشاہدین علیہم، محمد بدرالدین بن ملک بن محمد صادق مرحوم

    مطلع علی مافیہ عبدالکریم بن محمد عبدالرحیم عفی عنہا۔

    متن اطلع باقرار والمقر۔۔ نور محمد بن حامد ولد علاء الدین عفی عنہا۔

    عمر بھائی کریم بھائی (بزبانِ گجراتی)

    10۔ سیٹھ محمد عظمت (بزبان گجراتی)

    بابی کا غصہ : جوان مرد خاں بابی کو جب اس عہدنامہ کی خبر ہوئی تو وہ بہت غصے ہوا، وہ یہ سمجھا کہ یہ عہد نامہ نہیں ہے بلکہ مچلکہ ہے اور مچلکہ لینا عدالت کا کام ہے اس لئے آپ وہ عہدنامہ لکھانے کے مجاز نہ تھے، اس نے یہ بھی سمجھا کہ یہ عہد نامہ خود آپ نے لیا ہے، حالانکہ آپ کو اس کی خبر نہ تھی، غرض جوان مرد خاں بابی نے حکم دیا کہ آپ کو گرفتار کرکے بھدر لایا جائے۔

    حکم کی منسوخی : انور خاں کو جب اس حکم کی خبر ہوئی تو وہ اپنے بھائی کے پاس گیا اور اصل حقیقت سے اس کو آگاہ کرکے اس کا سابقہ حکم منسوخ کرایا۔

    عہد نامہ کا اردو ترجمہ :

    ”اس تحریر کا سبب یہ ہے کہ میں زین العارفین بن ملا عبدالعزیز بن عبدالرحیم قوم بوہریہ بزرگوں، مشائخوں اور مسلمانوں کے سامنے حضرت شاہ وجیہہ الدین قدس سرہٗ، کے روضہ میں صدق دل سے اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں نے عمر بھر میں کسی کو آج تک شجرۂ بیعت نہیں دیا ہے اور نہ آئندہ کسی کو دوں گا اور میں نے آج تک کسی کو مرید نہ کیا ہے نہ آئندہ کروں گا۔ میں صرف ایک واعظ کا عہدہ رکھتا ہوں اور مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں اور میں حضرت سید پیر محمد شاہ اور ان کے مختلف سلسلوں کا بالکل منکر نہیں ہوں اور ظاہر اور باطن میں کسی سے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا ہے اور نہ آئندہ کہوں گا نہ فی الحال کہتا ہوں۔ مگر اس لکھے ہوئے خلاف کبھی ظہور میں آئے تو میں مجرم اور گنہگار شرع شریف (یعنی خدا و رسول) کا ہوں۔ اس لیے یہ چند کلمے بطورِ دستاویز کے لکھ دیے کہ وقت پر کام آئے۔ 15 ربیع الثانی سنہ 1163 ہجری۔

    الزام : اسی واقعہ کو جوان مرد خاں بابی کے خوف اور اثر سے مرعوب ہوکر دوسری طرح لکھا گیا ہے جس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ عہد نامہ آپ کی تحریک، مرضی اور ایما سے لکھا گیا اور اس کا آپ کو پورا علم تھا۔

    یہ عہد نامہ اس طرح دیا گیا ہے : ”چوں اکثر قوم بواہری مرید سید گردیدہ اعتقاد بدیشاں آوردہ بودند و زین العارفین پسر اخواند عبدالعزیز نیز شیوۂ مشیخت اختیار کردہ اکثر بواہری را مرید می گرفت، ایں معنی بر سید ومریداش بسیار شاق آمد، بنا برآں بعضے مریدان ومعتقداں سید بموجب استمزاج ایشان زین العارفین را بہ بے حرمتی تمام کشیدہ آوردہ مچلکہ گرفتند کہ من بعد کسے را مرید نہ گیرد وباز گرد ایں کار سخت نہ گردد“

    ترجمہ : چونکہ قوم بواہیر کے لوگ سید محمد شاہ کے مرید تھے اور حسن اعتقاد ان کے ساتھ رکھتے تھے اور زین العارفین پسر ملا عبدالزیز نے بھی طریقہ پیری مریدی کا اختیار کر کے اکثر بوہروں کو مرید بنایا اور یہ بات سید پیر محمد شاہ اور ان کے مریدوں کو سخت ناگوار گذری۔ اس سبب سے بعض مرید اور معتقد سید پیر محمد شاہ کے آپ کی مرضی کے مطابق زین العارفین کو بڑی بے عزتی کے ساتھ پکڑ لائے اور مچلکہ لیا کہ آج کے دن سے ہرگز سکی کو مرید نہ بنائیں گے اور پھر کبھی اس کام کے پیچھے نہ پڑیں گے۔

    آخری ایام : وصال سے کچھ دنوں قبل سے آپ پر وجد اور شوق کا غلبہ طاری رہتا تھا، اضطراب اور بیقراری کی حالت میں آپ از خود رفتہ رہتے تھے، آپ کی اس حالت کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ

    ”غلبۂ جلال کے وقت حضرت پیر محمد شاہ قدس سرہٗ العزیز تین تین روز تک مدہوش رہتے۔ مریدین با صفا سرد پانی ڈالتے مگر آپ ہوش میں نہ آتے کیونکہ ”آپ پرتوِ جلالی“ تھے۔ اس لئے جمال کے بجائے جلال کا اثر زیادہ تر تھا“

    وصال : آپ 26 جمادی الاول 1163 ہجری کو بوقت شبِ رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے، آپ کی تاریخِ وفات ”زہے ذاتِ پاک بودہ“ سے 1163 ہجری بر آمد ہوتی ہے، آپ کی وفات کے متعلق علی محمد خاں نے اس طرح لکھا ہے۔

    ”اما از وقوعِ ایں واقعہ نا ملائم (مراد واقعہ اخوند وجواں مرد خاں بابی) آتشِ غیر در نہاد سید جوش زد۔ پرتوِ صفتِ جلالی بر ایشاں غلبہ آورد، بمرتبہ کہ حرارت در تمام بدن سرایت کرد وقلق و اضطراب پیدا شد ومی غلطیدند و پہلو بہ پہلو می گردیدند، ہر چند خادمان آب ِسرد در گوش وبر بدن سید می ریختند لیکن ہر گز انطفاءِ حرارت نمی شد، تاسہ چہار روز ہمیں حالت ماند۔ آخر بہ ہمیں حالت بست وہفتم جمادی الاوّل سنہ یک ہزار یک صد وشصت وسہ برحمتِ حق پیوستند“

    ترجمہ : لیکن اس ناگوار واقعہ سید پیر محمد شاہ کی آتشِ غیرت بھڑک اٹھی اور جلالی اوصاف کا ان پر غلبہ ہوگیا، یہاں تک کہ ان کا تمام بدن گرمی سے شعلہ ہوگیا اور اس درجہ بے چینی وبے قراری بڑھ گی کہ ہر لحظہ پہلو بدلتے اور لوٹتے تھے، مگر قرار نہ آتاتھا۔ خادموں نے بابار سرد پانی سے غسل دیا لیکن گرمی میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ تین چار روز تک یہی حالت رہی ۔ آخر اسی حالت میں 27 جماعی الاوّل سنہ 1163 ہجری کو رحمتِ الٰہی سے جا ملے“

    مدفن کے متعلق آپ کی پیشن گوئی : آپ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی آخری آرام گاہ کے متعلق آگاہ کردیا تھا، حضرت شاہ وجیہہ الدین کے مزارِ پرانوار پر نہایت پابندی سے حاضر ہوتے تھے، جہاں اب آپ کا مزار ہے وہاں ایک جھونپڑی تھی، اس میں ایک بڑھیا رہتی تھی، جب وہ بڑھیا آپ سے جھونپڑی میں تشریف رکھنے کی درخواست کرتی تو آپ فرماتے کہ

    تجہیز و تکفین : آپ کے مریدوں کا آپ کو موسیٰ سہاگ کے قبرستاتن میں دفن کرنے کا خیال تھا۔ جب جنازہ لے کر چلے تو اس جگہ پر جہاں آپ کا مزار ہے جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ ادا کی، پھر جو جنازہ اٹھایا تو جنازہ اٹھ نہ سکا، بعض سمجھدار مریدوں کو آپ کے وہ الفاظ یاد آئے کہ

    ”ہاں ہاں جب اس جگہ آؤں گا تو پھر اسی جگہ رہوں گا“

    چنانچہ آپ کو اسی جگہ دفن کیا گیا، جہاں اب آپ کا مزارِ مبارک ہے، آپ کا عرسِ مبارک ہر سال بڑے تزک و احتشام سے احمدآباد میں ہوتا ہے۔

    احمدآباد میں آپ کا مزارِ پر انوار مرجع خاص و عام ہے، بعد میں ایک عالی شان گنبد تعمیر ہوا اور ایک مسجد بھی تعمیر ہوئی۔

    مریدین : آپ کا حلقۂ مریدین وسیع تھا، آپ کے خاص خاص مریدوں کے نام حسبِ ذیل ہیں۔

    محمد ظہور، غلام محمد، محمد شریف، محمد شجاعت، محمد اسحاق، محمد فاضل، انور خاں۔

    سیرت : آپ نے عمر بھر شادی نہیں کی، آپ کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ مادرزاد ولی تھے، بزرگوں کی صحبت اور خدمت کو غنیمت سمجھتے تھے، آپ توکل اور قناعت کی دولت سے مالا مال تھے، لوگوں سے بے نیاز رہتے تھے، لوگ آپ کو نذر پیش کرتے تو آپ یہ کہہ کر انکار فرماتے کہ ”فقیروں کے کس کام کی، جاؤ لے جاؤ“ ایک شخص نے ایک تھیلی اشرفیوں کی آپ کو پیش کی، آپ نے قبول نہیں فرمائی، اس شخص سے آپ نے فرمایا کہ

    ”بھائی! ہم فقیروں کو اس کی ضروت نہیں ہوتی، اللہ کے خزانہ میں کیا کمی ہے، اپنے جس بندہ کو جس قدر چاہتا ہے دیتا ہے، جاؤ اپنی تھلی لے لو اور دوسرے مصرف میں لاؤ، فقیروں کو اس کی ضرورت نہیں ہے“

    آپ ہرکس و ناکس کو مرید نہیں کرتے تھے، جس کو اہل پاتے اور جس میں ذوق و شوق دیکھتے اس کو شرفِ مریدی بخشتے تھے، اپنے پیرومرشد سے والہانہ عشق تھا، حضرت شاہ وجیہہ الدین کے مزارِ پُرانوار پر پابندی سے حاضری دیتے تھے لیکن اندر نہیں جاتے تھے، باہر سے فاتحہ پڑھ کر واپس آ جاتے تھے، لوگوں نے اصرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ

    ”نہیں بھائی، ترکِ ادب ہوگا“

    آپ کے مزار سے اب تک فیض جاری ہے، آپ کے معتقدین میں یہ رسم اب تک چلی آتی ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی ماں ایک چلہ کے بعد مع بچہ کے آپ کے مزار پر حاضر ہوتی ہے اور آپ کے مزار کے پائیں بچہ کو رکھا جاتا ہے اور پھر فاتحہ خوانی ہوتی ہے، آپ نے خلافت کسی کو نہیں دی، آپ کے اس شعر کے مطابق جو آپ سے عقیدت اور ارادت رکھتا ہے وہی آپ کا مرید ہے، شعر یہ ہے۔

    گر کسے در پیر خود فانی شدہ

    مثلِ اقدس ہست شاہِ بے وزیر

    آپ ایک بلند پایہ عالم تھے اور علومِ ظاہری و باطنی دونوں سے آراستہ تھے۔

    شعروشاعری : آپ ایک خوش گو شاعر بھی تھے، آپ فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے، آپ نے فارسی میں اپنا تخلص ”اقدس“ رکھا اور اردو میں ”شہید“ تخلص ہے، بعض فارسی نظموں میں آپ کا تخلص ”تراب القدم“ ہے، بعض نظموں میں بجائے تخلص کے آپ نے اپنا نام دیا ہے، آپ کے فارسی کلام کے کئی مجموعے ہیں جن کے نام ذیل میں دے جاتے ہیں۔

    خلعت شرف، خلعت درر، خلعت سمند، پیرنامہ، پیر گنج، شجرہ عروجیہ و نزولیہ، شجرۂ قادریہ، شجرۂ قادریہ بہ سند دیگر مختصر، شجرۂ قادریہ بہ سند دیگر، 10۔ شجرۂ قادریہ در نظم صغیر، 11۔ قادریہ بہ سند دیگر، 12۔ شجرۂ چشتیہ، 13۔ شجرۂ چشتیہ بہ سند دیگر، 14۔ شجرۂ چشتیہ بہ سند دیگر، 15۔ شجرۂ چشتیہ بہ سند دیگر، 16۔ شجرۂ سہروردیہ، 17۔ شجرۂ اویسیہ، 18۔ سہروردیہ بہ سند دیگر، 19۔ اویسیہ بہ سند دیگر، 20۔ فردوسیہ، 21۔ فردوسیہ بہ سند دیگر، 22۔ شعاریہ، 23۔ خلو تیہ اول، 24۔ مداریہ، 25۔ شجرۂ ہمدانیہ، 26۔ چشتیہ بہ سند پنجم، 27۔ نقشبندیہ، 28۔ نقشبندیہ بہ سند دیگر، 29۔ مداریہ بہ سند دیگر، 30۔ فردوسیہ بہ سند سوم، 31۔ فردوسیہ بہ سند چہارم، 32۔ شجرۂ مغربیہ، 33۔ نورالشیوخ، یہ مختلف سلسلوں کا مجموعہ ہے، اس میں قادریہ، شطاریہ، چشتیہ، سہروردیہ، فردوسیہ، خلوتیہ، ہمدانیہ، نقشبندیہ، مداریہ، اویسیہ کا ذکر ہے، 37۔ مکاشفات، 38۔معمہ و غزلیات۔

    ذیل میں آپ کے فارسی کلام کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔

    غیرِ ذاتم کجا خالقِ گفتار کجا

    غیر احمد کجا ناطقِ اسرار کجا

    شمع حسنم کجا بلبلِ ہربار کجا

    مہروجہم کجا قوتِ دیدار کجا

    عین احوالِ کجا وحدتِ ذاتش کجا

    دامِ ماہی کجا چہرۂ دلدار کجا

    یار عقل کجا کوچۂ دلبر کجا

    مست میخانہ کجا شیخی و دستار کجا

    عبدالرحمٰن کجا اقدس فدوی کجا

    ابر نیاں کجا قطرۂ دربار کجا

    دیگر

    من وجودِ بے نشاں در شانِ گرفتارم ہنوز

    لامکانم جائے من درجانِ بیمارم ہنوز

    من بہ جہل کنہ ذاتِ خود در آزارم ہنوز

    بر ظہورِ کنز خویشم عاشقِ زارم ہنوز

    ناکہ کز اخفاءِ ذاتم داشتم دارم ہنوز

    جز وجودِ ذات بحتم نیست اے دلدارِ من

    سوز کہنہ یافتن وسینۂ افگار من

    از برائے ستر شدم ہست حالِ رازِ من

    از برائے جوش شانم در ظہور آزارِ من

    ذات بحتم در تشخّص ہست ادیارم ہنوز

    من شراب ونیز ساقی نیز رندِ بادہ نوش

    اے تو اقدسؔ عینِ مطلق سّرِ وحدت را بنوش

    چوں شود مخفی کہ من تسبیحِ زنارم ہنوز

    کلام اردو

    اردو کلام میں آپ کی ایک کتاب ”عشق اللہ“ بہت مشہور ہے، دو مرثیہ، تین رباعی، اردو کلام کا نمونہ

    کچھ سکھ نہیں دنیا میں دنیا سے اب جانا بھلا

    دو روز کی دنیا میں جینے سے ہے مرنا بھلا

    دنیا سراسر نیند ہے آرام چوں سپنا نمن

    سپنے کے فانی عیش پر ہنسی ہسیں ہے رونا بھلا

    دیگر

    لالن کی ہستی سیں سدا ہے نارمست و نور مست

    یک مئی بینی کہ خمر سین فرعون مست منصور مست

    قاضی قضا میں مست ہے دعویٰ میں مست ہے مدعی

    شاہد شہادت مست ہے دیکھو مزور زور مست

    شعر

    تیرا عشق مجکوں ہے آبِ حیات

    نہ آوے مجھے موت تیرے سنگات

    دیگر

    تو ہے صبح میرا تیرا شمع میں

    تیرے بن میں جلتا ہوں اے نازنیں

    دیگر

    شہیدا تیرا جلوہ منجکوں دیکھا

    فنا اور بقا کا سبق مجھ سکھا

    دیگر

    پیا زہرِ قاتل امام حسین

    میرا دل ہوا تب سے زیر وزبر

    دیگر

    امام حسن اور امام حسین

    سدھارے ہیں تب سوں نہیں کس کو چیں

    تعلیمات

    آپ نے وحدت الوجود کو مثالوں کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی ہے، ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ

    ظہورِ الٰہی بہر ذرہ دان

    نخستیں تجلی محمد بخواں

    نفی اور اثبات تصوف میں دو مقامات ہیں، کمالِ نفی کی حالت طاری ہونے پر کوئی چیز نہیں آتی، سکوت کا عالم طاری ہوجاتا ہے، اصل میں یہ سکر کی ایک قسم ہے، جب طالب اس حالت سے نکل کر اثبات کے درجہ میں آتا ہے تو ہر چیز میں ایک ہی صورت نظر آتی ہے، کمالِ اثبات کے درجہ پر پہنچنے پر صرف خدا ہی خدا نظر آتا ہے، یہ بھی سکر کی ایک قسم ہے، عابدوں اور زاہدوں کی زندگی انہی دو درجوں میں ختم ہوتی ہے، اس کے برعکس جن لوگوں پر خداوند تعالیٰ کرم فرماتا ہے اور مرشد کی نظرِ عنایت ان پر ہوتی ہے وہ اس مقام سے نکل کر حالتِ صحو (یعنی ہوش کی حالت میں) آجاتے ہیں اور وہ ظاہر میں مخلوق کے ساتھ اور باطن میں اللہ کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔

    کشف و کرامات : آپ صاحبِ کشف و کرامات بزرگ تھے، آپ سے بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں، بہ نظرِ اختصار یہاں چند پیش کی جاتی ہیں۔

    ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ کو سخت پیاس لگی، آس پاس کہیں پانی نہ تھا، آپ تھوڑی دور چل کرا یک کنوئیں پر پہنچے اور اپنے ہاتھ سے پانی نکال کر پی لیا اور وہاں سے روانہ ہوگئے، آپ نے جوان مرد خاں بابی کے بھائی انور خاں کو اس شرط پر بیعت کرنا طے کیا کہ وہ در بدر بھیک مانگے اور اس نے وہ شرط پوری کی اور اس بات کا علم جب جوان مرد خاں بابی کو ہوا تو وہ سخت غصہ ہوا اور آپ سے ناراض ہوا، وہ سپاہی لے کر آپ کو گرفتار کرنے کی غرض سے مسجد میں آیا، آپ وضو کر رہے تھے اور بہت سے آدمی وہاں موجود تھے، جب وہ قریب آیا تو حیرت میں رہ گیا، ہر شخص اسے ایسا نظر آتا تھا کہ گویا آپ ہی ہیں، وہ شرمندہ ہوکر ناکام واپس چلا گیا۔

    ایک دن انور خاں احمدآباد کی جامع مسجد میں جو آپ کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ کچھ پودے چھوٹے بڑے اکھیڑ رہے ہیں، انور خاں نے حیرت زدہ ہوکر دریافت کیا کہ کیا شغل فرما رہے ہیں، آپ نے جواب دیا کہ

    ”کچھ نہیں، بابیوں کی جڑ اکھیڑ رہا ہوں“

    یہ سن کر انور خاں نے دست بستہ عرض کیا کہ حضور میں بھی تو بابی ہوں، آپ نے فرمایا ”اگر ایسا ہے، اچھا تو جانے دو“ پودے اکھیڑنا بند کردے، کچھ چھوٹے پودے باقی رہ گئے تھے، نتیجہ یہ نکلا کہ احمدآباد سے بابیوں کا اقتدار ختم ہوگیا جو چھوٹے پودے باقی رہ گئے تھے وہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی صورت میں قائم رہے، آپ نے اپنی جائے مدفن کے متعلق فرما دیا تھا کہ ”ہاں ہاں، جب اس جگہ آؤں گا تو پھر اسی جگہ رہوں گا“ ایسا ہی ہوا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے