حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری
دلچسپ معلومات
دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 3
حضرت قاضی حمیدالدین ناگوری جامع کمالاتِ معنوی و صوری ہیں، آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے استاد ہیں، آپ ایک بہت بڑے عالم تھے اور ساتھ ہی ساتھ ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔
خاندانی حالات : آپ بخارا کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
والد ماجد : آپ کے والد ماجد کا نام عطا اللہ محمود ہے، آپ بخارا کے بادشاہ تھے، اسی لئے آپ سلطان عطاؤاللہ محمود کہلاتے تھے۔
نسب نامۂ پدری : آپ کا نسب نامہ پدری حسب ذیل ہیں۔
شیخ محمد بن سلطان عطاؤاللہ محمود بن سلطان احمد بن سلطان محمد بن شیخ یوسف بن شیخ طیب بن شیخ اسمٰعیل بن طاہر بن یعقوب بن اسحٰق بن اسمٰعیل بن قاسم بن محمد بن امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق بن قحافہ بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تمیم بن مرّہ۔ کہ (جد ہفتم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)
ولادت شریف : آپ 463ھ میں پیدا ہوئے۔
نام : آپ کا نام محمد ہے۔
خطاب : آپ مدینہ منورہ میں حاضر تھے، آپ کو ”قاضی حمیدالدین ناگوری“ کا خطاب بارگاہِ رسالت سے عطا ہوا، آپ اسی خطاب سے مشہور ہوئے۔
ابتدائی زندگی : آپ نے اپنے والد ماجد کے سایۂ عاطفت میں پرورش پائی، آپ کے والدماجد نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی۔
تخت نشینی : آپ کے والدماجد نے کچھ تو ضعیفی کی وجہ سے اور کچھ محبت کی وجہ سے آپ کو تخت پر بٹھا کر خود حکومت سے کنارہ کش ہوگئے، اس وقت حضرت قاضی صاحب کی عمر باون سال کی تھی، آپ نے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیا۔
پہلا صدمہ : آپ کی شریکِ حیات بی بی ماہرو نے داعی اجل کو لبیک کہا، حضرت قاضی صاحب کے لئے یہ صدمہ ایسا تھا کہ جس سے ان کی زندگی اور ان کے خیالات میں کافی تبدیلی واقع ہوئی۔
زندگی میں کایا پلٹ : بیوی کے انتقال کے بعد حضرت قاضی صاحب اکثر تنہائی میں بیٹھ کر موت اور زندگی کے فلسفہ کے متعلق سوچا کرتے تھے، اب آپ کو محسوس ہوا کہ دنیا ناپائیدار ہے، یہاں کی ہر چیز فانی ہے پھر خالق سے کیوں دل نہ لگایا جائے جس کو فنا نہیں، آپ انہیں خیالات میں رہتے تھے، ایک دن شکار کے لئے نکلے، آپ نے ایک ہرن کا پیچھا کیا آپ نے اس کے ایک یتر مارا، وہ زخمی ہوا، جب آپ اس ہرن کے قریب پہنچے تو اس ہرن نے آپ سے مخاطب ہوکر کہا کہ
”اے عزیز! تو بندۂ پروردگار ہے، مجھ بے گناہ کو کیوں مارا؟ اپنے پروردگار کو کیا جواب دے گا“ آپ محل واپس آئے، تخت و تاج کو ٹھکرا کر تلاشِ حق میں نکلے۔
کرمان میں قیام : بخارا سے رونگی کے وقت آپ کے والدماجد بھی آپ کے ساتھ ہولئے، آپ کرمان پہنچے، کرمان میں آپ نے خواجہ ابوبکر کرمانی کے یہاں قیام فرمایا کہ کرمان میں آپ کی دوسری شادی خواجہ ابوبکر کرمانی کی لڑکی بی بی حمیرا سے ہوئی۔
تلاشِ حق : آپ نے اپنے اہل و عیال کو کرمان میں چھوڑا اور خود مع والد بزرگوار کے تلاشِ حق میں نکلے، حضرت خواجہ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ محمد بن عطا یعنی حضرت قاضی صاحب کو علم لَدُنّی تعلیم کرو، حضرت خواجہ خضر نے بارہ برس تک آپ کو اپنی خدمت میں رکھا اور تعلیم دی، جب تعلیم پوری ہوگئی، خضر علیہ السلام نے آپ کو بغداد جانے کا حکم دیا۔
بیعت و خلافت : جس وقت آپ بغداد پہنچے، آپ کے پاس اپنی چار تصانیف تھیں، بغداد میں آپ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کی بیعت سے مشرف ہوئے، آپ کے پیرومرشد نے سرورِ عالم کا جبۂ مبارک آپ کو عطا فرمایا، آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔
زیارتِ حرمین شریفین : بغداد سے آپ مکہ معظمہ گئے، حج کا فریضہ بجا لائے، وہاں سے مدینہ منورہ گئے، مدینہ منورہ میں آپ نے ایک سال دو مہینے اور سات دن قیام کیا، ایک روز آپ کو بارگاہِ رسالت سے قاضی حمیدالدین ناگوری کا خطاب عطا ہوا، آپ ناگور سے واقف نہ تھے، جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ ناگور ہندوستان میں ہے تو آپ نے ہندوستان کا ارادہ کیا۔
ہندوستان میں آمد : مدینہ منورہ سے آپ مکہ معظمہ آئے، حج کیا اور تین سال تک وہاں قیام کیا، وہاں سے روانہ ہوکر بغداد آئے اور پانے پیرومرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے، بغداد سےمع جبۂ مبارک ہندوستان کے لئے روانہ ہوئے، راستے میں کرمان پڑتا تھا، وہاں چند روز قیام فرمایا، کرمان سے اپنے اہل و عیال اور والدِ بزرگوار کو ساتھ لے کر پشاور پہنچے، پشاور میں کچھ عرصہ قیام کیا، اپنے اہل و عیال اور والد ماجد کو وہیں چھوڑا اور خود حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اور دیگر بزرگانِ کے ساتھ ہندوستان میں داخل ہوئے۔
ناگور میں تشریف آوری : آخر کار آپ 561ھ میں ناگور میں جلوہ افروز ہوئے اور ایک بوڑھی عورت کے یہاں جو قوم کی تیلن تھی قیام فرمایا، ناگور کو آپ نے اپنی روحانی قوت سے فتح کیا، لوگوں نے آپ کا پیغامِ حق قبول کیا۔
اوش و بغداد کو روانگی : ناگور میں آپ نے کچھ دنوں قیام فرمایا، ایک دن حضرت قاضی صاحب کو ہاتفِ غیب سے آواز آئی کہ
”اوش پہنچ کر ہمارے قطب کو تعلیم کرو“
آپ فوراً روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کو بسم اللہ پڑھائی، حضرت قطب صاحب کو پندرہ پارے یاد تھے، آپ نے باقی پندرہ پارے حضرت قطب صاحب کو پڑھائے، حضرت قطب صاحب کی تعلیم کے بعد آپ بغداد روانہ ہوگئے۔
دہلی میں آمد : بغداد سے آپ دہلی روانہ ہوئے، راستے میں پشار میں قیام فرمایا، پشاور سے اپنے اہل و عیال اور والد ماجد کو ہمراہ لے کر دہلی تشریف لائے، دہلی میں آپ نے ایک دھوبی کا مکان خریدا اور اس میں رہنے لگے۔
والد ماجد کا انتقال : آپ کے والد ماجد کا انتقال دہلی میں ہوا۔
دہلی میں سماع کی محفلیں : حضرت قطب الدین بختیار کاکی اور حضرت قاضی صاحب نے دہلی میں سماع کی محفلیں منعقد کیں، قاضی سعد اور قاضی عماد نے اعتراض کیا، بحث و مباحثہ کے بعد یہ طے پایا کہ پہلے حضرت قاضی صاحب بغداد جاکر سماع جاری کرائیں پھر دہلی میں اعتراض کی گنجائش نہیں رہے۔
بغداد کو روانگی : حضرت قاضی صاحب بغداد روانہ ہوئے، بغداد پہنچ کر آپ نے اپنے ایک مرید کے یہاں قیام فرمایا، بغداد میں سماع کی سخت ممانعت تھی، آپ نے مرید کے یہاں شہنائی سنی، آپ کو تواجد ہوا، جب اس کی خبر شہر میں پھیلی، وہاں ایک شور برپا ہوا، حضرت قاضی صاحب نے اپنے مرید کے یہاں ایک مجلسِ سماع کرائی اور اس میں مفتی، قاضی اور شہر کے دیگر لوگوں کو بلایا، بحث و مباحثہ کے بد حضرت قاضی صاحب کی رائے سے سب نے اتفاق کیا کہ الِ حق کو سماع حلال ہے اور نا اہل کو سماع حرام ہے، اس دعوت میں حضرت قاضی صاحب نے بہتر مزامیر جمع کئے تھے اور مکان کے صحن میں ان پر سرپوش رکھ کر رکھ دئے تھے، جب قاضی صاحب نے ان مزامیر کی طرف توجہ کی وہ آواز دینے لگے، حاضرین پر وجد طاری ہوا، سب نے اقرار کیا کہ سماع اہل کے واسطے مباح ہے اور اہلیت ایک ایسی چیز ہے جس کو سوائے حذا کے اور کوئی جانتا جو سماع کا اہل ہوتا ہے وہ اس کے اہل کو پہنچان لیتا ہے، عام لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔
واپسیٔ دہلی : بغداد سے حضرت قاضی صاحب دہلی واپس آئے، حضرت قطب صاحب اور آپ سماع سنتے تھے، حضرت قاضی صاحب کا اقتدار بعض لوگوں کو ناگوار تھا، انہوں نے سماع کی آڑ میں آپ کی مخالفت شروع کی، قاضی سعد اور قاضی عماد کو حضرت قطب صاحب کی ایسی بد دعا لگی کہ ان دونوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔
آپ کا ناگور کا قاضی ہونا : سلطان شمس الدین التمش نے آپ کو ناگور کا قاضی مقرر کیا، آپ نے اس عہدہ کو قبول کیا، تیس سال تک آپ نے قضا کے عہدے کو زینت بخشی، آپ نے قصبہ رحل آباد کیا، بہ فرمانِ سرورِ عالم آپ حرمین شریف چلے گئے اور قضا کا عہدہ اپنے دوسرے لڑکے مولانا ظہیرالدین صاحب کو سپرد فرمایا، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے دہلی واپس تشریف لائے۔
ازواج و الاد : آپ نے دو شادیاں کیں، آپ کی پہلی شادی بی بی ماہرو سے ہوئی تھی، آپ کی دوسری شادی بی بی حمیرا سے ہوئی، ان سے سات لڑکے اور دو لڑکیاں ہوئیں، لڑکوں کے نام حسبِ ذیل ہیں۔
مولانا ناصح الدین، مولانا احمد ظہیر الدین، شیخ علیم الدین، شیخ حسام الدین، شیخ وجیہ الدین، شیخ عبداللہ
لڑکیاں : بی بی الدیہ، بی بی صاحب دولت۔
وفاتِ شریف : نمازِ تراویح میں آپ نے قرآن شریف ختم کیا، نماز کے بعد سجدہ کیا اور سجدہ میں انتقال فرمایا، لوگ یہ سمجھتے رہے کہ آپ سجدہ میں ہیں، آپ کی وفات کا حل بہت دیر میں معلوم ہوا، آپ نے 19 رمضان 643ھ میں وصاف فرمایا، بوقتِ وفات آپ کی عمر ایک سو اسی سال کی تھی، آپ کا مزارِ مبارک مہرولی میں واقع ہے۔
آپ کے خلفا : آپ کے خلفا حسبِ ذیل ہیں۔
شیخ احمد نہروانی، شیخ عین الدین قصاب، شیخ شاہی موئے تاب، شیخ محمود موتینہ دوز۔
سیرتِ پاک : حضرت قاضی صاحب، صاحبِ دل ہونے کے علاوہ صاحبِ علم بھی تھے، آپ کو سماع کا بہت شوق تھا، دہلی میں سماع کا سکہ آپ ہی نے جمایا تھا۔
آپ کا علمی ذوق : سماع کے بارے میں آپ نے بہتر رسالے لکھے ہیں، آپ کی مشہور تصانیف حسبِ ذیل ہیں۔
طوالع الشموس شرح اسمائے حسنہ، لوامع، لوائح، مطالع شرح چہل حدیث، کتاب ہفت احباب، رسالہ (قاضی حمیدالدین ناگوری)
آپ کی تعلیمات : آپ کی تعلیمات، اسرارِ حقیقت و معانی طریقت کا بیش بہا خزانہ ہیں۔
خدا کے ساتھ معاملہ : ”جس شخص کا خدا کے ساتھ معاملہ ہے، اس کی بات کسی کے دل میں اثر نہیں کرتی، تو معلوم کر کہ نماز میں تکبیر مقام ہیبت ہے، قیام مقام قربت ہے۔ قرأت مقام مکالمت ہے، رکوع مقامِ خوف ہے، سجود مقامِ مشاہدہ ہے، قعود مقامِ الفت“
چار قبلے : آپ نے فرمایا کہ قبلے چار ہیں۔
1۔ قبلہ حوارج ہے جو تمام مؤمن مسلمانوں پر فرض ہوا، جس کی طرف نماز پڑھتے ہیں۔
2۔ قبلہ دل ہے کہ اصحابِ طریقت کو اس سے توجہ ہے اور اس میں ان کی مشغولی ہے۔
3۔ قبلہ پیر ہے کہ مریدوں کی توجہ شیخ کی جانب ہو۔
4۔ قبلہ وجہ اللہ ہے اور تمام قبلوں کو محو کرنے والا ہے اور رسل و انبیا و جملہ اخصِ اؤلیا کی توجہ اس جانب ہے۔
بعض اقوال : آپ کے بعض اقوال حسبِ ذیل ہیں۔
فراموشیٔ نفس یادِ حق ہے، پس وہ دل نہیں مرتا جو اس صفت سے متصف ہو جس کو یادِ حق نہیں ہے، وہ فانی ہوگا۔
ہر چیز کی غایت ہے اور غایت عبادت کی عقل ہے، اس واسطے کہ عبادت بے علم رنج و بیہودہ ہے اور علم بے عقل دردِ سر ہے، اور حجب روزِ قیامت یہی عقل ہے۔
احوال درویش بساریٔ محبت و شیوخ ہے، جب دریشوں کو محبت غالب ہوتی ہے، دوست کی تجلی میں اس طرح محو ہوجاتے ہیں کہ اس وقت دوسرے کسی کا خیال نہیں رہتا۔
روزہ، مجازی کھانے پینے سے باز رہنا ہے، روزہ حقیقی خواب و بیداری میں اور اٹھتے بیٹھتے عبادت میں رہنا ہے۔
کرامات : بغداد سے دہلی آتے ہوئے آپ کو ایک جوگی جس کا نام گیان ناتھ تھا ملا، اس نے آپ کو کسی گھاس کی جڑ پیش کی، جس سے اکسیر بنتی تھی، حضرت قاضی صاحب نے وہ جڑی دریا میں پھینک دی، جوگی نے افسوس کیا، آپ نے دریا میں ہاتھ ڈال کر اس جڑی کو نکال دیا پھر آپ نے اس سے آنکھیں بند کرنے کو فرمایا جب اس نے آنکھیں بند کرکے کھولیں وہ عرش سے تحت الثریٰ تک دیکھ سکتا تھا، ہر چہار طرف سونا نظر آتا تھا، وہ جوگی بہت متاثر ہوا اور آپ سے بیعت ہوا۔
ایک مرتبہ دہلی میں بارش نہیں ہوئی، بادشاہ نے مشائخ سے دعا کی درخواست کی، حضرت قاضی صاحب نے سماع کی فرمائش کی، بادشاہ نے کھانے اور سماع کا انتطام کیا، کھانے کے بعد سماع شروع ہوا، ایسی بارش ہوئی کہ لوگ کہنے لگے کہ اب رک جائے تو بہتر ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.