حضرت شیخ محمد چشتی
دلچسپ معلومات
تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-61
حضرت شیخ محمد چشتی مقربِ بارگاہِ ایزدی ہیں۔
خاندانی حالات : آپ کا خاندان علم و عرفان کے لیے مشہور تھا، آپ کے دادا شیخ احمد جو میاں جیو کے لقب سے مشہور ہیں شیخ نصیرالدین ثانی کے صاحبزادے تھے۔
والد : آپ کے والد ماجد کا نام حسن محمد تھا۔
ولادت : آپ 956 ہجری میں احمدآباد میں پیدا ہوئے، ”شیخ ولی“ سے آپ کی ولادت کی تاریخ برآمد ہوتی ہے۔
نام : آپ کا نام شمس الدین ہے۔
القاب : آپ کے القاب محمد اور قطب ہیں۔
کنیت : آپ کی کنیت ابوالحسن ہے۔
تعلیم و تربیت : آپ نے اپنے والد ماجد سے تعلیم پائی، علمِ حدیث اور فقہ میں آپ نے شغف اور دلچسپی کا اظہار کیا، علومِ ظاہر کی تکمیل کے بعد آپ علومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوئے۔
بیعت و خلافت : آپ نے اپنے والد کے دستِ حق پرست پر بیعت کی اور ان ہی سے خرقۂ خلافت پایا بعدہٗ آپ ان کے سجادہ پر بیٹھ کر رشد و ہدایت فرمانے لگے اور تشنگان کی روحانی پیاس بجھانے لگے۔
مسجد میں گوشہ نشینی : والد ماجد کے وصال کے بعد آپ کو بہت سے مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا، ظاہر اور باطنی طور پر آپ نے اس آزمائش کے دور کا کوئی اثر نہ لیا، ظاہری آمدنی کوئی نہ تھی، فقر و فاقہ کی یہ نوبت پہنچی کہ گھر والے اکثر آپ سے شکایت کرتے اور مرید کہتے کہ شاہانِ گجرات کو خبر کریں لیکن آپ منع فرماتے تھے، آپ نے شہنشاہِ اکبر کو سندھیں دکھا کر جاگیریں واپس لینے کی تجویز مسترد کردی، آپ نے کئی سال ملک مقصود کی مسجد میں گزارے، آپ نے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی۔
خانقاہ میں رہائش : کچھ سال کے بعد اپنی خانقاہ میں تشریف لائے جو شہر میں تھی اور لوگوں کو رشد و ہدایت کرنے لگے اور درس و تدریس میں مشغول ہوئے۔
اولاد : آپ کے چار لڑکے تھے جن کے نام یہ ہیں۔ شیخ سراج الدین، شیخ عزیزاللہ، شیخ حسن محمد اور شیخ محمود۔
وفات : آپ نے 29 ربیع الاول 1041 ہجری کو وصال فرمایا، اس وقت آپ کی عمر 85 سال کی تھی، ”واصلِ حق محمد چشتی“ اور چشتی محمد اکبر“ سے آپ کی تاریخِ وصال برآمد ہوتی ہے، مزارِ پرانوار احمدآباد میں مرجعِ خاص و عام ہے۔
خلفا : آپ کے بہت سے خلفا تھے، ان میں سب سے زیادہ مشہور و معروف حضرت شیخ یحییٰ مدنی ہیں، شیخ یحییٰ مدنی ایک بلند پایہ بزرگ ہیں، آپ شیخ محمد کے فرزندِ ارجمند ہیں، احمدآباد میں پیدائے۔
قطعۂ تاریخ یہ ہے۔
چو سلطان الولایت شیخ یحییٰ
کہ بروئے از خدا صد آفریں باد
تولد یافت در تاریخِ مسعود
سعادت ذاتِ پاکش را قریں باد
آپ کا نام محی الدین، لقب یحییٰ ہے اور کنیت ابو یوسف ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کا نام یحییٰ ہے، لقب محی الدین اور کنیت ابا یوسف ہے، آپ ایک بڑے عالم تھے، آخری زندگی مدینہ منورہ میں گزاری، وہیں وصال ہوا اور وہیں مزار بھی ہے۔
وصالش
در مدینہ شیخ یحییٰ بست وہشتم از صفر
کرد آہنگِ سفر در وصلِ حق شد کامراں
سیرت : آپ عناعت و توکل میں بے نظیر تھے، سلاطین اور امرا سے جہاں تک ممکن ہوتا دور رہتے تھے، رشد و ہدایت، تعلیم و تلقین اور عبادت و ریاضت میں وقت گزارتے تھے، اپنا حال کسی پر ظاہر نہ کرتے تھے، اخفائے راز کو درویش کا جوہر سمجھتے تھے، آپ قطبیت کے درجہ پر فائز تھے، اکثر سکر و صعو کی حالت سے گزرتے تھے۔
تعلیم : آپ نے فرمایا کہ
”خدا رزاق ہے پھر خدا کو چھوڑ کر بادشاہوں کے در پر کیوں جایا جائیں، خدا کے ہوتے ہوئے بادشاہوں کا احسان مند ہونے کی کیا ضرورت ہے“
کشف و کرامات : آپ صاحبِ کشف و کرامات تھے، ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے مزارِ پر انوار پر حاضر ہوئے، آپ تنِ تنہا اندر تشریف لے گئے، مزارِ مبارک شق ہوا، ایک شخص یہ دیکھ رہا تھا، اس نے اس بات کا تذکرہ کیا، عام چرچہ ہونا شروع ہوا، ہوتے ہوتے شہنشاہِ جہانگیر کے کانوں تک یہ خبر پہنچی، جہانگیر نے آپ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، آپ نے اس کی درخواست منظور فرمائی۔
سید احمد قادری کے ذریعہ یہ بات طے ہوئی کہ آپ جہانگیر سے ملیں گے، آپ جب جہانگیر سے ملنے پہنچے تو اس وقت جہانگیر شیروں کا تماشہ دیکھنے میں محو تھا، اتنے میں ایک شیر پنجرہ سے باہر نکل آیا، لوگ بہت سراسیمہ اور پریشان ہوئے، ابھی لوگ خوفزدہ تھے کہ کیا دیکھتے ہیں کہ شیر پنجرہ سے باہر نکل کر آپ کی طرف بڑھا اور بجائے حملہ کرنے کے آپ کے پیروں پر گر پڑا، دُم ہلاتا شیر کا سر آپ کے پیروں پر تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.