حضرت امیر خسرو
دلچسپ معلومات
دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 8
حضرت امیر خسرو بادشاہِ سلطنتِ شمائل ہیں، خسرو مملکتِ فضائل ہیں، آپ حضرت نظام الدین اؤلیا کے مرید اور خلیفہ ہیں۔
خاندانی حالات : آپ ہزارہ بلخ کے ایک ممتاز خاندان سے وابستہ تھے، علم اور دولت اس خاندان کی خصوصیات ہیں۔
والدِماجد : آپ کے والدماجد کا نام امیر سیف الدین محمود ہے، آپ ہزارہ بلخ کے امیر زادوں میں سے تھے، چنگیز خاں کے زمانے میں ہندوستان تشریف لائے اور شاہی دربار میں ممتاز عہدے پر فائز ہوئے۔
بھائی : آپ کے دو بھائی تھے، ایک بھائی کا نام اعزازالدین علی شاہ ہے اور دوسرے بھائی کا نام حسام الدین ہے۔
پیدائش : آپ مومن آباد میں جو اب پٹیالی کے نام سے مشہور ہے پیدا ہوئے آپ کا نام ابوالحسن ہے۔
لقب : آپ کا لقب یمین الدین ہے۔
تعلیم و تربیت : آپ نے والدبزرگوار کے سایۂ عاطفت میں تعلیم و تربیت پائی، جب آپ کی عمر نو سال کی ہوئی، والد کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیا، والد کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ کے ایک دور کے رشتہ دار نے آپ کی تعلیم و تربیت پر کافی التفات اور توجہ دی، عمادالملک جو اپنے ہم عصروں میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے تھے اور جن کی عمر ایک سو تیس سال کی تھی، آپ کے جدِ مادری تھے، آپ کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی۔
بیعت اور خلافت : جب آپ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی، آپ کے والد آپ کو اپنے ہمراہ لے کر حضرت نظام الدین اؤلیا کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ چاہتے تھے کہ اپنے پیر کا انتخاب خود کریں، آپ کے والد یہ سن کر حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں اندر چلے گئے لیکن آپ دروازہ پر باہر بیٹھ کر کچھ اشعار لکھنے لگے، آپ نے وہاں بیٹھے بیٹھے حسبِ ذیل قطعہ لکھا۔
تو آں شاہی کہ بر ایوان قصرت
کبوتر گر نشیند باز گردد
غریبے مستمندے بر در آمد
بیاید اندروں یا باز گردد
آپ سوچنے لگے کہ حضرت محبوبِ الٰہی شیخِ کامل ہیں تو آپ کے اشعار کا جواب دیں گے اور آپ کو اپنے پاس بلائیں گے، حضرت محبوبِ الٰہی نے اپنے ایک خادم سے فرمایا کہ باہر جو لڑکا بیٹھا ہے اس کے پاس جا کر یہ اشعار پڑھ دو۔
بیاید اندروں مردِ حقیقت
کہ بامایک نفس ہمراز گردد
اگر ابلہ بود آں مردِ ناداں
ازاں راہے کہ آمد باز گردد
آپ نے جب یہ اشعار سنے فوراً حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوئے، بیعت سے مشرف ہوئے، خلوص، اعتقاد اور محبت نے اپنا کام کیا اور کچھ ہی دنوں میں آپ کو اپنے پیر ومرشد کی عنایت، محبت اور شفقت اس درجہ حاصل ہوئی کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے، حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کو خرقۂ خلافت پہنایا۔
خواجہ حسن سے محبت : آپ کی خواجہ حسن سے محبت عشق کے درجے تک پہنچ گئی تھی، اس عاشقی اور معشوقی کا چرچہ ہونے پر شہزادہ سلطان خاں نے خواجہ حسن کے چند کوڑے مارے، شہزادہ سلطان خاں نے آپ کو بلایا اور اس محبت کے بارے میں دریافت کیا، آپ نے جواب دیا کہ ”دوئی ہمارے درمیان سے اٹھ چکی ہے“ شہزادہ سلطان نے کہا ”اس کا ثبوت؟“ آپ نے اپنی آستین اٹھا کر دکھائی، جس جگہ خواجہ حسن کے کوڑے لگے تھے اسی جگہ آپ کے ہاتھ پر کوڑوں کے نشان موجود تھے۔
بادشاہوں سے تعلقات : آپ اور خواجہ حسن سلطان غیاث الدین بلبن کے لڑکے کے شہزادہ محمد سلطان خاں کے پاس ملازم تھے، شہزادہ سلطان ملتان میں رہتے تھے، آپ نے کئی بار نوکری سے استعفیٰ دینا چاہا لیکن شہزادہ سلطان نے آپ کو اجازت نہیں دی، جب شہزادہ سلطان ملتان میں ہید ہوا، آپ نے دہلی آکر امیر علی کی ملازمت اختیار کی، سلطان جلال الدین خلجی کے تخت پر بیٹھنے کے بعد آپ اس کے مقرب ہوئے، غرض سلطان قطب الدین مبارک شاہ تک آپ پر ہر بادشاہ نے مہرومحبت اور لطف و کرم کی نظر رکھی، شاہی دربار میں آپ کی کافی عزت تھی، سلطان غیاث الدین تغلق جس کے نام پر آپ نے تغلق نامہ لکھا ہے، سب بادشاہوں سے زیادہ آپ کی عزت اور احترام کرتا تھا۔
حضرت قلندر صاحب سے ملاقات : ایک دفعہ سلطان علاؤالدین خلجی نے کچھ تحفے آپ کے ساتھ کرکے آپ کو حضرت شیخ بوعلی قلندر پانی پتی کی خدمت میں بھیجا، حضرت قلندر صاحب آپ کا کلام سن کر بہت خوش ہوئے اور پھر اپنا کلام آپ کو سنایا، آپ قلندر صاحب کا کلام سن کر رونے لگے، حضرت قلندر صاحب نے آپ سے پوچھا کہ
”خسرو ! صرف روتا ہے یا کچھ سمجھا بھی“
آپ نے جواب دیا کہ ”اسی وجہ سے روتا ہوں کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا“
حضرت قلندر صاحب یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے اور سلطان علاؤالدین خلجی کے بھیجے ہوئے تحفے قبول فرمائے۔
آپ کا آئندہ خطاب : آپ کے دل میں ایک دن یہ خیال گذرا کہ آپ کا تخلص دیناداروں کا سا ہے، کیا اچھا ہوتا کہ آپ کا تخلص فقیروں سے منسوب ہوتا، آپ نے اپنے پیرومرشد سے اس کا ذکر کیا، حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کہ ”محشر میں تجھ کو”محمد کاسہ لیں“ کے خطاب سے پکاریں گے“
آپ کی وصیت : آپ کے پیرومرشد کی زبانِ فیض ترجمان سے جو محبت اور شفقت کے کمالات آپ کے متعلق نکلے تھے، ان سب کلمات کو آپ نے ایک کاغذ پر لکھ کر بطورِ تعویذ گلے میں ڈال لیا تھا، آپ نے وصیت فرمائی کہ اس کاغذ کو جس پر وہ کلمات لکھے ہوئے تھے، آپ کے ساتھ قبر میں دفن کیا جائے تاکہ وہ کاغذ آپ کی بخشش کا ذریعہ بنے۔
وفات شریف : حضرت محبوبِ الٰہی کی وفات کے وقت آپ دہلی میں نہیں تھے، اس قت آپ سلطان غیاث الدین تغلق کے ساتھ لکھنوتی میں تھے، وفات کی خبر سن کر دہلی آئے، اپنے پیرومرشد کے مزار پُرانوار پر حاضر ہوئے، نوکری سے استعفیٰ دیا جو کچھ پاس تھا فقرا اور مساکین کو تقسیم کیا، سیاہ ماتمی لباس پہنا اور مزارِ پر رہنے لگے، چھ مہینے نہایت رنج و غم میں گذارے، آخر کار 18 شوال 725ھ کو رحمتِ حق میں پیوست ہوئے، آپ کا مزار حضرت محبوبِ الٰہی کے مزار کے پاس چبوترہ یاران کے نام سے مشہور ہے اور ہر سال آپ کا عرس بڑے تزک و احتشام سے ہوتا ہے۔
سیرتِ پاک : آپ نہ صرف ایک خوش گو شاعر، ایک اچھے منصف، ایک بڑے عالم ایک بامذاق شخص، ایک کامیاب مقرب سلاطین تھے بلکہ ایک صاحبِ دل، صاحب، نسبت صوفی صافی اور ایک درویش دلریش بھی تھے، آپ آخر شب میں بیدار ہوتے تھے، تہجد کی نماز میں قرآن مجید کے ساتھ پارے پڑھتے تھے اور ذوق و شوق میں بے حد روتے تھے، باوجود نوکری کے آپ نے چالیس سال تک بارہ مہینے روزے رکھے، آپ نے حضرت محبوبِ الٰہی کے ہمراہ طے عرض کے طریق پر حج کئے ہیں۔
پیرومرشد سے محبت : آپ کو اپنے پیرومرشد سے والہانہ محبت اور عقیدت تھی، آپ فنا فی الشیخ کے درجے پر پہنچ گئے تھے، جب آپ دہلی میں ہوتے زیادہ وقت اپنے پیرومرشد کی خدمت میں گزارتے تھے، ایک دن ایک شخص حضرب محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے سات بیٹیاں تھیں وہ ان کی شادی کرنا چاہتا تھا، حضرت محبوبِ الٰہی سے کچھ مالی امداد چاہتا تھا لیکن اتفاق سے اس روز خانقاہ میں سوائے نعلین کے اور کچھ نہ تھا، آپ نے وہ نعلین ہی اس شخص کو دے دیں، بڑی امیدیں لے کر آیا تھا، نعلین لے کر وہ کچھ خوش نہ ہوا، دہلی سے روانہ ہوکر ایک سرائے میں ٹھہرا، آپ بھی بہت کچھ سازوسامان کے ساتھ دہلی جاتے ہوئے اسی سرائے میں ٹھہرے، اس سرائے میں آپ کو اپنے پیرومرشد کی خوشبو آئی، آپ سرائے میں تلاش کرتے پھرے کہ دہلی سے کون آیا ہے جب اس شخص سے ملاقت ہوئی، پہلے پیرومرشد کی خیریت معلوم کی، اس شخص نے باتوں باتوں میں نعلین کا بھی ذکر کیا، آپ نے وہ نعلین لے لیں اور سب سامان اس کو دے دیا وہ نعلین آپ نے اپنے عمامہ میں لپیٹ کر سر سے باندھ لیں اور اس طرح سے حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
پیرومرشد کی آپ سے محبت : حضرت محبوبِ الٰہی کو بھی آپ سے انتہائی محبت تھی، ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ
”خسرو ! میں سب سے تنگ آتا ہوں مگر تجھ سے تنگ نہیں آتا“
ایک مرتبہ ارشاد ہوا کہ ”میں سب سے تنگ ہوتا ہوں، یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی تنگ ہوتا ہوں مگر تجھ سے تنگ نہیں ہوتا“
آپ کے پیرومرشد نے آپ کو ”ترک اللہ“ کا خطاب دیا تھا، ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ”میں بغیر اس کے (امیر خسرو) کے جنت میں قدم نہیں رکھوں گا، اگر دو کا ایک قبر میں دفن کرنا جائز ہوتا تو میں وصیت کرتا کہ اس کو میری قبر میں دفن کیا جائے“
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ ”روزِ قیامت ہر ایک سے پوچھا جائے گا کہ کیا لائے؟ مجھ سے پوچھیں گے تو کہوں گا کہ اس ترک اللہ کے سینے کا سوز“
آپ فرماتے تھے کہ ”خداوند تعالیٰ مجھ کو اس ترک کے سینے کے سوز میں بخشے“
ایک مرتبہ آپ نے متقدمین پر کچھ اعتراض کیا اور خمسۂ نظامی کا جواب لکھتے وقت یہ شعر کہا کہ
دبدبۂ خسرویم چوں شد بلند
زلزلہ در گورِ نظامی فگند
اسی وقت ایک برہنہ تلوار آپ کے سر پر آئی، آپ نے حضرت محبوبِ الٰہی اور بابا فریدالدین گنج شکر سے امداد طلب کی، ایک ہاتھ نمودار ہوا جس نے آستین کاٹی پھر تلوار غائب ہوگئی، آپ محفوظ رہے، آپ حضرت محبوبِ الٰہی کی خدمت میں حاضر ہوئے، چاہتے تھے کہ سب حال بیان کریں، حضرت محبوبِ الٰہی نے آپ کو وہ آستین دکھائی، آپ نے سرِنیاز زمیں پر رکھا، حضرت محبوبِ الٰہی نے حسبِ ذیل اشعار آپ کی تعریف میں ارشاد فرمائے کہ
خسرو کہ بہ نظم و نثر مثلش کم خاست
ملکیت ملک سخن از خسرو ماست
ایں خسرو ماست ناصرِ خسرو مانیست
زیرا کہ خدا ناصر ایں خسروِ ماست
شعروشاعری : آپ نے پانچ لاکھ سے کم اور چار لاکھ سے زیادہ اشعار کہے ہیں، نو سال کی عمر میں آپ نے اپنے والد ماجد کی وفات پر ایک مرثیہ کہا جس کا حسبِ ذیل مطلع ہے۔
سیف از سرم گذشت و دل من دونیم ماند
دریائے ما رواں شد و دُرِّ یتیم ماند
آپ نے حضرت محبوبِ الٰہی کی تعریف میں بہت سے اشعار لکھے، حسبِ ذیل اشعار پیرومرشد کی تعریف میں ہیں کہ
جدا از خانقاہِ او بتقدیم
حطیمِ کعبہ را ماند بہ تعظیم
ملک کردہ بسقفش آشیانہ
چو اندر سقفہا کنجشک خانہ
حضرت شیخ سعدی شیرازی آپ سے ملنے کے لئے ہندوستان آئے۔
ایک مرتبہ آپ کو حضرت خضر علیہ السلام سے ملنے کا شرف حاصل وہا، آپ نے حضرت خضر علیہ السلام سے درخواست کی کہ وہ لعابِ دہن مرحمت فرمائیں، حضرت خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ ”وہ سعادت شیخ سعدی شیرازی کے حصہ میں آچکی“ آپ نے حضرت محبوبِ الٰہی سے اس کا ذکر کیا، حضرت محبوبِ الٰہی نے اپنا لعابِ دہن آپ کے منوہ میں ڈال دیا، اس کی برکت سے آپ کے کلام کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی کہ جو کسی کو نہیں حاصل ہوئی۔
خاص خاص کتابیں : آپ کی تصنیف کردہ بانوے کتابیں ہیں، خاص خاص کتابیں حسبِ ذیل ہیں۔
راحت المحبین، اس کتاب میں آپ نے حضرت محبوبِ الٰہی کے ملفوظات تحریر کئے ہیں۔
تحفۃ الصغیر، وسط الحیات، غزۃ الکمال، بقیہ نفیہ نہایت الکمال قِران السعدین، مطلع انوار بجواب مخرنِ اسرارِ نظامی، شیریں خسرور لیلیٰ مجنوں، آئینۂ سکندری، ہشت بہشت، تاج الفتوح، نہ سپہر اعجازِ خسروی، تغل نامہ، خزائن الفتوح، مناقبِ ہند۔
کرامت : شیخ نورالدین ابوالفتح ملتانی نے جب آپ کے جنازے پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا چاہی، آپ اٹھ بیٹھے اور یہ شعر پڑھا کہ
ما بعشقِ پیر خود چندانکہ مستغرق شدیم
نیست ما را حاجبِ آمرزشِ آمرزگار
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.