Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت سید محمود بخاری

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت سید محمود بخاری

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-29

    حضرت سید محمود بخاری مقتدائے ملت ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ کے آباواجداد بخارا میں رہتے تھے، وہاں ایک محلہ تھا جو سیدوں کا محلہ کہلاتا تھا، اسی محلہ میں آپ کے آباواجداد رہتے تھے، آپ کے والدِماجد بخارا کے ایک مقدر خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان پر مذہب کا رنگ بہت غالب تھا۔

    ولادت : آپ بخارا میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔

    نامِ نامی : آپ کا نام سید محمود ہے، آپ بخارا کے تھے اس لئے بخاری کہلاتے تھے۔

    لقب : آپ کا لقب پیر بھڈیات ہے۔

    ضعیفہ کی فریاد : ایک بڑھیا چوکڈی گاؤن میں رہتی تھی، کسی زمانہ میں چوکڈی گاؤں ایک باروق شہر تھا، چوکڈی کا راجہ وہاں کی مسلمان رعایا کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ کرتا تھا، اس سے پہلے جو راجہ تھا وہ غریب پرور تھا اور رعایا کا ہمدرد تھا، وہ ہندو مسلمان میں فرق نہیں کرتا تھا، اس کے بعد جو راجہ ہوئے ان کے میشر اور وزیر دوسرے خیال کے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ راجہ کے خیالات بدل دئیے، ایک دن ایسا ہوا کہ اس بڑھیا کے لڑکے کو راجہ کے حکم سے مار ڈالا گیا، اس کی ماں کو گزارہ ملنا بھی بند ہوگیا، اس ضعیفہ نے چاہا کہ راجہ کے دربار میں جاکر شکایت کرے لیکن اسے دربار میں جانے نہ دیا گیا، قدرتی طور پر اس ضعیفہ کو اپنے بیٹے کے مارے جانے کا بہت رنج تھا، اس نے بددعا دی کہ جب میرا لڑکا نہ رہا تو اب نہ راج رہے گا اور نہ راجہ رہے گا۔

    روانگی : وہ بڑھیا حج کے خیال سے سورت گئی اور پھر وہاں سے مکہ پہنچی، مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ پہنچ کر دربارِ سرورِعالم میں اپنا معروضہ پیش کیا۔

    بشارت : مدینہ منورہ میں ایک دن سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے خوب میں مشرف ہوئی، سرورِعالم نے اس ضعیفہ سے فرمایا کہ

    ”غم نہ کھا، رنجیدہ مت ہو، تو بخارا جا، وہاں میری آل ہے، وہاں محمود کے پاس جانا، وہ تیری امداد کرے گا، نا امید مت ہو“ پھر اس بڑھیا کو بخارا کی جائے وقوع اور نقشہ دکھایا اور محمود نامی شخص کی شکل و صورت بھی اس کو دکھائی گئی۔

    آپ کو بشارت : ادھر آپ کو بشارت ہوئی کہ ایک ضعیفہ میری بھیجی ہوئی تمہارے پاس آرہی ہے، اس کی امداد کرنا پھر سرورِعالم نے آپ کو حکم دیا کہ ہندوستان کا رخ کرو۔

    بڑھیا بخارا میں : وہ ضعیفہ جب بخارا پہنچی تو آپ کو تلاش کرنے لگی، ادھر آپ خود اس ضعیفہ کا انتظار کر رہے تھے، آپ جب اس کی تلاش میں نکلے تو وہ ضعیفہ راستہ میں ملی، اس نے آپ کو دیکھ کر پہنچان لیا کہ یہ تو وہی محمود ہیں جن کو خواب میں دیکھ چکی ہوں۔

    ہندوستان کو روانگی : آپ اپنے والدین، عزیز اور دوستوں سے رخصت ہوکر ہندوستان روانہ ہوئے، کچھ لوگ آپ کے ساتھ ہولئے، احمدآباد پہنچ کر کچھ دن وہاں قیام کیا پھر احمدآباد سے ڈھولکہ پہنچے، ڈھولکہ سے ڈھولا را بندر پہنچے اور نمازِ شکرانہ ادا کی اور بارگاہِ ایزدی میں دعا کی کہ

    ”اے رب العزت اور اے چارۂ بے چارگان ! تیرے بھروسے پر ہم سب یہاں آئے ہیں، تیرے نام کی عظمت کے لئے ہم نے گھر بار چھوڑا تو ہم کو فتح دے اور ہم کو کامیاب و کامراں و سرخرو کر“

    صبح کی نماز کے بعد سب نے مل کر مشورہ کیا کہ کیا کرنا چاہئے، کسی نے کہا کہ فوراً حملہ کردیا چاہئے اور کسی نے کہا کہ حالات کا جائزہ لینا چاہئے، آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جنگ اسلامی اصول کے مطابق ہونا چاہئے۔

    راجہ کو خط : آپ نے راجہ کے نام ایک خط لکھ کر دو سواروں کو راجہ کے پاس وہ خط دینے کے لئے بھیجا، اس خط کا مضمون یہ تھا کہ

    ”ساری تعریف و توصیف اللہ کے لئے ہے، اللہ ایک ہے، وہ بے نیاز ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ نہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ کوئی اس سے پیدا ہوا، اللہ بزرگ و برتر کے محبوب پیغمبر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، وہ آخری پیغمبر ہیں، میں تم کو اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔۔۔۔اور تم کو چاہئے کہ رعایا کو اپنی اولاد کی طرح سمجھو، رعایا پر ظلم و ستم کرنا چھوڑ دو، رعایا کی دعا لو۔۔۔یہ بھی تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم تم سے کچھ نہیں چاہتے، نہ تمہارا تاج و تخت چاہئے، نہ تمہاری دولت چاہئے اور نہ تمہاری زمیں۔۔۔۔اگر تم نہیں مانتے تو پھر جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ‘‘

    خط کا جواب : راجہ نے جواب دیا کہ

    ”میں گجرات کا بادشاہ ہوں، یہاں بہادر ہوں اور میری فوج کی بہادری سے تم لوگ واقف نہیں، تم کو معلوم ہونا چاہئے کہ تم کو تمہاری موت یہاں لائی ہے، مجھ کو تم پر رحم آتا ہے، اب بھی وقت ہے واپس چلے جاؤ اور اگر لڑنے آئے ہو تو لڑو، کہیں ایسا نہ ہوکہ لڑائی کے میدان سے تم لوگ منہ چھپا کر بھاگ جاؤ“

    جنگ کا آغاز : اب جنگ کی تیاری پوری طرح شروع ہوئی، آپ کے لشکر میں سو آدمیوں سے زیادہ نہ تھے، ادھر اللہ اکبر کے نعرے تھے اور ادھر جنگ کے طبل بج رہتے ھے، آپ خود لشکر کے سردار تھے، آپ انتظار میں تھے کہ آپ پر حملہ ہو تو آپ جنگ کریں، ہوا ایسا کہ راجہ کے لشکر نے آپ کے لشکر کو گھیر لیا، اب آپ نے اعلان کردیا کہ حجت پہلے ختم کی جب خط بھیجا اور اب ہم پر حملہ ہو ہے، اب ہمارے لئے جنگ واجب ہے، آپ والہانہ طور پر تلوار چلا رہے تھے، آگے بڑھتے بڑھتے راجہ کے پاس پہنچ گئے اور ایک مرتبہ پھر اس کو دعوتِ حق دی، راجہ نے جواب دیا کہ تم محض ایک کنکر ہو اور میں ایک پہاڑ ہوں، غرض لڑائی گھمسان کی ہورہی تھی، راجہ کا وار خالی گیا پھر آپ نے راجہ پر تلوار سے حملہ کیا جس سے راجہ کی گردن جسم سے الگ ہوگئی۔

    بشارت : آپ کو فتح حاصل ہوئی لیکن شہادت نہ ملی، اس بات کا آپ کو افسوس تھا، رات کو سرورِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے اور آپ کو شہادت کی بشارت دی اور فرمایا کہ گھبراتا کیوں ہے، میں ترے ساتھ ہو اور آپ کو جنت بھی دکھائی۔

    شہادت : اس بشارت کے بعد تو آپ بہت خوش تھے، آپ رات کے وقت اپنے خیمہ میں آرام فرما رہے تھے، راجہ کا بھائی جو میدانِ جنگ سے فرار ہوگیا بدلہ لینے کی غرض سے واپس آیا اور آپ کے خیمہ میں داخل ہوکر آپ کو شہید کردیا، صبح کو آپ جب نماز کے لئے باہر نہ آئے تو ساتھیوں کو فکر ہوئی، اندر جاکر دیکھا تو آپ جامِ شہادت نوش کئے لیٹے تھے۔

    تجہیزوتکفین : جنازہ تیار کرکے آپ کے ساتھ بخارا روانہ ہوئے تاکہ وہاں جاکر سپردِ خاک کریں راستے میں بھڈیات پڑا، بھڈیات میں وہ لوگ رُکے، تالاب کے کنارے جنازہ رکھا اور نماز پڑھی، نماز سے فارغ ہوکر جو جنازہ اٹھایا تو جنازہ اتنا بھاری تھا کہ اٹھائے نہ اٹھتا تھا، بہت کوشش کی لیکن جنازہ اٹھا نہ سکے، لوگ حیران تھے کہ کیا کریں، اتنے میں غیب سے آواز آئی کہ ”بھڈیات میں ہی دفن کر دو، لوگ اُن سے فیض پائیں گے“ چنانچہ آپ کو بھڈیات میں دفن کیا گیا، بھڈیات میں آپ کا مزار مرجعِ خلائق ہے، ہر سال آپ کا عرس ہوتا ہے اور مزارِمبارک پر جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے