Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شیخ بدرالدین غزنوی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شیخ بدرالدین غزنوی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 4

    حضرت شیخ بدرالدین غزنوی مقبول بارگاہِ ایزدی ہیں، قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مرید اور خلیفہ ہیں، آپ غزنی کے رہنے والے ہیں۔

    آپ کا خواب : آپ نے ایک رات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آں حضرت مع صحابۂ کرام اور مشائخ عطام تشریف فرما ہیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر ایک درویش کے سپرد کیا اور فرمایا کہ

    ”اے بدرالدین ! تو اس درویش کا مرید ہو، وہ درویش جوان تھے اور ابھی داڑھی نکل رہی تھی، ان درویش کا نام خواجہ قطب الدین ہے“

    پیر کی تلاش : خواب سے بیدار ہوکر آپ نے یہ ارادہ کیا کہ جو درویش خواب میں دکھائے گئے ہیں، انہیں تلاش کریں گے، پیر کی تلاش آپ کو شہر بہ شہر لئے پھری، اس تلاش میں آپ حیران و سرگرداں پھرتے رہے، اپنا گھر چھوڑا، اپنا وطن چھوڑ، اپنے ماں باپ، عزیزواقربا کو چھوڑا، آپ غزنی سے روانہ ہوئے، اس سفر کا حال آپ نے خود ایک مرتبہ حضرت نظام الدین اؤلیا سے بیان کیا، آپ نےان کو بتایا کہ

    ”میں غزنی سے لاہور آیا تو ان دنوں لاہور بالکل آباد تھا، کچھ مدت میں وہاں رہا پھر وہاں سے میرا ارادہ سفر کا ہوا، ایک دل یہ چاہتا تھا کہ دہلی جاؤ اور کبھی چاہتا تھا کہ واپس غزنی جاؤں، میں شش و پنج میں تھا لیکن دل کی کشش غزنی کی طرف زیادہ تھی، کیوں کہ وہاں ماں باپ، بھائی اور خویش و اقربا رہتے تھے اور دہلی میں ایک داماد کے سوا اور کوئی نہ تھا“

    فال : آپ کچھ طے نہ کرسکے کہ کدھر جائیں، آخر کار آپ نے یہ طے کیا کہ قرآن شریف کی فال دیکھنا چاہئے اور جیسا کچھ فال میں نکلے گا اس کے مطابق قدم اٹھانا چاہئے، آپ خود فرماتے ہیں کہ

    ”مختصر یہ کہ میں نے قرآن شریف سے فال دیکھنے کا ارادہ کیا، ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا، پہلے غزنی کی نیت سے دیکھا تو عذاب کی آیت نکلی پھر دہلی کی نیت سے دیکھا تو بہشتی ندیوں اور بہشت کے اوصاف کی آیت نکلی، اگرچہ دل تو غزی کی طرف جانے کو چاہتا تھا لیکن فال کے مطابق دہی آیا“

    دہلی میں آمد : آخر کار دہلی پہنچے، آپ فرماتے ہیں کہ

    ”جب شہر میں پہنچا تو سنا کہ میرا داماد قید میں ہے، میں بادشاہ کے دروازے پر آیا تاکہ اس کے حال کی اطلاع دوں، میں نے دیکھا تو گھر سے نکلا ہی تھا، ہاتھ میں کچھ روپئے لئے ہوئے تھا، مجھ سے بغل گیر ہوا اور نہایت خوش ہوا، مجھے اپنے گھر لے گیا اور روپئے میرے سامنے لا رکھے، میری جمعی ہوئی“

    آپ نے خواجہ قطب الدین کے متعلق دریافت کیا، آپ کی مسرت کی کوئی انتہا نہ تھی، جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ درویش جن کا نام خواجہ قطب الدین ہے اور جن کو آپ نے خواب میں دیکھا تھا دہلی میں تشریف رکھتے ہیں، ایک مشہور درویش ہیں اور حضرت خواجہ قطب الدین اور حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری ایک ہی جگہ ساتھ رہتے ہیں پھر آپ نے عمر کے متعلق دریافت کیا، آپ کو بتایا گیا کہ حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری ضیف ہیں، ان کی عمر قریب ایک سو تیس سال کی ہے لیکن خواجہ قطب الدین صاحب کی جوانی کا آغاز ہے، قریب سترہ سال کے ہوں گے، داڑھی نکل رہی ہے، یہ سن کر آپ کو پورا پورا یقین ہوگیا کہ وہ درویش جن کو انہوں نے خواب میں دیکھا تھا یہی بزرگ ہیں، آپ حضرت قطب صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے بے چین تھے، کچھ لوگوں سے آپ کو حضرت قطب صاحب کی خانقاہ کا پتہ معلوم ہوا، آخر کار آپ خانقاہ پہنچے، خانقاہ میں اس وقت سماع ہورہا تھا، حضرت قطب صاحب تشریف رکھتے تھے۔

    بیعت و خلافت : آپ بھی جاکر با ادب بیٹھ گئے، جب سماع ختم ہوا تو آپ نے سرِ نیاز زمین پر رکھا، شوقِ قدم بوسی کا اظہار کیا اور پھر نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ

    ”بندہ بدرالدین حضرت کا مرید ہونا چاہتا ہے“

    حضرت قطب صاحب نے ارشاد فرمایا کہ

    ”اے بدرالدین ! تو میرا مرید اسی رات سے ہوگیا تھا جس رات تونے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تھا اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے میرے سپرد کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ اسے مرید بنالے، میں نے اسی رات اللہ تعالیٰ کے روبرو تجھے مرید کرلیا تھا اور بارگاہِ الٰہی میں میں نے عرض کی تھی کہ بدرالدین غزنوی کو قبول کر“

    بارگاہِ الٰہی سے حکم ہوا تھا کہ اے قطب الدین ! ہم نے تیری دعا قبول کرلی ہے، ہم نے بدرالدین غزنوی کو قبول کرلیا اپنا دوست بنالیا ہے۔۔۔“

    آپ حضرت قطب صاحب کی فیضِ ترجمان سے یہ سن کر بہت خوش ہوئے آپ یہ چاہتے تھے کہ خواجگانِ چشت کی رسم ادا کی جائے، عالمِ رویا کے علاوہ اس عالم میں بھی بیعت کا شرف بخشا جائے اور کلاہِ چہار ترکی عطا کی جائے، آپ نے حضرت قطب صاحب سے اس کے متعلق عرض کیا، حضرت قطب صاحب نے آپ کی درخواست منظور فرمائی، آپ کو شرفِ بیعت سے نوازا اور کلاہِ چہار ترکی آپ کو مرحمت فرمائی پھر آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ

    ”اے بدرالدین ! آسمان کی طرف دیکھ“

    آپ نے آسمان کی طرف دیکھا۔

    حضرت قطب صاحب نے دریافت فرمایا کہ

    ”اے بدرالدین تونے کچھ دیکھا؟“

    آپ نے جواب دیا کہ

    ”میں نے عرش و کرسی کو دیکھا ہے“

    پھر حضرت قطب صاحب نے فرمایا کہ

    ”تو کس کا مرید ہے؟ آسمان کی طرف یکھ کر لوحِ محفوظ میں کیا لکھا ہوا ہے؟“

    آپ نے آسمان کی طرف یکھا اور عرض کیا کہ

    ”وہاں میں نے لکھا دیکھا ہے کہ میں آپ کا مرید ہوں“

    پھر ارشاد ہوا کہ

    ”زمین کی طرف دیکھ“

    آپ نے زمین کی طرف دیکھا، اب آپ تحت الثریٰ تک دیکھ سکتے تھے، بیعت کے وقت آپ کی عمر ستر سال کی تھی، آپ پیرومرشد کی خدمت میں رہ کر درجۂ کمال کو پہنچے، حضرت قطب صاحب نے آپ کو خلافت عطا فرمائی، اپنے پیرومرشد سے آپ نے خرقہ بھی پایا، وصال سے قبل حضرت قطب صاحب نے آپ سے فرمایا کہ

    ”اے بدرالدین ! جو نعمت ہم نے اپنے پیر سے حاصل کی تھی وہ تجھے عنایت کی اور اللہ تعالیٰ سے التماس کی ہے کہ تو میرا محبوب بنے“

    پیرومرشد کی نصیحتیں : قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے آپ کو چند نصیحتیں فرمائیں جس پر آپ ساری عمر کاربند رہے، وہ نصیحتیں حسبِ ذیل ہیں۔

    ”ہمارے پیرووں کی پیروی کرو، فقروفاقہ کو اختیار کرو، فقیروں اور غریبوں کو عزیز جانو، دنیا والوں سے میل جو نہ رکھو، دنیا سے باز رہو، گدڑی پہنو، ہر وقت خدا کی یاد میں مشغول رہو، اللہ تعالیٰ کے دوستوں سے محبت کرو، دولت مندوں سے زیادہ درویشوں کی عزت کرو، فقیروں کے ہاتھ خود اپنے ہاتھ سے دھوؤ“

    آپ کے سپرد خدمت : حضرت قطب صاحب نے خانقاہ کی امات آپ کے سپرد فرمائی، آپ نے اس خدمت کو بہ حسن و خوبی انجام دیا۔

    صدمہ : دہلی آنے کے کچھ دنوں بعد آپ کو یہ معلوم ہو کر سخت صدمہ ہوا کہ مغلوں نے غزنی کو برباد کردیا اور آپ کے والدین، بہن، بھائی اور خویش و اقربا کو شہید کیا۔

    پیرومرشد کی خدمت : آپ اپنے پیرومرشد کی خدمت میں ہر وقت حاضر رہتے تھے، اپنے پیرومرشد کی خدمت کو اپنے لئے باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔

    پیرومرشد کا ادب : جب آپ اپنے پیرومرشد کی خدمت میں حاضر ہوتے تو با ادب بیٹھتے اور سر جھکا لیتے، آپ کے پیرومرشد آپ کا یہ ادب دیکھ کر فرماتے۔

    بحقیقتِ چراغ کشتہ شود

    چوں بروں رفت از سرش روغن

    ایک واقعہ : ایک مرتبہ قاضی منہاج الدین کو حضرت شیخ بدرالدین غزنوی کے گھر بلایا گیا، قاضی صاحب نے آنے کا وعدہ کیا، وعظ سے فارغ ہوکر حسبِ وعدہ آپ آئے، حضرت شیخ بدرالدین کے گھر پر محفلِ سماع منعقد ہوئی، یہ محفل بہت پر کیف تھی، قاضی صاحب پر وجد طاری ہوا اور آپ نے دستار اور جامہ وغیرہ سب پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔

    قاجی صاحب کی چھیڑ چھاڑ : قاضی منہاج الدین آپ کو” شیرسرخ“کہا کرتے تھے۔

    دعا کے لئے التماس : حضرت نظام الدین اؤلیا نے ایک رات حضرت شیخ بدرالدین غزنوی سے خواب میں دعا کرنے کی درخواست کی، التماس امر کے واسطے دعا کرنے کی درخواست کی کہ آپ کو قرآن شریف یاد ہوجائے۔

    آرزو : آپ کو اپنے پیرومرشد قطب الاقطاب حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا خلیفۂ اکبر، جانشین اور قائم مقام بننے کی آرزو تھی، آپ کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی۔

    مجلسِ وعظ : آپ کی مجلس وعظ میں ہر طبقے کے لوگ ہوتے تھے، آپ کی مجلس میں حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر، حضرت سید مبارک غزنوی، حضرت شیخ ضیاؤالدین مرید غریب، مولانا محمد جاجرمی اور قاضی حمیدالدین ناگوری نے شرکت فرمائی ہے۔

    آخری ایام : وفات سے قبل آپ شیخ امام الدین ابدال کو جو حضرت شیخ ضیاؤالدین مرید غریب کے بھتیجے ہیں، اپنا جانشین مقرر فرمایا، ان کو گدڑی عطا کی اور ان کے لئے دعائے خیر کی، آپ ہر سال نماز درازیٔ عمر پڑھا کرتے جو رجب کے آخر میں پڑھی جاتی ہے، جس سال آپ کا وصال ہوا، آپ نے یہ نماز نہیں پڑھی، جب نماز ادا نہ کرنے کی وجہ پوبھی گئی تو آپ نے فرمایا کہ عمر باقی نہیں ہے۔

    وفات شریف : آپ کی عمر سو سال سے زیادہ ہوئی، آپ کا مزارِ مبارک حضرت خواجہ قطب صاحب کے قریب ہے، آپ کا سالانہ عرس ہوتا ہے۔

    سیرتِ مقدس : آپ حافظِ قرآن تھے اور ایک قرآن دن کو اور ایک قرآن رات کو ختم کرتے تھے، آپ ایک بلند پایہ درویش تھے، ایک اچھے عالم تھے، رات کو جاگتے تھے، درویشوں کی خدمت کو آپ عظمت سمجھتے تھے، آپ دو سو مشائخین سے ملے اور ان سے روحانی فیض پایا، ان کی نگاہِ لطف و کرم سے آپ مالا مال ہوئے، آپ کی بزرگی اور بزرگزیدگی کے سب معترف اور معتقد تھے، آپ وعظ بہت کہتے تھے، آپ کو سماع کا بہت شوق تھا، باوجودِ ضعف اور کمزوری کے آپ سماع میں خوب رقص کرتے، آپ سے دریافت کیا گیا کہ باوجود عمر اور کمزوری کے اتنا رقص کیوں کرتے ہیں؟

    آپ نے جواب دیا کہ

    ”او از خود نمی رقصد عشِ می رقصاند“

    ترجمہ : وہ خود نہیں ناچتا ہے (بلکہ) عشق نچاتا ہے۔

    آپ کو شاعری کا بھی شوق تھا، آپ کی غزل کا ایک شعر حسبِ ذیل ہے۔

    نوحہ می کرد من نوحہ گر در مجمعے

    آہ زیں سوزم بر آمد نوحۂ گر آتش گرفت

    قولِ زریں : آپ نے فرمایا کہ

    ”بے چارہ عاشق جو جمالِ ذوالجلال کا مشتاق ہے وہ حوروں کو کیا کرے“

    کرامات : آپ کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات تھی، ایک مرتبہ آپ کے والدماجد نے آپ سے کہا کہ

    ”اگر مجھے حضرت خواجہ خضر کو دکھاؤ تو بہت اچھا ہو“ ایک دن وعظ ہو رہا تھا اور آپ کے والد بزرگوار بھی وہاں تشریف رکھتے تھے، ایک اونچی جگہ پر جہاں کوئی نہیں بیٹھ سکتا تھا، ایک شخص بیٹھا ہوا تھا، حضرت بدرالدین غزنوی نے اپنے والدماجد سے کہا کہ دیکھئے وہ حضرت خواجہ خضر ہیں، آپ کے والد نے وعظ کے بعد ملنا مناسب سمجھا، جب وعظ ختم ہوا تو اس جگہ کوئی بھی نہ تھا۔

    ایک مرتبہ دہلی میں بارش بہت کم ہوئی، سلطان شمس الدین التمش آپ سے دعا کا طالب ہوا، آپ نے فرمایا کہ

    ”جب تک بدرالدین زندہ ہے، کبھی دہلی میں قحط نہیں پڑے گا اور نہ ہی بارش کی کمی ہوگی“

    آپ کے یہ فرماتے ہی بارش ہونے لگی۔

    آپ ہر جمعرات کو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ جاتے تھے اور خانۂ کعبہ اور حضرت محمد مصطفیٰ کے روضۂ مبارک کی زیارت سے مشرف ہوتے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے