Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شیخ محمد بن طاہر پٹنی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شیخ محمد بن طاہر پٹنی

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-58

    حضرت شیخ محمد بن طاہر پٹنی فیض یافتہ و تربیت یافتہ بزرگ تھے، علومِ ظاہری و باطنی خُلقِ نبی سے آراستہ، دنیا کی راہ میں پاشکستہ، طلبِ حق میں از خود رفتہ تھے۔

    خاندانی حالات : آپ کے دادا کا نام علی ہے، ان کا پٹن کے بڑے بڑے تاجروں میں شمار ہوتا تھا، ان لوگوں کی تجارت وسیع پیمانہ پر تھی، یمن، جدہ، مکہ، مدینہ، طائف، بصرہ اور ہرمنز سے تجارت کرتے تھے، وہ لوگ کاغذ، کمخواب، طاس گجراتی، مختلف قسم کے کپڑے، نیل، تلوار، کٹار، خنجر وغیرہ کا کاروبار کرتے تھے، یہ لوگ بوہرہ کہلاتے تھے، آپ کے دادا بوہرہ تھے، لفظ بوہرہ مسلمان تاجروں کے لیے استعمال ہوا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ

    ”بھاٹ لوگوں کا خیال ہے کہ احمد شاہ اول کے عہد میں برہمنوں اور مہاجنوں کو مسلمان بنایا گیا، وہی بوہرے یا بہرے کہلائے گئے کیونکہ ان لوگوں نے عرب کے ساتھ بوہار (بیوپار) شروع کردیا، اس سبب سے ان لوگوں کو بوہارے اور کثرتِ استعمال سے بوہرے کہنے لگے“

    لیکن بوہرے احمد شاہ کے زمانہ سے پہلے موجود تھے، غرض

    ”بوہرہ قوم ایک ایسی جماعت ہے جو مختلف نسلوں اور مختلف قوموں کا مجموعہ ہے، اس میں سنی بھی ہیں اور شیعہ بھی، خالص عرب بھی ہیں اور خالص ہندی بھی، ایرانی بھی ہیں اور عراقی بھی، قدیم الاسلام بھی ہیں اور جدیدالاسلام (نومسلم) بھی تاجر بھی ہیں اور غیر تاجر بھی، غرض یہ بوہرہ قوم مختلف قوموں اور نسلوں کا مجموعہ ہے“

    والد ماجد : آپ کے پدرِ بزرگوار کا نامِ نامی اسمِ گرامی طاہر ہے، آپ کے والد بھی تجارت کرتے تھے، آپ کے والد کو ان کے والد سے ترکہ میں کافی دولت ملی تھی، آپ کے دادا نے اپنے دونوں بیٹوں کو دولت گنِ کر نہیں بلکہ تول کر دی تھی۔

    نسب نامہ : آپ کا نسب نامہ حسب ذیل ہے۔

    محمد بن طاہر بن علی بن الیاس بن ابوالنصر دادؤد بن ابو عیسیٰ عبدالمالک بن ابوالفتح یونس شامی ابن عمر شامی بن عبداللہ ابو العطا حسین مفتی بن ابوالمحامد احمد غریب بن ابو قاسم محمد بن ابوالصلاح محمد بن ابوالفیض عبداللہ بن ابوالرضا عبدالرحمٰن بن ابوالقاسم البر محمد عبا بن ابوالنصر محمد طیفور شامی بن ابوالمجد خلف بن ابوالمجد احمد بن ابوالوجود شعیب بن ابوطلحہ بن عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن امیر المنؤمنین حضرت ابوبکر صدیق۔

    ولادت : آپ نہروالہ پٹن میں 914 ہجری میں پیدا ہوئے۔

    پیشین گوئی : آپ کے والد بزرگوار سے منجم لوگوں نے آپ کی بابت یہ خبر دی کہ

    ”اگر یہ سعادت مند لڑکا سیدھے راستے پر چلا تو فضل و کمال کا بڑا مرتبہ پائے گا اور حق تعالیٰ کا قرب اس درجہ اس کو حاصل ہوگا کہ بڑے بڑے اؤلیائے کامل اور واصلِ برحق لوگ اس درجہ کے آرزو مند ہوں گے اور اگر اس کے برخلاف برے راستے پر چلا تو اس کو بھی حدِ کمال تک پہنچا دے گا“

    تعلیم و تربیت : آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، ابھی دس سال کے بھی نہ ہوئے کہ قرآن مجید حفظ کرلیا، مروجہ علوم سے جلد فارغ ہوگئے، معقول و منقول، اصول و فروع سے جلد ہی فرصت پالی، آپ کی طالب علمی کا زمانہ کچھ خوشگوار نہیں گزرا، آپ اتنے ذہین اور تیز طبع تھے کہ کسی کو آپ سے مباحثہ کی تاب نہ تھی، آپ رشک و حسد کا شکار ہوئے، آپ کو تکالیف پہنچائی جاتیں اور مختلف قسم سے ستایا جاتا، آپ ان سب باتوں کو برداشت کرتے۔

    نذر : آیک دن آپ اس برتاؤ سے آزردہ خاطر ہوئے، بجائے شکایت و شکوہ کے آپ نے یہ نذر مانی کہ

    ”اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب میں فارغ التحصیل ہو جاؤں گا تو علوم و فنون کی تعلیم میں بخل نہ کروں گا اور کسی کو اس سے محروم نہ رکھوں گا اور جاری چشمہ کی طرح ہر شخص کو فیضاب ہونے کا موقع دوں گا“ تحصیل علم کے بعد آپ نے ایسا ہی کیا۔

    آپ کے استاد : آپ کے وہ استاد جن سے آپ نے ہندوستان میں علم حاصل کیا یہ ہیں، مولانا شیخ ناگوری، شیخ برہان الدین سمہودی اور یداللہ سوہی، ملا متھ یا (مٹھ)۔

    درس و تدریس : پندرہ سال کی عمر میں علوم نقلیہ و عقلیہ سے فارغ ہوئے اور صاحبِ درس ہوئے پٹن میں رہ کر پندرہ برس تک تعلیم و تلقین دیتے رہے، فنِ حدیث میں گجرات کے علما میں منفرد تھے۔

    حرمین شریف کو روانگی : آپ 944 ہجری میں حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئے، مکہ معظمہ پہنچ کر حج کا فریضہ ادا کیا پھر مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور نذرانۂ عقیدت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پیش کرکے روضۂ منورہ کی زیارت سے مشرف ہوئے بعدہٗ مکمہ معظمہ پہنچے اور تکمیلِ تعلیم کے خیال سے مکہ معظمہ میں مقیم ہوئے۔

    مکہ معظمہ میں قیام : مکہ معظمہ کے قیام کے دوران آپ نے علمِ حدیث کی طرف خاص توجہ دی اور مشہور علما سے جو علمِ حدیث کے ماہر تھے، استفادہ حاصل کیا۔

    مکی استاد : وہ لوگ جن سے آپ نے مکہ معظمہ میں استفادہ حاصل کیا، ان مکی استادوں کے نام حسب ذیل ہیں۔

    ابو عبداللہ زبیدی، سید عبداللہ عید اوس عدنی، شیخ عبداللہ حضرمی، شیخ جاراللہ فہد مکی، شیخ برخوردار سندھی، شیخ ابوالحسن بکری مکی، شیخ علی ابن عراقی مدنی، شیخ ابن حجر مکی اور حضرت شیخ علی متقی سے علوم کی تکمیل کی، شیخ ابن حجر مکی حدیث میں اور حضرت علی متقی حدیث اور تصوف میں مینارۂ روشنی تھے۔

    بیعت : آپ حضرت علی متقی کی شخصیت اور علم سے اتنا متاثر ہوئے کہ ان کی بیعت کرکے ان کے مرید، معتقد اور منقاد ہوئے، حضرت شیخ علی متقی کا نام علی ہے، لقب متقی ہے، آپ کے والد کا نام حسام الدین عبدالملک ہے، آپ کے والد جون پور کے رہنے والے تھے، وہاں سے منڈو آئے اور پھر وہیں رہنے لگے، حضرت علی متقی 885 ہجری میں منڈو میں پیدا ہوئے، سات سال کی عمر میں آپ کے والد نے آپ کو شاہ باجن چشتی کا مرید بنوا دیا، ان کا چند سال کے بعد انتقال ہوگیا، آپ نے کچھ دن منڈو میں ملازمت کی پھر شیخ عبدالحکیم بن شاہ باجن کے پاس رہنے لگے اور ان سے خرقۂ خلافت پاکر ملتان چلے گئے، ملتان پہنچ کر حضرت شیخ حسام الدین متقی کی صحبت اختیار کی، دو سال تک تفسیر بیضاوی اور عین العلم کے مطالعہ میں ہمہ تن مشغول رہے بعد ازاں منڈو آئے اور پھر وہاں سے احمدآباد آئے، سلطان بہادر شاہ گجراتی آپ سے ملا، احمدآباد سے وہ دیو پہنچے اور وہاں سے مکہ معظمہ روانہ ہوگئے، مکہ معظمہ پہنچ کر آپ شیخ ابوالحسن بکری کی صحبت میں رہ کر ان سے فیوض حاصل کرتے رہے اور وہیں انہوں نے شیخ محمد بن محمد ابن محمد المنجاوی سے سلسلۂ عالیہ قادریہ کا خرقہ پہنا اور سلسلۂ شاذلیہ کا خرقہ بھی ان ہی سے پہنا، سلسلۂ شاذلیہ حضرت شیخ نورالدین ابوالحسن علی الحسن الشاذلی پر منتہی ہوتا ہے اور ان ہی سے مدینیہ سلسلہ کا خرقہ پہنا جو حضرت شیخ ابو مدین شعیب المغربی تک پہنچتا ہے اور سلسلۂ مغربیہ کا خرقہ بھی پہنا، آپ کے متعلق حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ

    ”مکہ معظمہ میں مقیم ہوکر عالم کو انوارِ طاعت و مجاہدات اور آثار افاضیتِ علومِ دینی و معارفِ یقینی سے مستفیض و مستفید کیا اور علمِ حدیث ت و تصوف میں کتب و رسائل کی تالیف تصنیف میں مشغول ہوئے، توالیف وغیرہ میں آپ کے آثار خیر کے مشاہدہ کے بعد عقل حیران ہوتی ہے اور یقین سے کہتی ہے کہ یہ کام توفیقِ کامل اور برکتِ شامل کے بغیر جو مرتبۂ استقامت کے کمال اور درجۂ ولایت کے رسوخ سے پیدا ہوتی ہے، وجود میں نہیں آسکتے“

    آپ کا حدیث اور تصوف میں کمال دیکھ کر آپ کے استاد شیخ ابن حجر بھی آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے، سلطان محمود ثانی گجراتی کے زمانہ میں 952 ہجری میں آپ (حضرت شیخ علی متقی) احمدآباد تشریف لائے، سلطان محمود ثانی آپ سے بیعت کرکے آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوا، سلطان کا وزیر اعظم آصف خاں تھا، سلطان نے امورِ سلطنت ان کے سپرد کر دئیے کہ شرع شریف کے مطابق انجام دیں، انہوں نے اپنے ایک مرید کو اس کام پر مقرر کیا، کام چلتا رہا پھر ایسا ہوا کہ وہ شخص رشوت لینے لگا، جب بادشاہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے وزرا کے سپرد مملکت کے معاملات کرکے پھر سے عنانِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا، حضرت شیخ علی متقی بادشاہ سے ملتے تو بادشاہ کا رنگ بدلا پایا، فوراً مکہ معظمہ کا رخ کیا، لوگوں نے بہت اصرار کیا لیکن وہ نہ مانے، انہوں نے لوگوں سے کہا کہ

    ”دین اور دنیا دو سو کنیں ہوتی ہیں ایسا سنا تھا، صرف اس تجربہ کے لیے مکہ مکرمہ سے آیا تھا، اب معلوم ہوا کہ یہ صحیح ہے“

    مکہ معظمہ پہنچ کر بقیہ عمر رشد و ہدایت اور تعلیم و تلقین میں گزاری، نوے (90) سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی اور وہیں آپ سپردِ خاک کیے گئے، انہوں نے 975 ہجری میں وفات پائی، سنِ وفات ”متابعۃ نبی“ اور ”شیخ مکہ“ سے نکالا ہے۔

    انہوں نے چھوٹی بڑی سو سے زیادہ کتابیں لکھیں، رسالہ تبسیسن الطریق اور حکیم کبیر آپ کی مشہور کتابیں ہیں، آپ کے متعلق شیخ ابوالحسن بکری نے فرمایا کہ

    ”سیوطیؔ نے تمام عالم پر احسان کیا ہے اور متقیؔ نے اس پر احسان کیا ہے“

    واپسی : آپ (حضرت محمد بن طاہر پٹنی) مکہ معظمہ سے واپس آکر اپنے وطن پٹن میں رہنے لگے اور رشد و ہدایت کے ساتھ ساتھ درس و تدریس اور تعلیم و تلقین فرمانے لگے، کچھ ہی دنوں میں طلبا کی ایک بڑی جماعت آپ کے گرد جمع ہوگئی، آپ کو اپنے والدِ ماجد سے جو کچھ ورثہ میں ملا تھا وہ سب کچھ طلبا پر خرچ کردیا، مالدار لڑکے سے کہتے کہ اطمینان سے علم حاصل کرو اور غریب لڑکے کو تسلی دیتے اور کہتے کہ تیرا اور تیرے اہل و عیال کا خرچ میرے ذمہ ہے، گھبراؤ مت پریشانی کی کوئی بات نہیں، نہایت اطمینان سے علم حاصل کرو، آپ کا طریقہ تھا کہ درس دیتے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے پیر و مرشد کے حکم کے مطابق اپنے ہاتھ سے روشنائی تیار کرتے تھے یعنی دل بیار دست بکار۔

    استاد کی جانشینی : جب آپ کے استاد عارف ربانی حضرت شیخ مہتہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے اپنا کوئی جانشیں نہ چھوڑا، ان کے کوئی لڑکا نہ تھا، اب سوال یہ پیدا ہوا کہ ان کا جانشیں کون ہو؟ بہت بحث و مباحثہ کے بعد یہ طے پایا کہ ان کا مصلیٰ خالی چھوڑ دیا جائے اور جس کی طبیعت مائل ہو وہ آگے بڑھ کر نماز پڑھائے جس وقت یہ بات طے ہوئی اس وقت آپ (حضرت محمد طاہر) بھی وہاں موجود تھے، آپ بغیر کسی کے کہے اور بغیر کسی اشارہ کے آگے بڑھے اور مصلیٰ پر جاکر کھڑے ہوگئے، لوگ سمجھ گئے کہ خداوند تعالیٰ کو استاد کا جانشیں بنانا آپ ہی کو منظور ہے۔

    رشد و ہدایت : آپ کے وعظ و پند سے بھی لوگ مستفید ہوتے تھے، حدیث سے آپ کو خاص دلچسپی تھی اور حدیث ہی آپ کا شغف تھا، انہوں نے لوگوں کی اصلاح پر کمر باندھی، بوہرہ جماعت میں سنی بھی تھے اور شیعہ بھی، شروع میں سنی کم تھے اور شیعہ زیادہ تھے لیکن ملا جعفر پٹنی کے سنی ہوجانے کے بعد سنیوں کی تعداد شیعوں سے بڑھ گئی، پرانی خاندانی رسمیں مٹانے میں آپ کوشاں رہے، آپ کے متعلق کہا گیا ہے کہ

    ”اور بعض بدعتیں جو اس قوم میں پھیلی ہوئی تھیں ان کو مٹایا اور اہلِ سنت اور اس قوم کی بدعت میں تمیز و تعریف کی“

    غرض آپ وطن آکر ”درس اور علائے حق میں مصروف ہوگئے“ آپ نے اپنی قوم سنی بوہرہ کی اصلاح کی کوشش کی اور جو بدعت اور خلافِ شرع باتیں ان میں تھیں، ان کو دور کرنا چاہا اور میل جول، شادی بیاہ، لین دین، دعوت، کفن دفن کے اخراجات میں اصلاح کرنے کی کوشش کی۔

    احمدآباد میں آمد : آپ 981 ہجری میں احمدآباد تشریف لائے، آپ نے تبلیغ اور اصلاح کے خیال سے یہ سفر اختیار کیا، آپ کا خیال تھا کہ وہاں سے بھی شرک اور بدعت کو دور کرنا چاہیے اور لوگوں کے غلط عقائد کی اصلاح کرنا از بس ضروری ہے۔

    حضرت شاہ وجیہہ الدین سے بات چیت : آپ جب احمدآباد آئے تو حضرت شاہ وجیہہ الدین سے بھی ملے اور اپنے اصلاحی خیالات سے ان کو آگاہ کیا، حضرت شاہ وجیہہ الدین سنتے رہے اور پھر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

    حضرت شاہ وجیہہ الدین کا اظہارِ خیال : شاہ وجیہہ الدین نے آپ سے کہا کہ

    ”گرامی برادر کے حقیقت شناس ضمیر کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس نظم کے ساتھ جو کارخانۂ عالم کی آفرینش ہوئی ہے، اس کا باعث یہ ہے کہ آسمانی کمالات کا اظہار ہو اور یہ اظہار جمالی اور جلالی مظاہرے کے ساتھ وابستہ ہے اور اپنے مربی کے آثار و احکام کی طرز پر اسم کے مظہر کی جو کچھ رفتار ہے، یہی رفتار اس کے واسلے صراطِ مستقیم ہے گو اس کے تقابل پر نظر کرکے وہ رفتار مخالف اور معلوم ہوتی ہے اور اس مقام پر ہر موسیٰ کو فرعون کے ساتھ آشتی رکھنی چاہیے‘‘

    واضح ہو کہ صراطِ مستقیم حقیقت شناس مفسروں کے نزدیک دو طرح ہے۔

    ایک ایجابی

    دوسری ایجادی

    قرآنِ مجید میں صراطِ مستقیم کا ذکر جہاں کہیں بہ لفظ نکرہ نازل ہوا ہے، وہاں پر اکثر ایجادی مراد ہے اور جس آیت میں لفظ معرفہ وارد ہوا ہے، وہاں پر زیادہ تر مفہوم ایجابی ہے، فافہم (یعنی آپ اس کو اچھی طرح سمجھ لیں اور غور کریں) دوسری بات یہ ہے کہ انسان جو عالمِ کبیر کا نمونہ ہے اس کے عنصری پیکر سے دقیقہ شناس شخص یہ عبرت حاصل کیوں نہیں کرتا کہ اس کی ہستی اس بند و بست اور متعارف اعتدال کے ساتھ چند لطیف اور کثیف اعضا پر موقوف ہے چنانچہ اگر امعاء (آنت) جیسے کثیف عضو کو بھی کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو باغیچۂ بدن میں سراسر آشفتگی اور پژمردگی نمایاں ہو جاتی ہے۔

    اے برادرِ من! سیاست، فراست کی بات نہیں ہے اور مشغول حق کے ساتھ ہی ہونا زیبا ہے، نہ خلق کے ساتھ، ہذا اوان السکوت والتزام البسیوت (یہ زمانہ خاموشی اور مکان میں بیٹھ رہنے کا ہے)

    فرقہ مہدویہ : آپ (حضرت محمد بن طاہر) نے حضرت وجیہہ الدین کی رائے اور مشورہ سے اتفاق نہ کیا اور بدعت و شرک کو دور کرنے میں لگے رہے، اس کے علاوہ مہدویہ فرقے کے خلاف مصروفِ عمل رہے، فرقہ مہدویہ کے بانی جناب سید محمد ہیں، وہ سید عبداللہ کے صاحبزادے تھے، ان کا نام بدھ بھی بتایا جاتا ہے، ان کا شجرہ امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ تک اس طرح پہنچتا ہے۔

    سید محمد بن سید عبداللہ بن عثمان بن موسیٰ بن قاسم بن نجم الدین بن عبداللہ یوسف بن یحییٰ بن نعمت اللہ بن اسماعیل بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ۔

    ان کا لقب خاتم الاؤلیا تھا المعروف بہ ”مہدی موعود“ ان کی والدہ کا نام آمنہ تھا، وہ 14 جمادی الاول 847 ہجری مطابق 1413 عیسوی کو بمقامِ جون پور پیدا ہوئے، سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور بارہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے، آپ کے علم اور وسیع معلومات سے علمائے وقت آپ سے بہت مرعوب ہوئے، انہوں نے آپ کو اسعدالعلما کا خطاب دے کر آپ کو اسی خطاب سے پکارنا شروع کیا، حسین شاہ شرقی کے ساتھ آپ جنگ میں شریک ہوئے اور اڑیسہ کو دوبارہ فتح کرنے میں حسین شاہ کامیاب ہوا، یہ واقعہ 864 ہجری کا ہے، آپ 887 ہجری میں جونپور سے ہجرت کرکے داناپور (پٹنہ) تشریف لے گئے، آپ کے اہل و عیال ساتھ تھے، وہاں سے چندیری گئے اور وہاں سے منڈو (مانڈو) وہاں کا بادشاہ غیاث الدین خلجی آپ کا معتقد ہوا بعد ازاں چانپانیر (گجرات) تشریف لے گئے اور وہاں آپ کی اہلیہ کا انتقال ہوا، سلطان محمود احمد بیگرو کی آپ سے ملاقات نہ ہوسکی، البتہ جالور کا تاجدار زبدۃ الملک عثمان خاں آپ سے ملا اور آپ کا عقیدت مند ہوا، آپ 890 ہجری میں چانپانیر سے خاندیش پہنچے اور پھر دولت آباد ہوتے ہوئے احمد نگر پہنچے پھر بیدر گئے اور وہاں سے گلبرگہ پہنچے، وہاں سے پھر وہ مکہ معظمہ روانہ ہوگئے، حج بیت اللہ سے 901 ہجری میں فارغ ہوئے اور پھر جدہ ہوتے ہوئے کھنائٹ یادیو آئے اور احمدآباد پہنچ کر تاج خاں سالار کی مسجد واقع جمال پور میں قیام کیا، ایک دن انہوں نے کہا کہ میں دنیا میں ہی مادی آنکھوں سے خدا کو دکھا سکتا ہوں، اس پر علما نے قتل کا فتویٰ دیا لیکن مولانا تاج محمد خاں نے اس کی مخالفت کی اور فتویٰ پر عمل درآمد نہیں ہوا، انہوں نے مخالفت دیکھ کر احمدآباد چھوڑ دیا اور سولہ سانتیج پہنچے پھر نہروالہ پٹن پہنچے پھر پٹن سے برلی پہنچے اور برلی میں دعویٰ مہدی موعود کیا، رویتِ باری کے مسئلہ پر ان کی سب سے پہلے مخالفت احمدآباد میں ہوئی، برلی سے تھڑاد آئے اور پھر جالور گئے پھر ناگور (مارواڑ) گئے، وہاں سے جیسلمیر ہوتے ہوئے نصر پور کاہہ پہنچے اور پھر نصر پور کاہہ (سندھ) ٹھٹھہ آئے، وہاں سے آپ نو سو اشخاص کے ساتھ خراسان روانہ ہوئے، قندھار ہوتے ہوئے فرح پہنچے اور 19 ذیقعدہ 910 ہجری مطابق 23 اپریل 1505 عیسوی کو وفات پائی اور موضع ”رج“ اور فرح کے درمیان مدفون ہوئے۔

    جد و جہد : آپ (حضرت شیخ محمد بن طاہر پٹنی) نے مہدویوں کے خلاف اس وقت جد و جہد شروع کی جب ان کی سرگرمیوں نے شدت اختیار کرلی اور جو ان کے عقائد سے انکار کرتا اس کو قتل کر ڈالتے تھے، آپ نے دلائلِ عقلی و نقلی سے ان کے عقائد کی تردید کی، تحرید، تحریر اور تقریر سے بھی ثابت کرنے کی کوشش کی، ایک رسالہ ”نصیحۃ الولاۃ“ لکھا اور شیر خاں کو بھیجا، وہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ اگر مولانا نے یہ کتاب نہ لکھی ہوتی تو میں قیامت کے دن ان کا دامن گیر ہوتا، رسالہ کے اثر سے کچھ دن تو امن و امان رہا اور پھر شورش شروع ہوئی، سلطان مظفر سویم گجرات کا آخری بادشاہ تھا، اس کے عہد میں گجرات میں خانہ جنگی شروع ہوگئی، اس وجہ سے آپ (حضرت محمد بن طاہر پٹنی) کی اصلاحی کوششیں کامیاب نہ ہوسکیں۔

    تلوار سے حملہ : آپ کی تحریر اور تقریر سے خطرہ محسوس کرکے کچھ لوگ آپ کے در پئے آزار ہوئے ایک شخص نے آپ پر تلوار سے حملہ کیا، آپ کے زخم پر ٹانکے لگے، آپ فرماتے ہیں کہ

    ”زخم کو سوئی سے سولہ دفعہ ٹانکے دیتے وقت میں نے کوئی تکلیف محسوس نہیں کی مگر صرف تین ٹانکے پر“

    آپ جلد شفایاب ہوگئے۔

    احمدآباد میں آمد : آپ پٹن سے احمدآباد اس خیال سے گئے کہ وہاں امرا، وزرا اور اراکین دولت سے مل کر ان کی امداد حاصل ہوسکے گی اور رخنہ اندازی بڑھنے کے بجائے مسئلہ ایک ہی بار طے ہوجائے گا، آپ جب احمدآباد پہنچے تو کسی کو اس طرف متوجہ نہ پایا، ہر ایک کو اپنے اغراض و مقاصد سے کام تھا اور خانہ جنگی کے سبب وہ کسی دوسری طرف توجہ نہیں دے سکتے تھے۔

    واپسی : آپ مایوس ہوکر احمدآباد سے پٹن آئے اور پند و نصائح، وعظ و نصیحت اور رشد و ہدایت کرتے رہے۔

    پگڑی اتار دی : آپ کی تعلیم و تلقین کچھ مؤثر ثابت نہ ہوئی، مہدوی کبھی خاموش ہو جاتے اور کبھی ایسا ہوتا کہ ایک طوفان برپا ہوتا، غرض شورش ختم نہیں ہوئی، آپ نے حکومت سے اپیل کرنے کے بجائے خود ہی تدبیر سوچی، عاجز اور تنگ آکر اور پریشان ہوکر آپ نے اپنے سر سے دستار اتار دی اور فرمایا کہ

    ”اس دستار کے سر پر رکھنے کا کیا فائدہ جب تم مری بات نہیں مانتے ہو، میری بات نہ ماننے کے یہ معنی ہوئے کہ تم مجھے عالم نہیں سمجھتے ہو جس کی فرماں برداری ازوئے قرآن و حدیث نائبِ رسول ہونے کے سبب سے ضروری ہے“

    گجرات کی سلطنت کا خاتمہ : شہنشاہِ اکبر کے امرا میں سے کچھ کی یہ رائے تھی کہ گجرات کی بدنظمی، بدامنی اور بدعت اور شرک کو دور کیا جائے اور کچھ کی یہ رائے تھی کہ حالات کا جائزہ لیا جائے، سلطان مظفر گجراتی کے وزیر اعتماد خاں کا اکبر کو دعوت نامہ ملا اور ابو تراب شیروانی جو اعتماد خان کا مشیر تھا، اکبر کو گجرات پر حملہ کرنے کی ترغیب و توجہ دلانے میں کامیاب ہوا، شہنشاہِ اکبر مالدہ سے سیدھا گجرات پہنچا اور پٹن پر قبضہ کرکے احمدآباد پہنچا اور تمام گجرات کو اپنے تسلط میں لایا۔

    اکبر کا آپ کے سر پر عمامہ باندھنا : پٹن پہنچ کر امرا اور علما سے اکبر ملا، آپ کو ننگے سر دیکھ کر وجہ پوچھی، جب وجہ بتائی گئی تو اکبر نے اپنے ہاتھ سے آپ کے سر پر عمامہ باندھا اور آپ سے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں، آئندہ سے مذہبی اور شرعی معاملات آپ کے مشورہ سے طے ہوا کریں گے، اکبر نے آپ کو شیخ الاسلام کے عہدہ پر فائز کیا۔

    نظم و نسق : گجرات فتح کرنے کے بعد اکبر نے خانِ اعظم مرزا کو گجرات کا ناظم (گورنر) مقرر کیا، خانِ اعظم سے آپ کے خوشگوار تعلقات قائم ہوگئے، اس کے بعد عبدالرحیم خانِ خاناں گجرات کا ناظم مقرر ہوا، اس سے آپ کے تعلقات کچھ اچھے نہ تھے، اس نے مذہبی معاملات کی طرف سے بے اعتنائی برتی، عبدالرحیم خانِ خاں کو اکبر نے اپنے پاس بلایا اور وزیر خاں اس کے نائب کی حیثیت سے نظامت کر فرائض انجام دینے لگے، اس کے چلے جانے کے بعد شہاب الدین احمد خاں گجرات کا حاکم مقرر ہوا اور سلطان مظفر سویم گجراتی کا سابق وزیر اعتماد خاں گجراتی پٹن کا عامل ( فوجدار) مقرر ہوا۔

    آگرہ کا قصد : آپ بہت دل شکستہ ہوئے کہ کسی ناظمِ گجرات نے دینی مسائل کی اصلاح میں آپ کے ساتھ اشتراکِ عمل نہیں کیا، آپ نے یہ سوچا کہ آگرہ جاکر اکبر سے اس کی شکایت کریں، اکبر کے دینی عقائد کا بھی آپ کو پتہ لگا تھا، پس آپ نے یہ طے کیا کہ آگرہ جاکر اکبر کو بھی راہِ راست پر لائیں اور گجرات میں بڑھتے ہوئے شرک، کفر و بدعت کی بھی شہنشاہِ اکبر کو اطلاع دیں۔

    عمامہ اتار دیا : خانِ اعظم مرزا کے جو گجرات کا ناظم تھا، جانے کے بعد جب آپ کی کوئی شنوائی نہ ہوئی تو آپ نے پھر سر سے عمامہ اتار دیا اور ننگے سر رہنے لگے، آپ نے یہ عہد کیا کہ جب تک شرک و بدعت اور ظلمت و تاریکی دور نہ ہوگی اس وقت تک سر پر عمامہ نہ رکھوں گا۔

    آگرہ کو روانگی : آپ 986 ہجری میں مالدہ پہنچے، سارنگ پور پہنچ کر شیخ الاسلام بھکاری کے صاحبزادے شیخ حاجی محمد جو آپ کے شاگرد تھے، ان کے یہاں تین روز قیام کیا، وہاں سے موضع سوحی پہنچے۔

    شہادت : موضع سوحی میں آپ نے قیام کیا، 6 شوال 986 ہجری کو آپ نے جامِ شہادت نوش فرمایا، آپ تہجد کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اس وقت آپ کو شہید کردیا، شور و غل سے لوگ جاگ اٹھے، سارنگ پور میں حاجی شیخ محمد نے خواب میں دیکھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ ”مجھے شہید کردیا گیا ہے، تم کفن دفن کا انتظام کرو“ وہ اور لوگوں کے ساتھ روانہ ہوئے، ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ دیکھا کہ آپ کے شاگرد اور درویش جو آپ کے ساتھ تھے لاش لیے آرہے ہیں۔

    تدفین : سارنگ پور میں آپ کی تجہیز و تکفین ہوئی اور شیخ بھکاری کے قبہ میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا، آپ کی تاریخِ وفات اہلِ صراطِ مستقیم“ سے برآمد ہوتی ہے۔

    مزار مبارک : شہنشاہِ اکبر کو جب آپ کی شہادت کی خبر ہوئی تو اس نے حکم دیا کہ سارنگ پورے سے لاش پٹن لے جائی جائے اور وہاں دفن کی جائے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، آپ کا مزارِ مبارک پٹن میں مرجعِ خاص و عام ہے۔

    اولاد : آپ کی اولاد پٹن میں خوب پھلی پھولی اور آج تک پٹن میں آپ کے خاندان کے افراد موجود ہیں، آپ کے بڑے صاحبزادے کا نام ابراہیم ہے۔

    شاگردان : آپ کے مشہور شاگرد حسبِ ذیل ہیں۔

    جناب محمد فضل، شیخ ضیاؤالدین بن شیخ محمد غوث (گوالیاری) مولانا میاں احمد خاں پٹنی، شیخ داؤد بن شیخ حسن، مولانا برہان الدین واعظ، مولانا احمد، مولانا اسحاق، میاں جلال، مولانا شاہ محمد حسن، مولانا میاں نور محمد حسن، مولانا میاں عبدل بن فتح اللہ سارنگ پوری، مولانا شیخ محمد شطاری، مولانا شیخ جیون سورتی، مولانا شیخ حسین سورتی، شیخ عبدالہادی احمدآبادی، شیخ فرید کا سب پٹنی، شیخ عبدالنبی صدرالصدور۔

    علوئے مرتبت : حافظ زین العابدین مالدہ آئے، ان کے ساتھ خان دوران تھا، وہاں انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ میں نے اپنے استاد علی متقی سے سنا کہ ایک دن سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے، انہوں نے عرض کیا کہ

    ”یا رسول اللہ! آج کل آپ کی نسبت پر صحیح طور سے چلنے والا کون ہے؟“ حضرت سرورِ عالم نے ارشاد فرمایا کہ ”شیخ علی متقی پھر محمد طاہر گجراتی پھر عبدالوہاب“

    پیر و مرشد کا مکتوب : حضرت شیخ علی متقی نے اس خواب کے بعد ایک خط آپ کو لکھا جس کا مضمون یہ ہے۔

    ”حمدِ خدا اور نعتِ رسول کے بعد علی بن حسام کی طرف سے یہ خط مولانا محمد طاہر کی طرف ہے، اللہ تعالیٰ جو پسند کرے اس کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے، میں نے ایک رات خوب میں دیکھا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر رہا ہوں کہ لوگوں سے افضل اس زمانہ میں کون ہے، آپ نے فرمایا کہ تو ہے، عرض کیا کہ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ مولانا محمد طاہر ہندوستانی، خواب سے جیسے بیدار ہوا کہ اس وقت عبدالوہاب آئے اور قبل اس کے کہ میں کچھ اور ان سے کہوں خود انہوں نے اس وقعہ کو دہرایا، پس دونوں آدمیوں کے ایک ہی خواب دیکھنے سے خداوند کی درگارہ سے امید ہے کہ ہماری اور تمہاری عاقبت بخیر ہو، آمین“

    آپ کے پیر و مرشد کا یہ طریقہ تھا کہ وہ جب آپ کو خط لکھتے تھے تو کبھی میاں محمد طاہر اور کبھی محمد طاہر سے خطاب کرتے تھے، اس خواب کے بعد آپ نے کاتب سے فرمایا کہ مولانا محمد طاہر لکھو، جب تکاب نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے بتایا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہی خطاب سنا ہے پھر بھلا میں اس کے خلاف کیسے اور کیوں کر سکتا ہوں۔

    سیرتِ مبارک : آپ عالمِ باعمل اور درویشِ دلریش تھے، علمِ حدیث سے آپ کو خاص شغف تھا، علمِ حدیث کو پھیلانے میں آپ نے بہت تکالیف برداشت کیں، سنی بوہروں کی اصلاح میں آپ نے کافی جد و جہد کی، ان کی تمدنی، اخلاقی، اعتقادی، سماجی، اقتصادی اور روحانی اصلاح پر آپ نے کافی زور دیا، فرقہ مہدوی کی تردید، رشد و ہدایت، تعلیم و تلقین، تبلیغ اور درس و تدریس میں آپ کا زیادہ وقت گزرتا تھا، آپ کے پاس ایک بیش بہا کتب خانہ تھا جس میں مختلف علوم و فنون پر کتابیں تھیں لیکن علمِ حدیث پر بہترین انمول کتابیں تھیں۔

    علمی ذوق : آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں، ذیل میں خاص خاص کتابوں کے نام دئیے جاتے ہیں۔

    مقاصد جامع الاصول مشتمل بر احادیثِ ستہ مجمع البحار، تکملہ مجمع البحار، حاشیہ مقاصد الاصول، حاشیہ صحیح بخاری، حاشیہ صحیح مسلم، حاشیہ مشکوٰۃ المصابیح، چہل حدیث، عدوۃ المعتحبدین، منہاج السالکین، توسل (اسمائے رجال) مخنی اللبیب، تذکرۃ الموضات، قانون الموضات، تلویح و توضیح کا حاشیہ، شرح عقیدہ، طبقاتِ حنفیہ، رسالہ نہروالہ (جو رسالہ مکیہ کے نام سے مشہور ہوا)، مختصر متظہریہ نصیحۃ الولاۃ والرعاۃ ولرعیۃ، رسالہ امساک مطر، رسالہ احکامِ بیر، نصاب البیان، نصاب المیزان، کفایۃ الفرطین شرح شافیہ (علم صرف)، خلاصۃ الفوائد (علم صرف)، دستور الصرف، رسالہ کحلیہ۔

    کرامات : ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ سیر و تفریح کرتے تالاب کو نکری پہنچے اور وہاں املی کا بیج بویا، وہ بیج فوراً آیا اور اس میں چار پتّے بھی نمور ہوئے، پٹن میں وہ درخت اب تک ہے اور خوب ہرا بھرا ہے۔

    شہنشاہِ اکبر نے حکم دیا کہ آپ کا تابوت سارنگ پور سے پٹن لے جایا جائے اور وہاں دفن کیا جائے، چھ مہینے کے بعد تابوت پٹن لے جانے کے لیے نکالا گیا اور جب تابوت پر سے لوح ہٹائی گئی تو حاضرین کو یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ کل مونگرہ اُگا ہوا ہے اور وہ قدم کی جانب سے اُگ کر دو شاخہ ہوگیا ہے اور ناک کے پاس پہنچ گیا ہے، اس درخت میں چار پتّے اور پھول تھا، دو پتّے تو ناف کے پاس اور دو منہ کے پاس اور پھول ناک کے مقابل موجود تھا، حاضرین نے تبرک سمجھ کر اس درخت کے پتوں، پھول اور ٹہنیوں کو تقسیم کرلیا، آپ کا تابوت جب پٹن لایا گیا تو پٹن کے حاکم نے جو آپ کا مرید تھا، آپ کا چہرہ مبارک دیکھنا چاہا، منع کرنے پر بھی وہ نہ مانا، پردہ کرکے جب وہ تنِ تنہا اندر گیا تو اس نے دیکھا خون زخم سے جاری تھا اور بدنِ مبارک سے خوشبو آرہی تھی۔

    شرف الدین کی عیادت کو میاں بڈھن اور شیخ نعمانی ساتھ ساتھ گئے، شرف الدین نے کہا کہ ایک عجیب بات ہے جو میں نے آج تک کسی سے نہیں کہی، اب دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں اس لیے بہتر ہے کہ اس کا آج ذکر کروں، انہوں (شرف الدین) نے بتایا کہ انہوں نے ایک خوبصورت سنگین گنبد اس خیال سے خریدا تھا کہ وہ اس کو حاجی نوحات کے مقبرہ پر لگائیں گے، جب دوسرے دن گنبد اتروانے کا خیال کیا تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرتے ہیں کہ

    ”یہ گنبد تمہارا نہیں ہے، یہ گنبد دوسرے کے لیے بنا ہے، اس لیے تم اس گنبد سے دست بردار ہو جاؤ“

    سرورِ عالم کے فرمان اور حکم کے مطابق انہوں نے اس گنبد کو دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دیا، اس کے کچھ عرصے کے بعد آپ (حضرت شیخ محمد بن طاہر) کا تابوت پٹن پہنچا، ان کی اولاد نے اس گنبد کو خرید کر اتروانا چاہا، شیخ شرف الدین کہتے ہیں کہ میں نے اپنے خواب سے ان کو آگاہ کرنا چاہا اور ایسا کرنے سے منع کرنا چاہا پھر سوچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کو بھی منع فرما دیں گے، غرض آپ کی اولاد نے گنبد اتروایا اور اس کو آپ (حضرت محمد بن طاہر) کے مقبرہ پر چڑھایا، چڑھانے میں کوئی دقت یا رکاوٹ نہ ہوئی، نہایت آسانی اور خوبصورتی سے وہ گنبد آپ کے مزار پر نصب ہوگیا، اس گنبد کا کوئی پتھر یا پتھر کا ٹکڑا نہ گرا اور نہ ٹوٹا، شیخ شرف الدین کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ وہ گنبد آپ (حضرت محمد بن طاہر) کے لیے ہی تھا اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ عالی اسی طرف تھا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے