حضرت شاہ وجیہہ الدین
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-52
حضرت شاہ وجیہہ الدین شیخ العصر، امامِ شریعت اور مقتدائے ملت تھے۔
خاندانی حالات : آپ علومِ خاندان کے ایک روشن چراغ ہیں، آپ کے خاندان کے متعلق یہ مشہور ہے کہ
”نسبِ ایشاں علویست“ ترجمہ : ان کا نسب علوی ہے۔
آپ کے متعلق اس پر اتفاق ہے کہ
”از کبارِ مشائخ متاخرین اند“ ترجمہ : متاخرینِ کبار مشائخ میں سے ہیں۔
آپ کے مورثِ اعلیٰ علوی تھے یعنی مولائے کائنات حضرتِ علی کرم اللہ وجہہٗ اور بی بی فاطمہ سے ان کا سلسلہ ملتا ہے، اس سلسلہ میں بعض حسنی کہلاتے ہیں اور بعض حسینی یہ سب علوی سلسلہ ہے، آپ کے مورثِ اعلیٰ حضرت بہاؤالدین جن کے والد کا نام کبیرالدین ہے، حج کو گئے ہوئے تھے، کعبہ کے ساتھ طواف کر رہے تھے ندا آئی کہ سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
”ہندوستان جاؤ اور وہاں گجرات میں سکونت اختیار کرو، گجرات میں طالبان و تشنگان کی رہنمائی کرو اور ان کو حقیقت اور معرفت کے چشمے کا پانی پلاؤ، وہاں ظلمت و تاریکی پھیلی ہوئی ہے اس کو دور کرو، پیغامِ حق پہنچاؤ اور لوگوں کو راہِ راست پر لاؤ“
سرورِ عالم کا یہ حکم پاکر حضرت بہاؤالدین 799 ہجری مطابق 1396 عیسوی میں گجرات میں رونق افروز ہوئے، گجرات آکر پاتری گاؤں میں قیام کیا جو روم گاؤں کے پاس ہے، وہ پاتری گاؤں میں رہنے لگے، سلطان مظفر خاں کے حکم سے ان کے صاحبزادے معین الدین پاتری گاؤں کے قاضی مقرر ہوئے، ان کے صاحبزادے شاہ عطاؤالدین کو سلطان احمد نے احمدآباد کا قاضی بنایا اور پاتری میں بھی عہدہ دے کر باختیار کیا، ان کے صاحبزادے شاہ عمادالدین کو کھنبات کا قاضی مقرر کیا گیا تھا، ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکومت سے تعلقات اچھے نہ رہے لہٰذا پٹن چلے گئے، ان کے صاحبزادے شاہ نصراللہ کو سلطان بیگرہ نے محمودآباد چاپانیر کا قاضی مقرر کیا، شاہ نصراللہ کے بھائی سید شمس الدین کو احمدآباد کا قاضی مقرر کیا گیا۔
والدِ ماجد : آپ کے والدِ ماجد کا نام حضرت شاہ نصراللہ ہے۔
والدہ ماجدہ : آپ کی والدہ ماجدہ کا نام بوجی صاحبہ ہے، وہ شاہ شہاب الدین کی صاحبزادی تھیں، ان کے دادا مولانا محمود اور پردادا مولانا مخدوم علی شیر دہلوی تھے، مولانا مخدوم علی حضرت قطبِ عالم کے مدرسہ میں پڑھاتے تھے۔
ولادت : آپ 22 محرم 910 ہجری میں پیدا ہوئے، آپ کی ولادت مشرقی گجرات کے قدیمی شہر چاپانیر میں ہوئی۔
نامِ نامی : آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی سید احمد ہے۔
لقب : آپ وجیہہ الدین کے لقب سے مشہور ہیں۔
بھائی بہن : آپ کے پانچ بھائی تھے جن کے نام یہ ہیں۔
شاہ ظہیر الدین، شاہ نجم الدین، شاہ بہاؤالدین، قاضی شاہ محمود، شاہ برہان الدین، آپ کی کئی بہنیں تھیں جن میں سے ایک کا نام امت الحبیب تھا۔
تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت آپ کے والد کی نگرانی میں گھر پر ہوئی، پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید ختم کیا اور سات سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرکے حافظ کی سند پائی، آپ کو علومِ ظاہری حاصل کرنے میں اپنے چچا سید شمس الدین سے بھی مدد ملی، آپ کے چچا احمدآباد کے قاضی تھے اور اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے، ان سے آپ نے فیض پایا، اپنے ماموں حضرت ابوالقاسم سے آپ نے علمِ حدیث حاصل کیا، جب پندرہ سال کے ہوئے تو آپ علامہ محمد قلی سے علمِ حدیث پڑھ کر فارغ ہوئے، بعد ازاں محدث ابوالبرکات بمبائی عرف عباسی سے بھی اکتسابِ علم کیا، آپ نے ترکِ شاستری کا علم علامہ جلال الدین دوانی کے مرید مولانا عمادالدین تارمی اور خطیب ابوالفضل گاذوانی سے حاصل کیا، چوبیس سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے، علومِ ظاہری کے ساتھ ساتھ علومِ باطنی بھی حاصل کیے اور علومِ ظاہری و باطنی میں ماہر ہوئے۔
احمدآباد میں آمد : سلطان مظفر شاہ دوئم آپ کے والد شاہ نصراللہ کی بڑی عزت کرتا اور امورِ سلطنت میں اکثر ان سے مشورہ لیتا تھا، تخت پر بیٹھنے کے بعد اس نے ان سے کہا کہ وہ چاپانیر سے سکونت کرکے اس کے قریب احمدآباد آکر رہنے لگیں، شاہ نصراللہ اس بات پر راضی ہوگئے اور چاپانیر سے سکونت ترک کرکے احمدآباد آئے اور خان پور میں رہنے لگے، حضرت بھی اپنے والدِ ماجد کے ہمراہ احمدآباد آئے اور احمدآباد ہی میں تمام زندگی گزاری جس وقت حضرت احمدآباد آئے اس وقت حضرت کی عمر آٹھ سال کی تھی، حضرت 917 ہجری میں احمدآباد میں اپنے والد کے ہمراہ رونق افروز ہوئے۔
بیعت : آپ کئی بزرگوں کے روحانی فیوض سے مالامال ہوئے، آپ نے حضرت شاہ قاضن چشتی سے فیض پایا اور دو سال تک ان کی خدمت میں رہ کر ان سے علومِ باطنی حاصل کرتے رہے، حضرت شاہ قاضن کا مزار پٹن میں ہے، حضرت محدث ابوالبرکات بمبائی عرف عباسی سے بھی آپ نے طریقت، حقیقت اور معرفت کی تعلیم حاصل کی۔
آپ حضرت مولانا عمادالدین طارمی کے حلقۂ ارادت میں بھی داخل ہوئے، آپ کے پیر و مرشد کے والد طارم گاؤں کے رہنے والے تھے جو سراج نام کے قصبہ میں ایران میں ہے، وہ موتیوں کا بیوپار کرتے تھے، تجارت کے سلسلہ میں ہندوستان آئے اور گجرات پہنچ کر موتیوں سے لدا ہوا ایک خیمہ حضرت شاہ عالم کو دکھایا، شاہ عالم نے وہ خیمہ خریدا اور اس کی قیمت اس طرح دی کہ ان سے کہا کہ غالیچہ کے نیچے سے ایک لاکھ روپیہ بسم اللہ پڑھ کر نکال لو، انہوں نے ایسا ہی کیا، ان کو غالیچہ کے نیچے سے بجائے ہندوستانی سکہ کے ایرانی سکہ ملے، وہ یہ دیکھ کر متعجب ہوا اور معتقد ہوا، اس کو اولاد کی آرزو تھی، شاہ عالم سے عرض کیا، شاہ عالم نے دعا کی اور فرمایا کہ اس کے یہاں لڑکا ہوگا، جب وہ بڑا ہوئے تو میرا نام بتانا، وہ شخص واپس ایران چلا گیا، طارم پہنچ کر وہاں رہنے لگا، کچھ دنوں کے بعد اس کے یہاں لڑکا پیدا ہوا، اس نے بچے کا نام محمد عمادالدین رکھا، عماد کے معنی تھنبے کے ہیں اور دین کے ساتھ ملاکر یہ معنی ہوئے کہ دین کا تھنبا اور چونکہ طارم کے رہنے والے تھے، نسبتی مکانی کی وجہ سے طارمی مشہور ہوئے، جب سِن بلوغ کو پہنچے تو مولانا عمادالدین طارمی کو معلوم ہوا کہ احمدآباد کے ایک بزرگ کی دعا سے پیدا ہوئے ہیں، ان کے دل میں ان بزرگ (شاہ عالم) کی محبت جاگزیں ہوئی، ایران سے روانہ ہوکر احمدآباد پہنچے اور احمدآباد میں مقیم ہوئے، آپ (حضرت شاہ وجیہہ الدین) سے بیعت ہوئے اور علومِ باطنی کے علاوہ علومِ ظاہری بھی حاصل کیے، ان بزرگان کے علاوہ جن سے آپ (حضرت شاہ وجیہہ الدین) کو ارادت حاصل تھی اور جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے، حضرت غوث گوالیاری ہی سے آپ کو خاص روحانی تعلق تھا اور وہی در اصل آپ کے پیر و مرشد تھے، چنانچہ بجا طور پر آپ کے متعلق لکھا گیا ہے کہ
”اگر چہ ارادت بجائے دیگر داشتند اما ارشاد از شیخ محمد غوث اعظم یافتہ اند و در آدابِ طریقت تابع ایشاں بودند و کار را نزد شیخ محمد غوث باتمام رسانیدہ اند“
غرض ”تصوف میں آپ کی نسبت و عقیدت شیخ محمد غوث سے تھی اگرچہ مرید کسی دوسرے بزرگ کے تھے“
حضرت محمد غوث ایک بلند پایہ بزرگ تھے، شہنشاہِ بابر اور شہنشاہِ ہمایوں ان کی بہت قدر و منزلت کرتے تھے، شیر شاہ سوری نے تخت پر بیٹھنے کے بعد ہمایوں کے مددگاروں اور جانثاروں کو قتل کرنے کا حکم دیا، ان میں حضرت محمد غوث بھی تھے جن کے متعلق شیر شاہ سوری کا یہ خیال تھا کہ وہ ہمایوں کے مددگار و معاون ہیں، ان (حضرت غوث) کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ گجرات روانہ ہوگئے اور احمدآباد پہنچ کر سارنگ پور نام کے علاقہ میں رہنے لگے، ان کے احمدآباد آنے کی خبر جب مشہور ہوئی تو لوگ ان سے ملنے کے لیے جوق در جوق آنے لگے، ایک ہفتہ کے بعد آپ (حضرت وجیہہ الدین) اپنے ماموں مولانا یحییٰ کے ساتھ (حضرت غوث) کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ (حضرت وجیہہ الدین) ان کو دیکھتے ہی ان کے شیفتہ و فریفتہ ہوئے۔
دل را بہ نگاہے برد جانانہ چنیں باید
یک جرعہ خرابم کرد پیمانہ چنیں باید
احمدآباد آنے کے بعد کچھ لوگ تو ان کے عقیدت مند ہوئے اور کچھ لوگوں نے ان کی مخالفت پر کمر باندھی، ہمایوں یہ بات خوب سمجھتا تھا چونکہ انہوں نے اس کا ساتھ دیا ہے اس لیے ان کو شیر شاہ سوری شک و شبہہ کی نگاہ سے دیکھے گا اور ان کو پریشان کیا جائے گا، ہمایوں نے ایران سے آپ کے پاس ایک خط بھیجا اور اس میں اس بات کا اظہار کیا کہ ممکن ہے کہ افغانیوں نے ان کے ساتھ خراب سلوک و برتاؤ کیا ہو۔
اس کے خط کے جواب میں انہوں نے ہمایوں کو لکھا کہ
”علمِ معرفت والا شخص وجد کے حال میں رہ کر جو کچھ بھی زبان سے نکالتا ہے، وہ ایک معمولی انسان سمجھ نہیں سکتا، یہی وجہ ہے کہ یہ نہ سمجھنے کی وجہ سے شیر شاہ سوری کے صوبہ دار شیخ عبدالمقدور بمبائی اور ملک زین الدین میرے خلاف ہوگئے، آخر وہ سب لوگ مٹی میں مل گئے“
دو جماعتیں بن گئیں، ایک جماعت ان (حضرت غوث) کے پرستاروں کی تھی اور دوسری جماعت ان کے مخالفین کی تھی، ان کے پرستاروں کی جماعت میں ہر طبقے کے لوگ تھے، ان میں بعض کے نام یہ ہیں۔
مولانا بدرالقاسم سہروردی، مولانا سید یحییٰ، حسن محمد چشتی، شیخ محمد شاہ چشتی، خواجہ عبدالواحد نقشبندی، مولانا سید عالم، شیخ الامداد متوکل، حضرت عرب شاہ، مولانا میر عبدالاول شارع بخاری، مولانا اسحاق مودودی، سید کمال الدین شیرازی اور شیخ کمال ہمدانی جو جماعت آپ کے خلاف تھی اس کے رہنمائی علی متقی تھے، یہ حضرت علی متقی وہ نہیں ہیں جو حضرت محمد طاہر پٹنی کے پیر و مرشد ہیں اور جن کا مزار مدینہ منورہ میں ہے، ان (حضرت غوث) کے مخالفین نے ایک فتویٰ نکالا جس پر بہت سے لوگوں کے دستخط تھے اور جس میں بعض باتوں کی بنا پر ان کے قتل کو جائز قرار دیا گیا تھا۔
یہ ان (حضرت غوث) کے قتل کا فتویٰ شاہِ گجرات سلطان محمود سویم کے پاس دستخط کے واسطے بھیجا گیا، سلطان نے پڑھا تو اس کو پڑھ کر تعجب ہوا کہ اس پر آپ (حضرت شاہ وجیہہ الدین) کے دستخط نہیں ہیں، ایسا کیوں ہے؟
امیر افضل بمبائی نے سلطان کو بتایا کہ ان (حضرت وجیہہ الدین) کے دستخط اس پر اس وجہ سے نہیں ہیں کہ وہ ان (حضرت غوث) کے مرید، معتقد و منقاد ہیں، یہ سن کر سلطان نے فتویٰ پر دستخط نہ کیے اور کہا کہ جب ان (حضرت وجیہہ الدین) جیسے ان (حضرت غوث) کے مرید ہیں تو پھر ان (حضرتِ غوث) کی کیا شان و مرتبہ ہوگا جن کے مرید اس درجہ اور علم کے ہیں۔
سلطان خود آپ (حضرت وجیہہ الدین) کی خانقاہ میں گیا اور فتویٰ دکھایا، آپ نے فتویٰ پڑھا اور فرمایا کہ جو الزامات ان (حضرت غوث) پر لگائے گئے ہیں، وہ لغو، بے بنیاد اور سراسر غلط ہیں، عام لوگ ان کا درجہ کیا جانیں، وہ ایسے بڑے عالم ہیں کہ ان کو سمجھنا دشوار ہے، وہ ایسے بڑے درویش ہیں کہ ان تک رسائی مشکل ہے، وہ صاحبِ نسبت اور صاحبِ کشف و کرامات بزرگ ہیں، ان کا شمار اہلِ حال اور اہلِ قال میں ہے، سلطان محمود سویم یہ سن کر متحیر ہوا، اس نے وہ فتویٰ پھاڑ دیا، اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے۔
”و چوں شیخ محمد غوث بگجرات رفتند علی متقی کہ صاحبِ علومِ ظاہر و باطن بودند باجمعی از علمائے ظاہر بسبب بعضے سخنان بلند فتویٰ بر قتل ایشاں نوشتند و حاکمِ آنجا تفویٰ را موقوف بہ نوشتن شیخ وجیہہ الدین داشت، چوں ایشاں بخانۂ شیخ محمد رفتند در دیدن اول فریفتۂ شیخ گشتند و کاغذ فتویٰ را پارہ کردند و بشیخ علی متقی گفتند کہ فہم شما بکمالات شیخ نرسیدہ و می گفتند کہ در ظاہر شریعت چناں باید بود کہ شیخ علی متقی ست و در حقیقت آنچنانکہ مرشدِ ماست“
ترجمہ : اور جب شیخ محمد غوث گجرات تشریف لے گئے تو شیخ علی متقی جو صاحبِ علومِ ظاہر و باطن تھے، علومِ ظاہری کی ایک جماعت کے ساتھ بوجہ خاص باتوں کے ان کے قتل کا فتویٰ لکھا اور وہاں کا حاکم شیخ وجیہہ الدین کے دستخط کے بغیر اس فتویٰ کو تسلیم نہیں کرتا تھا، جب وہ شیخ محمد غوث کے مکان پر گئے تو دیکھتے ہی شیخ کے فریفتہ ہوئے اور فتویٰ پھاڑ کر پھینک دیا اور شیخ علی متقی سے کہا کہ تمہاری عقل شیخ کے کمالات تک نہیں پہنچی ہے اور کہتے ہیں کہ ظاہر شریعت میں ایسا ہونا چاہیے جیسے کہ شیخ علی متقی ہیں اور حقیقت میں ایسا ہونا چاہیے جیسا کہ ہمارے پیر و مرشد ہیں۔
”ابتداً فقہی کتابوں سے مسئلہ تکفیر پر روشنی ڈالی ہے پھر احادیث سے سنداً سب کو شرح سے بیان کیا ہے، آخر میں صوفیائے کرام کے احوال سے بحث کی ہے کہ حالتِ سکر میں جو کچھ کہہ جاتے ہیں، وہ قابلِ مواخذاہ نہیں ہوتا پھر سید محمد غوث گوالیاری کی کتاب اورادِ غوثیہ پر لوگوں نے جو اعتراضات کیے ہیں، ان کا جواب دیا ہے۔۔۔ آپ کا ارشاد یہ تھا کہ کسی شخص کی سو باتوں میں سے ایک بات بھی اسلام کی ہو تو اس کو مسلم سمجھو اور کسی کلمہ گو اہلِ قبلہ کو کافر نہ کہو“
حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری کا تعلق شطاری سلسلہ سے تھا اور چونکہ آپ (حضرت وجیہہ الدین) ان کے مرید تھے اس لیے آپ بھی شطاری سلسلہ سے وابستہ تھے۔
شطاری سلسلہ : شطاری سلسلہ کو حضرت شیخ بایزید بسطامی سے منسوب کیا جاتا ہے، عہدِ وسطیٰ میں اس سلسلہ کو کافی مقبولیت و فروغ حاصل ہوا، شطاری کہنے اور کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ
”سلوک اور طریقت میں وہ دوسرے سلسلوں کے بزرگوں سے زیادہ تیز اور سرگرم (شطار) ہوتے ہیں، یہ لوگ جنگلوں میں رہ کر سخت ریاضتیں کرتے تھے اور ان سے غیر معمولی افعال و تصرفات منسوب کیے جاتے تھے“
ہندوستان میں یہ سلسلہ حضرت شیخ عبداللہ شطاری کے ذریعہ پھیلا، وہ اپنے پیر و مرشد کا حکم پاکر ایرن سے ہندوستان آئے، ان کا نسب نامہ پدری پانچ واسطوں سے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی سے ملتا تھا اور شجرۂ بیعت سات واسطوں سے حضرتِ خواجہ بایزید بسطامی سے ملتا تھا۔
ہندوستان آکر کچھ دن وہ لوگ پورب میں رہے، مانکپور میں حضرت شیخ حسام الدین مانکپوری سے اکثر ملتے رہتے تھے، وہاں سے جونپور گئے، وہاں سلطان ابراہیم شرقی سے ان کی نہ بنی، مالدہ پہنچ کر وہاں قیام کیا، وہاں انہوں نے بہت عروج پایا، بہت لوگ ان کے مرید ہوئے، بہت سے ان کے حلقۂ بگوش ہوئے، آپ کے متعلق کہا گیا ہے کہ
”آپ کے طریقِ کار میں لوگوں کو مرغوب و متاثر کرنے والی کئی باتیں تھیں، مشہور ہے کہ آپ نقارہ بجواتے اور اعلان کرتے کہ ہے کوئی خدا کا طالب جسے ہم راہِ خدا دکھائیں” سطوتِ شوکتِ ظاہر بھی حاصل تھی، بڑی شان سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے، نقارہ بجواتے، علم اٹھواتے، خود سلطانی لباس اور ہمراہی صوفی وردی پہنتے، مجلس میں بیٹھتے تو ہر طرف نگاہ دوڑاتے اور کہتے کہ کیا یہاں کوئی تختۂ سیاہ یعنی بے اعتقاد اور شکی مزاج طالب علم ہے، بعض تو ان طریقوں کو ناپسند کرتے لیکن بعضوں پر ان کا بڑا اثر ہوتا“
وہ جب بہار پہنچے تو شیخ محمد علا کو جو شیخ قاضی شطاری کے نام سے مشہور ہیں یہ پیغام بھیجا کہ
”اس درویش نے اس خیال سے سیاحی اختیار کی ہے کہ اگر کلمۂ توحید کے معنی کوئی اس سے بہتر جانتا ہو تو وہ مسافر کو تعلیم دے اور اگر ایسا نہ ہو تو بے مشقت وہ گنجِ توحید مسافر سے حاصل کرے“
شیخ قاضی شطاری نے یہ جواب دیا کہ
”ایسے فضول گو اشخاص خراسان ایران سے بہت آتے ہیں“ جب یہ پیغام ان تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ
”شیخ محمد علا کے کمالات کا ظہور مجھ ہی فضول گو کی تلقین پر منحصر ہے“ اس کے بعد وہ (شاہ عبداللہ) مانڈو کی طرف چلے گئے، شیخ محمد علا نے خواب دیکھا جس میں یہ بشارت ہوئی کہ
”تمہاری گرہ کشائی شاہ عبداللہ سے وابستہ ہے“
وہ فوراً مانڈو کی طرف روانہ ہوئے، شاہ عبداللہ کے دروازہ پر تین دن تک کھڑے رہے، وہ (شاہ عبداللہ) چوتھے دن باہر آئے، سرزنش اور امتحان کے بعد خلعتِ خلافت عطا کی اور واپس جانے کا حکم دیا، شاہ عبداللہ شطاری کا 1572 عیسوی میں وصال ہوا، ان کے خلیفۂ اعظم شیخ محمد علا المعروف بہ شیخ محمد قاضن شطاری نے ضلع مظفر پور (بہار) میں رہ کر بیس سال رشد و ہدایت میں گزارے، ان کے کئی لڑکے تھے جن کے نام یہ ہیں۔
مخدوم منصور حلاج شہید، عبدالرحمٰن شطاری، شیخ ابوالفتح ہدیت اللہ سرمست شطاری، ان کے خلیفہ شیخ ظہور حاجی حمید حضور گوالیاری نے دونوں کی پرورش کی، ایک کا نام شیخ فریدالدین جہانگیر تھا جو شیخ بہلول کے نام سے مشہور ہوئے اور دوسرے کا نام شیخ خطیرالدین تھا جو شیخ غوث گوالیاری کے نام سے مشہور ہوئے، حضرت شیخ محمد غوث شطاری سلسلہ میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، وہ حضرت شیخ فریدالدین عطار کی نسل سے تھے، ان (حضرت محمد غوث) کی اولاد ان کے بھائی کی پرورش شیخ ظہور حاجی حمید نے کی اور ان کو نہ صرف سلوک و باطن کی پوری تعلیم دی بلکہ
”نامور خاندادوں کے مشائخ جو کمالات اور حالات رکھتے ہیں، ان کے اطوار اور اسرار، بالخصوص شطاریہ مشرب کی رفتار، دعوت کا فن، افکار کی طرز اور شغال و تصورات کی سندیں، غرضکہ کل چیزیں دو سال کی اندر تعلیم و تلقین فرما دیں“
حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری نے شطاری سلسلہ کو بہت فروغ دیا، ان کے مرید حضرت شاہ وجیہہ الدین اور ان کے شاگرد شیخ صبغت اللہ بھڑوچی نے شطاری سلسلہ اور دور دور تک پھیلایا۔
مدرسہ کا قیام : آپ نے 934 ہجری مطابق 1538 عیسوی میں خان پور، احمدآباد میں ایک مدرسہ کھولا اور اس مدرسہ کا نام مدرسہ عالیہ علویہ رکھا، کچھ عرصے کے بعد طلبا کے لیے دارالاقامہ یعنی بورڈنگ ہاؤس بنایا گیا، مدرسہ کا قیام ایک خاص اہمیت رکھتا ہے، اس مدرسے سے بہت سے ایسے لوگ پڑھ کر نکلے جنہوں نے ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دور دراز ممالک میں جاکر رشد و ہدایت اور تلقین کی، آپ نے مدرسہ میں 84 سال کی عمر تک درس دیا، جب آپ کی عمر 84 سال کی ہوئی تو پڑھانا چھوڑ دیا اور مدرسہ کے نگراں اور مربی کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا، ایک رات سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے، سرور عالم نے آپ کو حکم دیا کہ
”مدرسہ میں درس دینا نہ چھوڑو، جس طرح سے اب تک پڑھاتے آئے ہو، اسی طرح پڑھاتے رہو“
سرورِ عالم کا یہ حکم پاکر آپ نے پھر پڑھانا شروع کر دیا اور آخر دم تک یہ خدمت انجام دیتے رہے، اس خواب کے بعد آپ نے مدرسہ کا نام بدل دیا اور بجائے مدرسہ عالیہ علویہ کے اس کا نام مدرسیہ محمدی رکھا، مدرسہ میں بارہ سو طالب علم تھے، اس مدرسہ سے اسی ہزار طالب علم عالم و فاضل ہوکر نکلے، جب 1109 ہجری میں مدرسہ ہدیات بخش، احمدآباد میں قائم ہوا تو آپ کے مدرسہ پر اس کا اثر پڑا اور بجائے ترقی کے تنزل کی طرف جانے لگا، طلبا بھی کم ہوگئے۔
مشہور و ممتاز شاگرد : آپ کے مدرسہ سے ہزاروں طلبا فارغ التحصیل ہوکر نکلے، ان میں سے چند کے نام یہ ہیں۔
حضرت محمد غوث گوالیاری چاروں صاحبزادے یعنی شاہ عبداللہ، شاہ ثناؤاللہ، شاہ اویس اور شاہ اسماعیل، شاہ عبداللہ نے آپ کا نام سارے ہندوستان میں روشن کیا، شہنشاہِ اکبر ان کے علم و فضل سے بہت متاثر تھا، اکبر نے ان کو ”اؤلیائے دولت“ کا خطاب دیا تھا، شیخ محمد فضل اللہ نے بھی اسی مدرسہ میں تعلیم پائی تھی، علامہ صبغت اللہ نے بھی آپ کے مدرسہ میں علم حاصل کیا، وہ بورڈنگ میں رہتے تھے، انہوں نے بہت عزت اور شہرت حاصل کی، ان کے والد کا نام روح اللہ تھا، اصفہان کے رہنے والے تھے، ہندوستان آکر بھڑوچ میں رہنے لگے، روح اللہ کی شادی بھڑوچ کے ایک بزرگ علامہ سید کمال الدین کی لڑکی سے ہوئی تھی، ان کے بطن سے 952 ہجری میں علامہ صبغت اللہ پیدا ہوئے، اس فہرست میں سے اسحاق بھڑوچی کا نام حذف نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی سید جلال الدین ابو محمد ماہ عالم کا۔
مہدوی تحریک : آپ کے زمانہ میں مہدوی تحریک زوروں پر تھی، اس تحریک کے بانی سید محمد جونپوری تھے، وہ 1443 عیسوی پیدا ہوئے تھے، شیخ دانیال چشتی جونپوری سے بیعت تھے، وہ علومِ ظاہری و باطنی میں اپنی مثال آپ تھے، اس بنیاد پر سید محمد جونپوری کو دیگر علما نے اسدالعلما کا خطاب دیا تھا، سلطان حسین شرقی جونپور کا آخری بادشاہ تھا، وہ 1458 عیسوی میں تخت پر بیٹھا، بہلول لودھی نے اس کو 1480 عیسوی میں شکست دی، وہ بنگال چلا گیا اور وہاں 1499 عیسوی میں راہی ملک بقا ہوا۔
سطان حسین شرقی کے متعلق مہدویوں کا یہ خیال تھا کہ وہ گوڑ کے راجہ دلپت یا دلیپ رائے کا خراج گزار تھا، سید محمد جونپوری نے سلطان حسین شرقی کو رائے دی کہ وہ راجہ سے لڑے اور خراجِ دینا بند کرے، سلطان حسین شرقی لڑنے پر آمادہ ہوا، لڑائی میں سید محمد جونپوری بھی شریک ہوئے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ ترہٹ کے راجہ سے ہوئی تھی، انہوں نے (سید محمد جونپوری) نے راجہ پر حملہ کیا، ان کی تلوار راجہ کا سر کاٹتی ہوئی سینہ پر پڑی، راجہ دلیپ رائے کا دل سینہ سے نکل آیا، اس وقت انہوں نے (سید محمد جونپوری) نے دیکھا کہ جس بت کی راجہ پوجا کرتا تھا، اس کی صورت اس کے دل پر کندہ ہے۔
یہ دیکھ کر آپ کو تعجب ہوا، آپ نے سوچا کہ جب ان معبودوں کا یہ حال ہے تو معبودِ حقیقی کا کہنا ہی کیا، اس جذبہ کی حالت میں آپ نے بارہ برس گزار دیئے، اس کے بعد وطن کو خیر باد کہہ کر داناپور گئے، پھر کالپی، چاندیری، چاپانیر اور مانڈو پہنچے، بعد ازاں دکن میں قیام فرمایا، آپ کی دعا سے احمد نظام شاہ بن نظام الملک بحری کے اولاد ہوئی، احمد نگر سے بیدر پہنچے، گلبرگہ اور بیجاپور میں کچھ عرصے قیام کرکے ڈابول گئے، وہاں سے مع تین سو ساٹھ مریدین و معتقدین کے مکہ معظمہ پہنچے، حج کیا وہاں آپ نے سنگِ اسود اور دکن کے درمیان مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دعویٰ آپ نے برلی میں کیا، وہاں سے واپس کھمبایت آئے پھر احمدآباد گئے، وہاں آپ نے اعلان کیا کہ
”میں اس دنیا میں مادی آنکھوں سے خدا دکھا سکتا ہوں“
علما نے اس دعویٰ پر اعتراض کیا، آپ کو احمدآباد سے چلے جانے کا حکم ہوا، آپ پٹن پہنچے پھر برلی گئے، برلی میں پھر وہی دعویٰ کیا۔ بعد ازاں جالور، ناگور، جیسلمیر رکتے ہوئے ٹھٹہ پہنچے، ٹھٹہ میں ایک سال قیام کیا، وہاں سے قندھار گئے اور قندھار سے فرہ پہنچ کر 23 اپریل 1504 عیسوی کو عالمِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف کوچ فرمایا۔
مہدوی تحریک نے خاندیش، احمدنگر اور گجرات میں کافی زور پکڑا، گجرات میں جب مہدویوں پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تو آپ (حضرت شاہ وجیہہ الدین) سے دستخط کرنے کو کہا گیا، آپ نے دستخط کرنے سے انکار کردیا، آپ نے بتایا کہ
”جس نے کلمہ پڑھ لیا، اس کو کافر نہ کہنا چاہیے، جس مسلمان میں سو باتوں سے ایک بات بھی اسلام کے حکم کے مطابق ہو تو اس کو مسلمان سمجھنا چاہیے۔
سلاطین و امرا سے تعلقات : آپ کے آبا و اجداد جب گجرات آئے تو بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے، کوئی قاضی مقرر ہوا تو کوئی قاضی القضاۃ، کسی کو لشکر افسر کا عہدہ ملا تو کسی کو مذہبی امور سپرد کیے گئے، آپ شاہی دربار میں نہ جاتے تھے اور نہ ہی بادشاہوں کی پروا کرتے تھے، گجرات کے بادشاہ سلطان محمود سویم اور سلطان مظفر شاہ سویم آپ کی بہت عزت کرتے تھے، سلطان محمود سویم آپ کی خانقاہ میں آپ سے ملنے آیا اور سلطان مظفر شاہ سویم آپ کی دعا کا خواہش مند رہتا تھا، سلطان مظفر شاہ سویم نے اپنی تاج پوشی پر آپ کو بلایا، آپ تشریف نہیں لے گئے، سلطان مظفر شاہ سویم خود آپ کی خدمت میں حاضر ہور اور آپ سے عرض کیا کہ
”میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لیے دعا کریں اور شاہی تلوار اپنے دستِ مبارک سے میری کمر میں باندھ دیجیے“
آپ نے اس کی درخواست منظور فرمائی، تلوار اس کی کمر میں باندھ کر آپ نے نعرہ لگایا کہ ”سلطان زندہ باد“
آپ نے تلوار اس کی کمر میں باندھتے وقت جو پیشین گوئی کی تھی، وہ لفظ صحیح نکلی، اس نے اپنی تلوار سے اپنا گلا خود کاٹ لیا، خانِ اعظم نے اس کا سر شہنشاہِ اکبر کو بھیج دیا۔
آپ لوگوں کی امانتیں بھی رکھتے تھے، سلطان محمود سویم کے ورثا اور مددگاروں پر پابندی عائد کی گئی اور یہ اعلان ہوا کہ کوئی شخص سلطان محمود سویم کے ورثا کو کسی طرح کی امداد نہ دے اور اس کے امرا اور مددگاروں کی امانت نہ رکھے اور اگر کسی نے امانت رکھی ہو تو وہ حکومت کے افسرِ متعلقہ کے سپرد کر دے، آپ کو اس اعلان کا علم نہ تھا، آپ کے پڑوس میں ایک شخص رہتا تھا جو اپنے آپ کو تیموری اور چنگیزی نسل کا کہتا تھا، جب اس کو یہ معلوم ہوا کہ آپ امانتیں رکھتے ہیں تو اس نے شہر کے کوتوال کو خبر کی، کوتوال نے میر علاؤالدین کو جو خان پور کا فوجدار تھا حکم دیا کہ وہ معاملہ کی تفتیش کرے، وہ خانقاہ میں آیا اور اس شبہ پر کہ آپ سلطان محمود سویم کے ورثا اور مددگاروں کی امانتیں رکھتے ہیں، آپ کو گرفتار کرکے گھوڑے کے آگے دوڑاتا ہوا دربار تک لے گیا، اس وقت وہاں سید میران بخاری، سید حامد بخاری، شاہ ابو تراب سراجی، مرزا مقیم اور سید جیو عبدالرحمٰن موجود تھے، وہ آپ کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے، سید میران اور سید حامد آپ کے ساتھ اس خراب برتاؤ پر سخت غصے ہوئے، سید حامد نے تلوار نکال لی اور آپ کے قدموں پر گر پڑا۔
فوجدار نے فردِ جرم پیش کی، اعتماد خاں نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ نے اعلان سنا تھا کہ کوئی شخص سلطان محمود سویم کے ورثا، حامیوں اور مددگاروں کو مدد نہ دے اور نہ ان کی امانت رکھے اور اگر امانت رکھی ہو تو افسرِ متعلقہ کے سپرد کر دے، آپ نے فرمایا کہ
”میں نے اس قسم کا کوئی اعلان نہیں سنا، اگر مجھ کو معلوم ہوتا کہ اس قسم کا اعلان ہوچکا ہے تو میں امانت رکھنے سے انکار کردیتا، کیونکہ اسلام کا قانون میری زندگی سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے“
بعد ازاں آپ سے کہا گیا کہ خانقاہ تشریف لے جائیں، سید حامد بخاری نے اپنی گاڑی میں بٹھا کر آپ کو خانقاہ میں پہنچایا۔
شہنشاہِ اکبر نے جب گجرات فتح کرلیا تو اس کے سامنے ایک فہرست باغیوں کی مدد کرنے والوں اور ان کی امانت رکھنے والوں کی پیش ہوئی، اس فہرست میں آپ کا بھی نام تھا، اکبر نے آپ کو بلایا اور عزت و احترام سے بٹھایا، دونوں گلے ملے، بجائے مصافحہ کے معانقہ پر یہ ملاقات ختم ہوئی، شہنشاہِ اکبر اور آپ کی آخری ملاقات اس وقت ہوئی جبکہ بھدر کے شاہی محل کے ایک کمرہ میں بیٹھا ہوا تھا، اس کمرے کے چار دروازے تھے، اکبر نے آپ سے کہا کہ دیکھیے کہ اس کمرے کے چار دروازے ہیں اور ان چار دروازوں کی طرح اپنے یہاں چار فرقے ہیں یعنی حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی اتنا کہہ کر اکبر نے آپ سے سوال کیا کہ
”یہ بتائے کہ ان چاروں فرقوں میں سب سے اچھا فرقہ کون سا فرقہ ہے“
آپ نے جواب دیا کہ ”دیکھنے کی یہ بات ہے کہ اس کمرے کے چار دروازے ہیں اور آپ خود اس کمرے میں مسند پر بیچ میں بیٹھے ہوئے ہیں جو بھی اس کمرے میں کسی بھی دروازے سے داخل ہوگا تو آپ کو ضرور دیکھے گا“
اتنا کہہ کر آپ خاموش ہوگئے، اکبر آپ کا مطلب سمجھ گیا کہ فرقہ کوئی بھی ہو منزل ایک ہے، ہر فرقہ اللہ سے ملا دیتا ہے، اکبر آپ کی ذہانت، علمیت اور قابلیت سے بہت متاثر ہوا، اعتماد خاں کا لڑکا شیر خاں اپنا مال آپ کے پاس بطورِ امانت رکھتا تھا، شیر خاں فولادی، موسی خاں، فتح خاں بلوچی، سید حامد، تاتار خاں، بیرم خاں آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور آپ کے معتقد و منقاد تھے۔
سفارش : ایک مرتبہ آپ سلطان محمود سویم کے پاس شاہی محل میں ایک شخص کی سفارش کرنے تشریف لے گئے، اس شخص کو سولی پر چڑھائے جانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ ناگاہ آپ تین دروازے کے چوک احمدآباد سے گزرے، وہاں دیکھا کہ ایک شخص کو سپاہی لے کر آئے، اس کو بھور کے برج میں سولی پر چڑھانا تھا، اس شخص نے آپ سے عرض کیا کہ اس کی رہائی کے لیے دعا کریں، آپ نے اس سے حالات معلوم کیے اور سلطان محمود سویم سے سفارش کی، سلطان محمود سویم نے آپ کی سفارش پر اس کو رہا کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
تاریخی ملاقات : حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے آپ سے ملاقات کی، اس ملاقات کے متعلق وہ اس طرح لکھتے ہیں کہ
”محرر سطور جب سیدِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے قصد سے اس ولایت میں پہنچا تو آپ کی ملاقات کی سعادت حاصل کی اور سلسلۂ عالیہ قادریہ کے بعض اذکار و اشغال سے مشرف ہوا“
شادی اور اولاد : آپ کے دو بیویاں تھیں، آپ کی ایک بیوی کا نام امت العزیز تھا، دونوں بیویوں سے جو بچے ہوئے، ان کے نام یہ ہیں۔
شاہ محمد، شاہ عبدالحق، شاہ عبداللہ، شاہ عبدالواحد، شاہ حامد، شاہ غالب، شاہ حبیب اللہ، شاہ عبدالشکور، شاہ غضنفر، آپ کے لڑکیاں بھی تھیں، ایک صاحبزادی امت الحبیب کا انتقال مکہ میں ہوا۔
وفات : آپ 997 ہجری میں واصلِ بحق ہوئے، اپنی خانقاہ کے صحن میں احمدآباد میں مزارِ پرانوار مرجعِ خاص و عام ہے، بعض کا خیال ہے کہ ”وفاتِ شیخ وجیہہ الدین در عزۂ صفر سال نہصد و نو دہشت ہجری بودہ و قبر درمیان شہر احمدآباد ست“
(شیخ وجیہہ الدین کی وفات صفر 997 ہجری میں ہوئی اور ان کا مزار شہر احمدآباد کے وسط میں ہے)
غرض آپ کی وفات 1590 عیسوی میں ہوئی۔
حلقۂ مریدین و معتقدین : آپ کا حلقۂ مریدین و معتقدین بہت وسیع تھا، اس حلقہ کی نمایاں ہستیاں حسبِ ذیل ہیں۔
مولانا عبدالغنی جونپوری، علامہ صبغت اللہ بھڑوچی، سید جلال الدین، مقصود عالم، علامہ اسحاق، حضوری ہجوری، امیر صادق خاں، حسن فراکی، ملا عبدالرحمٰن ان کے علاوہ ان کے لڑکے شاہ محمد، شاہ عبدالحق، شاہ عبداللہ، شاہ عبدالواحد، شاہ غالب، شاہ حبیب اللہ، شاہ عبدالشکور اور شاہ غضنفر بھی آپ سے بیعت تھے، بہرام خاں آپ کا معتقد تھا، شیخ مبارک بھی آپ سے عقیدت رکھتا تھا اور اپنے لڑکوں سے فیضی اور ابوالفضل کی فلاح و بہبود کے لیے اس نے آپ سے دعا کرائی تھی، علامہ عبدالغفور، بھولا شاہ مادری شطاری اور شیخ حسن موسیٰ شطاری کے لڑکے شیخ محمد غوثی بھی آپ کے مرید تھے۔
سجادہ نشیں : آپ کی وفات کے بعد آپ کے سجادہ پر آپ کے صاحبزادے شاہ عبداللہ بیٹھے، ان کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ
”اب آپ کے جانشیں آپ کے خلف الصدق شیخ عبداللہ ہیں جو علم، حلم، ریاضت، غربت، ہمت، عفت اور درویشوں کے تمام اخلاق کے ساتھ موصوف ہیں“
سیرت : آپ کبائر مشائخ اہلِ تصوف تھے، آپ کے حلقۂ درس میں بہت لوگوں نے فیض پایا، علومِ ظاہری و باطنی میں اپنی مثال آپ تھے، لوگ آپ پر اس قدر اعتماد و بھروسہ کرتے تھے کہ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا کرتے تھے، سرورِ عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی امانتیں رکھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امین کہلاتے تھے، آپ نے سرورِ علام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور لوگوں کی امانتیں رکھیں اور مانگنے پر واپس کردیں، آپ کی علمیت اور قابلیت کا دور دور شہرہ تھا، آپ کو ”استاد الاساتذہ“ یعنی استادوں کا استاد کے لقب سے پکارا جاتا تھا، گجرات کے سلاطین ہی نہیں بلکہ گجرات کے عالم اور صوفی بھی آپ کو ایک بلند پایہ محدث مانتے تھے اور ”ملک المحدثین“ کے لقب سے آپ کو خطاب کرتے تھے، آپ فتویٰ بھی دیتے تھے اور آپ کا دیا ہوا فتویٰ حرفِ آخر ہوتا تھا، آپ شان و شوکت سے نفرت کرتے، معمولی کھانا کھاتے اور سادہ کپڑے پہنتے، آپ کھادی کے کپڑے پہنتے، آپ کے کھادی کے کپڑے پہننے کی وجہ سے احمدآباد اور آس پاس کے شہروں اور قصبوں میں کھادی پہننے کا رواج عام ہوا۔
آپ کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ
”ولایتِ گجرات کے متاخرین مشائخ میں سے ہیں، کامل دانش مند، جامع کمالات و برکات ہیں، معمر و مرتاض تھے، تدریسِ علوم، تصنیفِ کتب اور طالبوں کی تربیت و ارشاد میں مشغول رہتے تھے، آپ نے اکثر کتابوں کی شرحیں اور حواشی لکھے ہیں، صاحبِ تالیفات بھی ہیں، لباس اس علاقے کے عوام کا سا پہنتے تھے“
آپ کے علم و فضل کا یہ حال تھا کہ ”ان کے علم و فضل کا دریا احمدآباد میں بہتا رہا، انہوں نے کئی سال درس دیا اور ایک عالم کو سیراب کیا اور متعدد درسی کتب پر حاشیے اور شرحیں لکھیں“
ان کی روزمرہ کی زندگی کے متعلق یہ کہنا صحیح ہے کہ
”ان کی زندگی نہایت سادہ تھی، موٹا کپڑا پہنتے اور عام لوگوں کی طرح رہتے جو کچھ آتا وہ دوسروں پر خرچ کرتے، امیروں کے گھر پر بطورِ خود کبھی نہ جاتے، ایک دو دفعہ حکامِ وقت کی طلب پر بہ مجبوری و اکراہ جانا پڑا، ورنہ گھر اور مسجد کے احاطہ سے باہر قدم نہ نکالتے“
آپ کے ایک جید عالم ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں، اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ کو علومِ باطنی پر بھی دسترس حاصل تھی، آپ کا شمار اہلِ دل اور اہلِ نظر میں ہوتا تھا، حاجت مند، بیمار اور مصیبت زدگان آپ کی خدمت میں جوق در جوق آتے تھے اور اپنے درد کی دوا پاتے تھے اور ”خلائق را پیوستہ از انفاسِ متبرکہ او فیض می رسید و حق سبحانہٗ اسمِ الشافی را ظاہر دارد را مظہر ساختہ بود، تا ہر روز جمعے لاتعداد لاتحصیٰ از بیماراں و محنت زدگان بہ ملازمتِ او آمدہ التماس و دعا می نمودند و اثرِآں زود می یافتند“ آپ گجراتی کہلانے پر فخر کرتے تھے۔
علمی ذوق : آپ کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ آپ نے بہت سی کتابوں پر حاشیے لکھے اور کچھ کتابیں بھی لکھیں، کل کتابوں کی تعداد 197 بتائی جاتی ہے، آپ نے جو حاشیے لکھے، ان میں سے حسبِ ذیل مشہور ہیں۔
حاشیہ بیضاوی، حاشیہ مؤقف، حاشیہ قطبی منطق، حاشیہ برحاشیہ محقق دوانی، حاشیہ اصفہانی۔
جو کتابیں آپ نے لکھیں ان میں مشہور یہ ہیں۔
رسالہ جنت العدن، تفسیرِ بیضاوی، شرح حکمت العین۔
آپ کو اپنے قائم کردہ مدرسہ عالیہ علویہ سے اس قدر لگاؤ تھا کہ تا دمِ آخر اس کی خدمت میں مصروف رہے، آپ نے بہت سی کتابیں جمع کیں اور علوی کتب خانہ ہندوستان بھر میں مشہور تھا۔
شعر و شاعری : آپ کو شعر و شاعری کا بھی شوق تھا، آپ کا تخلص ”وجیہہ“ تھا۔
تعلیمات : آپ نے توکل و قناعت پر بہت زور دیا، توکل اور قناعت کے بغیر اندرونی کشمکش ختم نہیں ہوسکتی، اندرونی کشمکش سے نجات پائے بغیر سکون و اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا، آپ نے فرمایا کہ
”کسی شخص کی سو باتوں میں سے ایک بات بھی اسلام کی ہو تو اس کو مسلم سمجھو اور کسی کلمہ گو اہلِ قبلہ کو کافر نہ کہنا چاہیے“
کشف و کرامات : آپ نے سلطان مظفر شاہ سویم کی درخواست پر اس کی کمر میں اپنے دستِ مبارک سے تلوار باندھتے ہوئے جو فرمایا تھا، ویسا ہی ہوا اور جن نتائج سے اس کو آگاہ کیا تھا ویسا ہی ظہور میں آیا، آپ کے مدرسہ میں غبی سے غبی لڑکا آتا تو وہ بھی عالم ہوکر نکلتا تھا۔
علوئے مرتبت : حضرت پیر محمد شاہ نہایت پابندی سے آپ کے مزارِ مبارک پر حاضر ہوتے تھے لیکن اندر نہیں جاتے تھے، باہر سے ہی فاتحہ پڑھ کر واپس آجاتے تھے، لوگوں نے اندر حاضر ہونے پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ اندر اس وجہ سے نہیں جاتا ہوں کہ کہیں مجھ سے کوئی بے ادبی نہ ہوجائے، اس لیے باہر سے ہی سلام پیش کرکے واپس آجاتا ہوں۔
سلاطین و امرا کو آپ کے دستِ مبارک سے لکھے ہوئے خط ملنے کی آرزو رہتی تھی، ان میں سے خاندیش کا سلطان میراں محمد فاروقی بھی تھا، ایک دفعہ ایسا ہوا کہ برھان پور سے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ برہان پور کے بادشاہ کو ایک سفارشی خط تحریر فرما دیں کہ ان کے مکانات گرانے کا حکم منسوخ کردیا جائے، آپ نے خاندیش کے بادشاہ کے نام ایک خط لکھ دیا، وہ خط جب ملا تو سلطان اپنی آنکھوں اور پیشانی سے ملا اور بوسہ دیا اور اپنی خوش قسمتی پر فخر کیا پھر یہ حکم جاری کیا کہ جو مکان پرانا ہے اسے توڑ دیا جائے اور ہمارے خرچ سے نیا مکان بنا کر پرانے مکان میں رہنے والے کو دے دیا جائے، خاندیش کے سلطان نے آپ کا وہ خط احتیاط سے اپنے پاس رکھا، ایک دن درباریوں کو بلا کر یہ وصیت کی کہ
”میرے مرنے کے بعد یہ خط میرے سینہ پر رکھ دینا، قبر کی مشکلات اس خط کے وسیلہ سے آسان ہوں گی اور روزِ قیامت میری نجات کا باعث ہوگا، یہ کہنا کہ مردے کے سینے پر کاغذ رکھنے کا حکم نہیں ہے، اس خط پر اس کا اطلاق بالکل نہیں ہوتا ہے کیونکہ اس خط میں قرآن پاک کی آیتیں ہیں، پس اس خط کو میرے سینے پر ضرور رکھنا“
مقبرہ : امیر صادق خاں نے جو شہنشاہِ اکبر کا پنج ہزاری امیر تھا اور جو شہزادہ سلیم کا استاد تھا اور آپ (حضرت وجیہہ الدین) کا ایک مخلص مرید تھا، مزارِ مبارک پر ایک شاندار مقبرہ 1005 ہجری میں تعمیر کرایا جس کا گنبد احمدآباد میں سب سے بڑا کہا جاتا ہے، نواب مرتضیٰ خاں نے مزار کا چھپر کھٹ تیار کرایا اور اس پر سیب کا نہایت اعلیٰ درجہ کا کام کرایا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.