Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شیخ عبداللطیف

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

حضرت شیخ عبداللطیف

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    تاریخ صوفیائے گجرات۔ حصہ دوم۔ باب-73

    حضرت شیخ عبداللطیف بحرِ علم و زہد و تقویٰ اور گنجِ حلم و جود و سخا ہیں۔

    خاندانی حالات : آپ امیر المؤمنین حضرت عمرِ فاروق کی اولاد سے ہیں، آپ کا نسب نامہ حضرت مخدوم حسام الدین کے بھانجے حضرت صدرالدین فاروقی سے ملتا ہے، آپ کے دادا حضرت سراج الدین، حضرت صدرالدین فاروقی کے صاحبزادے تھے۔

    والد ماجد : آپ کے پدر بزرگوار کا نام شاہ جمال ہے۔

    ولادت : آپ پٹن میں پیدا ہوئے۔

    نام : آپ کا نام عبداللطیف ہے۔

    تعلیم و تربیت : آپ کی اتبدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی، فقہ، حدیث، تفسیر سے فارغ ہوکر علومِ باطنی کی طرف متوجہ ہوئے۔

    بیعت و خلافت : آپ حضرت برہان الدین المعروف بہ قطبِ عالم کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور ان ہی سے خرقۂ خلافت پاکر صاحبِ اجازت ہوئے، آپ کے پیر و مرشد حضرت قطب عالم آپ سے بے حد محبت کرتے اور اپنا بارھواں فرزند فرمایا کرتے، آپ جب پٹن سے پیر و مرشد کی خدمت میں جاتے اور کوئی شخص قطب عالم کو آپ کے آنے کی اطلاع کر دیتا تو قطبِ عالم بہت خوش ہوتے اگر وہ شخص مسلمان ہوتا، اس کو ایمان کی سلامتی کا مژدہ سناتے اور اگر وہ غیر مسلم ہوتا تو اس کو اشرفی عنایت فرماتے۔

    مژدہ : ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ احمد نگر جارہے تھے، قافلہ سے بچھڑ گئے، شام ہوئی تو اذاں دے کر مغرب کی نماز پڑھی پھر خیال آیا کہ تنِ تنہا جنگل میں رات کیسے گزاروں گا، مراقبہ کیا اور پیر و مرشد کا تصور کیا، تصورِ شیخ کے بعد آپ نے دیکھا کہ قطبِ عالم چہرہ پر نقاب ڈالے تشریف لا رہے ہیں، قریب آکر نقاب چہرہ سے ہٹائی اور آپ کا ہاتھ پکڑا اور آپ کو مکان کے راستہ پر پہنچایا، آپ کے پیر و مرشد نے پھر آپ کو یہ مژدہ سنایا کہ

    ”بابا عبداللطیف! گھبرانے کی کیا بات ہے، میں تمہارے ساتھ ہوں، تم جہاں بھی ہو یہ خیال مت کرو کہ تم اکیلے ہو، اس دنیا میں ہی نہیں جنت میں بھی ہم تم ایک جگہ رہیں گے جو شخص تجھے اور تیرے فرزندوں کو سات پشت تک دیکھے گا اس پر دوزخ کی آگ حرام ہوگی، اگر مؤمن تیری صورت دیکھے گا، وہ جنت کا حق دار ہوگا اور اگر غیر تیری صورت دیکھے گا، اس پر دوزخ کا عذاب کم ہوگا“

    وصیت : وفات سے قبل بتاریخ 20 شعبان 877 ہجری کو آپ نے اپنے خادم عبدالملک انصاری کو بھیج کر سید احمد جہاں شاہ کو بلوایا اور ان سے فرمایا کہ

    ”میری عمر کے صرف تیرہ دن باقی ہیں، میرے انتقال کے بعد میرے فرزند صدرالدین، جلال الدین محمد بھورے اور تم مجھے غسل دینا اور کوئی غسل میں شریک نہ ہو، تم اور صدرالدین مجھے قبر میں اتار دیں، میرا لکھا ہوا رسالہ ”مؤدبِ برہانی“ میری قبر میں رکھنا، مجھ کو دو نعمتیں حضرت قطبیہ سے عنایت ہوئی ہیں، ان میں سے ایک میں نے تم کو دی اور دوسری صدرالدین کو اور اپنا خرقۂ خلافت صدرالدین کو دینا“

    خرقۂ خلافت : آپ نے اپنا خرقۂ خلافت، خرقۂ وصال و خرقۂ کمال اپنے صاحبزادے حضرت صدرالدین کوعطا فرئے۔

    وصال : 4 رمضان المبارک 877 ہجری مطابق 1472 عیسوی کو آپ نے اپنے صاحبزادے شیخ شرف الدین کو بھیج کر سید احمد جہاں شاہ کو بلایا اور ان سے کہا کہ عشا کی نماز تمہارے ساتھ پڑھیں گے، چنانچہ نماز پڑھی، سجدہ میں سر تھا، بلند آواز سے آپ نے ”صبوح“ ”قدوس“ تین بار کہا اور پھر جانِ شیریں جانِ آفریں کے سپرد فرمائی، آپ کو غسل آپ کی وصیت کے مطابق دیا گیا اور قبر میں بھی اسی طرح اتارا گیا، پٹن میں آپ کا مزار واقع ہے۔

    سیرت : آپ بڑے برگزیدہ بزرگ تھے، متقی، پرہیزگار اور پابندِ سنت تھے، توکل کا یہ حال تھا کہ دنیاوی کوئی چیز گھر میں نہیں رکھتے تھے، آپ کے اہل و عیال کو فاقے ہوتے تھے ایک دن تنگ آکر انہوں نے آپ سے شکایت کی، آپ نے ان سے فرمایا کہ تم کو جو کچھ چاہیے حجرہ میں جاکر لے لو، آپ کی اہلیہ حجرہ میں داخل ہوئیں تو دیکھا کہ حجرہ میں مٹی کے تھال سونے سے بھرے رکھے ہیں اور حجرہ جواہرات اور اشرفیوں سے بھرا ہوا ہے، آپ کی اہلیہ نے تھالوں میں سے کچھ لیا، آپ ایک لمحہ بھی ذکر وفکر، عبادت و ریاضت سے غافل نہ رہتے تھے، آپ نے چند کتابیں بھی لکھیں لیکن ان کتابوں کا پتہ نہیں چلتا، آپ کی مشہور کتاب ”منشور الخلافت“ ہے جو قلمی ہے۔

    تعلیمات : آپ نے فرمایا کہ

    ”مریدوں کے لیے یہ از بس ضروری ہے کہ حاضر و غائب میں پیر و مرشد کے آداب کا لحاظ رکھیں، پیر کا ادب کریں اور پیر و مرشد کی غیر حاضری میں پیر کی صورت کو دھیان میں رکھیں اور پیر کی صورت کا مشاہدہ کریں، مرید کو چاہیے کہ ہر وقت اپنے پیر و مرشد کو حاضر سمجھے، یہ نہ سمجھے کہ پیر دور ہے“

    فقر کے متعلق آپ نے فرمایا کہ

    ”سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر کو عزیز رکھا ہے اور فقر کی قدر و منزلت کا اظہار فرمایا ہے، سرورِ عالم فقر پر فخر کرتے تھے، ہم لوگ اسی کا شانہ کے جاں بخش ہیں، ہم درویش ہیں، درویش کو چاہیے کہ سرکار دوعالم کی پیروی کرے“

    کرامات : آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ آپ کا رسالہ ”مؤدب برہانی“ آپ کی قبر میں رکھا جائے، دفن کرتے وقت یہ بات کسی کو یاد نہ رہی، آپ نے قبر میں فرمایا کہ

    ”ہمارا رسالہ لاؤ اور رکھو“

    حکم کی تعمیل کی گئی، رسالہ جوں ہی رکھا گیا قبرِ مبارک نور سے روشن ہوگئی، کفن چہرۂ مبارک سے ہٹایا گیا تو آپ کلمۂ طیبہ پڑھ رہے تھے، ابھی قبر کھلی ہوئی تھی کہ قبر سے آواز آئی کہ

    ”اللہ کے محبوب کو اللہ کے سپرد کرکے جاؤ“

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے