حضرت شیخ محمد ترک نارنولی
دلچسپ معلومات
خم خانۂ تصوف۔ باب 3
حضرت شیخ محمد ترک نارنولی نے اپنے وطن ترکستان سے ہندوستان آکر نارنول میں سکونت اختیار کی۔
القاب : آپ کو ”پیرِ ترک“ اور ”ترک سلطان“ کے القاب سے پکارا جاتا ہے۔
بیعت و خلافت : یہ کہا جاتا ہے کہ آپ خواجہ عثمان ہارونی کے مرید ہیں اور خواجہ معین الدین حسن چشتی نے بھی آپ کو خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔
وفات : آپ نے 642ھ میں جامِ شہادت نوش فرمایا، آپ کا مزار نارنول میں مرجعِ خاص و عام ہے۔
کرامت : نصیرالدین محمود چراغ دہلی کو بادشاہ نے ٹھٹھ جانے کا حکم دیا، آپ نارنول ہوتے ہوئے ٹھٹھ جارہے تھے، نارنول ایک کوس رہ گیا تو آپ سواری سے اترے اور پیدل چل کر مزار پر حاضر ہوئے، آپ کی قبر کے سامنے ایک پتھر لگا ہوا تھا، اس پتھر کے سامنے جاکر بہت دیر تک کھڑے رہے پھر فرار ہوگئے، لوگوں نے پتھر کے سامنے کھڑے رہنے کی وجہ پوچھی آپ نے فرمایا کہ
”خوش نصیب ہے وہ خادم جس کی نوازش کے لئے خود مخدوم اس کے گھر آئے اور اس کو سرفراز کرے، میں نے حضرت سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کو اس پتھر میں جلوہ افروز دیکھا اور جب تک وہ معنی مجھ پر منکشف رہے ہیں اس پتھر کی طرف متوجہ ہوا، جب وہ معنی میری بصیرت سے غائب ہوگئے میں شیخ کی قبر کی جانب متوجہ ہوا“
بعدازاں نصیرالدین چراغ دہلی نے مراقبہ کیا، مراقبہ سے فارغ ہوکر فرمایا کہ
”جس کسی کو کوئی سخت مشکل درپیش ہو اور وہ اس روضہ کی طرف متوجہ ہو، امید ہے وہ مشکل آسان ہوجائے گی“
یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ وہ خود مصیبت میں ہیں اور زبرستی ٹھٹھ بھیجے جارہے ہیں، نصیرالدین چراغ دہلی نے جواب دیا کہ
”اسی سبب سے میں کہتا ہوں کہ خدائےتعالیٰ ان کی برکت سے میری مشکل آسان کردے گا“
نصیرالدین چراغ دہلی نارنول سے ٹھٹھ روانہ ہوئے، دو تین منزل ہی گئے ہوں گے کہ بادشاہ کے انتقال کی خبر ملی، بجائے ٹھٹھ جانے کے وہ دہلی واپس تشریف لے آئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.