حضرت شیخ احمد کھٹو
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-55
حضرت شیخ احمد کھٹو مقتدائے اہلِ بصیرت ہیں۔
خاندانی حالات : آپ دہلی کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ کے والد ماجد فیروز شاہ تغلق کے دور کے رشتہ دار تھے، تغلق خاندان کو جاہ و مرتبہ دولت ثرورت و حکومت حاصل تھی اور آپ کو خداوندِ تعالیٰ نے روحانی لازوال دولت دے کر سرفراز فرمایا۔
والد ماجد : آپ کے والدِ ماجد کا نامِ نامی اسمِ گرامی ملک اختیارالدین ہے۔
ولادت : آپ دہلی میں 1338 عیسوی میں پیدا ہوئے۔
نام نامی : آپ کا نامِ نامی اسمِ گرامی ملک نصیرالدین ہے۔
القاب : ملک المشائخ، برہان الحائق، سراج الاؤلیا، تاج الاصفیا آپ کے القاب ہیں، ”جمال الدین“ بھی آپ کا لقب بتایا جاتا ہے۔
خطاب : گنج بخش، مغربی چراغ آپ کے خطاب ہیں۔
بچپن کا ایک واقعہ : ایک دن ایسا ہوا کہ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھر سے باہر کھیل رہتے تھے، اتنے میں آندھی کا ایک سخت طوفان آیا، چاروں طرف اندھیرا چھا گیا، اس طوفان نے آپ کو گھیر لیا، تند و تیز ہوا کے جھونکوں نے آپ کو دور کسی مقام پر پھینک دیا، آپ حیران و پریشان ادھر ادھر پھرتے رہے، تھوڑی دور چلے تو دیکھا کہ ایک قافلہ وہاں مقیم ہے، آپ اس قافلہ میں شامل ہوگئے، قافلہ روانہ ہوا اور دندوانہ جاکر ٹہرا، ایک شخص مجیب نے آپ کو قافلے والوں سے لے لیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شاہی خاندان کی ایک کنیز آپ کو لے کر باہر نکلی تھی، اتنے میں ہوا کا طوفان آگیا اور آپ بچھڑ گئے اور قافلہ والوں نے آپ کو اپنے ہمراہ لے لیا، یہ واقعہ 1342 عیسوی کا ہے جبکہ آپ کی عمر چار سال کی تھی۔
بشارت : حضرت بابا اسحاق مغربی کو جو کھٹو میں رہتے تھے، بشارت ہوئی کہ اس اس حلیہ کا ایک بچہ قافلہ والوں کے ساتھ ہے، تم اس بچے کو اپنے پاس بلاؤ اور اس کو اپنے پاس رکھو اور اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دو۔
ہدایت : حضرت بابا اسحاق مغربی نے مولانا صدرالدین ہمدانی کو جو مولانا شہاب الدین ہمدانی کے صاحبزادے تھے، ہدایت فرمائی کہ
”تم دندوانہ جارہے ہو، وہاں جاکر اس اس حلیہ کا ایک بچہ کو جس کی عمر تقریباً چار سال ہے اور جو قافلہ والوں کے ساتھ ہے، تلاش کرنا اور اگر وہ بچہ مل جائے تو یہاں میرے پاس بھیج دینا“
حضرت بابا اسحاق کی خدمت میں آمد : مولانا صدرالدین ہمدانی دندوانہ پہنچے اور بتائے ہوئے حلیہ کے بچے کو تلاش کرنے میں لگے، آخر کار ان کی کوشش کامیاب ہوئی، انہوں نے قافلہ والوں سے اس حلیہ کے بچے کو (آپ کو) لے لیا اور قافلہ والوں نے بخوشی آپ کو ان کے حوالہ کر دیا اور آپ بابا اسحاق مغربی کی خدمت میں رہنے لگے اور ان سے تعلیم و تربیت پانے لگے اور ان کے روحانی فیوض و برکات سے مستفید و مستفیض ہوتے رہے۔
نیا نام : حضرت بابا اسحاق مغربی نے آپ کو ”شیخ احمد“ کے نئے نام سے نوازا اور آپ اسی نام سے مشہور ہیں۔
دہلی میں آمد : حضرت بابا اسحاق مغربی آپ کو اپنے ہمراہ لے کر کھٹو سے دہلی تشریف لائے، دہلی پہنچ کر خانِ جہاں کی مسجد میں قیام فرمایا، ایک دن ایسا ہوا کہ ایک شخص شاہی لباس زیب تن کیے اور ہتھیار پہنے مسجد میں داخل ہوا اور آپ (حضرت شیخ احمد کھٹو) کو بغور دیکھا، آپ کے چہرے پر جو نظر ڈالی اور آپ کے کاندھے پر جو سرخ نشان دیکھے تو فوراً حضرت بابا اسحاق مغربی کی خدمت میں گیا اور عرض کیا کہ
”میں اپنے بھائی کی تلاش میں ایک مدت سے تھا، تلاش کرتے کرتے آج اس کو پالیا، حلیہ اور چہرہ کاندھے پر سرخ نشان دیکھ کر میں نے اس بچہ کو پہچان لیا، یہ میرا بھائی ہے، میرے بھائی کو میرے ساتھ کر دیجیے“
سوال : حضرت بابا اسحاق مغربی نے تھوڑی دیر مراقبہ کیا اور پھر اس شخص سے یہ سوال کیا کہ ”اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارا بھائی تم سے کب اور کس طرح بچھڑ گیا“
جواب : اس شخص نے جواب دیا کہ جب اس بچہ کی عمر چار سال کی تھی تو اس طرح سخت آندھی آئی اور باہر گیا ہوا تھا، وہ تب سے غائب ہوگیا، آج اس کا حلیہ دیکھ کر پہنچانا، اب اتنی مدت کے بعد اس کا پتہ لگا ہے، اس شخص کے ذریعہ آپ کا تغلق خاندان سے تعلق اور آپ کے خاندانی حالات معلوم ہوئے۔
انکار : حضرت بابا اسحاق مغربی نے آپ کو اس شخص کے حوالہ کرنے سے انکار کیا اور آپ بھی اس شخص کے ساتھ جانے پر آمادہ نہ ہوئے۔
واپسی : حضرت بابا اسحاق مغربی کچھ دن دہلی میں قیام کرکے کٹھو واپس آگئے۔
دو بارہ دہلی میں آمد : کچھ عرصے کے بعد حضرت بابا اسحاق مغربی پھر کھٹو سے دہلی پہنچے اور خانِ جہاں کی مسجد میں قیام فرمایا۔
فیروز شاہ تغلق کا حکم : ایک دن فیروز شاہ تغلق نے خانِ جہاں مسجد میں آکر حضرت بابا اسحاق مغربی کو حکم دیا کہ وہ لنگر خانہ فوراً خالی کر دیں۔
واپسی : حضرت بابا اسحاق مغربی نے اسی وقت لنگر خانہ خالی کرکے شاہی ملازمین کے سپرد کیا اور آپ (حضرت شیخ احمد کھٹو) کو اپنے ہمراہ لے کر کھٹو واپس آگئے۔
بیعت و خلافت : آپ حضرت بابا اسحاق مغربی کے مرید اور خلیفہ ہیں، حضرت بابا اسحاق مغربی کا سلسلہ حضرت شیخ ابو مدین مغربی تک پہنچتا ہے۔
تعلیم و تربیت : آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے پیر و مرشد حضرت بابا اسحاق مغربی کی نگرانی میں ہوئی، ان ہی کی نگرانی میں آپ نے علومِ ظاہری و باطنی کی تکمیل کی، پیر و مرشد کے فیوض باطنی سے مالا مال ہوئے اور آپ پر اسرار و حقائق منکشف ہوئے۔
پیر و مرشد کی وفات : آپ کے پیر و مرشد حضرت بابا اسحاق مغربی بمعر 116 سال 17 شعبان 776 ہجری کو یا حیُّ یاقیّوم کہتے ہوئے اپنے خالق سے جا ملے، ان کا مزارِ مبارک کھٹو میں مرجعِ خاص و عام ہے۔
حج کو روانگی : حضرت شیخ احمد کھٹو 783 ہجری میں حج کے لیے روانہ ہوئے، کھٹو سے پٹن تشریف لائے، پٹن میں ملک فرحت الملک نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور بہت خاطر تواضع کی، اس نے راستی خاں کو آپ کے کھبات پہنچنے کی اطلاع دی، جب آپ کھمبات میں رونق افروز ہوئے تو راستی خاں نے آپ کا وہاں شاندار استقبال کیا اور پانچ سو روپیے کی خدمت میں بطورِ نذرانہ پیش کیے، کھنبات پہنچ کر معلوم ہوا کہ سب جہاز جا چکے تھے، صرف ایک جہاز خواجہ محمد مراد کا روانہ ہونے والا تھا، آپ نے اس جہاز میں سفر کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس جہاز والوں نے کرایہ زیادہ مانگا، لہٰذا آپ نے اس جہاز میں سفر نہیں کیا، آپ ماہم پہنچے اور وہاں ایک مسجد میں قیام فرمایا، آپ کی آمد کی اطلاع جب وہاں کے حاکم نصرت خاں کو ہوئی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ایک جہاز میں آپ کو جگہ دلا کر آپ سے رخصت ہوا۔
دربارِ رسالت میں حاضری : حج سے فارغ ہوکر آپ مدینہ منورہ روانہ ہوئے، جب قافلہ مدینہ منورہ کی سرحد میں داخل ہوا اور سرورِ عالم کا روضۂ منورہ دکھائی دیا تو آپ پر ایک والہانہ کیفیت طاری ہوئی، آپ اونٹ سے کود پڑے اور تیزی سے چلتے ہوئے اور درود شریف اور نعتیہ اشعار پڑھتے ہوئے اور دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے، لوگوں نے آپ کو اپنا مہمان رکھنا چاہا لیکن آپ نے انکار کردیا اور فرمایا کہ
”آج میں سرورِ عالم کا مہمان ہوں“
روضۂ منورہ میں جو بھی حاضر ہوئے تو ایک شخص جو مجاوروں میں سب سے بڑا مانا جاتا تھا آپ کو کچھ کھجوریں پیش کیں جو کپڑے میں لپٹی ہوئی تھیں اور کہا کہ یہ کھجوریں سرورِ عالم کی طرف سے ہیں جن کے وہ آج مہمان ہیں۔
حضرتِ مخدوم جہانیانِ جہاں گشت سے ملاقات : واپسی پر حضرت ٹھٹہ ہوتے ہوئے اُچھ اوچ پہنچے اور وہاں حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت سے ملے اور ان کے فیوض و برکات سے مستفید ہوئے، اُچھ سے آپ کھٹو پہنچے، شہر میں رات کے وقت داخل ہوئے، صبح کو آپ کے آنے کی خبر تمام شہر میں پھیل گئی، کچھ دن کھٹو میں رہ کر آپ دہلی تشریف لے گئے اور خانِ جہاں کی مسجد میں قیام فرمایا، دہلی میں آپ نے زیادہ وقت مراقبہ، ذکر و فکر اور تحصیلِ علم میں گزارا، اسی زمانہ میں حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت دہلی تشریف لائے، جب ان کو معلوم ہوا کہ ایک جوان خانِ جہاں کی مسجد میں مقیم ہے اور مراقبہ و عبادت و ریاضت میں دن و رات مشغول ہے تو وہ آپ سے ملنے کے لیے خانِ جہاں مسجد پہنچے، وہاں جب آپ کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ نوجوان آپ ہی ہیں، حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے آپ کو بہت سی دعائیں دیں اور آپ کو یہ مژدہ سنایا کہ مستقبل قریب میں وہ ایک بڑے روحانی اور صاحبِ دل بزرگ کا درجہ حاصل کریں گے اور ہزاروں لوگ آپ سے روحانی فیوض و برکات حاصل کریں گے، حضرت مخدوم جہانیانِ جہاں گشت نے آپ کو کچھ تبرکات بھی دئیے۔
تیمور کا حملہ : تیمور نے 1398 عیسوی میں ہندوستان پر حملہ کیا، دہلی پہنچ کر اس نے تخت و تاج پر قبضہ کیا، اس وقت دہلی کا بادشاہ محمود تغلق تھا، محمود تغلق چھوڑ کر گجرات چلا گیا، آپ (حضرت شیخ احمد کھٹو) اس وقت دہلی میں مقیم تھے، تیمور کی فوج نے لوٹ مار کے علاوہ بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا، ان میں آپ بھی تھے، آپ کے خرق عادات، بزرگی اور کرامات کی خبر جب تیمور تک پہنچی تو اس کو آپ سے ملنے کا اشتیاق ہوا، تیمور نے آپ کی رہائی کا حکم دیا اور آپ کو سواری بھیج کر اپنے پاس بلایا، آپ نے تیمور سے قیدیوں کی رہائی کے لیے کہا اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ لوٹ مار، خوں ریزی اور قتل و غارت گری بند کرنے کے لیے وہ (تیمور) فوراً حکم دے، تیمور آپ کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا اور آپ کا معتقد ہوا، اس نے آپ کی بات مان لی اور قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا اور قتل و غارت گری بند کرنے کے لیے احکام جاری کیے اور اس طرح آپ کی کوشش سے دہلی میں امن قائم ہوا۔
سمرقند میں آمد : تیمور کی درخواست پر آپ اس کے ساتھ سمرقند پہنچے، وہاں کے علما سے آپ کا اکثر بحث و مباحثہ ہوتا اور کبھی کبھی تیمور کی موجودگی میں مذہبی امور پر وہاں کے علما سے آپ کی بات چیت ہوئی، سمرقند کے علما آپ کے سامنے لاجواب ہوجاتے، شاہی دربار کے ایک ممتاز عالم انے ایک مرتبہ آپ کے متعلق یہ کہا کہ
’’سمرقند کے علما ایک دہلوی کے سامنے مجبور، لاچار اور لاجواب ہوجاتے ہیں“
رخصت : سمرقند میں کچھ دن قیام کے بعد آپ نے ہندوستان واپس آنا چاہا، تیمور نے بخوشی اجازت دی، آپ 12 جمادی الاول 802 ہجری کو بلخ پہنچے پھر ہرات ہوتے ہوئے قندھار میں رونق افروز ہوئے، قندھار کے گورنر نے آپ کا خیر مقدم کیا اور آپ سے قندھار میں رہنے کی درخواست کی اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ وہ ایک مدرسہ کھولنا چاہتا ہے اور مدرسہ کے خرچ کے لیے ایک گاؤں وقف کرنا چاہتا ہے، حضرت قندھار میں سکونت اختیار فرمائیں اور مدرسہ میں درس دیں اور درس و تدریس اور رشد و ہدایت ہی میں زندگی کے باقی دن گزاریں، آپ راضی نہ ہوئے، وہاں سے روانہ ہوکر ملتان تشریف لائے۔
پٹن میں آمد : ملتان سے آپ پٹن تشریف لائے جو اس وقت گجرات کا درالخلافت تھا، اس وقت یعنی 803 ہجری مطابق 1400 عیسوی میں مظفر خاں گجرات کا گورنر تھا۔
دکن کو روانگی : پٹن سے آپ نے دکن جانے کا ارادہ کیا، آپ پٹن سے کھنبات پہنچے، مظفر خاں کو جب آپ کی آمد کی اطلاع ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ دکن جانے کے خیال سے آئے ہیں تو اس نے یہ حکم جاری کیا کہ حضرت کو کشتی میں بٹھا کر کوئی شخص نربدا پار نہ لے جائے، چنانچہ آپ نربدا پار نہ جا سکے، مظفر خاں اس وقت راندیر میں بغاوت فرو کرنے میں مشغول تھا، مظفر خاں نے وقت نکال کر اور ایک پروانہ دے کر ایک امیر مسمیٰ برہان الملک کو آپ کی خدمت میں روانہ کیا، اس پروانہ میں اس نے خود حاضر نہ ہونے کی معافی چاہی اور یہ استدعا کی کہ حضرت اس امیر (برہان الملک) کے ساتھ اس کے خیمہ میں تشریف اگر لے آئیں تو حضرت کا بڑا کرم ہوگا۔
مظفر خاں کی باریابی : آپ نے اس کی درخواست منظور فرمائی، مظفر خاں کو شرفِ باریابی بخشا، اس سے قبل مظفر خاں اور تاتار خاں حضرت سے مل چکے تھے اور یہ ملاقات دہلی میں خاں جہاں کی مسجد میں ہوئی تھی، اس ملاقات میں مظفر خاں نے حضرت سے استدعا کی کہ حضرت دکن تشریف نہ لے جائیں بلکہ گجرات میں ہی رہیں پھر حضرت نے اس سے دریافت کیا کہ تم نے ایسے نازک وقت میں دہلی کی سلطنت کی امداد کیوں نہ کی، مظفر خاں نے جواب دیا کہ اگر میں دہلی کی سلطنت کی امداد کرتا تو پھر گجرات میں اقتدار کیونکر اور کیسے حاصل کرتا۔
تحفہ : مظفر خاں نے سو رکابیاں حضرت کی خدمت میں پیش کیں، حضرت نے فرمایا کہ سو رکابیوں کا ان کو کیا کرنا ہے، ان کے لیے تو بس ایک رکابی کافی ہے، مظفر خاں نے عرض کیا کہ
”حضور کے دربار میں عام لنگر ہوتا ہے، بہت سے لوگ روزانہ کھانا کھاتے ہیں، ایسی صورت میں سو رکابیاں بھی کم ہیں“ حضرت مسکرائے اور مظفر خاں کا تحفہ قبول فرمایا۔
تاتار خاں کو شرفِ باریابی : تاتار خاں بھی اپنے والد کی طرح حضرت کا معتقد تھا، وہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کپڑے اور دیگر چیزیں جو مظفر خاں بطورِ تحفہ حضرت کی خدمت میں بھیجی تھیں، وو پیش کرکے دعا کا طالب ہوا اور عرض کیا کہ
”حضور دکن یا کہیں نہ جائیں، یہیں قیام فرمائیں“
سرکھیج میں قیام : حضرت نے مظفر خان کو آگاہ کیا کہ حضرت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق وہ سرکھیج میں قیام کریں گے، مظفر خاں یہ سن کر بہت خوش ہوا، اس نے سرکھیج کے حاکم ملک بدر کو اطلاع دی کہ حضرت سرکھیج تشریف لارہے ہیں، ان کا شاندار استقبال کیا جائے، حضرت سرکھیج پہنچے، ایک مکان میں قیام فرمایا، ملک بدر نے کچھ زمین خریدی اور اس پر ایک مکان حضرت کی رہائش کے لیے تعمیر کرایا، یہ مکان جب تعمیر ہوگیا تو حضرت اس مکان میں تشریف لے گئے اور اسی میں مستقل سکونت اختیار کی، اس وقت گجرات کا درالخلافت پٹن تھا، سرکھیج گجرات کا روحانی مرکز قرار پایا۔
احمدآباد کا سنگِ بنیاد : احمدآباد کا سنگِ بنیاد آپ کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا، سلطان احمد شاہ اول نے بروز سنیچر 13 رمضان 813 ہجری مطابق 9 جنوری 1411 گجرات کے تخت شاہی پرنہروالہ (پٹن )میں بیٹھ کر عنانِ حکومت اپنے ہاتھ میں لی، ایک دن وہ سابرمتی دریا کے کنارے سے گزر رہا تھا کہ اس کی نگاہ ایک کھلے ہوئے کشادہ میدان پر پڑی، اس کو فوراً خیال آیا کہ اس جگہ ایک شہر آباد کیا جائے، اس نے اس بات کا ذکر شیخ احمد کھٹو سے کیا اور آپ سے روحانی امداد کا طالب ہوا، وہ آپ کا معتقد و منقاد تھا، آپ نے بھی اس کے اس خیال کو پسند فرمایا اور اس کے لیے دعا کی، ویران جگہ آباد ہوئی، احمد نام کے چار اشخاص کے ہاتھوں احمدآباد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، سلطان احمد اول رسی کا ایک سرا اپنے ہاتھ میں لے کر اس جگہ قبلہ رو کھڑا ہوا جہاں دربارِ شاہی کا دروازہ ہے اور شیخ احمد کھٹو دوسرا سرا دستِ مبارک میں لے کر اس جگہ کھڑے ہوئے جہاں اب تین دروازے ہیں، شمال کی طرف قاضی احمد رسی کا سرا لیے ہوئے اس جگہ کھڑے تھے جہاں جمال پور ہے اور جنوب کی طرف مولانا احمد رسی کا سرا لیے ہوئے اس جگہ کھڑے ہوئے تھے جہاں ایدریہ دروازہ ہے، شیخ احمد کھٹو جب سنگِ بنیاد رکھنے تشریف لا رہے تھے تو راستہ میں ایک بزرگ کو بیٹھا دیکھا، ان بزرگ نے آپ کو آواز دی، آپ نہایت ادب و احترام اور کمالِ خشوع و خضوع اور غایت اعظام و احترام سے ان بزرگ کے پاس گئے اور دو زانو ان کے سامنے بیٹھ گئے، تھوڑی دیر تک دونوں بزرگ بیٹھے رہے، دونوں کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے، آپ ان بزرگ سے اجازت لے کر رخصت ہوئے اور وہاں سے آکر احمدآباد کا سنگِ بنیاد رکھا۔
کچھ عرصے کے بعد حضرت کے ایک خاص خادم نے حضرت سے دریافت کیا کہ وہ بزرگ کون تھے جن کے سامنے حضرت نہایت ادب سے بیٹھے تھے اور جن کی حضرت نے اس قدر تعظیم و تکریم کی، حضرت نے اس شخص کو بتایا کہ وہ حضرت خضر تھے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم شہر کا سنگِ بنیاد رکھنے جا رہے ہو، میں نے ان سے عرض کیا جی ہاں، حضرت خضر نے فرمایا کہ
”برو بنا کن کہ خوب خواہد شد“
(جاؤ! بنیاد رکھو، بہت اچھا (شہر) ہوگا)
لفظِ ”خیرک“ سے تعمیر حصار شہر احمدآباد کی تاریخ برآمد ہوتی ہے یعنی 830 ہجری مطابق 1426 عیسوی احمدآباد کے سنگِ بنیاد کی تاریخ لفظ ”خیرہ“ سے برآمد ہوتی ہے، بعض کا خیال ہے کہ احمدآباد کا سنگِ بنیاد 815 ہجری مطابق 1412 عیسوی میں رکھا گیا، بعض کے نزدیک 813 ہجری مطابق 1410 عیسوی میں سنگِ بنیادر رکھا گیا۔
سلاطین سے تعلقات : حضرت نے دہلی اور گجرات کے کئی بادشاہوں کا زمانہ دیکھا، سلطان فیروز تغلق آپ کا بہت احترام کرتا تھا، غیاث الدین تغلق دویم، ابوبکر تغلقا، ناصرالدین تغلق، محمود تغلق کے زمانے میں دہلی کی سلطنت بہت کچھ اقتدار کھو چکی تھی، بد امنی اور بغاوت نے دہلی کی سلطنت کو کمزور کردیا تھا، اس کے باوجود شاہانِ دہلی حضرت کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے، گجرات کے بادشاہوں میں جو حضرت کے زمانے میں تھے، سلطان مظفر شاہ، سلطان احمد شاہ اور سلطان محمد شاہ سب ہی حضرت کے معتقد و منقاد تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سلطان احمد شاہ نے حضرت کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔
حضرت قطب عالم : حضرتِ قطب عالم گجرات کے مشہور بزرگ ہیں جن کا مزار بٹوہ (احمد آباد کے قریب) میں ہے، سال میں دو مرتبہ حضرت کے پاس آیا کرتے تھے اور حضرت ان کو ہر سال دو اشرفیاں دیتے تھے، ایک مرتبہ حضرتِ قطب عالم نے حضرت کی جانماز اور مٹی کے برتن جو حضرت کے وضو کے کام میں آتے تھے لینے کی خواہش کی، حضرت نے ان کو اپنی جانماز اور وضو کے برتن جو مٹی کے تھے دے کر ان کی خواہش پوری کی، حضرت نے حضرت قطب عالم کو مغربی سلسلہ میں بیعت کرنے کی اجازت بھی دی۔
حضرت شاہ عالم : حضرت شاہ عالم اپنے والد ماجد حضرت قطب عالم کی طرح حضرت کے پاس سر کھیج جاتے تھے، حضرت ان پر بہت شفقت فرماتے تھے، ان کی عمر قریب سترہ سال کے تھی حضرت نے ان کو تبرکات دئیے اور ان کے لیے دعا کی۔
وفات : حضرت ایک طویل مدت تک رشد و ہدایت فرماتے رہے اور لوگوں کو راہِ حق دکھاتے رہے، حضرت 14 شوال 849 ہجری مطابق 1445 عیسوی کو واصل بحق ہوئے، اس وقت حضرت کی عمر ایک سو گیارہ سال کی تھی، حضرت کا وصال گجرات کے بادشاہ سلطان محمد شاہ کے زمانہ میں ہوا، سلطان محمد شاہ حضرت کا معتقد تھا، حضرت کے وصال کی خبر سے اس کو سخت صدمہ ہوا، غرض
”۔۔ در عہد او حضرت مخدوم جیونداری، ارجعی الی ربک، بگوشِ ہوش شنیدہ رخت حیات بدارِ بقا کشیدند، چوں سلطان زحمتِ حضرت مخدوم زیادہ شدہ شنیدند، بہجتِ پرسشِ احوال شخصے را بخدمتِ مخدوم فرستادند، چوں بآستانۂ مخدوم رسید خبرِ فوت شنیدنہ از راہِ بازگشت، چوں بخدمت سلطان رسید، سلطان پرسید مخدوم چہ حال دارند او تاریخی در بدیہہ یافتہ بود، در جواب پادشاہ ہماں تاریخ بر زباں آورد، شہِ عالم محمد را بقا باد‘‘
سلطان محمد شاہ، امرا، درباری، عوام و خواص نے حضرت کے جنازے میں شرکت کی، حضرت کا مزارِ پرانوار سرکھیج میں (احمد آباد کے قریب) فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے۔
سلطان محمد شاہ بن سلطان احمد شاہ نے 1446 عیسوی میں حضرت کے مزار کی تعمیر شروع کرائی، گجرات میں حضرت کا روضہ سب سے شاندار اور خوبصورت ہے، سلطان محمد شاہ کے زمانے میں روضہ مکمل نہ ہوسکا، اس کے لڑکے سلطان قطب الدین کے دورِ حکومت میں روضۂ مبارک مکمل ہوا، وہاں ایک شاندار جامع مسجد بھی ہے۔
مرید و خلیفہ : محمود بن سعید ایرجی آپ کے مرید ہیں اور شیخ صلاح الدین کو آپ کا خلیفہ بتایا جاتا ہے۔
سیرتِ مبارک : حضرت کا شمار مشائخِ کبار میں ہے، عبادت، ریاضت اور مجاہدات میں وقت گزرتے تھے، روزے اس شان سے رکھتے تھے کہ کھَل کے ٹکڑے سے افطار کرتے تھے، اپنے پیر و مرشد حضرت بابا اسحاق مغربی کی وفات کے بعد حضرت نے ایک چلہ کھینچا، چالیس دن میں حضرت نے چالیس کھجوریں کھائیں یعنی ایک کھجور روز تناول فرماتے تھے، حضرت مخلوق سے بے نیاز تھے، شاہانِ وقت کی ذرا پروا نہ کرتے تھے، حضرت کو تعمیرات کا بھی شوق تھا، حضرت نے جامع مسجد اور حوض تعمیر کیا، سلطان احمد شاہ نے اس کارِ خیر میں حصہ لینا چاہا، حضرت نے سلطان احمد شاہ کی درخواست رد فرمائی اور خود ہی جامع مسجد اور حوض کی تعمیر کا خرچہ برداشت کیا، حضرت کو کشتی کا بھی شوق تھا اور تیر چلانے میں مہارت حاصل تھی، حضرت کے دسترخوان پر بہت سے لوگ روزانہ دونوں وقت کھانا کھاتے تھے، لنگر اس قدر وسیع اور عام تھا کہ اس کا دور دور شہرہ تھا، فتوحات جو آتیں سب خرچ کردیتے تھے، اپنا حال لوگوں پر ظاہر نہ کرتے تھے، اخفائے حال کی کوشش کرتے تھے، آپ کا لباس معمولی ہوتا تھا، جب آپ سمرقند میں تھے تو ایک دن آپ جو ایک مسجد میں گئے تو دیکھا کہ ایک عالم وہاں درس دے رہا ہے، بہت سے طالب علم حلقۂ درس میں شریک تھے، آپ مسجد میں جاکر نہایت خاموشی کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گئے، اتنے میں ایک طالب علم نے جو حسامی پڑھ رہا تھا غلط اعراب پڑھا، یہ سن کر آپ نے اس طالب علم کو ٹوکا، اس عالم نے جو درس دے رہا تھا جب یہ سنا تو اس کو تعجب ہوا، وہ آپ کے ساتھ نہایت عزت، احترام اور اخلاق سے پیش آیا، اس نے آپ کا امتحان لینے کی غرض سے آپ سے علمِ اصول کے متعلق چند سوالات کیے، آپ نے ہر سوال کا جواب دیا، سوالوں کا جواب سن کر وہ عالم سخت متعجب ہوا اور سوچنے لگا کہ اتنا علم ہوتے ہوئے بھی اتنے سادے اور معمولی کپڑے پہنتے ہیں، اس سے ضبط نہ ہوسکا، آخر کار آپ سے اس نے کہا کہ
”تم نے باوجود اتنے علم کے ایسے حقیر کپڑے اور ٹوپی پہن رکھی‘‘ حضرت مسکرائے اور اس عالم کو یہ جواب دیا کہ
”ایک تو علم، دوسرے اگر اچھے کپڑے پہنوں تو نفس بدخوئی کرے، اس درویش نے خاص کر خود کو اس لباس میں پوشیدہ رکھا ہے“
فرمان : آپ نے فرمایا کہ
”درویشوں کی مجلس میں آنا تو آسان ہے مگر سلامتی سے باہر جانا دشوار ہے“
کشف و کرامات : تیمور نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی کو تاراج کیا، اس وقت آپ دہلی میں تھے، حملے سے پندرہ دن پہلے آپ نے دہلی کے باشندوں کو آنے والی مصیبت سے آگاہ کر دیا تھا، آپ کے بعض مرید آپ کے حکم سے دہلی سے جونپور چلے گئے اور اس طرح وہ بچ گئے، تیمور کے سپاہیوں نے دہلی میں بہت کشت و خون کیا اور بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا، حضرت بھی ان لوگوں میں تھے جو گرفتار کیے گئے، آپ کے ساتھ چالیس آدمی تھے، قید و بند میں بھی آپ نے اپنے ساتھیوں کا خیال رکھا، جب تک قید میں رہے غیب سے چالیس روٹیاں آتی رہیں، اس طرح سے اس کو کھانے پینے کی کوئی تکلیف نہ ہوئی، تیمور کو جب اس بات کی خبر ہوئی تو وہ آپ کی بزرگی و عظمت کا معترف ہوا اور آپ کا معتقد ہوا، اس نے آپ کو رہا کیا اور شبہ کی بنا پر آپ کو گرفتگار کرنے پر نادم ہوا اور حضرت سے معافی کا خواستگار ہوا، حضرت جب حج کو جارہے تھے تو ایک دن جہاز میں وضو کرتے ہوئے سمندر میں گر گئے ملاحوں نے آپ کو نکالا، آپ سمندر میں ڈوبے نہیں، آپ کی یہ کرامت دیکھ کر ملاحوں کو ہی نہیں بلکہ مسافروں کو بھی تعجب ہوا، وہ سب آپ کے معتقد ہوئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.