حضرت سلطان محمد
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-25
حضرت سلطان محمد محقق باسرارِ حقیقت اور ممتاز بعشقِ ربوبیت ہیں۔
خاندانی حالات : آپ روم کے شاہی خاندان سے ہیں۔
جامِ نامی : آپ کا نامِ نامی محمد ہے۔
لقب : آپ گجرات میں بابا حاجی رجب کے لقب سے مشہور ہوئے۔
کایا پلٹ : دولتِ ظاہری کے بجائے آپ عشقِ الٰہی کی دولت سے مالامال ہوئے، سلطنت، حکومت، جاہ و منصب سے بیزار و برگشتہ ہوئے۔
تلاشِ حق : اپنا وطن چھوڑ کر تلاشِ حق میں سفر اختیار کیا، گھومتے پھرتے بطحہ پہنچے، وہاں اس وقت حضرت سید احمد کبیر رفاعی رونق افروز تھے، حضرت شیخ احمد بن ابوالحسن رفاعی بڑے صاحبِ مرتبہ بزرگ تھے، آپ حضرتِ امام موسیٰ کاظم کی اولاد میں سے تھے۔
آپ عرب کے ایک قبیلہ جس کو رفاعیہ کہتے تھے، تعلق رکھتے تھے، اسی نسبت سے آپ رفاعی کہلاتے ہیں، آپ کا وصال 570ہجری میں ہوا اور امِ عبیدہ میں مزارِمبارک ہے، آپ انسان اور حیوان دونوں کے ہمدرد تھے، امامِ شعرانی فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ احمد کو اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی خدمت پر مامور فرمایا تھا، آپ معذور، مفلوج، اپاہچ اور ضعیف لوگوں اور بیماروں کی خدمت میں ہمہ تن ہر وقت مشغول رہتے تھے، آپ اس شعر کا
عبادت بجز خدمتِ خلق نیست
بہ تسبیح و سجادہ و دلق نیست
پورا مصداق تھے، آپ نے فرمایا کہ
مردِ متمکن وہ ہے کہ اگر دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ پر اس کا نیزہ گاڑ دیا جائے اور ہر طرف سے ہوائیں چلیں تو اس میں تغیر واقع نہ ہو، زہد کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ
زہ احوالِ پسندیہ اور مرتبہ ہائے بلند کی بنیاد ہے، خدائے تعالیٰ کا قصد کرنے والوں میں سب کو چھوڑ کر اسی کے ساتھ ہونے والوں، اسی پر راضی ہونے والوں کا یہ پہلا قدم ہے۔
آپ نے فرمایا کہ
جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کر مردانِ خدا کے قیام پر پہنچانا چاہتا ہے تو پہلے اسے اپنے نفس کے ساتھ مکلف فرماتا ہے، جب اس نے اپنے نفس کو مؤدب بنا لیا تو اسے اہل و عیال کی تکلیف دیتا ہے، جب اس نے ان کے ساتھ احسان اور مدارات کی تو پڑوسیوں اور اہلِ محلہ کے ساتھ مکلف فرماتا ہے، جب اُس نے ان کے ساتھ بھی اچھا سلوک کیا تو پھر اللہ تعالیٰ اسے اہلِ شہر کے ساتھ مکلف کرتا ہے، ان سے بھی اچھا سلوک کرے تو ملک کی ایک سمت اس کے سپرد کی جاتی ہے، اس سے بھی اچھی طرح عہدہ برآ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا باطن اچھا ہو جاتا ہے پھر مابین زمین و آسمان اس کے سپرد ہوتے ہیں پھر وہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر ترقی کرتا جاتا ہے، یہاں تک کہ غوث کے رتبہ کو پہنچ جاتا ہے، اس کے بعد اس کی صفت اور بلند ہوتی ہے جو بدرجۂ عنایت حقِ تعالیٰ کی اک صفت ہوجاتی ہے اور خدا اسے اپنے غیب پر مطلع فرماتا ہے، یہاں تک کہ نہ کوئی درخت اگتا ہے، نہ کوئی پتّی ہری ہوتی ہے مگر اس کے نظر کے سامنے پھر وہ ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جو انسانی عقلوں سے بالا ہوتی ہیں۔
بیعت : آپ نے حضرت سید احمد کبیر رفاعی کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔
خدمت : آپ نے جب اپنے پیرومرشد کی خدمت میں عرض کیا کہ ان کے سپرد کوئی خدمت کی جائے تو آپ کے پیرومرشد نے کھانا پکانے کا کام آپ کے سپرد کیا۔
ریاضت و مجاہدات : آپ نے چالیس سال ریاضت، عبادت اور مجاہدات میں گزارے، پیرومرشد کی توجہ نے اپنا کام کیا اور آپ نے مقامات طے کرکے اعلیٰ درجہ حاصل کیا۔
ایک دن کا واقعہ : ایک دن ایسا ہوا کہ پیرومرشد کے کھانے کا وقت ہوگیا، آپ کو کھانا نکالنا تھا، باورچی خانہ میں کفگیر غائب تھا، بہت تلاش کیا لیکن کہیں نہ ملا، پیرومرشد کے کھانے کا وقت ہوچکا تھا، آپ نے کفگیر تلاش کرنا چھوڑ کر یہ آیت پڑھی۔
قُلنا یٰنارُ کونیِ برداًوّسلٰماً علَیٰ ابراہیمَ (ترجمہ : ہم نے کہا، اے آگ ٹھنڈی ہوجا سلامتی کے ساتھ ابراہیم کے لئے)
اور پھر اپنے ہاتھ سے گرم گرم کھانا نکلا کر پیرومرشد کی خدمت میں پیش کیا، آپ کے پیرومرشد کو بذریعہ کشف یہ سب بات معلوم ہوچکی تھی۔
پیرومرشد کی دعا : آپ کے پیرومرشد نے آپ کی طرف دیکھا اور تبسم فرمایا اور یہ دعا دی، ”میاں شیخ محمد ! تمہاری ابراہیمی ولایت کی برکت سے دنیا کو فیض پہنچے“
خلافت : آپ کے پیرومرشد نے آپ کو خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا۔
سفر : آپ کے پیرومرشد نے آپ کو حکم دیا کہ ہندوستان جائیں اور وہاں رشدوہدایت کریں اور لوگوں کی تعلیم و تلقین کرکے جہالت سے نجات دلائیں۔
پیرومرشد کی ہدایت : آپ کے پیرِروشن ضمیر نے آپ کو کھجوروں کے بیج اور ایک لوٹا عطا فرمایا اور آپ کو یہ ہدایت فرمائی کہ جس جگہ رات کو قیام کریں وہاں یہ کھجوروں کے بیج بوئیں اور لوٹے سے ان بیجوں پر وضو کریں، جہاں بیج اگ آئیں، وہاں ہی قیام کریں۔
پٹن میں آمد : آپ پیرومرشد کی ہدیات کے موافق جہاں بھی رات کو قیام کرتے کھجوروں کے بیج بو دیتے اور لوٹے سے ان پر وضو کرتے، اس طرح سے آپ سفر کرتے کرتے پٹن پہنچے، پٹن، پہنچ کر بھی آپ نے ویسا ہی کیا، صبح کو جو دیکھا تو بیج اگ آئے تھے، آپ سمجھ گئے کہ یہی وہ مقام ہے جہاں قیام کرنا ہے، چنانہ آپ نے پٹن میں سکونت اختیار کی، آپ کے پٹن میں رونق افروز ہونے کی تاریخ ”آفتاب سلام“ سے 616ہجری مطابق 1219عیسوی برآمد ہوتی ہے۔
پٹن میں کرامت کا اظہار : آپ نے پٹن پہنچ کر ایک مشہور عالی شان مندر کے پاس قیام کیا، شہر کے ہر طبقہ کے آدمی اس مندر میں پوجا کرنے جایا کرتے تھے، لوگوں نے راجہ کو آپ کے قیام کی اطلاع دی، راجہ نے حکم دیا کہ فوراً ہٹا دو، راجہ کے آدمی جب وہاں پہنچے تو آپ کے ایک خادم نے آپ کو ان کے ارادے کی خبر دی، آپ نے فرمایا کہ زمین کو حکم دو کہ ان آنے والوں کو پکڑ لے، جانے نہ دے، خادم نے حکم کی تعمیل کی، زمین نے ان کو ایسا پکڑا کہ وہ جتنی نکلنے کی کوشش کرتے تھے اتنے ہی زیادہ دھنستے جاتے تھے، ان لوگوں نے عاجزی و انکساری سے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر ہمیں زمین چھوڑ دے تو ہم چپ چاپ واپس چلے جائیں گے، آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ زمین کو حکم دو کہ ان کو چھوڑ دے، خادم نے ایسا ہی کیا، زمین نے ان کو چھوڑ دیا اور وہ واپس چلے گئے۔
راجہ آپ کی خدمت میں : ان لوگوں نے واپس جاکر سارا حال راجہ کو سنایا، دوسرے دن صبح راجہ حضرت کی خدمت میں آیا، آپ نے راجہ سے فرمایا کہ درویش کی ملاقات کو آئی ہو نہ کہ بت کی پرستش کے لئے، راجہ واپس چلا گیا اور جب دوبارہ آیا تو آپ نے راجہ سے فرمایا کہ
”اےراجہ ! جو چیز ہماری خود کی بنائی ہوتی ہے، وہ ہمارا معبود کیسے ہوسکتی ہے، ایسی چیز کو معبود سمجھنا اور اس کی پوجا و پرستش کرنا عقلمندی نہیں ہے، ذرا دیکھو! خود ہی انصاف کرو، تعصب کو چھوڑ دو، حقیقت کی نظر سے دیکھو، کیا یہ پتھر کی مورتیاں کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہیں، کیا یہ دعا قبول کرسکتی ہیں؟“
راجہ خاموشی سے آپ کی گفتگو سنتا رہا، کوئی جواب نہ دیا پھر آپ نے راجہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ
”اے راجہ اگر یہ پتھر کی مورتیاں جو تمہارے معبود ہیں اگر میرا حکم مانیں اور میری اطاعت قبول کریں تو پھر تم ان کی پوجا و پرستش سے اجتناب و گریز کروگے، اور صرف معبودِ حقیقی کی ہی عبادت کروگے، معبودِ حقیقی وہ ہے جو کسی سے پیدا نہ ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا، وہ ایک ہے، سب سے بالا ہے، برتر ہے، فنا سے آزاد ہے، بقا اس کے لئے ہے“
یہ سن کر راجہ نے آمادگی ظاہر کی، آپ نے سب سے بڑے بت کو حکم دیا کہ اس کوزہ کو تالاب سے بھر کر لا، بت فوراً ! اٹھا اور کوزہ کو تالاب سے بھر کر لایا، کوزہ میں سارے تالاب کا پانی تھا، تالاب خشک ہوگیا، مچھلیاں اور کچھوے تڑپنے لگے، راجہ یہ دیکھ کر حیران تھا، اس نے آپ سے عرض کیا کہ مچھلیاں اور کچھوے مرے جاتے ہیں، تالاب خش پڑا ہے، مچھلیوں اور کچھوے کی جان بچایئے، یہ سن کر آپ نے حکم دیا کہ کوزہ سے تھوڑا سا پانی تالاب میں ڈال دو، پانی ڈالتے ہی تالاب پھر بھر گیا، آپ کی یہ کرامت دیکھ کر بہت سے لوگ آپ کے حلقے میں داخل ہوئے، آپ پٹن میں رہتے رہے اور رشدوہدایت فرماتے رہے۔
وفات شریف : آپ نے 12 رجب 670ہجری میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا، مزارِ مبارک پٹن میں سرسوتی ندی کے شمال جانب فیوض کا سرچشمہ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.