Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شیخ سراج الدین

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شیخ سراج الدین

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-53

    حضرت شیخ سراج الدین مقتدائے دین، پیشوائے اہلِ یقین، شمع شبستانِ ہدایت اور چراغِ دودمانِ ولایت ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ کا نسب نامہ حضرت امام حسن تک پہنچتا ہے۔

    والد ماجد : آپ کے والد ماجد کا نامِ نامی اسمِ گرامی حضرت کمال الدین علامہ ہے وہ عبدالرحمٰن کے صاحبزادے تھے، آپ کے والد ماجد بہت بڑے عالم تھے اور اس وجہ سے لوگ آپ کو علامہ کہہ کر پکارتے تھے، وہ محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اؤلیا کے مرید و خلیفہ تھے، ان کو حضرت نصیرالدین چراغ دہلی سے بھی خرقۂ خلافت ملا تھا وہ حضرت چراغ دہلی کی بہن کے لڑکے تھے۔

    والدہ ماجدہ : آپ کے والد حضرت کمال الدین جب زیارتِ خانۂ کعبہ سے واپس آئے تو حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے حکم سے انہوں نے شادی کی، چونکہ منکوحہ سیاہ فام تھیں اس لیے وہ چھ سال تک بیوی کی طرف متوجہ نہ ہوئے، ایک دن حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے شیخ زین الدین کو حکم دیا کہ ایک مکان ٹھیک کرو، جمعہ کی نماز کے بعد حضرت چراغ دہلی وہاں تشریف لے گئے اور خواجہ کمال الدین ان کی منکوحہ کو وہاں طلب کیا اور فرمایا کہ

    ”یہ مکان تم کو دیا، یہاں رہو“

    پھر فرمایا کہ ”مردمانِ بزرگ نظر می کنند و نظر بر شکم ایں عورت نمی کنند یگان یگانِ اؤلیا از شکمِ ایں عورت پیدا شوند“

    ترجمہ : لوگ رنگ پر نظر کرتے ہیں اور اس عورت کے پیٹ پر نظر نہیں کرتے کہ کیسے کیسے اؤلیا اس عورت کے پیٹ سے پیدا ہوں گے۔

    ولادت : آپ دہلی میں پیدا ہوئے۔

    بھائی : آپ کے دو بھائی تھے، ایک کا نام شیخ نظام الدین تھا جن کا عین جوانی میں انتقال ہوگیا، دوسرے بھائی کا نام شیخ نصیرالدین تھا جو اپنے والد کی حیات میں تحصیلِ علم سے فارغ ہوگئے تھے۔

    بہن : آپ کی بہن کی شادی شیخ برہان الدین کے صاحبزادے سے ہوئی تھی۔

    تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر والدِ ماجد کی نگرانی میں ہوئی، آپ نے قرآنِ مجید ختم کیا، آپ کے والدِ ماجد نے آپ کو مختلف علوم پر مختلف کتابیں پڑھائیں، آپ نے طلبِ علم میں چالیس سال سخت مجاہدہ کیا اور علامہ احمد تھانیسری، مولانا عالم پانی پتی اور مولانا عالم سنگریزہ سے جو ان کے والد کے شاگرد تھے اکتسابِ علم کیا۔

    بیعت و خلافت : چار سال کی عمر میں حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے آپ کو خرقۂ خلافت عطا فرمایا اور کبر سنی میں اپنے والد بزرگوار سے خرقۂ خلافت پاکر سرفراز ہوئے۔

    فرمان : حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے آپ کو نصیحت فرمائی کہ

    ”یہ بات تم بخوبی سمجھ لو کہ تم کو اس جگہ سے باہر نہ جانا چاہیے، ہاں اگر کوئی خاص ضرورت ہو تو بھی سکتے ہو، کسی بادشاہ یا امیر کے دروازے پر ہرگز نہ جانا، خانقاہ میں رہنا اور لوگوں سے میل جول کم رکھنا، خلوت نشینی میں عافیت اور بہتری ہے“

    آپ نے ایسا ہی کیا، سوئے بزرگوں سے ملنے اور مزارات کے آپ کہیں نہیں جاتے تھے۔

    پٹن میں آمد : حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے وصال کے بعد آپ دہلی سے ترکِ سکونت کرکے گجرات تشریف لے گئے اور پٹن میں سکونت اختیار فرمائی، علما، امرا، وزرا نے آپ کا استقبال کیا اور سلطان نے آپ کے خرچ کے لیے وظیفہ مقرر کیا۔

    دکن سے دعوت نامہ : آپ کے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کا شہرہ دور دور پھیل گیا تھا، فیرز شاہ بہمن دکھنی نے اپنے ایک خاص درباری کو ستر ہزار دے کر آپ کو بلانے بھیجا اور اس کو تاکید کی کہ ستر ہزار نذرانہ پیش کرے اور دکن آنے کی درخواست کرے، آپ نے نذرانہ قبول نہ کیا اور نہ ہی دکن تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا کہ

    ”مجھے نذرانہ کیا کرنا، اللہ تعالیٰ نےبغیر مانگے اور بغیر طلب کے گجرات میں ہی خورد و نوش کا معقول انتظام کردیا ہے، اب اگر میں یہاں سے کہیں بھی جاؤں تو وہ میرے لیے مناسب نہیں، اگر میں کہیں جاؤ تو وہ میرا سفر طلبِ حق میں ہرگز نہ ہوگا بلکہ طلبِ دنیا میں ہوگا اور جو مذوم ہے اور درویش کے شایانِ شان نہیں“

    شادی و اولاد : شیخ المشائخ شیخ یحییٰ بن شیخ لطیف الدین کی صاحبزادی سے آپ کی شادی ہوئی اور ان سے پانچ لڑکے اور ایک صاحبزادی ہوئیں، آپ کے صاحبزادوں کے نام یہ ہیں۔

    شیخ معین الحق والدین محمد، شیخ علم الحق والدین، شیخ محمد، شیخ عبدالحق والدین، شیخ سعدالدین عرف شیخ خواجہ، آپ کی صاحبزادی کا نام بی بی مریم ہے۔

    وفات شریف : آپ چند دن بیمار رہے، ایک دن اپنے صاحبزادے شیخ علم الدین کو طلب فرمایا اور کہا کہ

    ”فرشتے آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میرے اعمال نامہ کو دیکھیں، میں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں اور میرے گناہ عارضی ہیں، میں توبہ کرتا ہوں“

    شیخ علم الدین نے دریافت کیا کہ اور کیا کہتے ہیں، آپ نے جواب دیا، وہی کہتے جو میں نے تم سے کہا، وقد او سر اظہارِ الغامات التی وھن ربی و قر یا لیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی و جعلنی من المکرمین۔

    آپ نے بوقتِ عشا 21 جمادی الاول 817 ہجری کو جوارِ رحمت میں قدم رکھا، مزار پرانوار پٹن میں فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے، مولانا حمزہ ناگوری نے تاریخِ وفات لکھی، اشعار حسبِ ذیل ہیں۔

    امروز رفت علم ازیں شہر چوں عیان

    امروز نیست آنکہ کند بزودے بیان

    مفتاح وہم مطالع و توضیح وہم بدیع

    آں کیست کہ بگوید در درسِ می توان

    ایں ظلمتِ سراسر در دہزار کجا الست

    دانم سراج ملت و دیں رفت از جہان

    ماہِ جمای الاول در بست و یک ز شہر

    لیل الخمیس و وقتِ عشا بود دفن شان

    در سال بود ہشصد و ہفدہ شمارہ او

    از ہجرتِ رسول خداوند مستعان

    سیرتِ پاک : آپ فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے درجہ پر پہنچ گئے تھے، صاحبِ کشف و کرامات تھے، توکل اور قناعت میں بے نظیر تھے، آپ کے علم اور فضیلت کا شہرہ دور دور پہنچ گیا تھا، بڑے بڑے عالم اور صاحبِ کمال درویش آپ کی قابلیت، فضیلت اور برگزیدگی کے معترف تھے۔

    حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے وصال کے بعد حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت جب دہلی تھے تو علما کی ایک محفل میں آپ (سراج الدین) سے ملاقات ہوئی، حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے بہت سے مشکل سوال کیے اور آپ نے ہر سوال کا جواب دیا جس سے حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت مطمئن ہوئے، محفل برخاست ہونے کے بعد ایک شخص نے آپ کے متعلق حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت سے پوچھا کہ وہ عالم کون تھے؟ جنہوں نے آپ کے ہر سوال کا جواب برجستہ دیا، حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے جواب دیا کہ

    ”حضرتِ شیخ کمال الدین علامہ کے فرزند ہیں“ بعد ازاں حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت آپ سے ملے اور آپ سے کہا کہ

    ”ما شاگردان والد بزرگوارِ شما ایم و نیز منشور خلافت کہ حضرت دہلوی بما عطا فرمودہ بود بقلم شیخ والدِبزرگوار شما بود“

    ترجمہ : ہم آپ کے والدِ بزرگوار کے شاگرد ہیں اور منشورِ خلافت جو حضرت چراغ دہلوی نے مجھ کو عطا فرمایا تھا، وہ بھی حضرت شیخ آپ کے والدِ بزرگوار کے قلم سے لکھا ہوا تھا“

    آپ کی مخلوق سے بے پروائی کا یہ حال تھا کہ آپ کا ایک شاگرد جو آپ کی خدمت میں ایک سال سے زیادہ عرصہ سے رہ رہا تھا، ایک دن حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کیا کہ حضور میرے حال پر رحم فرمائیں، سلطان کے نام ایک سفارشی خط لکھ دیں تاکہ مجھے مقصد میں کامیابی حاصل ہو، آپ جب خط لکھنے بیٹھے تو آپ نے اس شاگرد سے اس کا نام پوچھا، وہ طالبِ علم چونک پڑا اور عرض کیا کہ حضور ایک سال سے زائد ہوگیا کہ غلامی میں ہوں، روزانہ حضور سے درس لیتا ہوں اور خدمتِ اقدس میں حاضر رہتا ہوں پھر بھی حضور کو میرا نام نہیں معلوم، آپ نے فرمایا کہ

    ”تمہارا نام معلوم کرنے کی ضرورت نہیں پڑی، اب تمہارا نام معلوم کرنا ضروری ہو، لہٰذا نام دریافت کیا“

    شعر و شاعری: حضرت کو شعر و شاعری کا شوق تھا، سراج تخلص فرماتے تھے، حسبِ ذیل شعر حضرت کا ہے۔

    بارِ دیگر ہم ہمیں گوید سراجؔ

    قبلۂ مانیست الا روئے یار

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے