حضرت سید عثمان شمعِ برہانی
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-23
حضرت سید عثمان شمعِ برہانی عالمِ فیض و کرامت اور شمعِ قصرِ ہدایت ہیں۔
نامِ نامی : آپ کا نام سید عثمان ہے۔
خطاب : آپ کا خطاب شیخ الاقطاب ہے۔
لقب : آپ کا لقب شمعِ برہانی ہے۔
تعلیم و تربیت : حضرت قطب عالم نے آپ کو تعلیم و تربیت سے آراستہ فرمایا۔
بیعت : آپ حضرت قطب عالم سے بچپن میں ہی بیعت ہوئے۔
ایک واقعہ : آپ کے پوتے حضرت سید عالم کی منگنی حضرت خواجہ رکن الدین کانِ شکر کے صاحبزادے حضرتِ خواجہ داؤد کی لڑکی سے طے ہوئی تھی، ایک دن ایسا ہوا کہ ان کے خادم نے آپ سے کہا کہ اب تو فقروفاقہ میں زندگی گزرتی ہے لیکن اب آپ کو زندگی بدلنا ہوگی کیونکہ آپ کا حضرتِ داؤد سے قریبی رشتہ ہے، یہ سن کر آپ نے جواب دیا کہ
”یہ تم نے کیا کہا، میرے لئے کسی دوسرے کی پیروی ضروری نہیں ہے، میرے لئے میرے پیرومرشد کی پیروی بہت کافی ہے“
گذارش : آپ اپنے پیرومرشد کے مزار پر بٹوہ میں حاضر ہوئے اور سب بات کہہ سنائی۔
جواب : آپ کو آپ کے پیرومرشد نے جواب دیا کہ
”نا امید ہونے کی کوئی وجہ نہیں، خوش رہو اور خوشی میں دن گزارو، تم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کارخانۂ الٰہی میں سے جتنا ہمارے لڑکے شاہ عالم کو ملا ہے، اتنا ہی ہم نے تم کو دلایا ہے پھر فکر کی کیا بات ہے“
خادم کو ہدایت : اپنے خادم کو بلا کر آپ نے اس سے فرمایا کہ فکر کرنے کی ذرا ضرورت نہیں، آج سے یہ طریقہ اختیار کرو کہ جتنے خرچ کی ضرورت ہو اتنا ہی سابرمتی دریا کے کنارے جاکر روزانہ لے لیا کرو، خادم حکم کی تعمیل بجا لایا، اشرفیاں لاتا تھا اور روزانہ آپ کو حساب دیتا تھا، مدت تک حضرت کے خاندان والوں کا اسی طرح گزارا ہوتا رہا۔
پیرومرشد کا فرمان : آپ کے پیرومرشد حضرتِ قطب عالم نے ایک دن آپ کو یہ مژدہ سنایا کہ تمہارے سپرد یہ خدمت کی گئی ہے کہ تم بہت سے لوگوں کو روشنی دکھاؤ اور ان کو تاریکی اور ظلمت سے نکال کر راہِ راست پر لاؤ اور چلاؤ، لوگوں کی راہِ راست پر لانا تمہارے سپرد ہے، تم کو چاہئے کہ اس فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دو، اس فرض کی انجام دہی کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ تم ایک مقام پر سکونت اختیار کرو اور ایک خاص مقام پر بیٹھ کر رشدوہدایت کرو۔
احمد آباد میں آمد : پیرومرشد کا یہ حکم پاکر آپ احمدآباد آئے اور بہاؤالدین پورہ میں سکونت اختیار کی، وہاں رہ کر آپ رشدوہدات اور تعلیم و تلقین فرماتے تھے اور لوگوں کو راہِ رست پر لاتے تھے۔
سکونت میں تبدیلی : ابھی آپ کو بہاؤالدین پورہ میں رہتے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ آپ کے دروازہ پر لوگوں کا ہجوم رہنے لگا، راستہ گیروں کو اکثر وہاں سے نکلنا دشوار ہو جاتا تھا، ایک ضعیف شخص نے ایک دن یہ شکایت کی کہ آپ کے (حضرت سید عثمان) دروازہ پر مجمع رہتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے گھر پانی لے جانا مشکل ہو جاتا ہے، یہ بات حضرت نے سن لی، اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے کہ
”ہمارا کام لوگوں کو تکلیف پہنچانا نہیں ہے، ہم اس لئے پیدا نہیں ہوئے ہیں کہ ہم لوگوں کو تکلیف پہنچائیں، یہ ہمارا سامان ہے، اس میں سے جو جس کو چاہئے وہ لے لے“ حضرت وہاں سے عثمان پورہ تشریف لائے اور وہاں سکونت اختیار فرمائی۔
آبادی : وہ جگہ جو احمدآباد میں عثمان پورہ کہلاتی ہے، بالکل غیرآباد تھی، جب حضرت نے وہاں رہنا شروع کیا تو وہاں نہ تو کوئی آبادی تھی اور نہ کوئی آمدورفت، ایک دن حضرت ندی پر وضو فرما رہے تھے، آپ کے پاس لوٹا نہیں تھا، آپ نے سوچا کہ اگر میرے پاس لوٹا ہوتا تو پانی بھر کرلے جاتا اور پھر دریا پر نہ آنا پڑتا، اتنے میں آپ نے دیکھا کہ ایک ہندو لڑکا دریا پر سے پانی بھر کرلے جاتا ہے، آپ نے ا س سے فرمایا کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنا برتن مجھے دے دو تاکہ میں پانی لے جاکر بھر لوں پھر واپس کر دوں گا، اس لڑکے نے بخوشی وہ برتن آپ کو دے دیا، آپ نے اس میں پانی بھرا اور جائے مقام پر لے گئے اور خالی برتن لاکر اس لڑکے کو دے دیا، اس لڑکے نے متعجب ہوکر آپ سے کہا کہ آپ ایسے گھنے جنگل میں رہتے ہیں جہاں دور دور آبادی نہیں اور نہ پانی۔
یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ میں یہاں رہتا ہوں، کچھ دنوں میں یہ مقام آباد ہوجائے گا اور پھر اس لڑکے سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم بھی یہاں ہی آکر رہنا، وہ لڑکا مسکرانے لگا، حضرت نے اس سے فرمایا کہ دیر نہ کر، دریا پر جا اور پانی بھر کر گھر لے جا وہ لڑکا دریا پر پانی بھرنے گیا تو اس کو وہاں اشرفیوں کا ڈھیر دیکھ کر سخت تعجب ہوا، اس نے وہ اشرفیاں اپنے پانی کے برتن میں بھرلیں اور اشرفیاں لئے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ دریا پر پانی تو روزانہ ملتا ہی تھا، آج تو پانی کے علاوہ اشرفیوں کا ڈھیر بھی ملا جو پانی کے برتن میں رکھ کر لایا ہوں، حضرت مسکرائے اور اس لڑکے کو تاکید فرمائی کہ گھر جاکر یہ سب اشرفیاں اپنے ماں باپ کو دینا تاکہ وہ یہاں رہنے کے لئے ضروری سامان خرید لیں، اس دن سے آبادی ہونے لگی، وہ غیرآباد مقام آج احمدآباد میں عثمان پورہ اور عثمان آباد کے نام سے مشہور ہے۔
مزار : آپ کا مزارِ پُرانوار احمدآباد میں مرجعِ خاص و عام ہے۔
سیرت : آپ فقروفاقہ پر فخر فرماتے تھے، رشدوہدایت، تعلیم و تلقین فرماتے تھے، عبادت و ریاضت، ذکروفکر میں زیادہ وقت گزارتے تھے، مخلوق کی خدمت بغیر اُجرت کے کرتے تھے، آپ صاحبِ کمال تھے، اپنے پیرومرشد کے سچے عاشق تھے، ہر ایک سے محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔
کشف و کرامات : ایک مرتبہ آپ نے اپنی ایک لکڑی لوہار کے پا س ٹھیک کرانے بھیجی، لوہار وہ لکڑی ٹھیک کر رہا تھا کہ اتنے میں ایک جوگی وہاں اپنا لوٹا لے کر آپہنچا اور لوہار سے لوٹا ٹھیک کرنے کو کہا، لوہار نے کہا کہ وہ لکڑی ٹھیک کرکے لوٹا ٹھیک کرے گا، اس پر حجت ہوئی اور قریب تھا کہ کوئی جھگڑا ہوکہ حضرت کو یہ بات بذریعۂ کشف معلوم ہوئی، رفع شر کی غرض سے بہ نفسِ نفیس لوہار کی دوکان پرہ پہنچے اور اس کو سمجھانے لگے، باتوں باتوں میں کیمیا کا ذکر آیا، جوگی نے حضرت کو لالچ دیا کہ اگر اس کے ساتھ چلیں تو ان کو بہت بڑا خزانہ ملے، حضرت مسکرائے اور لوہار بھی اس گفتگو میں دلچسپی لینے لگا، حضرت نے لوہار سے اوزار سامنے رکھنے کو کہا، جب لوہار نے اوزار سامنے رکھے تو حضرت نے ان پر تھوڑی سی مٹی ڈال دی، وہ اوزار سونے کے ہوگئے، دیکھنے والوں کو سخت تعجب ہوا اور وہ جوگی پشیمان ہوا۔
تعلیم : حضرت نے فرمایا کہ ”خرچ کے واسطے اللہ کو بھولنا اور دوسری چیز کو قبول کرنا، یہ ہمارے یہاں سے جائز نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے مرشد کا راستہ ہے“
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.