حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی
دلچسپ معلومات
دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 15
حضرت شاہ عبداللہ محدث دہلوی عالمِ ربانی، مرتاضِ حقانی ہیں، آپ شیخ العصر اور علامۃ الدہر تھے۔
خاندانی حالات : آپ بخارا کے ایک معزز خاندان سے ہیں، آپ کے دادا آغا محمد خاندنی دولت اور عظمت کے ساتھ ساتھ روحانی اور علمی دولت سے بھی سرفراز تھے، وسطِ ایشیا کے لئے تیرہویں صدی عیسوی ایک پُرآشوب دور تھا، قتل اور غارت گری عام تھی، آپ کے دادا آغا محمد مغلوں کے جبرواستبداد سے پریشان ہوکر بخارا چھوڑنے پر مجبور ہوئے، سلطان علاؤالدین خلجی کے زمانے میں ہندوستان آئے، شاہی دربار میں رسائی ہوئی، سلطان علاؤالدین خلجی نے آپ کو اور دیگر خاص لوگوں کو گجرات فتح کرنے کے لئے بھیجا، گجرات کی فتح کے بعد آپ نے وہیں بودوباش اختیار کی، آپ کے ایک سو ایک بیٹے تھے سو بیٹوں کا انتقال ہوگیا، اس جانکاہ صدمہ نے آپ کو گجرات میں نہ رہنے دیا، آپ نے اپنے ایک بیٹے کو ساتھ لے کر دہلی آئے، آپ نے 17 ربیع الثانی 739ھ کو انتقال فرمایا۔
والد ماجد : آپ کے والدماجد کا نام مولانا سیف الدین ہے، آپ ایک اچھے شاعر اور ایک بڑے عالم ہونے کے علاوہ ایک صاحبِ دل بزرگ بھی تھے۔
ولادت : آپ کی ولادتِ باسعادت محرم 958ھ میں ہوئی، آپ کا نام عبدالحق ہے۔
تعلیم و تربیت : آپ کے والد بزرگوار نے آپ کی تعلیم و تربیت پر کافی توجہ کی، آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد کی آغوش میں ہوئی، آپ بہت ذہین تھے، چند ماہ میں قرآن مجید ختم کرلیا اور بہت کم مدت میں حفظ کرلیا، آپ نے اٹھارہ سال کی عمر میں علومِ ظاہری کی تحصیل سے فراغت پائی۔
حجِ بیت اللہ : آپ کو حج کا شوق ہوا، حج کے ارادے سے آپ دہلی سے روانہ ہوئے، آپ رمضان 996ھ میں شیخ عبدالوہاب منقی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہوئے، علمِ باطنی کی تعلیم آپ نے شیخ عبدالوہاب منقی سے حاصل کی، تصوف کی کتابیں ان سے پڑھیں اور ان کی نگرانی میں حرم شریف میں عبادت کی، آپ خاص مقامات پر حاضر ہوکر دعا بھی کرتے تھے، آپ فرماتے ہیں کہ
”یہ فقیر جب مکہ معظمہ میں تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت کدہ پر جسے بیتِ خدیجہ کہتے ہیں اور وہ مکہ شریف میں بیت اللہ کے بعد سب مقامات سے افضل ہے وہاں حاضر ہوکر کھڑا ہوجاتا تھا اور فقیروں کی طرح چیختا تھا اور یہ کہتا تھا کہ اے رسول اللہ ! کچھ مرحمت کیجئے اور یارسول اللہ ! یہ فقیر آپ کا سائل اور آپ کے دروازے پر حاضر ہے جو کچھ اس وقت سوجھتی تھی اور زبانِ حال گویائی دیتی تھی طلب کرتا تھا اور دامنِ امید بھر کر واپس آتا تھا۔
بیعت و خلافت : آپ کے والدبزرگوار آپ کے پہلے روحانی مرشد و پیشوا ہیں، اپنے والدماجد کے حکم کے مطابق آپ حضرت سید موسیٰ گیلانی سے بیعت ہوئے اور ان کی خصوصی توجہ سے مستفید ہوئے جب مکہ معظمہ پہنچے وہاں حضرت شیخ عبدالوہاب منقی کے دستِ حق پرست پر بیت کی، کچھ دنوں کے بعد حضرت شیخ عبدالوہاب منقی نے آپ کو چشتیہ قادریہ شاذلیہ سلسلہ کی خلافت عطا فرمائی، اس طرح سے آپ چاروں سلسلوں یعنی چشتیہ، قادریہ، شاذلیہ اور نقشبندیہ سے وابستہ ہوگئے۔
بشارت : آپ فرماتے ہیں کہ
”مجھے خواب میں حضرت غوث الاعظم نے حضور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر مرید کیا تھا، بیعت ہونے کے بعد حضور سرورِ کائنات نے فارسی زبان میں مجھے بشارت دی ”بزرگ خواہی شد“ یعنی تو بزرگ ہوگا۔
واپسی دہلی : حضرت شیخ عبدالوہاب منقی کا اشارہ پاکر آپ دہلی تشریف لائے، دہلی میں آپ نے ایک مدرسہ قائم کیا جہاں مذہبی تعلیم دی جاتی تھی، آپ نے دہلی میں تمام عمر درس و تدریس، رشدوہدایت اور تصنیف و تالیف میں گزاری۔
اولاد : آپ کے صاحبزادے شیخ نورالحق صاحبِ دل بزرگ تھے۔
وفات شریف : آپ 21 ربیع الاول 1051ھ کو واصل بحق ہوئے، آپ کا مزار مہرولی میں حوضِ شمسی کے دہنے کنارے زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔
سیرتِ پاک : آپ ایک عالمِ باعمل تھے، صاحبِ حال اور صاحبِ نسبت بزرگ تھے، عبادت اور ریاضت میں بہت مشغول رہتے تھے، ہندوستان میں آپ محدث کہلائے، آپ کو علمِ حدیث پر کافی عبور تھا اور آپ نے اس علم کو پھیلانے میں سعیٔ بلیغ کی۔
علمی ذوق : آپ کے علمی ذوق کا پتہ آپ کی تصانیف سے چلتا ہے، آپ کی تصانیف بہت ہیں، بعض نے آپ کی تصانیف کی تعداد سو سے زیادہ بتائی ہے، آپ کی تصانیف مختلف موضوعات پر ہیں، آپ کی مشہور تصانیف حسبِ ذیل ہیں۔
اصولِ حدیث، مرج البحرین، رسالہ اور مسئلہ سماع، رسالہ در مسئلہ وحدتِ وجود، اخبارالاخیار فی اسرارالابرار، لطائف الحق، اسماالرجال، مدارج النبوۃ، جامع البرکات، تکمیل الایمان۔
آپ کی تعلیمات : آپ فرماتے ہیں کہ
”جمہورِ محدثین کی اصطلاح میں حدیث کا اطلاق رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل و تقریر پر ہوتا ہے جس حدیث کی سند رسولِ خدا تک پہنچی اس کو مرفوع کہتے ہیں اور جس کی سند صحابی تک پہنچی، اس کو موقوف بولتے ہیں جس حدیث کی سند تابعی تک پہنچی اس کو مقطوع بولتے ہیں جو شخص سنت کے ساتھ مشغول ہے اور کو محدث اور جو تواریخ کے ساتھ مشغول ہے اس کو اخباری کہتے ہیں۔
حدیث کے اقسام : آپ فرماتے ہیں کہ
”حدیث کے اقسام میں سے شاذ، منکر، معلل ہے“ اور حدیث کی اصل اقسام تین ہیں، صحیح، حسن، ضعیف۔
راوی : آپ فرماتے ہیں کہ
”حدیثِ صحیح کا راوی اگر ایک شخص ہے تو وہ حدیث غریب ہے اور اگر دو راوی ہیں تو عزیز ہے اور اگر دو سے زیادہ راوی ہیں تو مشہور ہے اور اگر حدیث کے راوی کثرت میں اس حد کو پہنچ جاویں کہ عادت محال سمجھے ان کے اتفاق کرنے کو جھوٹ پر توا یسی حدیث کو متواتر کہتے ہیں“
چھ کتابیں : آپ فرماتے ہیں کہ
”وہ چھ کتابیں جو اسلام میں مقرر و مشہور ہیں جن کو صحاِ سِتہ کہتے ہیں، ان کے نام یہ ہیں، صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابو داؤد، نسائی، سنن ابن ماجہ اور بعض کے نزدیک ابن ماجہ کی جگہ مؤطا امام مالک ہے“
سیدھا راستہ : آپ فرماتے ہیں کہ ”سالک کو راہِ سلامت اور طالب کو سبیلِ استقامت یہ ہے کہ خوضِ فلسفیات کو حرام جانے اور زیادتی دلائلِ کلامیہ سے پرہیز کرے اور دروازہ قیل و قال اہلِ بحث و جنگ و جدال کا بند رکھے، عقائد اہلِ سنت و جماعت میں یہی کافی ہے کہ دلائلِ اجمالیہ پر اکتفا کرے اور اسی کے اتباع میں رہے اور عقل کو معاملاتِ شریعت و احکامِ کتاب و سنت میں معزول جانے اور منقول کو تابع معقول نہ کرے اور تاویل و تشکیک سے باز رہے اور دائرۂ اعتقاد و انقیاد سے باہر نہ جاوے اور اپنی فہمِ قاصر و عقلِ ناقص پر اعتماد نہ کرے“
تطابقِ شریعت و طریقت : آپ فرماتے ہیں کہ
”یہ گمان نہ کریں کہ طریقۂ تصوف کا مخالف مذہب شریعت اور کتاب و سنت کے ہے، حاشا و کلّا ہر گز دونوں فرقوں میں سرمو مغایرت نہیں اور نہ کسی قسم کی باہم مبا بنت ہے، خاص و خلاصہ اس ملت کے صوفیائےکرام ہیں کہ وہ ظاہراً و باطناً چننے والے نورِ سنت اور کھولنے والے پردوں حقیقت کے ہیں اور سلوکِ طریقت میں عملاً اور تحقیقِ معنیٰ میں تصدیقاً و اخلاص میں یقیناً اور جاننے مکر نفس میں صریحاً اور واقفیت و آگاہی و رع و تہذیب اخلاق میں یکتا ہیں، سوائے اس کے کہ تزکیۂ ظاہر و تصفیۂ باطن و تخلیہ قلب و تزکیہ روح میں کوئی شخص ان سے سبقت نہیں لے گیا ہے اور جیسا کہ ان کو اعمال و احوال اور اخلاق و مقامات اور وجد و ذوق و نکات و اشارات بلکہ تمام کمالات نے ہاتھ دیا ہے ایسا کسی فرقہ کو نہیں دیا“
اقوال : آپ کے چند اقوال حسبِ ذیل ہیں۔
خوش نصیبی اور کامیابی اور بلند اقبالی اور نیک بختی کی شانی بزرگوں کی ملاقات ہے۔
اکثر آدمی غیرت اور عزت کی وجہ سے پرہیز گاری اور نیک بختی کے پردے میں رہتے ہیں۔
فکر سے خالی بیٹھنا اور قوتِ ذہینہ سے کام نہ لینا بھی نکمی بات ہے اور قوتِ نظری یعنی ذکاوت کے زائل ہونے کا سبب ہے۔
نعمت کی بے قدری موجبِ عتابِ باری ہے۔
ایک شے سے دھیان لگانا اور اس کو بخوبی حاصل کرنا اس کے ما سوا کے زائل کرنے کا سبب ہے۔
دل کی یک سوئی وحدت میں ہے اور پریشانی اور فتور کثرت میں۔
سب سے زیادہ بری چیز ناقصوں کی صحبت ہے اور اس بارے میں ناقص میرے نزدیک وہ شخص ہے جس کو کمال کا غم اور اپنے حال پر افسوس نہیں۔
محبتِ دنیا و اعتقادِ عقل و اطاعت نفس کی موجب کفروضلالت ہے۔
اورادووظائف : آپ یہ درود شریف پڑھا کرتے تھے کہ
الّلٰھم صلی علی سیدنا محمدٍ بعدَ دِ کلِ ذَرّۃٍ الفَ الفَ مَرَّۃٍ“
ترجمہ : اے اللہ پاک جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر ذرے کے شمار کے برابر ہزار دفعہ رحمت نازل کر۔
آپ فرماتے ہیں کہ علم، قدرت اور رحمت، اللہ پاک کی تین صفتیں ہیں، طالب مقصود کے لئے ضروری ہے کہ ان تینوں کی طرف توجہ رکھے اور رحمت حاصل کرتا رہے لیکن ان صفتوں کی طرف نظر کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اپنی کیفیت فتور ڈالے۔
آپ فرماتے ہیں کہ
”اللہ کی وحدت اور اس کے ذکر کی طرف رخ کرے اور کہے لا الٰہَ اِلّا اللہُ محمد رسول اللہ اور کمالِ یک سوئی سے اس کلمہ کی تکرار کرے اور اس ذکر میں غرق ہوجائے، اس کے بعد صرف لا اِ لٰہَ اِلّا اللہُ کا ذکر کرے اور اگر ہوسکے تو اپنے تئیں اس پر قائم کرے اور اقرار دے، مجھ سے تو رسول اللہ کا جملہ چھوڑا نہیں جاتا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کو میں ترک نہیں کرسکتا اور لا الہ الا اللہ کے حرف پر نہیں ٹھہرسکتا کیوں کہی حضور نور لا الٰہَ اِلا اللہ ُ کے نور میں اور حضور کی یاد اس کے جمال اور کمال کو زیادہ کرتی ہے“
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.