حضرت شاہ عالم
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-47
حضرت شاہ عالم پیشوائے اصحابِ دین، مقتدائے اربابِ یقین، مجمعِ فیوضِ سبحانی، مبلغِ علومِ روحانی ہیں۔
خداندانی حالات : آپ حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے پڑپوتے ہیں، حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے والد کا نام سید احمد کبیر ہے، ان کے والد کا نام سید جلال سرخ بخاری ہے۔
والد بزرگوار : آپ کے والدِ ماجد کا نامِ نامی اسمِ گرامی حضرت برہان الدین قطبِ عالم ہے۔
والدہ : آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی سلطان خاتون ہے۔
ولادت : آپ نے 9 ذیعقدہ 818 ہجری کو اس عالم کو زینت بخشی، بعض کے نزدیک آپ کی ولادت 817 ہجری میں ہوئی۔
نام : آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی سید محمد ہے۔
کنیت : آپ کی کنیت ابوالبرکات ہے۔
لقب : آپ کا لقب سراج الدین ہے، منجھن میاں کے لقب سے بھی پکارے جاتے ہیں۔
خطاب : شاہ عالم کے خطاب سے آپ مشہور ہیں۔
بھائی : آپ کے بہت سے بھائی تھے چند کے نام یہ ہیں، سید محمد اصغر، شیخ محمد، سید صادق محمد، سید محمد راجو، شیخ محمد دریائے نوش، سید احمد شاہ پیر، شاہ زاہد اور شاہ محمد امین۔
بہنیں : بی بی فردوس اور بی بی مریم آپ کی بہنیں تھیں۔
تعلیم و تربیت : آپ کی تعلیم و تربیت والدِ ماجد کی نگرانی اور سرپرستی میں ہوئی، عربی اور فارسی میں آپ نے درجۂ کمال حاصل کیا، تفسیر، حدیث، منطق اور فقہ میں آپ نے خاص دلچسپی کا اظہار کیا، علومِ ظاہری میں بھی آپ کو ایک اعلیٰ مقام حاصل تھا۔
بیعت و خلافت : آپ مرید و خلیفۂ رشید پدرِ بزرگوار خوداند“ آپ اپنے والدِ ماجد کے مرید و خلیفہ ہیں، علومِ ظاہری کی طرح علومِ باطنی بھی آپ نے اپنے والدِ ماجد سے حاصل کیے، اپ نے مختلف طرح سے اپنے والدِ ماجد سے فیض پایا، ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ کے والد ماجد حضرت قطب عالم وجد کی حالت میں حجرہ میں تشریف فرما تھے، آپ (حضرتِ شاہ عالم) بغیر روک ٹوک کے جو حجرہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ والد ماجد پر وجدانی کیفیت طاری ہے، جب آپ کے والدِ ماجد نے آپ کو دیکھا تو اسی حالت میں پوچھا کہ
”کیسے آئے؟ کیا لینا چاہتے ہو“
آپ نے جواب دیا کہ میری خوش قسمتی مجھ کو اس قت آپ کی خدمت میں لے کر آئی ہے، میں دنیاوی کوئی چیز نہیں چاہتا، البتہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھے محبتِ الٰہی اور عشقِ حق تعالیٰ کے سمندر کی ایک بوند عطا فرما کر سرفراز فرمائیں۔
آپ کے والدِ ماجد آپ کے اس جواب سے بہت خوش ہوئے، انہوں نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے چند قطرے آپ کے منہ میں ڈال دیئے، ان چند قطروں کا منہ میں پڑنا تھا کہ آپ سینہ روشن ہوگیا، آپ نے خود اپنی کیفیت اس طرح بیان فرمائی۔
”والدِ بزرگوار کے آنسوؤں کی وہ چند بوندیں میرے دل میں تاروں کی طرح چمکنے لگیں، میرا سینہ روشن ہوگیا اور دنیا کی محبت میرے دل سے جاتی رہی“
اسی قسم کا ایک دوسرا واقعہ حضرتِ حسن کھنڈ شاہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپ پتنگ اڑا رہے تھے، اس وقت آپ کی عمر قریب دس سال کی تھی، آپ کے والد ماجد نے جب آپ کو پتنگ اڑاتے دیکھا تو وہ رونے لگے اور پھر دیوار سے لگ کر ایک جگہ گھڑے ہوگئے، وہ دیوار سے لگے کھڑے تھے اور پاؤں ہلاتے جارہے تھے کہ آپ نے اپنے والد کو دیکھا، فوراً پتنگ چھوڑ کر اپنے والد کے پاس آئے اور آکر عرض کی کہ
”کیا مبارک وقت ہے اور کیسا اچھا موقع ہے، آپ کا کام عطا کرنے کا ہے اور میرا کام لینے کا ہے، اپنی اس کیفیت اور سرور کا صدقہ مجھے بھی عطا کیجیے، مجھے محروم نہ رکھیے“
آپ کے والدِ ماجد نے آپ سے فرمایا کہ ”تم نہیں جانتے یہ آگ کے شعلہ ہیں، شعلوں سے کھیلنا آسان نہیں، یہ آگ کے شعلے تم کو جلا دیں گے“
یہ سن کر آپ نے عرض کیا کہ کچھ بھی ہو، مجھے فیض سے محروم نہ رکھیے، جب آپ نے اس طرح اصرار کیا تو آپ کے والد ماجد نے آنسوؤں کی چند بوندیں آپ کے دہنِ مبارک میں ڈال دیں، بوندوں کا پڑنا تھا کہ آپ کا سینہ روشن ہوگیا، حجابات اٹھ گئے، آپ کا کہنا ہے کہ آنسوؤں کے ان چند قطروں میں جو لذت تھی وہ کسی چیز میں نہیں پائی۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ پر ایک عجیب قسم کی وجدانی کیفیت طاری ہوئی پوری رات گزر گئی اور اسی حالت میں غلبۂ شوق و ذوق اور کیفیت و سرور بڑھتا گیا، صبح ہوئی تو آپ کے والد ماجد کو اطلاع دی گئی، آپ کے والدِ بزرگوار حضرتِ قطبِ عالم آپ کو اس حالت میں دیکھ کر خوش ہوئے، آپ نے اسی حالت میں اپنے والدِ ماجد کی توجہ سے فیض پایا اور روحانی دولت سے مالا مال ہوئے، آپ کے والد کی توجۂ خاص سے آپ کو قدرے سکون و اطمینان ہوا اور رفتہ رفتہ جذب کی حالت کم ہوتی گئی۔
عطیہ : گجرات کے بادشاہ سلطان قطب الدین پر جب سلطان خلجی نے چڑھائی کی اس وقت آپ سلطان قطب الدین کے لشکر کے ساتھ میدانِ کارِ زار میں گئے، سلطان قطب الدین نے یہ منت مانی تھی کہ اگر خداوندِ تعالیٰ نے اس کو کامیابی عطا فرمائی تو وہ ہر پیغمبر کے نام پر ایک ایک اشرفی راہِ خدا میں خیرات کرے گا، سلطان قطب الدین کو جب فتح و نصرت حاصل ہوئی تو اس نے منت کی رقم کا حساب لگایا اور اس رقم میں سے آدھی رقم آپ کو بھیجی، حضرت نے سلطان کی بھیجی ہوئی وہ رقم لینے سے انکار کیا، سلطان قطب الدین کو اس بات کا رنج ہوا۔
وہ حضرت قطبِ عالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس کی بھیجی ہوئی نذر انہوں (حضرت شاہ عالم) نے واپس کر دی ہے، اگر اس سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو وہ اس کی معافی چاہتا ہے اور یہ چاہتاہے کہ اس کی نذر کردہ رقم وہ قبول فرمائیں۔
حضرتِ قطب عالم نے آپ کو بلایا اور کہا کہ سلطان قطب الدین کی بھیجی ہوئی رقم تم کیوں قبول نہیں کرتے، وہ رقم تو سلطان قطب الدین نے فتح کی خوشی میں تم کو بطورِ تحفہ بھیجی ہے، اس کے قبول کرنے میں تمہیں کیا پس و پیش ہے پھر حضرت قطب عالم نے زور دیتے ہوئے سمجھایا کہ
”یہ تحفہ ہے اور تحفہ قبول کرنا چاہیے، اگر تم یہ تحفہ قبول نہ کرو گے تو مجھے ڈر ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کی نوازش اور کرم کے دروازے جو کھلے ہیں وہ بند ہوجائیں گے“
یہ سن کر آپ نے اپنے والدِ بزرگوار سے عرض کیا کہ
”یہ رقم تحفہ نہیں ہے بلکہ وہ رقم جو سلطان قطب الدین نے راہِ خدا میں تقسیم کرنے کو مانی تھی“۔
آپ کا یہ جواب سن کر آپ کے والدِ ماجد حضرتِ قطبِ عالم خاموش ہوگئے اور آپ اپنے حجرہ میں واپس گئے، بات آئی گئی ہوئی، حجرہ میں آکر آپ کی اندرونی کیفیت دگر گوں ہونا شروع ہوئی، آپ کو یہ محسوس ہوا کہ آپ کو جو نسبت حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اس میں کچھ کمی واقع ہوئی، آپ رونے لگے، کھانا پینا، ہنسنا بولنا ترک کردیا، اسی حالت میں تین دن اور تین راتیں گزر گئیں۔
آپ کے چھوٹے بھائی حضرت شاہ زادہ کو حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حکم فرمایا کہ حضرتِ قطب عالم کے پاس جاؤ اور کہو کہ میری خاطر شاہ عالم پر رحم کرو اور ان کو ناراض نہ کرو، یہ حکم پاکر حضرت شاہ زاہد اپنے الد حضرتِ قطب عالم کے حجرہ میں گئے تو دیکھا کہ حجرہ بند تھا، انہوں نے حجرہ کا دروازہ کھٹکھٹایا، حضرت قطب عالم اس وقت یادِ الٰہی میں مستغرق تھے، وہ (حضرتِ قطب عالم) ابھی حجرہ کا دروازہ نہ کھولنے پائے تھے کہ حضرتِ شاہ زاہد نے بلند آواز سے کہا کہ میں بفرمانِ سرورِ عالم آیا ہوں اور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاکر اور وہ حکم آپ کو سنانے آیا ہوں، حضرتِ قطبِ عالم نے دروازہ کھولا، حضرتِ شاہ زاہد نے سرور عالم کے حکم سے ان کو آگاہ کیا، سب بات سن کر حضرتِ قطب عالم نے حضرت شاہ زاہد سے فرمایا کہ جاؤ اور ان (حضرتِ شاہ عالم) کو میرے پاس لے آؤ، حضرت شاہ زاہد خوشی خوشی آپ کے پاس گئے اور کہا کہ والدِ ماجد یاد فرماتے ہیں، آپ جب والدِ ماجد حضرتِ قطب عالم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ کو سینہ سے لگایا اور روحانی دولت اور فیض سے آپ کو مالا مال کیا پھر اپنا پیرہن آپ کو پہناکر آپ کو سرفراز فرمایا۔
حکم : ایک دن ایسا ہوا کہ حضرتِ قطب عالم مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے، ابھی نماز ختم نہ ہوئی تھی کہ آپ کو اطلاع ملی کہ شیخ عبدالطیف آ رہے ہیں، شیخ عبداللطیف پٹن میں رہتے تھے اور کبھی کبھی حضرتِ قطب عالم کے پاس آتے اور ان کے پاس قیام کرتے تھے، ان کا یہ طریقہ تھا کہ پٹن سے جب احمدآباد آتے تو بہاؤالدین پور میں قیام کرتے تھے، حضرتِ قطب عالم کو جب یہ اطلاع ملی کہ وہ (شیخ عبداللطیف) آ رہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ کون ہے جو جائے اور شیخ عبداللطیف کو یہاں لائے، آپ (حضرت شاہ عالم) نے عرض کیا کہ میں ان کے استقبال کو جاتا ہوں اور نہایت آرام سے ان کو یہاں لاتا ہوں، چنانچہ آپ روانہ ہوگئے، شیخ عبداللطیف کو لے کر اپنے والد ماجد کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔
خدمت کا بدلہ : آپ کے والدِ ماجد حضرتِ قطب عالم اس بات سے بہت خوش ہوئے، آپ کو پاس بلا کر بٹھایا، سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ
”تم نے مجھ کو خوش کیا، خداوند تعالیٰ تم کو خوش رکھے گا، تم عبداللطیف کو یہاں میرے پاس لے آئے، اس خدمت کے بدلے میں خداوند تعالیٰ تم کو ایک جانثار عطا فرمائے گا، اس کا نام بھی عبداللطیف ہوگا اور وہ اپنی خدمات کے صلہ میں داورالملک کا خطاب پائے گا“ ایسا ہی ہوا۔
سفارش : آپ (حضرت شاہ عالم) حضرت شیخ احمد کٹھو پر بہت عقیدت رکھتے تھے، ایک مرتبہ انہوں نے حضرت شیخ احمد کٹھو سے کہا کہ وہ ان کے والد سے ان کی اس بات کی سفارش کریں کہ وہ روحانی دولت کا کچھ حصہ ان کو بھی عطا فرمائیں جیسا انہوں نے اپنے صاحبزادے اور ان (شاہ عالم) کے بھائی شیخ محمود کو دی ہے، اس بات کو کچھ عرصہ گزر گیا، کچھ دنوں بعدا ایسا ہوا کہ حضرت شیخ احمد کٹھو اور حضرت قطب عالم ایک ہی تالاب میں قریب قریب غسل کر رہے تھے، خوشی خوشی وہ غسل کرتے جارہے تھے اور بے تکلفی سے بات چیت بھی کر رہے تھے، یکایک شیخ احمد کٹھو کو آپ (شاہ عالم) کی وہ بات یاد آئی، انہوں نے سوچا کہ وقت اچھا ہے، اس وقت سفارش کرنا بہتر ہوگا، یہ سوچتے ہی حضرت شیخ احمد کٹھو نے حضرتِ قطب عالم کو پانی میں غوطہ دیا اور ان کی آنکھوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، حضرتِ قطب عالم نے حضرت شیخ احمد کٹھو سے کہا کہ ان کی آنکھوں پر ہاتھ کیوں رکھ دیا، آخر وہ اپنا ہاتھ ان کی آنکھوں سے کیوں نہیں ہٹاتے، جب حضرتِ قطب عالم نے باربار ہاتھ ہٹانے کو کہا تو حضرت شیخ احمد کٹھو نے کہا کہ وہ ہاتھ اس وقت ہٹائیں گے جب وہ ایک بات کا وعدہ کریں، حضرتِ قطب عالم کے دریافت کرنے پر انہوں نے کہا کہ
”جس طرح آپ نے اپنے صاحبزادے محمود کو جامِ عشقِ وحدت پلایا ہے اور جس طرح ان کو نوازا ہے، اسی طرح اپنے صاحبزادے منجھن میاں (شاہ عالم) کو نوازو اور ان پر اپنی توجۂ خاص ڈالو اور ان کو اعلیٰ مقام پر پہنچاؤ“
حضرتِ قطب عالم نے یہ سن کر حضرتِ شیخ احمد کٹھو سے کہا کہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں ایسا ضرور کروں گا۔
ایک واقعہ : ایک مرتبہ آپ اپنے والدِ ماجد حضرتِ قطب عالم کی بلا اجازت اور بغیر اطلاع دیئے حضرتِ شیخ احمد کٹھو کے پاس سر کھیچ چلے گئے، آپ کے والدِ ماجد نے آپ کو طلب فرمایا تو معلوم ہوا کہ سر کھیچ گئے ہوئے ہیں، واپسی پر آپ کو معلوم ہوا کہ والدِ ماجد نے یاد فرمایا تھا، آپ کو خیال ہوا کہ کہیں والدِ ماجد خفا نہ ہوگئے ہوں، اسی لیے بہتر یہ ہے کہ وہ جب خوش نظر آئیں، اس وقت ان کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے، جب آپ کو اطلاع ملی والدِ ماجد خوش ہیں تو آپ والدِ ماجد کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کے والدِ ماجد نے آپ کو دیکھ کر آپ سے فرمایا کہ
”تم سر کھیچ مجھ سے کہے بغیر چلے گئے، جاتے وقت اجازت لینا چاہیے تھی، آخر تم مجھ سے خفا کیوں ہو؟ شیخ احمد کٹھو میرے لیے غیر نہیں، یہ تو بتاؤ کہ مجھ سے کون سی ایسی بات رہ گئی ہے کہ جس کے لئے تم سر گرداں ہو“
یہ سن کر آپ نے سرِ نیاز اپنے والدِ ماجد کے قدموں پر رکھ دیا۔
شادی : آپ کی پہلی شادی بی بی مرکی کے ساتھ ہوئی، ان کے انتقال کے بعد آپ نے بی بی مغلی کے ساتھ شادی کی، بی بی مرکی اور بی بی مغلی دونوں بہنیں تھیں، حضرت کی پہلی بیوی وفات ہوگئی اور بی بی مغلی بیوہ ہوگئیں، تب آپ نے بی بی مغلی کے ساتھ نکاح کیا۔
حضرت رکن الدین کی عرض داشت : حضرت رکن الدین نے ایک عرض داشت میں آپ کو توجہ چند امور کی طرف دلائی، اس عرض داشت میں حضرت (شاہ عالم) سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”ان کے دادا سید سکندر نے حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے حکم اور ایما سے منگلور میں سکونت اختیار کی اور وہاں رہ کر رشد و ہدایت میں زندگی گزاری، منگور چاروں طرف سے ان لوگوں سے گھرا ہوا تھا جو اسلام سے بے بہرہ تھے، ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے اور میرے والد سید آدم منگور میں رہ کر رشد و ہدایت کا کام جاری رکھا، اب ان کی وفات کے بعد اس کام کا بار میرے سر ہے، میرے لیے حالات زیادہ ناسازگار ہیں، دنیاوی ذرائع محدود اور تنگ ہوگئے ہیں۔
عرضداشت کا جواب : آپ نے اس عراض داشت کا جواب اس طرح دیا کہ
”ہراس اور خوف کی کوئی بات نہیں، مشکلات سے دل برداشتہ نہ ہونا چاہیے، ان کا خاندان سوراتھ میں حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے حکم سے آباد ہوا ہے اور حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کی روحِ پرفتوح ہر وقت ان کے ساتھ ہے پھر نا امیدی کی کیا بات ہے، یہ اوراد و وظائف جو میں لکھ رہا ہوں ان کا ورد کرو، یہ بات معلوم ہو کر مجھے تعجب ہوا کہ حکومت نے تمہارے لیے کوئی وظیفہ مقرر نہیں کیا ہے، حکامِ متعلقہ سے اس کے متعلق بات چیت ہوگی اور عنقریب ہی تمہاری خورد و نوش کا انتظام کیا جائے گا، اب رہا گرنار کے حکمراں کا سوال تو اس کو عنقریب اس کے کیے کی سزا ملے گی“
سلاطین سے تعلقات : آپ نے گجرات کے چار بادشاہوں کا زمانہ دیکھا یعنی محمد شاہ، قطب شاہ، داؤد شاہ اور سلطان محمود شاہ بیگرہ، سلطان قطب الدین یا قطب شاہ آپ کے والد ماجد حضرت قطب عالم کا معتقد و منقاد تھا اور اس کو آپ سے بھی عقیدت تھی، سلطان محمود شاہ بیگرہ پر آپ کا بہت اثر تھا اور وہ آپ کا دل و جان سے معتقد تھا، وہ اپنے کو آپ کا خادم سمجھتا تھا، آپ کے حکم اور آپ کی ہدایت سے سلطان محمود شاہ بیگرہ نے گرنار اور منگلور پر حملہ کیا، منگلور اور گرنار (جونا گڑھ) کو اگر چہ سلطان محمد بن تغلق نے فتح کرلیا تھا لیکن وہ دہلی کی سلطنت کے زیرِ نگیں زیادہ نہ رہے، دہلی کی سلطنت سے علیٰحدہ ہوگئے اور چودہ ساماں خاندان کی آزاد حکومت وہاں قائم ہوگئی، اے منڈالک نے وہاں ایسے مظالم کیے کہ جس سے نہ صرف مسلمان بلکہ بلوچی، جاٹ، کھوکر، ملک، ملتانی، قریشی، افغانی اور غوری سب ہی پریشان اور برگستہ ہوگئے، سلطان محمود بیگرہ نے حملہ کیا اور چودا ساماں خاندان کے آخری راجہ رائے کھینگر کو گرفتار کرکے اپنے ساتھ احمدآباد لایا۔
ملاقات:
ایک دن ئے کھینگر رسول آباد گیا، جہاں آپ (حضرتِ شاہ عالم) رہتے تھے۔ وہاں اس نے بہت سے ہاتھی، گھوڑے اور لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ دیکھ کر اس کو تعجب ہوا اور سوچنے لگا کہ اس شاہانہ طریقے سے یہاں کون رہتا ہے۔ آخر اس نے دریافت کیا کہ یہاں کون امیر رہتا ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ شاہ عالم پناہ کا دربار ہے۔ یہ وہ بادشاہ ہیں جو عالم کو پناہ دیتے ہیں۔ پھر اس نے پوچھا کہ وہ کس کے ملازم ہیں اور کون ان کا خرچہ اٹھاتا ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ وہ کسی کے ملازم نہیں اور نہ کوئی ان کو دیتا ہے اور نہ وہ کسی سے لیتے ہیں۔ ان کا توکل خداوندِ تعالیٰ پر ہے۔ وہ اللہ سے لیتے ہیں اور اللہ ون کو دیتا ہے۔
پھر اس نے پوچھا کہ یہ شاہانہ زندگی کا ساز وسامان ان کو کہاں سے ارو کس سے ملتا ہے۔ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ سب کچھ ان کو خداوندِ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔
پھر اس نے آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جوں ہی اس کی نظر آپ کے چہرۂ مبارک پر پڑی، دل وجان سے آپ کا پرستار ہوا۔
اس نے آپ سے مؤدبانہ عرض کیا کہ یہ بتائے کہ مسلماں ہونے کے لیے کیا چیز ضروری ہے۔ آپ نے کلمہ پڑھ کر سنایا۔ اس نے کلمہ صدق دل سے پڑھا اور اس کی حقیقت کو تسلیم کیا۔
وفات:حضرت نے سنہ 880 ہجری مطابق سنہ 1475 عیسوی میں جوارِ رحمت میں قدم رکھا۔ مزارِ پُر انوار احمدآباد میں مرجعِ خاص وعام ہے۔
سلسلہ کا عروض
آپ کے زمانہ میں سہروردی سلسلہ عروج پرتھا۔ بادشاہ، امراء، اور درباری آپ کے معتقد اور منقاد تھے۔ آپ کے بہت سے مرید اور خلیفہ تھے۔ آپ کے خلفاء میں داور الملک عبداللطفیف نے بہت شہرت پائی۔ آپ کی خاص توجہ سے داورالملک کی زندگی باوجود جاہ ومنصب کے بالکل بدل گئی تھی۔ عاجزی و انکساری حد درجہ تھی۔
سیرت:
آپ صاحبِ کراماتِ بلند اور مقاماتِ اجمند تھے۔ ظاہر وباطن میں اپنے وقت کے سید تھے۔ سرورِ عالم حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیۂ مبارک سے آپ کا حلیہ بہت کچھ مشابہ تھا۔ آپ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق وپرستار تھے۔ عشقِ رسول میں سرشار تھے۔ یادِ الٰہی میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔ ذوق وشوق، توکل وقناعت اور تجرید میں یگانۂ روزگار تھے۔ آپ کا لنگر وسیع پیمانے پر جاری تھا۔ سخاوت اور شجاعت میں اپنی مثال آپ تھے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ
”بعضے اوقات لباسِ حریر می پوشید وبرمشربِ ملامتیہ می رفت“۔
ترجمہ: بعض اوقات ریشمی لباس پہنتے تھے او رملامتیہ مشرب اختیار کرلیتے تھے۔
تعلیمات:
آپ نے اس بات پر زور دیا کہ سلاطین اور امراء سے تعلقات رکھے جائیں تاکہ لوگوں کی حاجت براری ہوسکے۔
درویش کو ”دل بیار و دست بکار“ کا مصداق ہونا چاہئے۔
درویش کے لئے خدمتِ خلق بھی ایک قسم کی عبادت ہے۔ نسبت بڑے کام کی چیز ہے۔ جتنی نسبت ہوگی، انتی ہی جلد مدارج ومقامات طے ہوں گے۔
ورد ووظیفہ:
ذکر وفکر اور مراقبہ پابندی سے کرنا چاہئے۔ آپ ”یا لطیف“ کا ورد رکھتے تھے۔
کشف وکرامات:
آپ سے بہت سی کرامات ظاہر ہوئیں۔ جب شہنشاہِ جہانگیر احمدآباد آیا تو وہ آپ کی کرامات کا شہرہ سن کر متعجب ہوا۔ حضرت کے وصال کو کافی زمانہ گزر چکا تھا۔ اس نے حضرتِ قطب عالم کی درگاہ سجّادہ نشین سید محمد سے پوچھا کہ حقیقت کیا ہے۔انہوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ جہانگیر نے یہ جواب سن کر ان کے متعلق اچھی رائے قائم کی اور ان سے متعلق اس طرح تحریر کیا۔
”خالی از فضیلتی ومعقولیتی نیست“۔
آپ سے بہت سی کرامتیں ظاہر ہوئیں۔ بہ نظرِ اختصار چند پیش کی جاتی ہیں۔ سلطان قطب الدین کے لشکر کے ساتھ آپ میدانِ کارزار میں بہ نفسِ نفیس تشریف لے گئے اور محمود خلجی کے لشکر پر ایک تیر پھینکا، جس سے اس کی فوج منتشر ہوگئی اور سلطان قطب الدین کو فتح حاصل ہوئی۔ سلطان قطب الدین نے اپنی فتح حضرت کی موجودگی اور حضرت کے تیر پھینکنے سے منسوب کی۔
ایک ضعیفہ جو آپ کی مرید بھی تھی، اس کے ایک لڑکا تھا، اس کا لڑکا کچھ دن بیمار رہ کر فوت ہوگیا۔ وہ ضعیفہ برنج وفزع تمام آپ کی خدمت میں آئی اور آپ کادامن پکڑ کر رونے لگی اور کہنے لگی کہ جب تک میرے لڑکے کو مجھے واپس نہ دوگے۔ تمہارا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑوں گی۔ جب اس ضعیفہ کا عجز وتفرع حد سے گزرگیا تو آپ نے اس کو تسلّی دیتے ہوئے کہا کہ دامن چھوڑو کہ میں اندر جاؤں۔ اس نے دامن چھوڑا اور آپ اندر تشریف لے گئے۔ آپ کے بھی ایک چھوٹا بچہ تھا۔ آپ نے اس بچّے کو اٹھا کر دونوں ہاتھ آسمان کی طرف کئے او رعرض کیا:
”الٰہی آں طفِ نشد“۔
آپ کا اتنا کہنا تھا کہ اس بچّے نے آپ کے ہاتھ میں جان دے دی۔ آپ باہر تشریف لائے اور اس ضعیفہ سے فرمایا کہ:
”جاؤ۔ تمہارا بچہ زندہ ہے“۔
وہ ضعیفہ جب اپنے گھر پہنچی تو دیکھا کہ اس کا بچپ زندہ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.