حضرت خواجہ دانا
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب 19
حضرت خواجہ دانا دانائے راز، یگانۂ روزگار، بادشاہِ عالمِ راز اور عارفِ مقامِ جبروتی ہیں۔
خاندانی حالات : آپ کے آباواجداد موضع جنوق کے جو خوارزم سے کچھ ہی دور ہے رہنے والے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جونک نام کے گاؤں میں رہتے تھے، آپ کے دادا کا نام حضرت خواجہ سید اسمٰعیل ہے۔
نسب نامہ پدری : نسب نامہ پدری حسب ذیل ہے۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت سید جعفر ثانی، حضرت سید علی اصغر، حضرت سید اسمٰعیل، حضرت سید عبداللہ، حضرت سید سلیمان، حضرت سید محمد، حضرت سید حسین، حضرت سید احمد مشہور بہ خواجہ عطا، حضرت خواجہ عبداللہ زربخش، حضرت سید ولایت، حضرت سید قریش، حضرت سید خواجہ اسمٰعیل، حضرت خواجہ سید بادشاہ، حضرت سید جمال الدین عرف خواجہ دانا۔
والد ماجد : آپ کے والدماجد کا نام سید خواجہ بادشاہ پردہ پوش ہے۔
ولادت : آپ جونک یا جنوق نامی گاؤں میں جو بخارا میں خوارزم سے کچھ ہی دور ہے پیدا ہوئے۔
نامِ مامی : آپ کا نام نامی اسمِ گرامی جمال الدین ہے۔
لقب : آپ کا لقب خواجہ دانا ہے۔
بچپن کے صدمات : ایامِ طفولیت میں ہی آپ کے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ گیا، 4 ماہ کی عمر تھی کہ آپ کے والدماجد حضرت سید بادشاہ پردہ پوش نے جامِ شہادت نوش کیا، شاہ اسمٰعیل صفوی کی جنگ میں شریک تھے۔
بشارت : آپ کے والدماجد حضرت سید بادشاہ پر وہ پوش نے اپنے مرید خواجہ بابا عرف خواجہ حسن عطا کو عالمِ رویا میں تاکید فرمائی کہ وہ ان کے شیر خوار صاحبزادے حضرت جمال الدین (خواجہ دانا) کی تعلیم و تربیت معقول طریقے سے کریں اور ان کی پرورش سے غافل نہ رہیں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت خواجہ عبید اللہ احرار نے بھی خواجہ بابا عرف خواجہ حسن عطا کو اس قسم کا حکم عالمِ رویا میں دیا تھا۔
تلاش : یہ حکم پاکر خواجہ حسن عطا آپ کی تلاش میں نکلے، بہت تلاش کے بعد انہوں نے آپ کو ایک جھونپڑی میں دیکھا، خدا کا شکر بجالائے، وہ آپ کو کھاوراں کے جنگل میں لے گئے اور ایک تالاب کے پاس ٹھہرایا، اب حضرت خواجہ سید حسن عطا کو یہ فکر ہوئی کہ حضرت کو دودھ پلانے کا کوئی معقول انتظام ہو، چنانچہ وہ دایہ کی تلاش مین سرگرداں پھرنے لگے، بہت تلاش کرنے پر بھی کوئی دایہ نہ ملی، مجبوراً واپس آئے اور بارگاہِ ایزدی میں دعا کی کہ
”اے پروردگار ! اے رازق ! اے مسبب الاسباب ! اس معصوم شیرخوار بچے کی پرورش اور نگہداشت میرے ذمہ ہے، بغیر دود پینے یہ شیر خواجہ بچہ کیسے زندہ رہ سکتا ہے، اے میرے مولیٰ ! تو اس شیر خوار بچے کے لئے دودھ کا انتظام فرما میں نے دایہ تلاش کی لیکن کوئی نہ ملی، اب میں کیا کروں، اس شیر خوار بچے کی زندگی تیرے ہاتھ ہے‘‘
بچپن کی کرامت : مایوسی کی حالت میں آپ واپس اس مقام پر آرہے تھے جہاں وہ حضرت کو چھوڑ گئے تھے، ابھی کچھ فاصلہ پر ہی تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ کوئی خوفناک جانور حضرت کو کھا جانے کی کوشش میں ہے، انہوں نے تیزی سے قدم بڑھائے اور حضرت کے پاس پہنچ کر یہ دیکھ کر بہت متعجب ہوئے کہ ایک لولی ہرنی حضرت کو دودھ پلا رہی تھی، وہ خداوند تعالیٰ کا شکر بجا لائے اور سمجھ گئے کہ ان کی دعا بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوئی، اس ہرنی کا یہ طریقہ تھا کہ صبح و شام مقررہ وقت پر یہ ہرانی آتی اور حضرت کو دودھ پلاتی اور چلی جاتی، جب تک حضرت کی دودھ پینے کی عمر رہی ہرنی پابندی سے دودھ پلاتی رہی، اس طرح سے وقت گذرتا گیا۔
نصیحت : حضرت خواجہ سید حسن عطا نے اپنی وفات سے قبل آپ کو یہ نصیحت فرمائی کہ
”اے میرے فرزند لبند ! اے میرے عزیز اور اے میرے پیارے ! اور اے بزرگوں کے سچے اور کامل خلیفہ ! اور اس عالم کے ایک مہمان ! میری نصیحت ہوش گوش سے سنو اور اس کو یاد رکھو، یہ دنیا ایک مہمان خانہ ہے، ایک آتا ہے ایک جاتا ہے، جو آیا ہے اس کو جانا ہوگا، جس طرح مہمان ایک مختصر قیام کے لئے آتا ہے اسی طرح سے ہم سب اس دنیا میں چند روز کے لئے آئے ہیں، وقت آئے گا چلے جائیں گے، نہ کوئی رہا ہے نہ رہے گا، یہ دنیا بے وفا ہے، اس نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی، یہ دنیا مکروفریب کی جگہ ہے اور یہ سنسار فتنہ و فساد کی جا ہے، یہاں حقیقی چین اور آرام نہیں، سکون اور اطمینانِ قلب حاصل نہیں، یہاں تو بلا و مصیبت اور دکھ اور درد سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور بہت سے صدمات برداشت کرکے اور بہت سی تکالیف اٹھا کر آخر کار کوش کرنا پڑتا ہے، موت ہر ذی روح کو آنا ہے، موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، موت کا کڑوا پانی سب کو پینا ہے، موت سر پر سوار ہے، بھاگ کر کہاں جائیں اور چھپیں تو کس جگہ چھپیں، ہر جگہ موت کی دسترس ہے، پس تم کو چاہئےکہ موت سے نہ گھبراؤ اور موت کے وقت اور خود کی مراد پر پہنچتے وقت اپنے کو پریشانی میں نہ ڈالنا اور نہ ہی اپنے دل کو حیران اور پریشان کرنا“
صدمۂ جانکاہ : اتنا فرماکر حضرت خواجہ حسن عطا نے دو رکعت نماز ادا کی، سجدہ کی حالت میں جانِ شیریں جان آفریں کے سپرد کر دی۔
غیب سے انتظام : آپ کی زندگی میں اس قسم کا پہلا واقعہ تھا، والدہ اور والد نے جب آپ کو داغِ مفارقت دیا تو اس وقت آپ کی عمر ہی کیا تھی، ایامِ طفولیت میں ہی آپ والدہ اور والد کی شفقت اور محبت سے محروم ہوگئے تھے، یہ واقعہ آپ کے ہوش میں ہوا، آپ سخت پریشان تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں، آپ اکیلے تھے، جنگل تھا، نہ کوئی معاون تھا اور کوئی مددگار، آپ رنجیدہ خاطر بیٹھے سوچ رہے تھے کہ تجہیزوتکفین کا کیا ہوگا، نمازِ جنازہ کیسے ہوگی، ان ہی خیالات میں علطاں و پیچاں تھے، آپ نے دیکھا کہ قبلہ کی طرف سے ایک نورانی گروہ آرہا ہے، آپ دیکھ کر خوش ہوئے سمجھ گئے کہ یہ نورانی گروہ فرشتوں کا ہے اور یہ غیب سے انتظام ہے، وہ نورانی گروہ حضرت خواجہ سید حسن عطا کی نعش کے پاس آیا، نعش کو تالاب کے صاف و پاک پانی سے غسل دیا، کفن پہنا کر جنازہ تیار کیا اور نمازِ جنازہ پڑھی، دفن کے بعد آپ کو تسلی و تشفی دے کر وہ نورانی گروہ غائب ہوگیا۔
دوسری بشارت : حضرت خواجہ سید عطا کی وفات کے بعد حضرت کے والد ماجد حضرت سید بادشاہ پردہ پوش نے خواجہ سید محمد کو عالمِ رویا میں یہ حکم دیا کہ ان کے صاحبزادے (حضرت خواجہ دانا) کو مزید تعلیم وتربیت دیں، ابھی ان میں کمی ہے، آپ کے والد ماجد نے ان سے فرمایا کہ
”میرا لڑکا (حضرت خواجہ دانا) ابھی پورے طور پر تعلیم سے بہرہ مند نہیں ہوا ہے، اس کو مزید تعلیم کی ضرورت ہے اور اس کی تربیت بھی خاطر خواہ نہیں ہوئی ہے، تم کو چاہئے کہ اس کی تعلیم و تربیت سے غافل نہ ہو، میں اس کو تمہارے سپرد کرتا ہوں، اس کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری تم پر ہے، تم کو چاہئے کہ اس فرض کو بخیروخوبی انجام دو“
تلاش : یہ حکام پاکر حضرت خواجہ سید محمد حضرت کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، تلاش کرتے کرتے کھاورال کے جنگل میں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت ہر نوں کے ٹولے میں رونق افروز ہیں، ہرن حضرت سید محمد کو دیکھ کر بھاگنے لگے اور حضرت بھی ان کے ساتھ ہولئے، کئی دن تک ایسا ہی ہوا کہ جب خواجہ سید محمد وہاں پہنچتے تو حضرت ہرنوں کے ساتھ نکل پڑتے، ایک دن حضرت خواجہ سید محمد بہت آزردہ خاطر ہوئے کہ آخر وہ کب تک ان سے بھاگیں گے اور وہ (حضرتِ خواجہ سید محمد) کب تک ان کا پیچھا کریں گے، انہوں نے حضرت کو عاجزی، منت اور محبت سے روک کر کہا کہ
”آپ مجھ سے واقف نہیں، میں کوئی اجنبی نہیں ہوں، آپ کے والدماجد نے مجھے آپ کی تعلیم و تربیت پر مامور فرمایا ہے پھر آپ مجھ سے کیوں بھاگتے ہیں“
یہ سن کر حضرت رک گئے اور وہیں رہنے لگے اور تعلیم حاصل کرنے لگے۔
تعلیم و تربیت : آپ کے والدماجد کے حکم کے مطابق جو انہوں نے عالمِ رویا میں دیا تھا، حضرت خواجہ سید حسن عطا نے آپ کو ابتدائی تعلیم دی اور آپ کی تربیت پر کافی دھیان دیا، ان کی وفات کے بعد حضرت خواجہ سید محمد کو حضرت کے والدماجد نے عالمِ رویا میں حکم دیا کہ وہ حضرت کو تعلیم و تربیت دیں، چنانچہ انہوں نے چھ سال تک تعلیم دی، اس کے بعد وہ اپنے وطن لوٹ گئے۔
عبادت و ریاضت : حضرت خواجہ سید محمد کے چلے جانے کے بعد آپ جنگل میں تنِ تنہا رہتے تھے اور عبادت کرتے تھے، آپ کی عبادت کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ایک وسیع دائرہ کے بیچ میں بیٹھتے تھے اور آپ کے چاروں طرف جنگل جانور ہوتے تھے، آپ جب اللہ اللہ کہتے تو جنگل جانور بھی نقل کرنے کی کوشش کرتے، اس طرح سارا جنگل اللہ اللہ کے ذکر سے گونج اٹھتا تھا۔
جنگل کی زندگی : آپ جنگل کی قدرتی زندگی پسند فرماتے تھے جس میں کوئی تصنع یا بناوٹ نہ تھی جانوروں سے مانوس اور انسانوں سے دور رہ کر آپ جنگل میں اللہ اللہ کرنے میں خوشی پاتے تھے، انسان کو دیکھ کر آپ بھاگتے تھے، شہری زندگی سے آپ نابلد اور نا آشنا تھے، اگر اسی طرح آپ زندگی گزارتے اور اسی طرح جنگل میں رہتے تو مخلوق آپ سے کیسے اور کس طرح مستفید ہوتی۔
کایا پلٹ : بابا چوپال سے جنگل میں ملاقات آپ کی زندگی میں کایا پلٹ کا باعث ہوئی، آپ نے بابا چوپال کو دیکھ کر بھاگنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ انسان کا انسان سے بھاگنا چہ معنی میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں اور تم میری طرح ایک انسان ہو، یہ سن کر آپ وہیں ٹھہر گئے، اتنے میں ایک درویش جن کا نام بابا مخدوم ترکستانی تھا، وہاں آپہنچے، تینوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے، حضرت چوپال نے اپنی بغل میں سے تیس گرم گرم روٹیاں نکالیں اور ان کے (حضرت خواجہ دانا اور حضرتِ مجذوب ترکستانی) سامنے رکھ دیں پھر ان میں سے ایک روٹی اٹھا کر اس کے تیس ٹکڑے کئے، ان تیس ٹکڑوں میں ایک تو انہوں نے خود کھایا اور ایک حضرت کو پیش کیا اور ایک حضرت مجذوب ترکستانی کو دیا، سب نے خوشی خوشی وہ ٹکڑا کھائے، حضرت چوپال کا دیا ہوا ٹکڑا کھا کر حضرت کی زندگی میں ایک نمایاں تبدیلی واقع ہوئی، اب آپ شہری زندگی کی طرف مائل ہوئے، شہری زندگی سے نفرت دور ہوئی اور جنگل کی زندگی سے لگاؤں ختم ہوا، آپ نے جنگل چھوڑ کر شہر میں رہنا شروع کیا۔
بلخ میں آمد : بلخ کے قیام کے دوران حضرت خواجہ محمد پارسا کے پوتے حضرت خواجہ عبدالہادی کی بیوی شاہ بیگم آپ کے آرام کا بہت خیال رکھتی تھیں، محبت اور عقیدت کے ساتھ ساتھ وہ حضرت کی خدمت کو اپنے لئے باعثِ فخر اور باعثِ سعادت و عظمت سمجھتی تھیں، شاہ بیگم حضرت کو ہر طرح کا آرام پہنچانے میں مشغول رہتی تھیں، وہ حضرت کو کھانا اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھیں، حضرت بلخ کے قیام کے دوران حضرت خواجہ عبدالہادی کے یہاں مہمان ہرے۔
ملاقاتیں : جس وقت کہ حضرت بلخ میں رونق افروز تھے مولانا سعید ترکستانی بھی وہاں آئے، حضرت نے ان کو ایک دن بلخ کے بازار میں بکریوں کے ساتھ دیکھا، بلخ میں حضرت کو حضرتِ خواجہ سلام جوئبار نقشبندی سے ملنے کا موقع ملا، حضرتِ خواجہ سلام جوئبار نقشبندی حضرت کے ساتھ بہت محبت و شفقت و احترام سے پیش آئے، وہ حضرت کو اپنے گھر لے گئے اور حضرت کو علمِ ظاہری اور باطنی سے مالا مال کیا۔
بیعت و خلافت : حضرت نے خواجہ سید حسن عطار سے دولت ونعمت پائی، خواجہ سید حسن عطار نے آپ کی تعلیم و تربیت و روحانی نشو و نما پر کافی توجہ کی، ان کے وصال کے بعد حضرت کے والدماجد کے حکم کے مطابق حضرتِ خواجہ سید محمد نے آپ کی تعلیم و روحانی تربیت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی۔
حضرت خواجہ سلام جوئبار نقشبندی سے حضرت نے خلافت پائی، حضرت خواجہ عبداللہ اشراقی سے حضرت کو اویسیہ فیض پہنچا، حضرت خواجہ عبید اللہ احرار کی روحانیت سے بھی حضرت مستفید و مستفیض ہوئے، حضرت خواجہ سید حسن عطا کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوکر آپ نقشبندی سلسلے میں منسلک ہوئے۔
شجرۂ بیعت : شجرۂ بیعت حسبِ ذیل ہے۔
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت سلیمان، حضرت قاسم، حضرت جعفر صادق، حضرت بایزید، حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی، حضرت خواجہ طوسی علی، حضرت خواجہ یوسف ہمدانی، حضرت اسوی، حضرت سلیمان، حضرت جنگی، حضرت خواجہ احمد سید عطا، حضرت عبداللہ زربخش، حضرت خواجہ سید ولایت، حضرت خواجہ سید قریشی، حضرت سید اسمٰعیل، حضرت سید بادشاہ پردہ پوش، حضرت خواجہ سید حسن عطا، حضرت خواجہ جمال الدین خواجہ دانا۔
ہندوستان میں آمد : بلخ سے آپ مع اپنی زوجہ اور چند رفیقوں کے ہندوستان کے لئے رانہ ہوئے، ٹھٹھہ پہنچ کر وہاں کچھ دن قیام کیا پھر آگرہ میں رونق افروز ہوئے اور وہاں ایک مسجد میں قیام فرمایا، آگرہ میں کچھ دن قیام کرنے کے بعد آپ بڑودہ روانہ ہوئے، بڑودہ میں مولانا نظیر بدخشی نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکر حضرت کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور حضرت کو چند دن منت و سماجت کرکے روکا، بڑودہ میں ڈاکوؤں نے حضرت کا سامان لوٹ لیا، حضرت بجائے رنجیدہ ہونے کے خوش ہوئے اور فرمایا کہ خداوند تعالیٰ کا شکر ہے کہ امانت، امانت والوں کو مل گئی۔
سورت میں تشریف آوری : بڑودہ سے حضرت سورت میں رونق افروز ہوئے، حضرت کو سورت بہت پسند آیا، اس وقت سورت بندرگاہ تھا اور یہاں سے لوگ حج کو جاتے تھے، سورت بابل المکہ کہلاتا تھا، حضرت کی سورت سے وابستگی اور دلچسپی حضرت کے ان فارسی اشعار سے ظاہر ہے۔
کرد تحریر مصورِ قدرت
باد آباد بندِ سورت
پئے امداد کشتی ہائے ایں بحر
وطن داریم اندر کنج ایں شہر
بریں خدمت زحق گشتیم مامور
چہ خوش گفتند المامور۔ معذور
ترجمہ: مصورِ قدرت نے تحریر کیا ہے کہ سورت آباد ہے اور آباد رہے گا، یہاں کی کشتیوں کی امداد کے لئے میں نے اس شہر کے گوشہ میں اپنا وطن بنایا ہے، خداوند تعالیٰ کی طرف سے میں بڑی حدمت پر مامور ہوا ہوں، کیا اچھا کہا ہے معذور اور بیکسوں کی خدمت کرنے کے لئے مقرر ہوا ہوں۔
برہان پور کو روانگی : سورت میں کچھ دن قیام کر کے آپ بڑھان پور تشریف لے گئے، وہاں سے پھر آپ سورت واپس تشریف لائے۔
سورت میں قیام : سورت میں آپ کا مستقل قیام رہنے لگا، سورت میں آپ رشدوہدایت اور تعلیم و تلقین فرماتے تھے اور نقشبندیہ سلسلے کو پھیلاتے تھے، نقشبندیہ سلسلہ کو سورت میں کافی فروغ ہوا۔
شادی اور اولاد : بلخ کا بادشاہ پیر محمد خاں بن جانی بیگ خاں آپ کا مرید اور معتقد تھا، اس کی بہن کے ساتھ آپ کی شادی ہوئی، حضرت خواجہ سعید محمد ہاشم اور حضرت خواجہ انوارالحسن آپ کے دو صاحبزادے تھے جو آپ کے وصال کے بعد آپ کی گدی پر بیٹھے۔
مریدین و خلفا : آپ کے دستِ حق پرست پر بہت سے لوگ بیعت ہوئے، تولک محمد خاں کو چین اور شاہ کلنگ خاں آپ کے خاص مرید، معتقد اور پرستار تھے، آپ کے دونوں صاحبزادے حضرت خواجہ سعید محمد قاسم اور حضرت خواجہ سعید انوارلحسن کے خلیفہ تھے، آپ کے بعد آپ کی گدی پر حضرت خواجہ سعید محمد قاسم بیٹھ کر رشدوہدایت اور سلسلے کے لوگوں کی رہنمائی فرماتے تھے۔
وصال : برہان پورے سے سورت واپس آکر آپ بیمار ہوگئے، ایک دن ویسے بیہوش ہوئے کہ سب رونے لگے، ہوش آیا تو آپ نے سورۂ یٰسین بلند آواز سے پڑھی، پھر کلمۂ طیبہ پڑھنا شروع کیا اور کلمہ پڑھتے پڑھتے آپ رحمتِ حق میں پیوست ہوگئے، یہ واقعہ 5 صفر 1015ہجری کا ہے، آپ کا مزارِ پُرانوار سورت میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے۔
سیرت : آپ رات کو جاگتے تھے اور عبادت اور نماز میں مشغول ہوجاتے تھے، مخلوق سے بے نیاز رہتے تھے، غریبوں، مسکینوں اور معذوروں کی ہر طرح امداد کرتے تھے، آپ کو کھیتی باڑی کا بہت شوق تھا، زمین جوتتے اور جو اس سے آمدنی ہوتی، وہ ان کاشتکاروں میں تقسیم کردیتے تھے جن کو کھیتی میں نقصان ہوا ہوتا، آپ سخاوت کے لئے مشہور تھے، سائل کو خالی نہ لوٹاتے تھے، اتباعِ سنت کے سخت پابند تھے، میلادالنبی اور معراج النبی بڑی شان و شوکت سے مناتے تھے، لوگوں کو کھانا تقسیم کرتے تھے اور اعلیٰ قسم کا عطر مہمانوں کو بطور تحفہ دیتے تھے، علمی جلسوں میں بھی شریک ہوتے تھے اور مشکل علمی نکات کو بہ آسانی حل کر دیتے تھے۔
آپ کو شہر سے زیادہ جنگل پسند تھا، روزانہ بلا ناغا جنگل میں جاتے تھے اور قدرتی مناظر، صارف آب و ہوا اور وہاں کے سکوت اور خاموشی سے لطف اندوز ہوتے تھے، جنگل کے جانور اور پرند آپ سے ملے جلے رہتے تھے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ پرندوں کی زبان میں پرندوں کے گانے گاتے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ جانوروں اور پرندوں کی بولی سمجھتے تھے، جانوروں اور پرندوں پر زیادتی یا ظلم کرنا آپ کے نزدیک قہرِ خداوندی کو دعوت دینا ہے۔
مزدوروں کا آپ خاص طور سے خیال رکھتے تھے، جب کوئی عمارت بناتے تو اس کو کئی کئی مرتبہ گروا دیا کرتے تھے تاکہ مزدوروں کو زیادہ مزدوری ملے۔
تعلیمات : آپ نے نقشبندی سلسلہ کی تعلیمات سے لوگوں کو بہرہ مندہ فرمایا، آپ نے لوگوں کو بتایا کہ مشائخِ نقشبندیہ کے نزدیک خداوند تعالیٰ تک پہنچنے کے تین راستہ ہیں، ایک تو ذکر ہے جس کی دو قسمیں ہیں، ایک نفی دوسرا اثبات ہے۔
1۔ ذکر : نفی و اثبات کے ذکر کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں لبوں اور دونوں آنکھوں کو بند کرکے اور دم کو پیٹ میں روکے اور دل سے کہے لا، اس کو اپنی ناف سے داہنی طرف نکالے اور کھینچے یہاں تک مونڈھے تک پہنچے پھر مونڈھے کو سر کی طرف جھکائے اور ہلائے اور کہے الہٰ پھر ضرب لگائے سختی سے اپنے دل میں الّا اللہ۔
حبسِ نفس، حبسِ نفس یعنی سانس روکنے کی مشق کرنا چاہئے۔
شمارِ طاق : اول کلمہ توحید کو ایک بار ایک دم میں کہے پھر تین بار ایک دم میں کہے، اس طرح اکیس بار تک پہنچے، طاق عدد کو مراعات کے ساتھ یعنی اول ایک بار اور دوسری بار تین بار اور تیسری بار پانچ بار اور چوھتی بار سات بار۔
اثباتِ مجرد : اثباتِ مجرد بھی مفید ہے، اثباتِ مجرد سے مراد ہے کہ فقط اللہ کے لفظ کا ذکر کرے بدول نفی اور اثبات کے، اثباتِ مجرد کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کے لفظ کو اپنی نافس سے بشدتِ تمام نکالے اور اس کو کھینچے، یہاں تک کہ اس کے دماغ کی جھلی تک پہنچے حبسِ دم کے ساتھ اور اندک اندک زیادہ کرتا جائے۔
2۔مراقبہ : خدا تک پہنچنے کا دوسرا طریقہ مراقبہ ہے اور
”حقیقتِ مراقبہ بوجہی کہ شاملِ جمعی افراد آں باشد آنست کہ توجہ قوتِ درّا کہ باقبالِ تمام بسوئے صفات حضرتِ حق نمودن یا بسوئے حالتِ انفطاک روح از جسد یا مثلِ تا آنکہ عقلِ دوہم و خیال وجمیع حواس تابع آں توجہ گردد وانچہ محسوس نیست بمنزلۂ محسوس نصب العین گردد“
طریقہ مراقبہ یہ ہے کہ دم کو ناف کے نیچے تھوڑا سا بند کرے پھر اپنے جمیع حواسِ مدرکہ سسے متوجہ ہو یعنی مجرد بسیط کی طرف۔
3۔ مرشد کے ساتھ رابطہ اور اعتقاد : یہ راستہ اور راستوں سے آسان اور قریب تر ہے، اگر مرشدِ کامل شہودِ ذاتی کا واصل ہو تو تھوڑے ہی وقت میں اس کی توجہ سے وہ حاصل ہو جاتا ہے جو سالہا سال کی محنت سے حاصل نہیں ہوتا۔
رابطہ مرشد کی شرط کا یہ ہے کہ مرشد قوی التوجہ ہو ”یاد داشت“ کی مشق دائمی رکھتا ہو، جب مرشد کی صحبت اختیار کرے تو اپنی ذات کو ہر چیز کے تصور اور خیال سے خالی کرے، فقط اس کی محبت دل میں رکھے، اس کا انتظار کرے جس کا اس کی طرف سے فیض آوے، دونوں آنکھیں بند کرے یا کھلی رکھے اور مرشد کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں تکی لگائے، جب اس کو کوئی فیض محسوس ہو تو دل و جان سے اس کا شکر گزار ہو اور اس فیض کو ہاتھ سے نہ جانے دے، مرشد کی عدمِ موجودگی میں اس کی صورت کو اپنی دونوں آنکھوں کے درمیان خیال کرتا رہے بطریقِ محبت اور تعظیم کے۔
کلماتِ نقشبندیہ : ذیل میں مشائخِ نقشبندیہ کی چند اصطلاحات دی جاتی ہیں، جن پر طریقے کی بنیاد ہے۔
ہوش در دم : ہر سانس کے ساتھ ہوشیار اور بیدار رہنا چاہئے، ہوش دردم سے مراد ہر دم کا محاسبہ ہے۔
نظر برقدم : سالک کو چاہئے کہ چلنے پھرنے کے وقت کسی چیز پر نظر نہ ڈالے سوائے اپنے قدم کے اور بیٹھنے کی حالت میں اپنے آگے دیکھے، حقیقت یہ ہے کہ ”نقوشِ مختلفہ کا دیکھنا اور تعجب انگیز رنگوں کا نظر کرنا سالک کی حالت کو بگاڑ دیتا ہے اور اس سے روکتا ہے کہ جس کی وہ طلب میں ہے“
سفر در وطن : سفر در وطن سے مراد ہے کہ سالک صفاتِ بشریہ خسیسہ سے نکلے اور ان کو ترک کرکے صفاتِ ملکیۂ کی طرف نقل کرے۔
خلوت در انجمن : خلوت در انجمن سے مراد یہ ہے کہ طالب کو چاہئے کہ ہر صورت اور ہر حال میں خدا کے ساتھ مشغول رہے۔
یاد کرد : یاد کرد سے مراد یہ ہے کہ اس ذکر کو جس کو مرشد سے سیکھا ہے ہمیشہ یاد رکھے اور اس کی تکرار کرتا رہے، ذکر چاہے وہ بہ نفی و اثبات ہو یا باثباتِ مجرد ہو، نہ بھولنا چاہئے۔
بازگشت : بازگشت سے مراد ہے رجوع کرنا اور پھرنا، تھوڑا ذکر کرکے مناجات کی طرف متوجہ ہو۔
نگہداشت : نگہداشت سے مراد یہ ہے کہ طالب خطرات کو دور کرتا ہے، ہر وقت بیدار اور ہوشیار رہے، خطرے کو فوراً دل سے نکال دے، ظاہر ہونےسے پہلے ہی ختم کردے، ظاہر ہونے کے بعد نفس کا س کی طرف مائل ہونا ضروری ہے، اس لئے اس کو جگہ نہ دے۔
یاد داشت : یاد داشت ذاتِ مقدس کے دھیان کا نام ہے جو بلا ذریعہ الفاظ اور تخیلات کے ہو۔
اصطلاحیں : تین اصطلاحیں ہیں، یعنی وقوفِ زمانی، وقوفِ قلبی اور وقوفِ عددی۔
وقوفِ زمانی : وقوفِ زمانی سے مراد یہ ہے کہ ذکر میں ہر ساعت کے بعد یہ سوچنا کہ غفلت آئی یا نہیں، اگر یہ محسوس ہو کہ غفلت آئی تو ایسی صورت میں استغار پڑھنا چاہئے اور پوری ہمت اور قوت سے اس غفلت کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اس کو دور کرنا چاہئے۔
وقوفِ عددی : وقوفِ عددی سے مراد عددِ طاق کی محافظت کرنا ہے، ذکر کو طاق ذکر کرنا چاہئے نہ کہ جُفت۔
وقوفِ قلبی : وقوفِ قلبی سے اشارہ ہے اس قلب کی طرف جو بائیں طرف ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ خطراتِ بیرونی دل میں داخل نہ ہونے پائے اور ان کا دخل دل میں نہ ہونے پائے۔
کشف و کرامات : برہان پور سے جب سورت آنے لگے تو آپ کے معتقدین و مریدین نے یہ کوشش کی کہ حضرت آگرہ تشریف لے چلیں، آپ راضی نہ ہوئے، آپ نے فرمایا کہ
”میں کہیں اور نہیں جاؤں گا، سورت جاؤں گا، ایک دوسرا سفر در پیش ہے“ چنانچہ آپ سورت آئے اور سورت میں وصال ہوا، حضرت ایک وقت میں کئی جگہ دکھائی دیتے تھے،
شہنشاہِ اکبر کے صاحبزادے شہزادہ دانیال کے لڑکے تیمور کا برہان پور میں انتقال ہوا تو حضرت فاتحہ پڑھنے کی غرض سے شہزادہ دانیال کے یہاں تشریف لے گئے، شہزادہ دانیال نے تیمور کی نعش حضرت کی گود میں رکھ دی اور شہزادہ دانیال زاروقطار رونے لگا، حضرت کو اس پر رحم آیا، حضرت نے مرے ہوئے شہزادہ تیمور کے جسم پر ہاتھ پھیرا، شہزادہ زندہ ہوگیا، شہزادہ دانیال کا رنج خوشی میں تبدیل ہوگیا۔
حضرت معراج النبی بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے، بڑا خرچہ کرتے تھے، ایک سال ایسا ہوا کہ بظاہر کوئی انتظام نہیں اور تایخ قریب آپہنچی، خادم نے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ
”تم پریشان کیوں ہوتے ہو، جو خدا چاہے گا وہ ہوگا، اگر خداوند تعالیٰ کی یہ مرضی ہوگی کہ اس کے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج شایانِ شان طور پر منائی جائے تو وہ خود انتظام کرے گا“
جب وقت بالکل قریب آیا تو خادم کو بے چینی ہوئی، اس نے پھر حضرت کی خدمت میں عرض کیا، اس مرتبہ بجائے جواب دینے کے حضرت خادم کو لے کر سی ہور گاؤں کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں ایک نالہ پڑا، وہاں حضرت رک گئے، خادم کو حکم فرمایا کہ نالہ کے بیچ میں جاؤ اور خرچہ لے آؤ، خادم حکم کی تعمیل بجا لایا، اسے ایک تھیلی ملی جو بالکل خشک تھی، اس کی مہر توڑ کر جو کھولا تو اس میں سے تین ہزار سکہ محمدی برآمد ہوئے، حضرت خادم سے فرمایا کہ خرچ تو مل گیا، اپنے خادم کو یہ تاکید فرمائی کہ وہ اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرے، حضرت کو سپردِ خاک کرنے کے بعد ایسی سخت بارش ہوئی کہ حضرت کے مزار کا نشان غائب ہوگیا، سب رنجیدہ اور حیران و پریشان ہوئے، حضرت نے اپنے صاحبزادے کو عالمِ رویا میں بتایا کہ قبر فلاں جگہ اتنے فاصلہ پر ہے، صبح کو تلاش میں نکلے تو قبر تو مل گئی لیکن قبر میں آپ کی نعشِ مبارک نہ تھی، اس سے اور زیادہ پریشانی ہوئی، حضرت نے پھر عالمِ روایا میں اپنے صاحبزادے حضرتِ خواجہ محمد کو بتایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، کل میں چلا گیا تھا، قبر میں نہیں تھا، آگیا ہوں، آپ کی قبر کھولی گئی تو آپ جس طرح تھے ویسے ہی پائے گئے، کفن پر داغ تک نہیں تھا پھر قبرِ مبارک میں عطر، خوشبو اور گلاب پیش کیا گیا اور قبر بند کردی گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.