گجرات میں تصوف کی روشنی
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ اول۔ باب 2
گجرت میں تصوف اجنبی کی طرح آیا، حاکم کی طرح رہا اور تسخیرِ قلوب کرکے لا زوال سلطنت چھوڑ گیا۔
گجرات میں جس شہر کو صوفیائے کرام نے سب سے پہلے اپنی رشدوہدایت کا مرکز اور اپنی روحانی سلطنت کا دارالخلافت بنایا وہ نہروالہ (انہلواڑہ) پٹن ہے، یہ شہر گجرات کے ہندو راجاؤں کا دارالسلطنت تھا اور ایک بڑا اور پُررونق شہر تھا، احمدآباد کی تعمیر کے بعد پٹن کی اہمیت اور رونق کم ہونے لگی، صوفیائے کرام کے پیغام کو شہر میں رہنے والوں سے زیادہ دیہات میں رہنے والوں اور اونچی ذات والوں سے زیادہ نیچی ذات والوں نے گوشِ ہوش سے سنا اور قبول کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ
”ان لوگوں کے لئے جن میں مفلس ماہی گیر، شکاری قزاق اور ادنیٰ قوم کے کاشتکار تھے، اسلام ایک اوتار تھا جو ان کے لئے آکاش سے اترا تھا، وہ حکمراں قوم کا مذہب تھا، اس کے پھیلانے والے باخدا بزرگ تھے، جنہوں نے توحید و مساوات کا مژدہ ایسی قوم کو سنایا جس کو سب ذلیل و خوار سمجھتے تھے، اس کی تعلیم نے خدا اور اسلامی اخوت کا بلند تر تخیل پیدا کر دیا۔۔۔۔اور کثرت سے بڑھنے والی قوموں کو جو صدیوں سے ہندوؤں کے طبقے سے تقریباً خارج ہوکر بڑی ذلت و خواری کے دن کاٹ رہی تھیں، اسلام نے بلا تامل اپنی اخوت کے دائے میں شامل کردیا“
صوفیائے کرام کی صحبت، رشد و ہدایت اور تعلیم و تلقین سے عوام و خواص میں جو جلا ہوئی اس کے اثرات آج تک تاباں اور نمایاں ہیں، ان کے فیض و کرم کا دائرہ کسی ایک طبقہ یا جماعت کے لئے مخصوص نہ تھا، ان کا دائرہ محدود نہ تھا بلکہ اتنا وسیع تھا کہ اس میں ہر ایک کے لئے گنجائش تھی، معاشی، سماجی، روحانی اور اخلاقی اصلاحات کا جب ان کو خیال آتا تو وہ سب ہی انسانوں کی خوشحالی فلاح و بہبود اور بہتری کی تدابیر سوچتے تھے، ان کا فیض عام تھا، رنگ و نسل، ذات پات، اور اعلیٰ و ادنیٰ کے امتیازات سے وہ بالا تر تھے، انہوں نے اپنی گفتار سے اور اپنے کردار سے ایک معیاری زندگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا، زندگی کا ہر ایک شعبہ خواہ مذہب ہو، ادب ہو، خواہ سیاست ہو ان کے اثرات قبول کئے بغیر نہ رہ سکا، شگفتگی، امید اور امنگ کا ایک عجیب عالم نظر آنے لگا۔
تصوف کے مختلف سلسلوں میں جس سلسلے کو برصغیر ہند و پاک و بنگلہ دیش میں زیادہ شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ چشتیہ سلسلہ ہے، اس سلسلہ میں بعض باتیں ایسی ہیں جو عوام و خواص کا دل جیت لیتی ہیں، محبت، خلوص، رواداری، سماع شعروع شاعری سے لگاؤ اس سلسلہ کی خاص خصوصیات ہیں۔
سلطان الہند خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری اجمیری، قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی دہلوی، فرید الملت حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر، محبوبِ الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا اور حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری، چشتیہ سلسلے کے ممتاز بزرگ ہیں جنہوں نے خود بھی سلسلہ کی اشاعت کی اور جن کے خلفا نے بھی اس کام کو بحسن و خوبی انجام دیا۔
سہروردی سلسلہ کو بھی کافی عروج ہوا، سہروردی سلسلہ میں ذکرِ جلی اور ذکرِ خفی پر زور دیا جاتا ہے، سماع سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے، تلاوتِ قرآن ضروری ہے، اللہ ہو کا ورد سانس بند کرکے کیا جاتا ہے، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی نے سہروردی سلسلہ کی ہند و پاک و بنگلہ دیش میں اشاعت میں نمایاں حصہ لیا، یہاں تک کہ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر سندہ، مغربی پنجاب اور بلوچستان کو ان کی روحانی سلطنت اور ولایت کا حصہ مانتے تھے، اس سلسلہ کے اور ممتاز نامور بزرگوں میں حضرت صدرالدین عارف، حضرت شیخ رکن الدین ابوالفتح، حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی، حضرت شیخ جلال الدین تبریزی، حضرت شاہ جلال یمنی، حضرت مخدوم سماؤالدین، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا نامِ نامی اسمِ گرامی سرِ فہرست ہے۔
قادری سلسلہ میں درود شریف کو کافی اہمیت دی جاتی ہے، ذکرِ خفی اور ذکرِ جلی دونوں جائز ہیں، سماع بالمزامیر ان کے یہاں جائز نہیں، یہ سلسلہ حضرت پیرانِ غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی سے شروع ہوا، اس سلسلہ کے ممتاز بزرگ برصغیر میں حضرت شاہ نعمت اللہ قادری، حضرت مخدوم عبدالقادر ثانی، حضرت سید حامد، حضرت میاں میر اور حضرت پیر محمد شاہ ہیں۔
نقشبندیہ سلسلہ ذکرِ جلی کے موافق نہیں، ان کےیہاں ذکرِ خفی ہوتا ہے، سماع جائز نہیں، احکامِ شریعت کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے، ان کےیہاں بیعت ایک نئی روحانی اور اخلاقی زندگی کا آغاز ہے، حضرت خواجہ باقی باللہؒ، حضرت مجدد الف ثانی، شیخ احمد سرہندی اور حضرت خواجہ دانا اس سلسلہ کے مشہور بزرگ برصغیر میں ہیں۔
گجرات پر چشتیہ سلسلہ کی ایک شاخ نظامی سے منسلک بزرگوں نے اور سہروردی سلسلے کے بزرگوں نے خاص توجہ دی، پٹن سے شعاعیں پھیلیں، سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے تین خلفا یعنی سید موسیٰ و راق الحسنی والچشتی، مخدوم سید حسین خنگ سوار اور حضرت شیخ حسام الدین نے پٹن کو اپنی رشد و ہدایت کا مرکز بنایا، حضرت حسام الدین کے بھانجے شیخ صدرالدین ملتان سے ناگور تشریف لائے، کچھ عرصے ناگور میں رہے، بعد ازاں حضرت حسام الدین نے اپنی بہن اور دوسرے قریبی رشتہ داروں کو پٹن بلا لیا، ایک دوسرے بزرگ شیخ جمال الدین اچی پٹن تشریف لائے اور پندرہ سال تک رشد و ہدایت میں مشغول رہ کر سنہ 745ہجری میں واصلِ بحق ہوئے۔
محبوبِ الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا کے وصال کے بعد حضرت نصیرالدین چراغ دہلی ان کے سجادہ پر رونق افروز ہوئے، انہوں نے بھی گجرات پر خاص توجہ دی، ان کے عزیز مرید اور قریبی رشتہ دار شیخ الاسلام حضرت شیخ سراج الدین پٹن تشریف لائے اور سیکڑوں کو راہِ حق دکھائی، پٹن ہی ان کی آخری آرام گاہ ہے۔
گجرات میں سہروردیہ سلسلہ کو چشتیہ سلسلہ سے زیادہ فروغ ہوا، سہروردیہ سلسلہ کے دو اہم مرکز ملتان اور آچہ تھے، حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی نے ملتان میں رہ کر اس سلسلہ کی کافی اشاعت کی، اس سلسلہ کا عروج ان کے پوتے حضرت شیخ ابوالفتح کے زمانہ میں ہوا، حضرت مخدوم جہانِ جہاں گشت آچہ میں رہتے تھے، انہوں نے بھی اس سلسلہ کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا، ان کے بھائی حضرت راجو قتال نے گجرات میں سہروردیہ سلسلہ پھیلانے میں جو کارہائے نمایاں کئے وہ پوشیدہ نہیں، حضرت سید راجو قتال کی گجرات پر خاص توجہ رہی، ان کے مرید سید محمد خدا بخش اور سید احمد مخودم جہاں شاہ نے اس سلسلہ کی کافی تبلیغ کی، پٹن ان دونون کی رشد و ہدایت کا مرکز تھا اور پٹن ہی میں ان کےمزارات ہیں، حضرت راجو قتال نے ہی حضرت قطب عالم اور ان کی والدہ کو گجرات جانے اور رہنے کی ترغیت دی، حضرت قطب عالم اپنی والدہ کے ساتھ پٹن میں رونق افروز ہوئے اور پھر سلطان احمد شاہ کی درخواست پر پٹن سے احمد آباد تشریف لے گئے، احمد آباد کے قریب بٹوہ کو انہوں نے اپنی تعلیم و تلقین اور رشد و ہدایت کا مرکز بنایا، حضرت قطب ِ عالم نے سہروردیہ سلسلہ کو گجرات میں صرف پھیلایا ہی نہیں بلکہ اس سلسلہ کو دوام و استحکام بھی بخشا، وہ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے پوتے ہیں، ان سے پہلے حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کے ایک مرید سید سکندر گجرات پہنچ چکے گھے۔
منگرول کی فتح کی غرض سے فیروز شاہ تغلق نے جو فوج 1375 عیسوی میں بھیجی تھی وہ اس میں شریک تھے، وہ فوج کے ایک دستہ کے سپہ سالار تھے، فتح اور کامیابی کے بعد ان کی خدمات کے صلہ میں ان کو ایک گاؤں دیا گیا جس کی آمدنی ان کے لئے کافی تھی، آخر کار انہوں نے وہیں سکونت اختیار کرلی۔
حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کو گجرات کا مربی او روالی سمجھا جاتا تھا، ظفر خاں سے انہوں نے گجرات کی سلطنت کا وعدہ کیا تھا، وہ حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت کا مرید، معتقد اور منقاد تھا، وہ مظفر شاہ کے لقب سے مشہور ہوا۔
حضرت قطب عالم مع اپنی والدہ ماجدہ کے جب پٹن تشریف لائے تو اس نے آپ کا شاندار استقبال کیا، سلطان احمد شاہ بانی احمد آباد حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کے نبیرہ حضرت رکن الدین کا مرید تھا لیکن اس کو حضرت شیخ احمد کھتو اور حضرت سید برہان الدین قطب عالم سے بھی عقیدت تھی، اس نے احمدآباد کا سنگِ بنیاد حضرت شیخ احمد کھتور کے دستِ مبارک سے رکھوایا، احمد نام کے دو اور بزرگ بھی اس میں شامل تھے، ایک کا نام قاضی احمد تھا اور دوسرے کا نام مولانا احمد اور چوتھا احمد وہ خود تھا، سلطان احمد شاہ نے حضرت قطب عالم سے احمدآباد میں رہنے کی درخواست کی، حضرت قطب عالم کی حمایت اور نوازش سے سلطان احمد شاہ کو کافی فائدہ پہنچا، سلطان احمد شاہ کو جو قطب عالم سے عقیدت تھی اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس نے حضرت قطب عالم کی شان میں ایک قصیدہ لکھا اور اس کو حضرت قطب عالم کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھا، قصیدہ کا پہلا شعر یہ ہے۔
قطبِ زمانۂ ما برہان بس است مارا
بُرہانِ او ہمیشہ چوں نامش آشکارا
قصیدہ جب پڑھ چکا تو اس نے حضرت قطبِ عالم سے انعام مانگا، حضرت نے فرمایا کہ
”میرے دادا نے تم کو پہلے ہی سے اپنے فیوض و برکات سے مالا مال کر دیا ہے“
سلطان احمد شاہ نے عرض کیا کہ
”یہ صحیح ہے لیکن ان کی دعا اور ان کے کرم نے میری سلطنت اور میرے خاندان کو ہی نواز ہے، اب میں اس شہر (احمدآباد) کے لئے دعا کا متمنی ہوں“
یہ سن کر حضرت قطبِ عالم نے فرمایا کہ
”یہ شہر خداوندِ تعالیٰ کی مہربانی سے تا ابد آباد رہے گا“
سلطان احمد شاہ ایک فقیر دوست بادشاہ تھا، اس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ
”و از جملہ خوبی ہائ سلطان احمد بانی احمد آباد ایں است کہ در عہدِ سلطنتِ او سید برہان الدین المخاطب من عنداللہ بقطب العالمین در بتوہ بودہ و حضرت سید محمد المخاطب بہ شاہ عالم در رسول آباد و حضرت شرف الدین مشہدی در بروج و در پتن حضرت رکن الدین نبیرۂ حضرت فریدالدین گنج شکر“
(جملہ خوبیوں میں سے سلطان احمد بانیِ احمد آباد کی خوبی یہ ہے کہ اس کے عہدِ حکومت میں سید برہان الدین المخاطب بہ قطب عالم بتوہ میں اور حضرت سید محمد المخاطب بہ شاہ عالم رسول آباد میں اور حضرت شرف الدین مشہدی بھروچ میں اور حضرت فرید الیدن گنج شکر کے نبیرہ حضرت رکن الدین پٹن میں (شمعِ ہدایت) تھے، سلطان محمد شاہ دوم کو بھی حضرت شیخ احمد کھٹو سے گہری عقیدت تھی، وہ ان کا معتقد تھا، سلطان قطب الدین جس نے کانکریہ تالاب اور باغِ فردوس بنایا حضرت قطب عالم کا مرید تھا، پٹن میں بہت سے اؤلیائے کرام آسودہ ہیں، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی پٹن کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ
”پٹن میں جو ولایتِ گجرات کا قدیم شہر ہے بہت سے مشائخ آسودہ ہیں، ان سب میں بڑے اور مشہور جو اس دیار کے صاحبِ ولایت ہیں، شیخ حسام الدین ملتانی ہیں جو شیخ نظام الدین اؤلیا کے خلفا میں سے ہیں۔۔۔در حقیقت اس سرزمین سے عشق و محبت کی خوشبو آتی ہے اور ا س کے ویرانوں سے برکت و ولایت کا نور چمکتا ہے اور اب بھی یہ شہر اہلِ دل کے وجود سے خالی نہیں اور نہ کبھی ہوا ہے۔
بہر زمیں کہ نسمیے ز زلفِ او زدہ است
ہنوز از سرِ آں بویٔ عشق می آید
حضرت شیخ محمد طاہر نے پٹن میں رہ کر تمام عمر بدعات اور شرک و کفر کو مٹانے میں گذار دی، وہ صرف عالم ہی نہ تھے بلکہ مبلغ اور قاطعِ بدعت بھی تھے اور انہوں نے ردِّ بدعت کی کوششوں میں شہادت پائی، وہ بوہرے تھے اور وہ اپنی قوم سے بدعتیں دور کرنا چاہتے تھے انہوں نے ایک مرتبہ یہ عہد کیا کہ جب تک ان کی قوم گمراہیوں اور بدعتوں سے پاک و صاف نہ ہوجائے وہ ہرگز سرپر عمامہ نہ باندھیں گے، جب وہ دوسرے علما کے ساتھ شہنشاہِ اکبر کے پاس گئے تو اکبر نے سر برہنہ ہونے کی وجہ دریافت کی، جب اس کو حقیقتِ حال سے آگاہ کیا تو اس نے (شہنشاہِ اکبر) نے خود ان کے سر پر عمامہ باندھا، انہوں نے علمِ حدیث کو گجرات میں پھیلایا۔
حضرت شاہ وجیہ الدین کی رشد و ہدایت کا مرکز احمدآباد رہا، ان کے علم و فضل کا دریا احمدآباد میں بہتا تھا اور دور دراز کے علاقوں کو سیراب کرتا تھا، ان کا مدرسہ مینارۂ روشنی تھا جہاں سے علم و فضل کی شعاعیں نمودار ہوئیں اور ظلمت و تاریکی کو روشنی میں بدل دیا، حضرت خواجہ دانا نے سورت کو اپنا مرکزِ رشد و ہدایت بنایا۔
شطاری سلسلہ کو عہدِ وسطیٰ میں جو فروغ حاصل ہوا اس کے اثرات سے گجرات بھی نہ بچ سکا، شطاریہ طریقِ تصوف کو گجرات میں بھی کافی مقبولیت حاصل ہوئی، اس سلسلہ کے مشہور بزرگ حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری شطاری نے اس سلسلہ کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا، ان کو اور ان کے بھائی شیخ ظہور حاجی حمید نے اپنی فرزندی میں لیا اور ان کو سلوک کی راہیں طے کرائیں او رباطن کی تعلیم بھی دی، ”نامور خانوادوں کے مشائخ جو کمالات اور حالات رکھتے ہیں ان کے اطوار اور اسرار بالخصوص شطاریہ مشرب کی رفتار، دعوت کا فن، افکار کی طرز اور اشغال و تصوف کی سندیں، غرض کہ کل چیزیں دو سال کے اندر تعلیم و تلقین فرما دیں“۔
حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری شطاری کے تعلقات مغل بادشاہوں سے اچھے تھے، شہنشاہِ بابر اور ہمایوں دونوں ان کا احترام کرتے تھے، شیر شاہ سوری ان کے در پے آزار ہوا، وہ گجرات چلے گئے اور اٹھارہ سال گجرات میں گذارے، چانپانیر، بھڑوچ اور احمدآباد میں وقت گزارا، اس زمانہ کے ایک مشہور عالم شیخ متقی نے ان کی تصنیفات کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیا اور ان کے خلاف کفر کا فتویٰ دیا، حضرت شیخ وجیہ الدین سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے اس فتویٰ پر دستخط کرنےسے انکار کردیا، یہی نہیں بلکہ وہ حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئے۔
شطاری سلسلہ گجرات میں کافی پھیلا، حضرت شاہ وجیہ الدین کے ذریعہ یہ سلسلہ گجرات اور بالخصوص احمدآباد میں کافی مقبول ہوا، حضرت شاہ وجیہ الدین کے ایک عزیز شاگرد شیخ صبغت اللہ بھڑوچی نے مدینہ منورہ میں رہ کر اس سلسلہ کو اسلامی ممالک میں پھیلایا، غرض کہ
”سولہویں صدی میں ہندوستان بالخصوص بنگال، بہار، مالوہ، گجرات میں اس طریقے کی اہمیت باقی مشہور قدیمی سلسلوں سے کم نہ تھی، اس نے غوثی منڈوی جیسے باخبر اور متوازن الطبع تذکرہ نگار اور شیخ عبدالنبی جیسے فاضل پیدا کئے جن کی پچاس سے زائد کتابوں کی فہرست ”تذکرۂ علمائے ہند“ میں درج ہے۔۔۔۔“
کچھ مدت تک گجرات مہدوی تحریک کا بھی مرکز رہا، اس تحریک کے بانی سید محمد جونپوری تھے، وہ شیخ دانیال چشتی جونپوری کے مرید تھے، سید محمد جونپوری نے چالیس سال کی عمر میں وطن کو چھوڑا اور داناپور پہنچے، پھر کالپی، چاندیری، چانپانیر، مانڈو ہوتے ہوئے احمد نگر اور بیدر پہنچے، بیدر اور چانپانیر میں ڈیڑھ سال رہے، گلبرگہ اور بیجاپور گئے اور پھر ڈابول پہنچے، مکہ معظمہ پہنچ کر حج کیا، بعدہٗ آپ نے حجر اسود اور رکن کے درمیان مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا پھر کھبات واپس آئے پھر احمدآباد پہنچے، احمدآباد سے پٹن گئے، پٹن سے برلی پہنچ کر مہدی موعود ہونے کا دوبارہ اعلان کیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہدی موعود ہونے کا سب سے پہلے آپ نے دعویٰ برلی میں جو نہروالہ پٹن کے قریب ہے، کیا۔
مہدوی تحریک کو جو فروغ ہوا س کی وجہ یہ تھی کہ
”مہدویت کی تنظیم و اشاعت کا بڑا ذریعہ ان کے ”دائرے“ تھے جو مختلف مقامات پر قائم ہوئے، ان میں یہ لوگ مل کر رہتے جو کچھ ایک کے پاس ہوتا سب میں برابر بانٹ دیا جاتا، شرع کی سختی سے پیروی ہوتی، سب مل کر ذکر میں شریک ہوتے جس پر بڑا زور دیا جاتا تھا، جماعت کا نظام بڑا سخت تھا“
مہدوی تحریک بڑے زوروں سے گجرات میں پھیلی، مولانا سید ابوظفر ندوی لکھتے ہیں کہ
حضرت سید محمد جونپوری کی وفات کے بعد جب ان کے مقلدین گجرات آئے تو ان لوگوں نے اصلی تعلیم اتباعِ سنتِ نبوی کے مقابلہ میں دعویٰٔ مہدویت کی تبلیغ میں بڑے مبالغہ سے کام لینا شروع کیا، عوام جہلا بعض علما، اہلِ حرفہ اور لشکر کے سپاہیوں نے اس کو قبول کرلیا۔
غرض تھوڑے ہی دنوں میں طاقتور جماعت ہوگئی پھر تو اس مسئلہ میں اس قدر غلو سے کام لیا گیا کہ منکرینِ مہدی کو کافر کہہ دیا اور آخرت میں جرأت اس قدر بڑھ گئی کہ جو اہلِ فہم اس کا انکار کرتا اس کو قتل کر ڈالتے اور ہر ایک ان میں سے اپنی جان قربان کرنے کو مذہب کی خدمت اور کارِ ثواب سمجھتا“
مکہ معظمہ سے احمدآباد واپس آکر حضرت شیخ علی متقی نے اس تحریک کی سخت مخالفت کی، بہت سے مہدوی گجرات چھوڑ کر چلے گئے اور جولوگ گجرات میں رہے وہ خاموش ہوکر بیٹھ گئے، دوبارہ پھر جب اس تحریک نے گجرات میں طاقت پکڑی تو حضرت علامہ شیخ محمد بن طاہر پٹنی نے اس تحریک کے خلاف جدوجہد شروع کی اور دلائلِ عقلی و نقلی اس تحریک کے خلاف پیش کئے، انہوں نے اس تحریک کے خلاف ایک رسالہ ”نصیحۃ الولاۃ“ بھی لکھا، غرض علامہ شیخ طاہر پٹنی کی زندگی اس تحریک کے خلاف جد و جہد میں گذری،
غرض صوفیائے کرام نے گجرات ہی میں کیا بلکہ پورے برصغیر ہند و پاک کی اور بنگلہ دیش میں ایک ذہنی انقلاب پیدا کیا، آج تمدن و معاشرت کے جو خیالات موجود ہیں وہ سب گذشتہ واقعات و حالات کے نتائج ہیں، انہوں نے اپنی ذات والا صفات اور اپنے جمالِ جہاں آرا سے بر صغیر اور خاص طور سے گجرات کو نورانی بنانے کی کوشش کی، صوفیائے کرام کی زندگی کا ہر لمحہ ملت کی زندگی کے لئے ایک نیا پیام لاتا تھا، وہ توحیدِ خالص کے پرستا تھے، دینِ کامل کے علمبردار تھے اور تجدیدِ ملت کے طلب گار تھے، ان کے پاس نہ کوئی خزانہ تھا اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی لشکر تھا اور نہ ہی فوج، انہوں نے بغیر تیروکمان اور تیغ و تفنگ کے لوگوں کے دل جیت لئے اور ایسی روحانی سلطنت کا سنگِ بنیاد رکھا کہ جس کو صدیوں کے بعد بھی زوال نہیں۔
نہ ان کے ساتھ خیمے تھے نہ سامانِ رسد کوئی۔
نہ ان کی پشت پر تھا جز خدا بہرِ مدد کوئی۔
اور
نہ زرہیں تھیں نہ ڈھالیں تھیں نہ خنجر تھے نہ شمشیریں۔
فقط خاموش تسبیح تھی فقط پر جوش تکبیریں۔
صوفیائے کرام کے باطنی تصرفات اور روحانی و اخلاقی عادات نے اپنا کام کیا، انہوں نے دباؤ اور جبر کو جائز نہیں سمجھا، نتیجہ یہ ہوا کہ لا الٰہ الا اللہ (کوئی اللہ نہیں ہے سوائے اللہ کے) اور کلمہ شہادت : لا الٰہ الا اللہ محمدراً رسول اللہ۔ (کوئی اللہ نہیں ہے سوائے اللہ کے اور محمد اللہ کے رسول ہیں) پڑھ کر لوگ جوق در جوق اسلامی برادری میں داخل ہوئے، تفسیرِ وحدیت کا چرچا ہوا، قرآنی تعلیم اور فرمانِ رسالت لوگوں تک پہنچے۔
بادشاہوں کی عقیدت جو صوفیائے کرام سے تھی اس نے ان کو حق و انصاف کی طرف مائل کیا، چھوت چھات کم ہونے لگی، اونچے نیچے کا امتیاز مٹنے لگا، بڑا آدمی وہ ٹھہرا جس کے کام اچھے ہوں، عمل نیک ہو، اطوار و کردار پسندیدہ ہوں، صوفیائے کرام کی مجالس میں ہر طبقہ کے لوگ نظر آتے تھے اور وہ ایک دوسرے سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتے تھے، مختلف قسم کے لوگ، مختلف نظریات کے لوگ، مختلف زبانیں بولنے والے لوگ ان کی خانقاہ میں جمع ہوتے اور ان کے فیوض و برکات سے مستفید و مستفیض ہونے کی کوشش کرتے تھے، ان بزروں نے اپنی خاموش زندگی اور بے لوث خدمتِ خلق سے عوام و خواص سب ہی کو متاثر کیا، انہوں نے حق گوئی کا جذبہ پیدا کیا، وہ بساطِ سیاست کے مہرے نہیں بنے، انہوں نے اپنے اصلی کام کو فراموش نہیں کیا اور نہ ہی مذہب اور مذہبی اقتدار کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا، وہ مذہبی، روحانی، علمی اور اصلاحی کاموں میں منہمک رہتے تھے، شاہانِ وقت کا فکری مزاج بدلنے میں ان کا بڑاہاپا تھا، وہ برصغیر اور خصوصاً گجرات میں صوفیانہ تہذیب کے بانی اور حامی تھے صوفیائے کرام کی توجہ سے برصغیر میں گنگا جمنی تہذیب وجود میں آئی۔
برصغیر ہند و پاک و بنگلہ دیش کے اختلاط سے ایک ایسی دل کش و دلفریب تہذیب جو وجود میں آئی کہ جس کی زمین تو یہاں کی تھی مگر اس کے گو و بوٹے، آب و رنگ اور نقش و نگار خراسانی تھے، آگے چل کر یہی تہذیب معیاری تہذیب قرار پائی، اس کے اثرات آج بھی اتنے گہرے ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتے، آج تہذیب کی خصوصیات اور انسانی زندگی کی معراج ہیں، قناعت، توکل، امید و بیم، استقامت، محبت، خلوت، مجاہدہ، شکر، مراقبہ، خلوص، صدق، خلق، ادب، سفر، معرفت، دعا، محاسبہ، مراقبہ، مجاہدہ، ذکروفکر، صبر اور یقین، اس تہذیب کے درخت کے پھل اور پھول ہیں۔
صوفیائے کرام ہی نے سب سے پہلے قومی یک جہتی کا نظریہ پیش کیا اور اس کو عملی جامہ پہنایا، صوفیائے کرام کو جو حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوئی اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے پاک و صاف تھے، ان کی وسیع النظری، انسان دوستی، جمہوری نظریات، ان کا اخوت و مساوات کا پیغام اور ان کے خلوص اور ان کی محبت نے لوگوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا، روحانی تربیت کے علاوہ انہوں نے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کے جذبہ کوب بھی برقرار رکھا اور زندگی کے ہر موڑ پر ان کی دست گیری کی، ان کا کہنا تھا کہ
طاعتِ آں نسیت کہ بر خاکِ نہی پیشانی
صدقِ پیش آر کہ اخلاص بہ پیشانی نیست
(طاعت یہ نہیں ہے کہ پیشانی خاک پر رکھے، صدق اختیار کر، اخلاص پیشانی سے نہیں ہے)
ان کا مسلک یہ تھا جیسا کہ حافظؔ شیرازی نے کہا ہے۔
آسایشِ در گیتی تفسیرِ ایں دو حرف ست
با دوستاں تلطف با دشمناں مدا را
(دونوں جہان کا آرام ان دو کلموں میں ہے۔ دوستوں کے ساتھ نرمی اور دشمنوں کے ساتھ خاطر مدارات ( کرو)۔
ان کا مشرب یہ تھا، جیسا کہ حافظ شیرازی فرماتے ہیں۔
ماقصۂ سکندر و دارا نخواندہ ایم
از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس
(ہم نے سکندر اور دارا کا قصہ نہیں پڑھا ہے، ہم سے محبت اور وفا کی حکایت کے سوا مت پوچھ)
روضۂ خلدِ بریں خلوتِ در ویشانست
مایۂ محتشمی خدمتِ درویشا نست
انچہ زر میشود از پرتوِ آں قلبِ سیاہ
کیمیائیست کہ در صحبتِ درویشانست
دولتی را کہ کہ نباشد غم از آسیبِ زوال
بے تکلف بشنو دولتِ درویشانست
خسرواں قبلۂ حاجاتِ جہاں نند ولی
از ازل تا بابد فرصتِ درویشا نست
حافظؔ اینجا بادب باش کہ سلطان وملک
ہمہ در بندگیِ حضرتِ درویشا نست
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.