حضرات نو شہید
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-109
یہ حضرات نو شہید اس وجہ سے کہلائے جاتے ہیں کہ ان کی تعداد نو تھی اور انہوں نے شہادت کا درجہ پایا، یہ لوگ سید تھے اور حضرت امام حسین کی اولاد سے تھے، ان کی کل تعداد تیرہ تھی اور ان میں سے نو نے کارہائے نمایاں انجام دے کر جامِ شہادت نوش کیا، یہ تیرہ بزرگ آپس میں بھائی تھے، وہ سب ایک ماں سے تھے، ان کی والدہ ماجدہ کا نام سیدہ فاطمہ امل تھا جو خیر کی صاحبزادی تھیں اور وہ لوگ سراج کے رہنے والے تھے۔
ہندوستان میں آمد : خدمت کا شوق اور شہادت کا ذوق آپ لوگوں کو سراج سے ہندوستان لایا، وہ سب 699 ہجری میں بخارا، سمرقند اور کابل میں رکتے ہوئے ہندوستان آئے اور دہلی پہنچ کر وہاں قیام کیا۔
ملازمت : قطب الدین ایبک کو جب ان لوگوں کے آنے کی خبر ہوئی تو اس نے ان کو فوج میں بڑے عہدے پر فائز کیا۔
فتوحات : قطب الدین ایبک نے 701 ہجری میں مالدہ فتح کیا اور پھر خاندیش فتح کیا، ان بزرگوں نے ان فتوحات میں نمایاں حصہ لیا۔
گدا نگری (نوساری): راجہ گدے سنگھ کے نام پر ایک شہر آباد تھا، اس کو گدانگری کہتے تھے جو اب نوساری کہلاتا ہے، علاؤالدین خلجی نے کئی مرتبہ اس کو فتح کرنے کا خیال کیا لیکن ناکام رہا، اس مرتبہ جب قطب الدین ایبک نے سنا کہ راجہ کی زیادتیاں حد سے بڑھتی جاری ہی ہیں اور وہاں جادو، سحر، انسان کا خون اور انسان کی قربانی عام ہوتی جارہی ہیں اور راجہ کھلم کھلا دہلی کی سلطنت کے درپے آزار ہے تو قطب الدین ایبک نے مصمم ارادہ کر لیا کہ اس کو بغیر فتح کیے نہ چھوڑوں گا، اس نے دعا کہ وہ فتح مند ہو اور گدانگری اس کے قبضہ اور تسلط میں آئے۔
بشارت : اسی خیال میں وہ سو گیا، رات کو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، قطب الدین ایبک سرورِ عالم کے پیروں پر گرگیا اور امداد کا طالب ہوا، سرورِ عالم نے اس سے فرمایا کہ
”گھبراتا کیوں ہے، پریشانی کی کیا بات ہے، تجھے نہیں معلوم کہ تیرے لشکر میں اہلیت ہیں، وہ تعداد میں تو کم ہیں، صرف تیرہ ہیں لیکن جوش و خروش میں ایک بڑا لشکر بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا، اب تُو یہ کر کہ ان تیرہ آدمیوں سے سلام کہنا اور میرا یہ پیغام پہنچانا کہ گدانگری نام کا شہر تمہارے سپرد کیا، اس کی فتح تمہاری قسمت میں ہے، جاؤ اور اس کو فتح کرو“
قطب الدین ایبک نے عرض کیا کہ
”سرکار! میں تو ان اہلیت کو نہیں پہچانتا، ان کا پتہ کیسے لگاؤں“
حضرت سرورِ عالم نے فرمایا کہ
”ان کا پتہ لگانا کچھ مشکل نہیں، ان کی یہ نشانی ہے کہ ان کی تلواریں لکڑی کی ہیں اور میان بانس کی ہے اور وہ جس خیمہ میں رہتے ہیں، وہ خیمہ پھٹا پرانا ہے“
صبح ہوئی، قطب الدین ایبک خوش خوش اٹھا اور ان لوگوں کی تلاش میں نکلا، ہر خیمہ کو بغور دیکھتا ہوا گزر جاتا، آخر کار ایک خیمہ کے قریب آیا تو دیکھا کہ خیمہ بہت ہی پرانا اور شکستہ ہے، جب خیمہ کے اندر داخل ہوا تو تیرہ آدمی اس خیمہ میں ہیں اور وہ اپنی تلواروں کو جو لکڑی کی تھیں اور جن کی میان بانس کی تھی تیز کر رہے ہیں، قطب الدین ایبک خدا کا شکر بجا لایا کہ گوہرِ مقصود ہاتھ آیا۔
اطلاع : قطب الدین ایبک نے ان بزرگوں کو اپنا خواب سنایا اور سرورِ عالم کی بشارت سے مطلع کیا، بزرگ خواب سن کر خوش ہوئے اور زیادہ خوشی تو ان کو اس بات سے ہوئی کہ سرورِ عالم نے ان کو اپنا اہلِ بیت فرمایا اور ان کے سپرد گدانگری کرکے ان کو اپنے کرم کے لیے مخصوص فرمایا۔
وصیت : ان نو بزرگوں نے قطب الدین ایبک کو یہ وصیت کی کہ ان کی شہادت کے بعد ان کی والدہ ماجدہ جو ان کے ساتھ سراج سے آئی ہیں اور ان کے طوطے کو واپس ان کے وطن سراج بھیجا جائے اور اگر ان کی والدہ یہیں رہیں تو ان کو رہنے دیا جائے۔
آغازِ جنگ : راجہ 28 ہزار فوج لے کر اور قطب الدین ایبک 40 ہزار فوج لے کر میدانِ جنگ میں آمنے سامنے آئے، قطب الدین ایبک کی فوج کے ساتھ سید ضیا الدین سنجری بھی تھے، ان بزرگوں میں سب سے بڑے احمد سراج نے سید یوسف الدین، سید ظہیرالدین، سید کمال الدین اور سید جمال الدین کو چاروں طرف بھیجا کہ وہ کسی کو نکلنے نہ دیں، یہ نو بزرگ سلطان کی فوج سے نکل کر خود لڑنے لگے، راجہ کو قتل کیا، لڑائی جاری تھی، جمعہ کے دن ان نو بزرگوں نے نمازِ جمہ ادا کرتے ہوئے سجدہ میں شہادت پائی، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سورت کے پاس لڑتے لڑتے پہنچ گئے، گدانگری فتح ہوئی۔
والدہ کی دعا : جب ان کی والدہ کو شہادت کی خبر ہوئی تو ان کو رنج بھی ہوا اور خوشی بھی، رنج بیٹوں کی شہادت پر اور خوشی ان کے مرتبۂ شہادت پر، انہوں نے دعا کی کہ ”اے خدا! گدانگری کا نام مٹا دے اور اس بستی کا نام نو شہید تا قیامت رہے“ خواب میں بشارت ہوئی کہ گھبراؤ مت! ایسا ہی ہوگا۔
دیگر شہدا : ان کی شہادت کے بعد سید کمال الدین، سید ظہیرالدین، سید جمال الدین اور سید یوسف الدین نے شہادت پائی۔
مزار : نو شہیدوں کے مزارات جن کی شہادت 701 ہجری میں ہوئی نو ساری میں بھی ہیں اور سورت میں بھی ہیں اور وہ اس طرح کہ سرنو ساری میں ہے اور جسم سورت میں ہے، عرس ہر سال ہوتا ہے، نو ساری میں تو سرِ مبارک کے مزار پر اور سورت میں جسمِ مبارک کے روضہ پر۔
نام میں تبدیلی : نو ساری کا پہلا نام گدانگری تھا، اس واقعہ کے بعد سے نوشہید نام ہوا پھر نو شہید سے نو ساری نام ہوا، نو ساری کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ روضۂ مبارک پر نو چادریں چڑھائی جاتی ہیں اس لیے نو ساری یعنی نو ساڑھی نام ہوا۔
مزارات کا پتہ : ایک مدت تک مزارات کا صحیح جائے وقوع نہ معلوم ہوسکا، خواجہ دانا کے فرزندِ ارجمند خواجہ ابوالحسن نے بذریعۂ کشف مزارات معلوم کیے اور پھر مزارات الگ الگ بنائے گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.