Sufinama

حضرت شیخ نجیب الدین متوکل

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شیخ نجیب الدین متوکل

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ حصۂ دوم۔ باب 5

    حضرت شیخ نجیب الدین متوکل صاحبِ دل تھے، آپ صاحبِ کشف و کرامات، سندِاؤلیا اور حجتِ مشائخِ وقت، مشاہدات و مقالاتِ عالی میں یکتا، تمام مشائخِ وقت کے کمالاتِ صوری و معنوی کے مقر تھے۔

    آپ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے حقیقی بھائی مرید اور خلیفہ تھے۔

    خاندانی حالات : آپ فرخ شاہ کے خاندان سے تھے، فرخ شاہ کابل کے بادشاہ تھے، جب غزنی خاندان کا عروج ہوا، فرخ شاہ کے ہاتھ سے حکومت نکل گئی، کابل پر غزنی خاندان کا قبضہ ہوا، اس انقلاب کے بعد بھی فرخ شاہ نے کابل نہیں چھوڑا، ان کی اولاد بھی کابل میں رہی، چنگیز خاں نے غزنی کو تباہ و برباد کیا، حضرت نجیب الدین متوکل کے جدِّ بزرگوار کابل کی لڑائی میں شہید ہوئے۔

    آپ کے دادا حضرت قاضی شعیب فاروقی مع تیس لڑکوں کے لاہور تشریف لائے، لاہور سے آپ قصور تشریف لے گئے، قصور کا قاضی آپ کے خاندان کی بزرگی اور عظمت سے واقف تھا، اس نے آپ کے آنے کی اطلاع بادشاہ کو دی، بادشاہ نے آپ کو ٹیسوال میں قاضی مقرر کیا، آپ وہاں رہ کر اپنے فرائض انجام دینے لگے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کے والد ماجد سلطان شہاب الدین غوری کے عہد میں ملتان تشریف لائے، آپ ملتان سے قصبہ کونتھوال میں رونق افروز ہوئے اور وہاں قاجی کے عہدے کے فرائض انجام دینے لگے، وہاں آپ نے شادی کی۔

    والد ماجد : آپ کے والد کا نام شیخ جمال الدین سلیمان ہے، آپ امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق کی اولاد میں سے ہیں، علم و فضل میں آپ کو دستگاہ حاصل تھی۔

    والدہ ماجدہ : آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی قرسم خاتون ہے، آپ مولانا وجیہ الدین خجندی کی لڑکی تھیں، آپ ایک پاک نہاد، پاک سیرت اور پاک باطن خاتون تھیں، آپ سے کرامتیں سرزد ہوئی ہیں، ایک رات کا واقعہ ہے کہ آپ کی والدہ عبادت میں مشغول تھیں، ایک چور گھر میں داخل ہوا، اس پر آپ کی والدۂ ماجدہ کی ایسی دہشت بیٹھی کہ وہ اندھا ہوگیا، چور بہت گھبرایا، اس نے آواز دی کہ

    ”میں چور ہوں اور چوری کے لئے اس گھر میں آیا ہوں، البتہ یہاں کوئی ہے جس کی دہشت نے مجھے اندھا کیا، عہد کرتا ہوں کہ اگر بینائی آجائے تو پھر چوری نہ کروں گا“ آپ کی والدہ صاحبہ نے یہ سن کر اس چور کے لئے دعا فرمائی، آپ کی دعا سے اس کی آنکھوں میں روشنی آگئی، صبح وہ چور پھر آیا اور مع اہل و عیال کے مسلمان ہوگیا۔

    بھائی : آپ کے دو حقیقی بھائی اور ہیں، آپ کے بڑے بھائی کا نام اعزالدین محمود ہے، ان سے چھوٹے حضرت بابا فریدالدین مسعود ہیں، سب سے چھوٹے آپ خود ہیں۔

    نسب نامہ پدری : آپ کا نسب نامۂ پدری حسبِ ذیل ہیں۔

    شیخ نجیب الدین بن شیخ جمال الدین سلیمان فاروقی بن شعیب فاروقی بن شیخ احمد بن شیخ یوسف فاروقی بن شیخ محمد فاروقی بن شیخ شہاب الدین بن شیخ احمد المعروف بہ فرخ شاہ کابلی فاروقی بن شیخ نصیر الدین فاروقی بن سلطان محمود المعروف بہ شہنشاہ فاروقی بن شیخ شادمان شاہ بن سلطان مسعود شاہ فاروقی بن شیخ عبداللہ فاروقی بن شیخ واعظ اصغر فاروقی بن شیخ ابوالفتح کامخ فاروقی بن شیخ اسحٰق فاروقی بن حضرت ابراہیم فاروقی بن ناصر ادلین فاروقی بن شیخ عبداللہ فاروقی بن امیرالمؤمنین حضرت عمر بن خطاب۔

    ولادت شریف : آپ قصبہ کونتھوال میں پیدا ہوئے۔

    نامِ نامی : آپ کا نام نجیب الدین ہے۔

    لقب : آپ کا لقب متوکل ہے، آپ کے متوکل کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ باوجود اہل و عیال کے توکل میں یگانۂ روزگار تھے، تنگ دستی اور عسرت میں گذرتی تھی، ظاہراً اسباب پر نگاہ نہ رکھتے تھے، آپ کا توکل مثالی تھا۔

    دہلی میں آمد : آپ حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے ہمراہ دہلی آئے، حضرت بابا صاحب دہلی سے اجودھن تشریف لے گئے لیکن آپ حضرت بابا صاحب کے حکم کے مطابق دہلی میں رہنے لگے۔

    بیعت و خلافت : آپ اپنے بڑھے بھائی حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر سے بیعت ہیں اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکر سے آپ نے خرقۂ خلافت پہنا۔

    مسجد میں امامت : دہلی میں ایتم نامی ایک شخص رہتا تھا، اس نے ایک مسجد تعمیر کی اور اس مسجد کی امامت حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کے سپرد کی اور اس شخص نے اپنی لڑکی کی شادی بڑے تزک و احتشام سے کی اور کافی روپیہ خرچ کیا، آپ نے اس شخص سے کہا کہ جتنا کہ اس شخص نے شادی میں خرچ کیا ہے اگر اس کا نصف خدا کی راہ میں خرچ کرتا تو نہ معلوم کیا سے کیا ہو جاتا ہے، یہ بات اس شخص کو ناگوار گذری، اس نے آپ کو امامت سے برطرف کردیا۔

    حضرت بابا صاحب کو اطلاع : آپ نے اجودھن جاکر اپنے بڑے بھائی حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کو اس واقعہ کی اطلاع کی، حضرت بابا فرید نے یہ سن کر فرمایا کہ

    ماننسخ من اٰیۃِ او نُنسِھاناتٍ بخیرٍمِّنھا او مِثلِھا۔

    اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ ”اگر تیمری گیا ایتکری پیدا ہوگا“

    اسی زمانے میں ایتکری نام کا ایک شخص وہاں آیا، اس نے اس خاندان کی بہت خدمت کی۔

    حضرت نظام الدین اؤلیا کی آپ سے عقیدت : حضرت نظام الدین اؤلیا جب دہلی تشریف لائے، آپ کے پڑوس میں سکونت اختیار کی، ان کو آپ سے کافی عقیدت تھی، اپنی والدۂ ماجدہ کے وصال کے بعد حضرت محبوبِ الٰہی زیادہ وقت آپ کی صحبت میں گذارتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے آپ سے قاضی بننے کی دعا کرانی چاہی لیکن آپ نے دعا نہ کی اور فرمایا کہ ”تم قاضی نہ بنوگے بلکہ اور ہی کچھ بنو گے“

    ایک مرتبہ حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ سے مرید ہونا چاہا، آپ نے مرید کرنے سے انکار کیا اور فرمایا کہ اگر مید ہونا ہے تو حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی یا حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر میں سے کسی کے مرید ہو جائیں۔

    بی بی فاطمہ سام کی خدمت : آپ ایک نیک اور بزرگ خاتون تھیں، ان کو آپ سے انتہائی محبت اور عقیدت تھی اور آپ بھی ان کو بہن سمجھتے تھے اور ان کے حال پر نہایت شفقت فرماتے تھے، جب آپ کے یہاں فاقہ ہوتا، دوسری صبح سیر بھر کی یا آدھ سیر کی روٹیاں پکاکر کسی کے ہاتھ وہ بھیج دیتی تھیں، ایک مرتبہ اس نے صرف ایک روٹی بھیجی، آپ نے خوشی طبعی کے طور پر فرمایا کہ

    ”پروردگار ! جس طرح تونے اس عورت کو ہمارے حال سے واقف کیا ہے، شہر کے بادشاہ کو بھی واقف کرتا کہ کوئی بابرکت چیز بھیجے“

    پھر آپ مسکرائے اور فرمایا کہ

    ”بادشاہوں کو وہ صفائی کہاں نصیب ہے کہ واقف ہوں“

    ایک سفر کا واقعہ : حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر نے ادجودھن میں سکونت اختیار کرنے بعد آپ کو والدہ ماجدہ کے لانے کے لئے بھیجا، آپ گئے، راستے میں آپ نے درختوں کے سائے میں بیٹھ کر آرام کیا، پانی کی ضرورت ہوئی، جب آپ پانی لے کر واپس آئے، والدہ صاحبہ کو اس جگہ نہ پایا، آپ سخت حیران اور پریشان ہوئے، والدہ صاحبہ کو ہر جگہ تلاش کیا لیکن کوئی پتہ نہ چلا، آخرکار ناامید ہوکر وہاں سے چلے اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی خدمت میں پہنچ کر سارا قصہ عرض کیا، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے یہ سن کر فرمایا کہ کھانا پکائیں اور صدقہ دیں۔

    ایک مدت کے بعد آپ کا پھر اسی جنگل سے گذر ہوا جب آپ اسی پیڑ کے نیچے آئے آپ کو خیال ہوا کہ اس گاؤں کے چاروں طرف جاکر دیکھیں، شاید والدہ صاحب کہ پتہ لگ جائے، آپ نے ایسا ہی کیا، آپ کو آدمی کی چند ہڈیاں ملیں، آپ نے یہ خیال کرکے کہ شاید یہی ہڈیاں والدہ صاحبہ کی ہوں اور ممکن ہے ان کو کسی شیر یا کسی درندے نے ہلاک کردیا ہوں، ان ہڈیوں کو جمع کیا اور ایکی تھیلے میں رکھا، وہ تھیلہ لے کر آپ حضرت بابا فرید گنج شکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا قصہ بیان کیا، حضرت بابا فرید گنج شکر نے یہ سن کر فرمایا کہ وہ تھیلی دکھاؤ اور اس کو جھاڑا، ایک ہڈی بھی برآمد نہ ہوئی۔

    حضرت خواجہ خضر سے ملاقات : ایک دن عید کے موقع پر آپ عیدگاہ سے گھر واپس تشریف لا رہے تھے، لوگ آپ کو گھیرے ہوئے تھے اور آپ کے ہاتھ پاؤں چوم رہے تھے، کچھ درویشوں نے جنہوں نے آپ کو پہلے نہ دیکھا تھا، دریافت کیا کہ یہ کون بزرگ ہیں، جب ان کو آپ کا نام معلوم ہوا، ان درویشوں نے آپس میں طے کیا کہ ان کے یہاں چل کر کھانا کھانا چاہئے، وہ دریش آپ کے پاس آئے اور کہا کہ ان سب کے لئے کھانا کا انتظام کیجئے، آپ نے ان کو مرحبا کہا اور بٹھا دیا، اس روز آپ کے گھر میں فاقہ تھا، آپ نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر کچھ ہو تو پکا لو، جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ گھر میں کچھ بھی نہیں ہے، آپ نے اپنی بیوی سے کہا کہ چادر سر سے اتار کر دے دو تاکہ روٹی اور شوربا بازار سے خرید لائیں چادر دیکھی س میں چند پیوبند لگے ہوئے تھے، اسے کون خریدتا پھر آپ نے سوچا کہ اپنا مصلیٰ فروخت کردیں، مصلیٰ دیکھا اس میں بھی کئی پیوند لگے ہوئے تھے، مجبور ہوکر آپ نے وہی کیا، جیسا کہ عادت فقرا ہے کہ اگر درویش صاحبِ خانہ کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ پانی کا کوزہ ہاتھ میں لے کر پایانِ مجلس کھڑا ہوجائے، آپ نے ان سے درویشوں کو پانی پلایا، ان درویشوں نے پانی کا کوزہ ہاتھ میں لے کر تھوڑا تھوڑا پانی پیا اور آپ سے رخصت ہوئے، ان درویشوں کے جانے کے بعد آپ اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے، آپ نے اپنے دل میں کہا کہ

    ”ایسا عید کا دن جاوے اور میرے اطفال کے منہ پر کچھ طعام نہ جاوے اور مسافر آئیں اور نامراد جاویں“

    آپ انہیں خیالات میں کھوئے ہوئے تھے کہ ایک شخص یہ شعر پڑھتا ہوا ظاہر ہوا۔

    با دل گفتم ولا خضر را بینی

    دلِ گفت مرا گر نمائی بینم

    آپ سمجھ گئے کہ یہ حضرت خواجہ خضر ہیں، تعظیم کے لئے کھڑے ہوئے، حضرت خضر نے فرمایا کہ کیا شکایت کرتے تھے، آپ نے کہا کہ دل سے لڑائی اس بابت تھی کہ گھر میں کچھ نہیں، حضرت خضر نے پھر آپ سے کچھ کھانا لانے کو کہا، آپ نے عذر پیش کیا، حضرت خضر نے فرمایا کہ جو کچھ گھر میں ہو لے آؤ، آپ گھر میں گئے آپ نے دیکھا کہ ایک خوان کھانے سے بھرا ہوا رکھا ہے، بیوی سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک شخص یہ خوان رکھ کر چلا گیا، آپ اس میں سے کچھ کھانا لے کر اوپر آئے، جب اوپر آئے تو وہاں کوئی نہ تھا۔

    آپ نے اپنے دل میں کہا کہ ”یہ سعادت جو مجھ کو ملی ہے، بے نوائی اور بے سروسامانی کی برکت سے ہے“

    آپ کی اولاد : آپ کے تین لڑکے تھے، ایک لڑکے کا نام شیخ اسمٰعیل ہے، دوسرے کا شیخ احمد اور تیسرے کا نام شیخ محمد ہے۔

    وفات شریف : آپ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی خدمت میں انیس مرتبہ حاضر ہوئے، آپ ہر مرتبہ رخصت ہوتے وقت حضرت بابا فرید گنج شکر سے اپنے لئے دعا کرایا کرتے تھے کہ آئندہ پھر خدمت میں حاضر ہوں، آخری بار جب آپ دعا کے خواستگار ہوئے، حضرت بابا فرید گنج شکر خاموش ہوگئے۔

    حضرت نظام الدین اؤلیا فرماتے ہیں کہ جب حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے خلافت نامہ عطا فرمایا، آپ کو تاکید کی کہ ہانسی میں حضرت مولانا جمال الدین کو اور دہلی میں قاضی منتخب کو خلافت نامہ دکھائیں، آپ کو اس بات کا سخت تعجب ہوا کہ آپ کا یعنی حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کا نام حضرت بابا فرید گنج شکر نے نہیں لیا، آپ سمجھے اس میں کوئی مصلحت ہوگی، جب آپ دہلی آئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ سات رمضان کو آپ کا وصال ہوگیا، آپ کا مزار دہلی میں ”شیخ نجیب الدین شیرسوار“ کے نام سے مشہور ہے، آپ کا مزار بی بی زلیخا کے مزار کے قریب دہلی میں ہے۔

    سیرتِ پاک : آپ ایک بلند پایہ درویش تھے، آپ نے توکل کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا، آپ کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ حضرت نظام الدین اؤلیا فرماتے ہیں کہ

    ”میں نے اس جیسا کوئی آدمی اس شہر میں نہیں دیکھا، اسے یہ معلوم نہ تھا کہ آج دن کون سا ہے یا مہینہ کون سا ہے، یا غلہ کس بھاؤ بکتا ہے یا گوشت کس نرخ بیچتے ہیں، غرضیکہ کسی چیز سے اسے واقفیت نہ تھی، صرف یادِ الٰہی میں مشغول رہتا“

    ”تو بھی ابدال میں سے ہے“

    علمی ذوق : آپ نے بارہا چاہا کہ ”جامع الحکایات“ لکھیں، آخر کار حمید نامی ایک شخص نے کتابت شروع کی، وہ کتاب جلدہی ختم ہوئی، پکا مومن وہ شخص ہے کہ جو دوستیٔ حق کو اولاد کی دوستی پر ترجیح دے۔

    اقوال : جب دنیا ہاتھ سے جائے فکر نہ کر کہ رہنے والی نہیں ہے۔

    وِرد و وظیفہ : آپ حسبِ ذیل دعا پڑھا کرتے تھے۔

    ایمنوا فی عباد اللہ رحمکم اللہ۔

    کرامت : آپ کے بدایوں میں ایک بھائی تھے، آپ ہر سال ان سے ملنے بدایوں جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ دونوں بھائی شیخ علی سے جو وہاں ایک امیر خاندان کے فرد تھے ملنے گئے، آپ نے ادب کی وجہ سے فرش تک پہنچنے سے دو چار قدم پہلے ہی اپنے جوتے اتار لئے، پس پہلے آپ نے زمین پر پیر رکھے اور پھر فرش پر جو مصلیٰ تھا، شیخ علی اس بات سے رنجیدہ ہوا اور کہا کہ یہ بوریا مصلٰی ہے جس پر دونوں بھائی بیٹھ گئے، شیخ علی کے سامنے ایک کتاب رکھی تھی، آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ کون سی کتاب ہے، شیخ علی نے بربنائے رنجش کوئی جواب نہ دیا، آپ نے پھر کہا کہ

    ”اگر اجازت ہو تو کتاب کو دیکھوں“

    اجازت لے کر آپ نے وہ کتاب کھولی، جب کتاب کھولی تو اس میں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ

    ”آخر زمانے میں ایسے مشائخ ہوں گے کہ خلوت میں گناہ کرتے ہوں گے اور مجلس میں اگر ان کے فرش پر کسی کا پیر پڑجائے تو قیامت کردیں گے“

    آپ نے وہ کتاب شیخ علی کو دی، شیخ علی وہ عبارت دیکھ کر پشیمان ہوا اور اس نے آپ سے معذرت چاہی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے