Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

محبوب الٰٰہی خواجہ نظام الدین اؤلیا

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

محبوب الٰٰہی خواجہ نظام الدین اؤلیا

ڈاکٹر ظہورالحسن شارب

MORE BYڈاکٹر ظہورالحسن شارب

    دلچسپ معلومات

    دلی کے بائیس خواجہ۔ باب 6

    حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا محبوبِ رب العالمین ہیں، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کے جانشین ہیں، خواجہ راستین، نظام الحق والشرع والہدیٰ والدین ہیں۔

    خاندانی حالات : حضرت محبوبِ الٰہی کے خاندان کے افراد بخارا کے رہنے والے تھے، آپ کے دادا حضرت سید علی اور آپ کے نانا حضرت سید عرب بخارا سے ہجرت کے مع اہل و عیال لاہور تشریف لائے، لاہور میں چند روز قیام کرکے بدایوں تشریف لے گئے اور وہیں سکونت اختیار کی، بدایوں میں اس زمانے میں صوفیوں اور عالموں کا مرکز تھا، حضرت سید علی اور حضرت سید عرب نہایت متقی اور پرہیزگار تھے، دینی عزت اور دولت کے علاوہ یہ حضرات دنیاوی ثروت و حشمت سے بھی مالا مال تھے۔

    والدماجد : آپ کے والدماجد کا نام خواجہ سید احمد ہے، آپ مادر زاد ولی تھے، آپ کو ارادت و خلافت اپنے والد حضرت خواجہ سید علی سے ملی تھی، آپ نے چند روز قضا کے عہدے کو زینت بخش کر ترک و تجرد اختیار کیا، آپ بالکل گوشہ نشیں ہوگئے۔

    والدہ ماجدہ : آپ کی والدۂ ماجدہ حضرت خواجہ سید عرب کی صاحبزادی ہیں، آپ صبروشکر اور تسلیم و رضا میں یکتا تھیں، آپ زہد و رع اور علم و حلم کے واسطے مشہور تھیں۔

    نسب نامۂ پدری : آپ کا نسب نامہ پدری حسبِ ذیل ہے۔

    حضرت خواجہ نظام الدین اؤلیا بن سید احمد بن سید علی عبداللہ بن سید علی اصغر بن سید حعفر بن امام علی ہادی نقی بن امام محمد تقی الملقب بہ جواد بن حضرت امام علی رضا بن حضرت امام موسیٰ کاظم بن حضرت امام جعفر صادق بن حضرت امام محمد باقر بن حضرت امام علی المقلب بہ زین العابدین بن حضرت سیدنا امام حسین بن حضرت امام الاؤلیا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ۔

    نسب نامۂ مادری : آپ کا نسب نامہ مادری حسبِ ذیل ہے۔

    حضرت بی بی زلیخا بنت خواجہ سید عرب البخاری بن سید ابوالمفاخر بن سید محمد اظہر لبن سید حسین بن سید علی بن سید احمد بن سید عبداللہ بن سید علی اصغر بن سید جعرفر بن امام علی ہادی نقی بن امام محمد تقی الملقب بہ جواد بن حضرت امام علی رضا بن حضرت امام موسیٰ کاظم بن حضرت امام جعفر الصادق بن حضرت امام محمد باقر بن حضرت امام علی الملقب بہ زین العابدین حضرت سیدنا امام حسین بن حضرت امام الاؤلیا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ۔

    نسب : پس آپ سادات سے ہیں، والدماجد اور والدۂ محترمہ کی طرف سے آپ سید النسب حسینی ہیں۔

    ولادتِ باسعادت : آپ 27 صفر 636ھ میں آخری چہار شنبہ کے دن بعد طلوع آفتاب اس عالم میں رونق افروز ہوئے۔

    نامِ نامی : آپ کا نام نامی محمد نظام الدین ہے۔

    خطاب : آپ کے خطابات حسبِ ذیل ہیں۔ سلطان المشائخ، محبوبِ الٰہی۔

    بچپن کا صدمہ : حضرت محبوبِ الٰہی کی ابھی بہت ہی کم عمر تھی کہ آپ کے والد ماجد حضرت خواجہ سید احمد کا وصال ہوگیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس وقت آپ کے والد ماجد نے رحلت فرمائی، اس وقت حضرت محبوبِ الٰہی کی عمر پانچ سال کی تھی۔

    آپ کی تعلیم : آپ کی والدۂ محترمہ نے آپ کو مکتب میں بھیجا، وہاں آپ نے حضرت مولانا شادی مقرقی سے ایک ہی پارہ پڑھا اور اس ہی پارہ کی برکت سے آپ نے تمام قرآن شریف ختم کیا، اس کے بعد آپ نے کتابیں پڑھنا شرع کیں، آپ نے مشہور کتاب ”قدوری“ حضرت مولانا علاؤالدین اصولی سے پڑھی، جب کتاب ختم ہوئی تو مولانا علاؤالدین اصولی نے تمام علما و اؤلیا کی موجودگی میں دستار اپنے ہاتھ میں لی اور کھول کر حضرت محبوبِ الٰہی سے فرمایا، ”قریب آؤ اور اس دستار کو اپنے سر پر باندھو“ استاد کے حکم کے موافق آپنے دستار اپنے سر پر باندھی، آپ نے مولانا شمس الدین سے جو شمس الملک کے خطاب سے مشہور ہیں، ”مقاماتِ حریری“ حفظ کی، مولانا شمس الملک ادب و لغت میں دوسرا ثانی نہیں رکھتے تھے، شہر کے بہت سے علما، و فضلا ان کے شاگرد تھے، آپ نے تمام علومِ ظاہری یعنی فقہ، حدیث، تفسیر، کلام، معانی، منطق، حکمت فلسفہ، ہیت، ہندسہ، لغت، ادب اور قرأت وغیرہ میں کمال حاصل کیا، ساتوں قرأتوں کے ساتھ آپ نے قرآن شریف یاد کیا، دہلی پہنچ کر آپ نے مولانا کمال الدین محدث سے ”مشارق الانوار“ کی سند حاصل کی، آپ نے اپنے پیرومرشد حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کی خدمتِ بابرکت میں اجودھن رہ کر قرآن شریف کے چھ پارے پڑھے، تین کتابیں اور بھی پڑھیں جن میں سے ایک میں قاری اور دو میں سامع تھے، ان کتابوں کے علاوہ آپ نے ”عوارف“ کے چھ باب بھی پڑھے اور تمام تمہید ابوشکور سالمی بھی اجودھن رہ کر پیرومرشد کی خدمت میں پڑھی۔

    علمی فضیلت : آپ نے علومِ ظاہری میں کمال حاصل کیا، اسی کمال کے باعث آپ علما و فضلا کے طبقے میں ”نظام الدین بحاث محفل شکن“ کے خطاب سے مشہور ہوئے۔

    دہلی میں قیام : حضرت محبوبِ الٰہی بعدِ تحصیل علومِ ظاہری بدایوں سے ہجرت کرکے دہلی میں روقنق افروز ہوئے، آپ کی والدۂ محترمہ اور ہمشیرہ بھی آپ کے ساتھ تھیں، دہلی میں آپ نے مستقل سکونت اختیار فرمائی، دہلی میں حضرت محبوبِ الٰہی کئی سال تک تحصیلِ علم میں مشغول رہے، آپ نے مولانا امین الدین احمد صاحب محدث کی صحبت سے کافی فیض اٹھایا، آپ جب دہلی تشریف لائے تو آپ نے حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کے بھائی اور خلیفہ حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کے پڑوس میں مکان کرائے پر لے کر رہنا شروع کیا۔

    دوسرا صدمہ : دہلی میں آپ کی والدۂ محترمہ کا انتقال ہوگیا، آپ کے لئے یہ صدمہ جانکاہ تھا، اب شیخ نجیب الدین متوکل کی صحبت آپ کی مونس اور ہمدم تھی۔

    مجذوب سے ملاقات : ایک روز آپ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزارِ پُرانوار پر حاضر ہوئے، وہاں ایک مجذوب سے ملاقات ہوئی، آپ نے ان مجذوب سے درخواست کی کہ وہ ان کے لئے دعا کریں کہ وہ قاضی ہوجائیں، ان مجذوب نے جواب دیا کہ ”نظام الدین! قاضی ہونا چاہتے ہو اور میں تم کو دین کا بادشاہ دیکھتا ہوں، تم ایسے مرتبے پر پہنچو گے کہ تمام عالم تم سے فیض لے گا“

    قاضی بننے کی خواہش : ایک دن آپ نے حضرت شیخ نجیب الدین متوکل سے بھی عرض کیا کہ وہ ان کے قاضی بننے کے واسطے دعا فرمائیں، حضرت نجیب الدین نے حضرت محبوبِ الٰہی کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ”تم انشااللہ تعالیٰ قاضی نہ ہوگے بلکہ ایک ایسی چیز بنوگے کہ جس کو میں جانتا ہوں“

    بابا فریدالدین گنج شکر سے غائبانہ ارادت : حضرت محبوبِ الٰہی کی عمر بارہ سال تھی، آپ بدایوں میں مقیم تھے اور علم لغت کے حاصل کرنے میں مشغول تھے، ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ کے استاد حضرت مولانا علاؤالدین اصولی کے پاس ایک شخص ملتان سے آیا، اس شخص کا نام ابو بکر خرّاط تھا، اس کو ابوبکر قوال بھی کہتے تھے، آپ کے استاد نے اس شخص سے اس طرف کے مشائخین اور اؤلیا کا حال دریافت فرمایا، اس شخص نے حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی کی بہت تعریف کی، اس نے کہا کہ اس نے ان کو قوالی بھی سنائی، ان کی عبادت اور ریاضت بیان سے باہر ہے، ان کی کنیزوں تک کا یہ حال ہے کہ کام کی حالت میں بھی ذکر کرتی رہتی ہیں، اس خطے کو انہوں نے اپنے فیض و کرم سے منور کردیا ہے۔

    حضرت محبوبِ الٰہی یہ سنتے رہے پھر ابوبکر قوال نے اجودھن کا حال بیان کیا کہ وہاں حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر رہتے ہیں، وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا، ان کو ایک ماہ تمام پایا، انہوں نے اپنے نورِ معرفت سے تاریک دلوں کو روزن کردیا ہے، لوگوں کے دلوں کو انہوں نے مسخر کرلیا ہے، بہت لوگ ان کے حلقۂ بگوش ہیں۔

    حضرت محبوبِ الٰہی نے جب حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی یہ تعریف سنی توآپ کے دل میں محبت کا ایک جذبہ موجزن ہوا، غائبانہ طور پر آپ کو حضرت بابا فریدالدین گنج شکر سے ارادت پیدا ہوئی، قدم بوسی کا شوق ہوا، اس محبت، ارادت اور عقیدت میں روز بروز ترقی ہوتی رہی، حضرت محبوبِ الٰہی کا اب یہ وِرد ہوگیا کہ آپ ہر نماز کے بعد دس بار شیخ فرید اور دس بار مولانا فرید کہتے تھے، یہ الفتِ باطنی چھپنے والی نہیں تھی، آپ کے دوستوں کو بھی اس کا علم ہوگیا، اب جب وہ آپ کو قسم دیتے تو شیخ کی محبت یعنی بابا فریدالدین گنج شکر کی محبت کی قسم دیتے۔

    آپ جب بدایوں سے دہلی میں سکونت اختیار کرنے کی غرض سے روانہ ہوئے تو ایک شخص جس کا نام عیوض تھا، آپ کے ساتھ ہولیا جب راستے میں کوئی خوف یا کوئی خطرہ پیش آتا تو وہ بے ساختہ کہتا کہ

    ”یا پیر حاضر باش کہ مادر پناہ تو می رویم“

    ترجمہ : اے پیر موجود رہئے کہ ہم آپ کی پناہ میں جارہے ہیں۔

    حضرت محبوبِ الٰہی نے جب یہ کلمات سنے تو آپ نے اس شخص سے دریافت فرمایا کہ

    ”یہ تمہارے پیر کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں، جن کی پناہ اور مدد چاہتے ہو“

    اس شخص نے جواب دیا کہ

    ”میرے پیر وہی ہیں جنہوں نے تمہارے دل کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے اور تم کو اپنی محبت کا فریفتہ بنایا ہے یعنی حضرت شیخ فریدالدین مسعود گنج شکر“

    یہ سن کر حضرت محبوبِ الٰہی کا اخلاص اور اعتقاد اور بڑھ گیا۔

    دہلی میں آپ حضرت شیخ نجیب الدین متوکل کی صحبت میں زیادہ وقت گذارتے تھے، وہاں حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کے اوصاف و محاسن و محامد سن کر حضرت محبوبِ الٰہی کے ذوق و شوق اور اشتیاق قدم بوسی میں اور اضافہ ہوگیا، وقت گزرتا رہا، اسی حالت میں تین سال گزر گئے۔

    زندگی میں کایا پلٹ : آپ رات جامع مسجد میں بسر کرتے تھے، ایک روز جب صبح ہوئی تو مؤذن نے مینار پر چڑھ کر یہ آیت پڑھی۔

    الم یانِ للذین اٰمنو ان تخشع قلو بُھُم لِذکراللہ۔

    ترجمہ : کیا مومنوں کے واسطے وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکرِ الٰہی کے واسطے جھک جائیں۔

    حضرت محبوبِ الٰہی نے جب یہ آیت سنی تو آپ کے اوپر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی، آپ کے حال میں ایک نمایاں تبدیلی واقع ہوئی، آپ کا سینۂ انوارِ الٰہی کی تجلیوں سے معمور ہوگیا، دنیا کی محبت جاتی رہی، اب آپ کی دنیاوی مراد، تمنا یا آرزو نہ تھی، ترک و تجرید آپ کا شعار ہوگیا۔

    اجودھن کو رانگی : آپ پر شوقِ ارادت غالب تھا، آپ بغیر کسی زادِ راہ اجودھن روانہ ہوگئے، ہانسی، پہنچ کر آپ کو قافلہ کا انتظار کرنا پڑا، جب قافلہ جمع ہوا آپ بھی اس کے ساتھ ہولئے، قافلہ کا سردار جب کوئی خطرہ محسوس کرتا، کھڑا ہوجاتا اور بلند آواز سے کہتا کہ

    ”حضرت پیر دستگیر شفیعِ وقت رہئے‘‘

    ترجمہ : اے حضرت پیر دستگیر ہمارے شفیعِ وقت رہئے۔

    حضرت محبوبِ الٰہی نے میرِ کارواں سے دریافت فرمایا کہ

    ”تمہارے پیر کون ہیں جن کو تم پکارتے ہو اور مدد طلب کرتے ہو“

    اس شخص نے جواب دیا کہ

    ”میرے پیر حضرت قطب العالم شیخ فریدالدین گنج شکر ہیں، میں انہیں یاد کرتا ہوں“

    یہ سن کر حضرت محبوبِ الٰہی کی حضرت بابا فریدالدین گنج شکر سے عقیدت میں اور اضافہ ہوگیا، اجودھن کے راستے میں سرسہ پڑتا تھا، سرسہ سے دو راستے جاتے تھے، ایک راستہ ملتان کو جاتا تھا اور دوسرا راستہ اجودھن کو، سرسہ پہنچ کر حضرت محبوبِ الٰہی تین روز رکے، کبھی ملتان کا خیال ہوتا اور کبھی اجودھن کا، تیسرے دن رات کو آپ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے آں حضرت نے فرمایا کہ

    ”اے نظام الدین ! اجودھن کا راستہ پکڑو“

    اب آپ بغیر کسی پس و پیش کے ”فرید فرید“ کہتے ہوئے اجودھن کی طرف روانہ ہوئے۔

    حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی خدمت میں : آپ راستہ طے کرتے ہوئے، آخر کار منزلِ مقصود پر پہنچے، بدھ کے دن 11 رجب المرجب 665ھ میں آپ اجودھن میں داخل ہوئے، بعد نمازِ ظہر حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کی خدمتِ بابرکت میں حاضر ہوئے، قدم بوسی سے مشرف ہوئے، حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے آپ کو دیکھ کر یہ شعر پڑھا کہ

    اے آتشِ فراقت دلہا کباب کردہ

    سیلابِ اشتیاق جانہا خراب کردہ

    ترجمہ : اے کہ تیرے فراق کی آگ نے دلوں کو کاب کردیا (اور) تیرے اشتیاق کے سیلاب نے جانوں کو خراب کردیا۔

    حضرت محبوبِ الٰہی پر دہشت کا اس قدر غلبہ تھا کہ آپ پورا حال عرض نہ کرسکے، آپ اس قدر ہی کہنے پائے تھے کہ ”اشتیاق پائے بوسی عظیم غالب تھا“ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے یہ حال دیکھ کر زبانِ فیضِ ترجمان سے فرمایا کہ

    ”لکلِّ داخلٍ دَھشۃ“

    حضرت محبوبِ الٰہی اس واقعہ کا خود ذکر فرماتے ہیں : ”جب میں جناب شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنجاب نے آثار دہشت میرے اندر ملاحظہ کئے“ فرمایا کہ

    مرحبا خوش آمدی و صفا آوردی و از نعمت دینی و دنیوی انشااللہ بر خوری۔

    ترجمہ : شاباش۔ خوب آئے، انشااللہ دین اور دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوگئے۔

    بیعت اور خلافت : حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے اسی روز حضرت محبوبِ الٰہی کو وہ ٹوپی دی جو آپ اوڑھے ہوئے تھے، ٹوپی کے علاوہ آپ کو اور تبرکات بھی عطا کئے، خرقۂ نعلین چوبیں، مصلے اور عصا آپ کے سپرد فرمایا پھر حضرت محبوبِ الٰہی سے مخاطب ہوکر حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے فرمایا کہ

    ”اے نظام الدین ! میں چاہتا تھا کہ ولایت ہندوستان کسی اور کو دوں مگر تم راستے میں تھے کہ مجھ کو غیب سے ندا پہنچی کہ ابھی ٹھہرے رہو، نظام بدایونی آتے ہیں اور وہی اس ولایت کے لائق ہیں، انہیں کو دینا چاہئے“ اس وقت حضرت محبوبِ الٰہی کی عمر شریف بیس سال کی تھی، اپنے پیرومرشد کے فرمان کے مطابق آپ اجودھن میں رہنے لگے، ایک دن حضرت محبوبِ الٰہی نے اپنے پیرومرشد سے عرض کیا کہ

    ”میرے واسطے کیا حکم ہے، اگر ارشاد ہو، پڑھنے پڑھانے کو موقوف کر کے اوراد و نوافل میں مشغول ہوں“

    حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے جواب دیا کہ

    ”میں کسی کو پڑھنے پڑھانے سے منع نہیں کرتا، یہ بھی کرو، وہ بھی کرو۔۔۔ درویش کو قدرے علم ضروری ہے“

    شجرۂ بیعت : آپ کا شجرۂ بیعت حسبِ ذیل ہے۔

    نظام الدین وہومن حضرت بابا فریدالدین مسعود وہومن حضرت قطب الدین بختیار کاکی وہومن حضرت خواجہ معین الدین سنجری وہومن حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی وہو من حضرت حاجی شریف زندانی چشتی وہومن حضرت قطب الدین مودود چشتی وہو من حضرت خواجہ ناصرالدین ابو یوسف چشتی وہو من خواجہ ابو محمد چشتی وہومن خواجہ احمد ابدال چشتی وہو من حضرت خواجہ ابواسحاق شامی چشتی وہومن حضرت خواجہ ممشاد علادینوری وہومن شیخ امین الدین بہیمرۃ البصری وہومن حضرت شیخ سیدیدالدین حذیفۃ المرعشی وہومن حضرت سلطان ابراہیم ادھم بلخی وہومن حضرت خواجہ ابو فضل بن عیاض وہومن حضرت خواجہ عبدالواحد بن زید وہومن حضرت حسن بصری وہومن امام الاؤلیا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ۔

    پیرومرشد کی خدمت میں : اپنے پیرومرشد کی خدمت میں سات ماہ اور کچھ دن رہ کر آپ ان کے فیوضِ باطنی اور روحانی تصرفات سے مالا مال ہوئے، دہلی کو روانگی سے قبل حضرت بابا صاحب نے خرقۂ خاص جو آپ کو خواجگانِ چشت سے پہنچا تھا آپ کو پہنایا تھا اور اسی روز 20 ربیع الاول 656ھ کو آپ کو خلافت نامعہ عطا فرمایا، خلافت عطا کرنے کے بعد حضرت بابا فرید گنج شکر نے آپ کو یہ دعا دی۔

    اسعدَ کَ اللہ فی الدّارینِ و رَزَقَکَ عِلماً نافعاً وّعملاً مقبولاً

    ترجمہ : دونوں جہان میں خدا تعالیٰ تجھ کو نیک بخت کرے اور علمِ نافع و عمل مقبول روزی فرمائے۔

    یہ دعا دے کر آپ کو تاکید کی کہ مجاہدہ میں بہت کوشش کرنا، آپ کو دہلی رخصت کرتے وقت حضرت بابا فرید گنج شکر نے ارشاد فرمایا کہ

    ”مولانا نظام الدین کو بحکمِ الٰہی میں نے ہندوستان کی ولایت بخشی۔ اور اس ملک کو ان کی پناہ میں چھوڑا اور اپنا صاحبِ سجادہ کیا“

    حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر نے خلافت نامہ عطا فرماتے وقت حضرت محبوبِ الٰہی کو تاکید فرمائی کہ وہ خلافت نامہ ہانسی میں مولانا جمال الدین کو اور دہلی میں قاضی منتخب کو دکھا لیں، حضرت محبوبِ الٰہی اپنے پیرومرشد سے رخصت ہوکر مالانا جمال الدین کے پاس ہانسی پہنچے اور ان کو حضرت بابا فرید گنج شکر کا عطا کردہ خلافت نامہ دکھایا، مولانا جمال الدین بہت خوش ہوئے اور خلافت نامہ پر یہ شعر لکھ دیا کہ

    ہزاراں درود وہزاراں سپاس

    کہ گوہر سپردند بگوہرشناس

    ترجمہ : ہزاروں درود اور ہزاروں شکر کہ گوہر سپرد کیا گوہر شناس کے۔

    واپسیٔ دہلی : اجودھن سے دہلی واپس آکر آپ باصد رعنائی و زیبائی پیرانِ چشت کی مسند پر متکمل ہوئے اور خلق اللہ کو رشدوہدایت کرنے میں مشغول ہوئے، آپ تیس برس اپنے پیرومرشد حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کی حیات میں اجودھن حاضر ہوئے اور ان کی وفات کے بعد سات مرتبہ روضۂ مبارک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔

    ریاضات و مجاہدات : دہلی واپس آکر آپ نے اپنے پیرومرشد کے فرمان کے مطابق ریاضت ومجاہدہ میں وقت گزارا، آپ دنیا کی تمام مرادوں، آرزوؤں اور تمناؤں سے الگ ہوگئے اور یادِ الٰہی میں مشغول رہنے لگے، آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔

    سکونت میں تبدیلی : آبادی میں رہنے سے آپ کو عبادات میں مخلوق کے اژدہام سے خلل کا اندیشہ تھا، آپ ایسی جگہ رہنا چاہتے تھے کہ جہاں سکون و اطمیان کے ساتھ عبادت میں مشغول رہیں، آپ اس فکر میں تھے کہ کہاں جائیں اور کہاں رہیں کہ ایک روز آپ حوض رانی کے پاس ایک باگ میں فروکش ہوئے، بعد ادائیگیٔ نماز آپ نے دعا مانگی کہ

    ”خداوند ! میں اپنے اختیار سے کہیں رہنا نہیں چاہتا، جس جگہ میری بہتری ہو وہیں مجھ کو رکھ“

    ابھی آپ دعا میں ہی مشغول تھے کہ ایک طرف سے آواز آئی کہ

    ”تیری جگہ غیاث پور ہے“ آپ بفرانِ الٰہی غیاث پور میں رہنے لگے۔

    غیاث پور ایک چھوٹا سا گاؤں تھا لیکن کچھ عرصہ میں ہی امرا و رؤسا اور عمائدین شہر کی آمدورفت اس طرف بڑھ گئی تھی، آپ نے غیاث پور سے سکونت ترک کے شہر میں رہنے کا خیال کیا، کیوں کہ وہاں لوگوں کی آمد ورفت کم تھی، اتفاقاً آپ کی ایک خوبصورت نوجوان سے ملاقات ہوئی، وہ آپ کے پاس بیٹھ گیا اور یہ شعر پڑھنے لگا کہ

    آں رووز کہ مہ شدی نمی دانستی

    کہ انگشت نمائی عالمی خواہی شد

    امروز کہ زلفت دلِ خلقے بر بود

    در گوشہ نشستنت نمی دارد سود

    اس نوجوان نے محبوبِ الٰہی کی خدمت میں عرض کیا کہ

    ”۔۔ یہ قوت اور کیا حوصلہ ہے کہ خلق سے جدا ہوکر گوشہ خلوت ڈھونڈتھے پھریں۔۔۔“

    حضرت محبوبِ الٰہی نے اپنا ارادہ بدل دیا اور مصمم ارادہ کیا کہ اب کہیں اور نہیں جائیں گے، غیاث پوری ہی میں رہیں گے، آپ نے باقی عمر غیاث پور ہی میں گزاری، ضیا الدین وکیل عمادالملک نے وہاں ایک شاندار عمارت تعمیر کرائی۔

    آخری ایام : حضرت محبوبِ الٰہی نے حیاتِ ظاہری کے آخری دنوں میں کھانا پینا بہت کم ہی کردیا تھا، وفات شریف سے چالیس روز پہلے آپ نے کھانا بالکل چھوڑ دیا تھا، ایک روز شوربا آپ کو پیش کیا گیا، آپ نے پینے سے انکار کیا اور فرمایا کہ

    ”جس کے سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم مشتاق ہوں، اس کو طعاِ دنیا سے کیا کام“

    آپ نماز کئی کئی مرتبہ ادا فرماتے اور دریافت فرماتے کہ نماز ادا کی ہے یا نہیں خداوند تعالیٰ کے سامنے بار بار سجدہ کرتے تھے اور بہت روتے تھے، یہ مصرعہ آپ کے وردِ زبان تھا۔

    میرویم ومیرویم ومیرویم

    ترجمہ : ہم جاتے ہیں اور ہم جاتے ہیں اور ہم جاتے ہیں۔

    گھر میں کسی قسم کی کوئی چیز نہیں رکھی، اقبال کو حکم دیا کہ سب غلہ فقرا کو تقسیم کردے۔

    تبرکات کی تقسیم : وقتِ رخصت جب قریب پہنچا تو آپ نے ایک مصلیِٰ خاص، دستار اور پیرہن مولانا برہان الدین غریب کو دے کر دکن کی طرف جانے کی اجازت دے دی، ایک دستار، پیرہن اور مصلیٰ شیخ یعقوب کو عطا فرما کر گجرات کی طرف جانے کی اجازت دی، مولانا شمس الدین یحییٰ کو بھی آپ نے ایک دستار مصلیٰ اور پیرہن عطا فرمایا،

    حضرت نصیرالدین چراغ بھی اس روز خدمت میں حاضر تھے لیکن اس روز آپ کو کچھ عطا نہ کیا، سب کو تعجب تھا، حضرت محبوبِ الٰہی نے بدھ کے روز بعدِ نماز ظہر حضرت نصیرالدین چراغ کو طلب فرمایا اور عصا، مصلیٰ، تسبیح، نعلین چوبیں اور خرقہ اور حضرت بابا فریدالدین گنج شکر کے دیگر تبرکات آپ کے سپرد فرمائے پھر حضرت نصیرالدین چراغ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ

    ”تم کو دہلی میں رہ کر لوگوں کی جفا و قضا اٹھانی چاہئے“

    وفات شریف : آپ چار مہینے اور کچھ دن بیمار رہے اور اٹھارہ ربیع الثانی 725ھ بروز بد بعد طلوع آفتاب جوارِ رحمت میں داخل ہوئے، آپ کے جنازہ کی نماز شیخ الاسلام رکن الدین ملتانی نے پڑھائی، جنازہ مبارک کو جب دفن کے واسطے لے جارہے تھے، قوال شیخ سعدی کی مشہور غزل گا رہے تھے جس کا پہلا شعر یہ ہے۔

    سرو سیما را بصحرا می روی

    لیک بد عہدی کہ بے ما می روی

    قوال جب اس شعر پر پہنچے۔

    اے تماشہ گاہِ عالم روئے تو

    تو کجا بہرِ تماشہ می روی

    جسمِ اقدس میں جبنش پیدا ہوئی، حال اور وجد جنازۂ مبارک پر طاری ہوا، یہ حالت دیکھ کر حضرت مولانا رکن الدین نے سماع بند کرا دیا، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے جنازہ سے ہاتھ نکالا اور فرمایا کہ

    ”من نمی روم“

    ترجمہ : میں نہیں جاتا ہوں۔

    آپ کے خلیفۂ اکبر اور جانشین حضرت نصیرالدین چراغ نے عرض کیا کہ

    شیخا شیخا باش، دست در کش قدم سید درمیاں است۔

    حضرت محبوبِ الٰہی نے اسی وقت ہاتھ کھینچ لیا۔

    آپ کا مزارِ پُرانوار غیاث پور (دہلی کے قریب جس کو اب نظام الدین کہتے ہیں) میں واقع ہے، آپ کا سالانہ عرس بڑے تزک و احتشام سے ہوتا ہے۔

    آپ کے خلفا : حضرت شیخ نصیرالدین محمود چراغ آپ کے خلیفۂ اکبر اور جانشین ہیں، آپ کے خاص خاص خلفا حسبِ ذیل ہیں۔

    حضرت امیر خسرو، مولانا شمس الدین محمد بن یحییٰ، شیخ قطب الدین منور، مولانا فخرالدین ندوی، مولانا حسام الدین ملتانی، خواجہ ابوبکر مندہ، مولانا شہاب الدین امام، امیر حسن بن علا السنجری، مولانا برہان الدین غریب، مولانا وجیہہ الدین یوسف کلا کھڑی عرف چندیری، مولانا علاؤالدین نیلی، مولانا فخرالدین مروزی، مولانا فصیح الدین، مولانا کریم الدین سمرقندی، خواجہ موئدالدین، مولانا ضیاؤالدین برنی، قاضی محی الدین کاشانی۔

    سیرتِ پاک : آپ نے زندگی بھر شادی نہیں کی، تمام عمر تجرد میں گزار دی۔

    پیرومرشد سے محبت : آپ کو اپنے پیر دستگیر حضرت بابا فریدالدین گنج شکر سے انتہائی محبت تھی، آپ کا اخلاص خلوص، فرمانبرادی اور حسن اعتقاد آپ کی سعادت کی دلیل ہے اور اس کی بدولت حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے آپ کو بے شمار نعمتوں سے نوازا، آپ کے دل میں اپنے پیرومرشد کی طرف سے اخلاص و اعتقاد روز بروز بڑھتا رہا، آپ کے پیرومرشد حضرت بابا فریدالدین گنج شکر اکثر فرمایا کرتے تھے کہ

    ”۔۔۔ لیکن یہ غریب مولانا نظام جس روز سے میرے پاس آیا ہے اور مرید ہوا ہے اس کے اخلاص و اعتقاد میں خلل واقع نہیں ہوا“

    ایک مرتبہ آپ کے پیرومرشد نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ

    ”مردید فرزند کو راسخ ایسا ہونا چاہئے جیسے کہ نظام ہیں“

    آپ نے اپنے پیرومرشد کو ایک خط میں ایک رباعی لکھی تھی، اس رباعی سے آپ کے خلوصِ محبت اور اعتقاد کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، کچھ دن بعد آپ اپنے پیرومرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کے پیرومرشد نے وہ رباعی پڑھنے کو کہا، جب آپ نے وہ رباعی پڑھی تو حضرت بابا فریدالدین گنج شکر پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ آپ ذوق و شوق کی حالت میں رقص کرنے لگے، وہ رباعی یہ ہے۔

    زاں روئے کہ بندہ تو دانند مرا

    بر مردمکِ دیدہ نشانند مرا

    لطف و کرامت زغایتے مرمودہ است

    ورنہ من کیم و خلق چہ دانند مرا

    شانِ محبوبی : ولیٔ کامل جب قطبیت اور فردانیت کے درجوں سے گذر جاتا ہے اور مرتبۂ محبوبیت تک پہنچ جاتا ہے اس وقت وہ مظہرِ اسرار الٰہی ہوجاتا ہے اور اس کا ارادہ خداوند تعالیٰ کا ارادہ ہوجاتا ہے، حضرت محبوبِ الٰہی غوثیت اور فردانیت کے مراتب سے گذر کر مرتبۂ محبوبی پر پہنچے تھے، مرتبہ محبوبی کی شان آج بھی آپ کے مزارِ پُرانوار سے ظاہر ہے، آپ کے پاس سے ایسی خوشبو آتی تھی کہ عود کا گمان ہوتا تھا۔

    فقروفاقہ : آپ کا اتبدائی زمانہ بہت ہی عسرت اور تنگی میں گذرا، اس زمانے میں آپ کے پاس ایک چیتل بھی نہ تھا کہ جس سے دو تین روٹیاں خرید لیتے۔

    فتوحات : ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ کے یہاں آشِ جو پک رہا تھا، ناگاہ ایک فقیر جو گدڑی پہنے ہوئے تھا آپ کے پاس آیا اور آپ سے کہا کہ جو چھ پکا ہو لاؤ، آپ نے آش جو کی پکتی اور جوش کھاتی ہوئی ہانڈی اس گدڑی پوش فقیر کے سامنے لا کر رکھ دی، اس فقیر نے بغیر انتظار کئے ہوئے ویسے ہی کھانا شروع کیا، کھانے کے بعد اس نے ہانڈی کو زمین پر دے مارا اور حضرت محبوبِ الٰہی سے مخاطب ہوکر کہا کہ

    ”مولانا نظام الدین ! نعمتِ باطنی سے تم کو بابا فریدالدین نے سرفراز کیا ہے اور تمہارے فقر ظاہر کی ہانڈی میں نے توڑ دی“

    اس روز سے فتوحات اس قدر شروع ہوئیں کہ شمار اور حساب سے باہر ہیں، آپ پر چاروں طرف سے فتوحات کے دروازے کشادہ ہوئے۔

    لنگر : حضرت بابا فریدالدین گنج شکر نے آپ کو دعا دی تھی کہ

    ”خدا کرے ستر (70) من نمک روزانہ تمہارے باورچی خانے میں خرچ ہو“

    آپ کے پیرومرشد کی یہ دعا قبول ہوئی، آپ کے باورچی خانے میں روزانہ ستر من نمک خرچ ہوتا تھا، ستر اونٹ پیاز و لہسن کے چھلکے روز آپ کے باورچی خانے سے نکلتے تھے۔

    دنیا سے نفرت : آپ دنیا اور اہلِ دنیا سے بے تعلق تھے، شاہانِ وقت کو آپ کی زیارت کی تمنا رہتی۔

    سخاوت : آپ کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ جو کچھ آتا، شام تک سب خرچ ہوجاتا، ایک مرتبہ غیاث پور میں آگ لگی، بہت سے مکانات جل گئے، حضرت محبوبِ الٰہی کو لوگوں کی اس تکلیف اور بربادی سے صدمہ ہوا، آپ نے خواجہ اقبال کو حکم دیا کہ جن لوگوں کے مکانات جل گئے ہیں ان کو دو خوان کھانا دو، پانی کے مٹکے اور اشرفیاں پہنچا دی جائیں، خواجہ اقبال نے ایسا ہی کیا، آپ کے یہاں سے بہت سے لوگوں کی پرورش ہوتی تھی اور بہت سے طلبا اور بہت سے حافظوں کو امداد دی جاتی تھی، آپ کی سخاوت اور دریا دلی پر شاہانِ وقت کو تعجب ہوتا تھا۔

    ذوقِ سماع : آپ کو سماع کا بہت شوق تھا، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ ایک جگہ سے گزر رہے تھے، وہاں ایک شخص کو دیکھا کہ کنوئیں پر چرس سے پانی کھینچ رہا ہے اور اپنے ساتھی سے چلّا کر کہتا ہے کہ

    ”باہر رے بھیّا باہر“

    حضرت محبوبِ الٰہی نے جب یہ الفاظ سنے، آ پ پر وجد طاری ہوگیا، جو لوگ آپ کے ہمراہ تھے وہ راستے میں یہی پڑھتے رہے۔

    عظمت و بزرگی : حضرت محبوبِ الٰہی سے ایک دفعہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں فرمایا کہ

    ”تم فلک الفقرالمساکین ہو“

    ایک مرتبہ مولانا وجیہہ الدین پائلی کی کوئی مشکل حضرت خواجہ نے حل کر دی، مولانا نے حضرت خواجہ سے دریافت کیا کہ

    ”اگر آئندہ مجھ کو مشکل در پیش ہو تو مجھ سے کہاں ملاقات ہوگی“

    انہوں نے جواب دیا کہ

    ”حضرت محبوبِ الٰہی خواجہ نظام الدین اؤلیا کے مطبخ میں“

    ایک روز خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین سنجری کی مردانِ غیب سے ملاقات ہوئی، ان میں سے ایک نے حضرت خواجہ صاحب سے عرض کیا کہ

    ”اے خواجہ ! آپ نے دنیا کے شہروں میں ایک شور برپا کردیا ہے“

    خواجہ غریب نواز نے یہ سن کر تعجب سے فرمایا کہ

    ”میں نے ؟“

    اس ابدال نے عرض کیا کہ

    ”نہیں“

    پھر آپ نے دریافت کیا کہ

    ”قطب الدین نے“

    اس ابدال نے جواب دیا کہ

    ”نہیں“

    پھر آپ نے دریافت فرمایا تو

    ”کیا فرید الدین نے“

    اس ابدال نے جواب دیا کہ

    ”نہیں“

    پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ

    ”نظام الدین نے“

    اس ابدال نے کہا کہ

    ”جی ہاں ! انہوں نے“

    حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمایا کہ

    ”وہ تو مجھ سے چوتھے درجے میں ہیں“

    اس ابدال نے عرض کیا کہ

    ”آپ کے فرزندوں سے جو بات ہوگی وہ بھی آپ ہی کی طرف منسوب کی جائے گی“

    عبادات : آپ رات کو حجرے میں تنہا رہتے تھے، کسی کی مجال نہیں تھی کہ حجرے میں داخل ہو، حجرے کا دروازہ رات کو بند رہتا تھا، صبح کے وقت آپ کی آنکھیں مست و مخمور آتیں، رات کو جاگنے کی وجہ سے آپ کی آنکھیں سرخ رہتیں، حضرت امیر خسرو کا یہ شعر اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔

    تو شبانہ می نمائی بیرے کہ بود امشب

    کہ ہنوزِ چشم مستت اثرِ خمار دارد

    علمی ذوق : آپ نے اپنے پیرومرشد کی مجالس کے حالات قلم بند فرمائے ہیں، اس کتاب کا نام آپ نے ”راحت القلوب“ رکھا، اس میں بابا فریدالدین گنج شکر کے ملفوظاتِ بابرکات آپ نے تحریر فرمایئے ہیں، یہ کتاب شائع ہوچکی ہے۔

    آپ کا مذاقِ سخن آپ کی حسبِ ذیل نعت سے ظاہر ہے۔

    صبا بسوئے مدینہ رو کن از ایں دعا گو سلام بر خواں

    بہ گرد شاہ مدینہ گرد و بصد تضرع پیام بر خواں

    بشو ز من صورت مثالی نماز بگذار اندر آنجا

    بہ لحن خوش سورۂ محمد تمام اندر قیام بر خواں

    بہ باب رحمت گہے گزر کن بباب جبریل گہہ جبیں سا

    سلام ربی علیٰ نبی گہے بباب سلام بر خواں

    بنہ بہ چندیں ادب طرازی سر ارادت بخاک آں کو

    صلوٰۃ وافر بر روح پاک جناب خیر الانام بر خواں

    بہ لحن داؤد ہم نوا شو بہ نالہ و درد آشنا شو

    بہ بزمِ پیغمبر ایں غزل را ز عبدِ عاجز نظامؔ بر خواں

    آپ کی تعلیمات : آپ کی تعلیمات اسرارِالٰہی کے اشارات ہیں، یہ ایسے غیبی جواہرات ہیں جو انمول ہیں، ذیل میں آپ کی چند مجالس کا حال پیش کیا جاتا ہے۔

    ترکِ دنیا : حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کہ

    ”ہمت بلند رکھنی چاہئے اور دنیا کی آلائشوں میں ہیں پھنسنا چاہئے، حرص و شہوت چھوڑ دینی چاہئے“

    ایک دوسری مجلس میں آپ نے فرمایا کہ

    ”اگر کوئی شخص دن کو روزہ رکھے اور رات کو جاگتا رہے اور حاجی ہو تو بھی اصل اصول یہ ہے کہ دنیا کی راستی اس کے دل میں نہ ہو“

    تلاوتِ قرآن : آپ نے فرمایا کہ

    ”جب پڑھنے والے کو کسی آیت کے پڑھنے سے ذوق اور راحت حاصل ہو تو اسے بار بار پڑھنا چاہئے، تلاوت اور سماع کی حالت میں جو سعادت حاصل ہوتی ہے، اس کی تین قسمیں ہیں۔ انوار، احوال اور آثار، وہ تین عالم یعنی ملک ملکوت اور جبروت سے نازل ہوتی ہیں اور وہ تین مقامات ارواحِ قلوب اور جوارح پر نازل ہوتی ہیں، انوار ملکوت سے ارواح پر احوالِ جبروت سے قلوب پر اور آثارِ ملک سے جوارح پر“

    صدقہ : صدقے کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ

    ”جب صدقے میں پانچ شرطیں ہوں تو بے شک صدقہ قبول ہوتا ہے، ان میں سے دو عطا سے پہلے، دو عطا کے وقت اور ایک بعد میں ہوتی ہے، عطا سے پہلے کی دو شرطیں یہ ہیں کہ جو کچھ دے وہ حلال کی کمائی ہو، دوسرے کسی نیک مرد کو دے جو اسے برے کام میں خرچ نہ کرے، عطا کے وقت کی دو شرطیں یہ ہیں کہ اول تواضع اور ہنسی خوشی سے دے، دوسرے پوشیدہ دے، بعد کی شرط یہ ہے کہ جو دے اس کا نام تک نہ لے بلکہ بھول جائے“

    صبرورضا : صبرورضا کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا کہ

    ”صبر اس بات کا نام ہے کہ جب کوئی خلافِ طبع بات بندے کو پہنچے تو اس کی شکایت نہ کرے لیکن رضا اس بات کا نام ہے کہ مصیبت سے کسی طرح کی اسے کراہت نہ ہو، ایسا معلوم ہو کہ گویا اس پر مصیبت نازل ہی نہیں ہوئی“

    توکل : توکل کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ

    ”توکل کے تین مرتبے ہیں : پہلا مرتبہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی آدمی کو اپنے دعوے کے لئے دکیل کرے اور وہ وکیل اس شخص کا دوست بھی ہو اور عالم بھی تو وہ مؤکل بالکل بے کھٹکے ہوگا کہ میں ایسا وکیل رکھتا ہوں جو دعوے کے کاموں میں بھی دانا ہے اور میرا دوست بھی ہے، اس صورت میں توکل بھی ہوگا اور سوال بھی، یہ توکل پہلا درجہ ہے کہ توکل بھی ہوگا اور سوال بھی، دوسرا مرتبہ توکل کا یہ ہے کہ ایک شیر خوار بچہ ہو جس کی ماں اسے دودھ پلاتی ہو، اسے توکل ہی ہوگا، سوال نہ ہوگا، بچہ یہ نہیں کہتا کہ مجھے فلاں وقت دودھ دینا، صرف روتا ہے لیکن تقاضا نہیں کرتا اور نہ ہی کہتا ہے کہ مجھے دودھ دے، اس کے دل میں شفقتِ مادری کا پورا بھروسہ ہوتا ہے، توکل کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ جیسے مردہ نہلانے والے کے ہاتھ کہ وہ مردہ نہ حرکت کرتا ہے نہ سوال، جس طرح نہلانے والا چاہے اسے حرکت دے اور دھوئے، یہ درجہ بہت بلند اور اعلیٰ ہے۔

    طاعت کی قسمیں : آپ نے فرمایا کہ

    ”طاعت لازمی اور متعدی ہے، لازمی وہ ہے جس کا نفع صرف کرنے والے کی ذات کو پہنچے اور یہ نماز، روزہ، حج، درود اور تسبیح ہے۔

    متعدی وہ ہے جس سے اوروں کو فائدہ پہنچے، اتفاق، مشقت، غیر کے حق میں مہربانی کرنا وغیرہ۔ اسے متعدی کہتے ہیں، اس کا ثواب بے شمار ہے، لازمی طاعت میں اخلاص کا ہونا ضروری ہے تاکہ قبول ہو لیکن متعددی طاعت خواہ کسی طرح کی جائے ثواب مل جاتا ہے“

    دعا کرنے کا طریقہ : آپ نے فرمایا کہ

    ”دعا کے وقت کئے ہوئے گناہوں کا خیال دل میں نہیں لانا چاہئے اور نہ ہی کی ہوئی عبادت اور طاعت کا، اگر ایسا کرے اور دعا قبول نہ ہو تو بڑے تعجب کی بات ہے، اگر گناہ کا خیال دل میں لائے تو دعا کے ایقان میں سستی پیدا ہوتی ہے، پس دعا کے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت پر نظر رکھی چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ یہ دعا ضرور قبول ہو جائے گی“

    آپ نے یہ بھی فرمایا کہ

    ”دونوں ہاتھ دعا کے وقت کھلے رکھنے چاہئیں اور سینے کے برابر اور یہ بھی آیا ہے کہ دونوں ہاتھ ملا کر رکھنے چاہئیں اور بہت اوپر ایسی شکل اختیار کرنی چاہئے کہ ابھی کوئی چیز ملے گی“

    ایمانِ کامل : آپ نے فرمایا کہ

    ”حق تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے اور اس کے سوا سکی سے امید نہ رکھنی چاہئے“۔

    پھر آپ نے فرمایا کہ:

    ”آدمی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اس کی نگاہ میں تمام خلقت مچھر سے بھی کم حقیقت نہ معلوم ہو“

    مشغولیٔ حق : مشغولی حق کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ

    ”اصل کام یادِ حق ہے اور اس کے سوا جو ہے سب یادِ حق کا مانع ہے“

    اقسامِ رزق : آپ نے فرمایا کہ

    ”مشائخ کا قول ہے کہ رزق چار قسم کا ہوتا ہے۔

    رزقِ مضمون، رزقِ مقسوم، رزق مملوک، رزق موعود، زرق مضمون وہ ہے جو کھانے پینے وغیرہ کی چیزیں اور آمدنی سے ہو، اس رزق کا اللہ تعالیٰ ضامن ہوتا ہے“

    رزق مقسوم وہ ہے جو ازل میں اس کے حصہ میں آچکا ہے اور لوحِ محفوظ میں لکھا جاچکا ہے۔

    رزقِ مملوک وہ ہے جو ذخیرہ کیا جائے مثلاً روپیہ، پیسہ، کپڑا اور اسباب۔

    رزقِ موعو وہ ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے نیک بندوں سے کیا ہے کہ

    تحمل : تحمل کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ

    ”لوگ آپس میں تین طرح کا سلوک کرتے ہیں۔

    اول وہ لوگ جن سے کسی کو نہ فائدہ پہنچتا ہے اور نہ نقصان، ایسے لوگ بمنزلہ جمادات ہیں۔

    دوسرے وہ جن سے فائدہ پہنچتا ہے لیکن نقصان نہیں پہنچتا، تیسرے ان دونوں سے اچھے ہیں یعنی وہ لوگ جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے، اگر انہیں دوسروں کی طرف نقصان پہنچے تو وہ اس کا بدلہ نہیں لیتے بلکہ برداشت کرتے ہیں جو صدیقوں کا کام ہے“

    سماع : آپ نے فرمایا کہ

    جب چند چیزیں موجود ہوں تو سماع سننا چاہئے، وہ چیزیں یہ ہیں، مسمع، مسموع، مستمع اور آلاتِ سماع۔۔۔ مسمع کہنے والے کو کہتے ہیں جو بالغ اور مرد ہو، نہ کہ لڑکا یا عورت،

    مسموع جو کچھ وہ گائے وہ فحش اور فضول نہیں ہونا چاہئے، مستمع وہ جو سنے، سننے والا بھی یادِ حق سے پُر ہو اور اس وقت باطل خیال نہ ہو، سماع کے آلات، چنگ اور رباب وغیرہ ہیں، ہی مجلس میں نہیں ہونے چاہئے، ایسا سماع حلال ہے“

    پھر آپ نے فرمایا کہ

    ”سماع ایک موزوں آواز ہے، یہ حرام کیوں کر ہوسکتی ہے۔ نیز اس میں قلب کو حرکت ہوتی ہے، اگر وہ حرکت یادِ حق کی وجہ سے ہو تو مستحب ہے اور اگر برے خیال سے ہو تو حرام“

    اقوال : آپ کے چند اقوال حسبِ ذیل ہیں۔

    اصل دانائی یہ ہے کہ دنیا کو ترک کیا جائے۔

    درویش کو چاہئے کہ نہ خوشی سے خوش ہو نہ غمی سے غم ناک۔

    جب ایک مرتبہ پیٹ بھر جائے تو پھر اور نہیں کھانا چاہئے، البتہ دو شخصوں کو کھانا جائز ہے، ایک وہ جس کے ہاں مہمان آئے ہوئے ہوں اور وہ ان کی خاطر ان کے ساتھ مل کر اور کچھ کھا لے اور دوسرے وہ جو روزہ رکھتا ہے اور سمجھتا ہو کہ سحری کے وقت شاید کچھ نہ مل سکے۔

    مرد جب علم سیکھتا ہے تو اسے شرف حاصل ہوتا ہے اور جب طاعت کرتا ہے تو اس کے کام کی بہتری ہوتی ہے، اس موقع پر پیر کو چاہئے جو دونوں کو توڑ دے یعنی علم اور عمل دونوں کو اس کی نطر سے گرا دے گا کہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہو جائے۔

    تین وقتوں میں نزولِ رحمت ہوتا ہے، ایک سماع کی حالت میں دوسرے وہ کھانا کھاتے وقت جو طاعت کی قوت کی نیت سے کھایا جائے اور تیسرا درویشوں کے حالات بیان کرتے وقت۔

    سالک جب پیر کی بیعت میں مستقیم ہو تو جو کچھ اس سے پہلے کر گزرا ہو اس کے لئے اس سے مواخذہ نہیں کیا جاتا۔

    معاملے کے وقت اس قسم کی گفتگو کرنی چاہئے جس سے گردن رگیں نمودار نہ ہوں یعنی تعصب اور غضب کی علامت نہ پائی جائے۔

    ہر ایک کا ظلم سہنا چاہئے اور اس کا بدلہ لینے کی نیت بھی نہیں کرنی چاہئے۔

    جس میں علم و عقل و عشق ہو وہ خلافتِ مشائخ کے شایان ہوتا ہے۔

    اؤلیا کا عشق ان کی عقل پر غالب ہوتا ہے۔

    جس کی طبع لطیف ہو وہ جلد برہم ہو جاتا ہے۔

    اوراد و وظائف : آپ نے فرمایا کہ دعا نزولِ بلا سے پہلے کرنی چاہئے، سحر کے وقت دعا اکثر قبول ہوتی ہے، دعا کے واسطے یہ وقت بہت اچھا ہے، حضرت بابا فرید گنج شکر نے آپ کو بتایا کہ رقت و گریہ کے وقت دعا کو غنیمت سمجھنا چاہئے کیوں کہ اس وقت کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے، حضرت محبوبِ الٰہی نے فرمایا کہ تعویذ کو بازو پر باندھنا بہتر ہے، گلے میں لٹکانا نہیں چاہئے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکانے سے منع فرمایا ہے، آپ کے بعض اورادووظائف حسبِ ذیل ہیں۔

    مشکلات حل ہونے کے لئے : حضرت محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں کہ جب کوئی مشکل درپیش ہو تو مہینے کی پندرہویں شب با وضو قبلہ رو ہوکر بیٹھے، انیس ہزار مرتبہ واللہ المستعانُ پڑھے، ہر ہزار پر سر سجدہ میں رکھنا چاہئے اور تیس بار آمین کہنا چاہئے۔

    اسمِ اعظم : حضرت محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں کہ عربی زبان میں اسمِ اعظم یا حیُّ یا قیّومُ ہے اور فارسی زبان میں امیدِ امید واران ہے۔

    بغیر اسباب کے خوش زندگی گذارنے کے واسطے : ہر روز سو مرتبہ یہ دعا پڑھنا چاہئے۔

    لا اِلٰہَ اِلّاَ اللہُ وحدَہٗ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شئی قدیر۔

    گم ہوئی چیز کے واسطے : آپ فرماتے ہیں کہ گم ہوئی چیز کے مل جانے کے واسطے حسبِ ذیل دعا پڑھنا چاہئے۔

    یا جامِعَ الناسِ لِیومٍ لّاَرَیبَ فِیہِ اِجمَع عَلَیّ ضَآلّتِی۔

    دینی اور دنیاوی مراد کے واسطے : آپ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد سجدہ میں سر رکھ کر حسبِ ذیل دعا کئی مرتبہ پڑھے۔

    الّلٰھُمَّ اِنّا نَستفتَحُکَ بِاَمَ یَحییٰ ابنِ ذَکرِیّاَ مالِکِ یَومِ الدِّینِ بِحقِّ اِیّاکَ نَعبُد وَ اِیّاَ ک نستَعینِ۔

    دشمن پر غالب ہونے کے واسطے : آپ نے فرمایا کہ دشمن کے مقابل ہوکر حسبِ ذیل اسما پڑھنا چاہئیں۔

    یا سُبُّوحُ یا قُدُّوسُ یا غَفُورُ یا وَ دُودُ

    بیماری سے اچھا ہونے کے واسطے : آپ نے فرمایا کہ ہر ایک بیماری سے اچھا ہونے کے واسطے حسبِ ذیل دعا لکھ کر باندھنا مفید ہے کہ

    اللہُ شافیِ اللہُ الکافیِ اللہُ النّافِی۔

    حاجت پوری ہونے کے واسطے : حضرت محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں کہ حسبِ ذیل دعا حاجت پوری ہونے کے واسطے نہایت زود اثر ہے، یا حیُّ حَلیمُ یا عزیزُ یا کریمُ بکن کار صعب را سلیم بحقِّ اِیّاکَ نعبد وَ اِیّاکَ نستعین۔

    روزی فراخ ہونے کے واسطے : آپ نے فرمایا کہ روزی فراخ ہونے کے واسطے ہر رات کو سورۂ جمہ پڑھنا چاہئے واللہ خیرُالّرازقین کی تین مرتبہ سات مرتبہ یا اکیس مرتبہ تکرار کرنا چاہئے، اگر سورۂ جمعہ روز نہ پڑھ سکیں تو جمعہ کی ہر رات کو ضرور پڑھنا چاہئے، آپ نے فرمایا کہ وسعتِ رزق کے واسطے ہر روز صبح کے وقت کلمۂ لاحولَ ولا قوۃ الا باللہِ العلی العظیم، سو بار پڑھنا چاہئے۔

    دعائے ماثورہ : آپ نے فرمایا کہ جب رنج و بلا سے کسی طرح خلاصی نہ ہو تو جمعہ کے روز عصر کی نماز سے لے کر شام تک حسبِ ذیل تین اسماء کو پڑھتا رہے اور کوئی کام نہ کرے رنج و بلا سے نجات ملے گی۔

    یا اللہُ، یا رحمٰن، یا رحیمُ

    کشف و کرامات : حضرت محبوبِ الٰہی صاحبِ کشف و کرامات تھے لیکن چیزوں کی آپ کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہ تھی، آپ فرمایا کرتے تھے کہ کشف و کرامات راستہ میں حجاب ہیں، محبت میں کام استقامت سے نکلتا ہے، عاجز بن کر رہنا چاہئے تاکہ اصلی مقصد حاصل ہو۔

    کرامتیں ظاہر کرنا بزرگی اور برگزیدگی کی دلیل نہیں، اسرار کو پوشیدہ رکھنا چاہئے لیکن اس کے واسطے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔

    حضرت محبوبِ الٰہی فرماتے ہیں کہ سلوک کے سو درجے ہیں۔ سترھواں درجہ کشف و کرامات کا ہے جو سالک اس درجے میں رہ گیا وہ نہیں بڑھ سکتا۔

    آپ فرماتے ہیں کہ خارقِ عادت کی چار قسمیں ہیں۔

    معجزہ : معجزہ پیغمبروں سے ظاہر ہوتا ہے۔

    کرامت : کرامت اؤلیا سے ظاہر ہوتی ہے۔

    معونت : جب کوئی بات خلافِ عادت بعض بے علم اور بے عمل مجذوبوں اور دیوانوں سے ظاہر ہو اسے معونت کہتے ہیں۔

    استدارج : جب کوئی خلافِ عادت بات ایسے لوگوں سے ظاہر ہو جو ایمان نہیں رکھتے، اس کو استدراج کہتے ہیں۔

    آپ نے فرمایا کہ کرامت سے تین چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔

    پہلی چیز علم، بے تعلیم بغیر پڑھے لکھے عالم ہونا۔

    دوسری چیز یہ ہے کہ اؤلیا بیداری میں وہ چیزیں دیکھتے ہیں جو عام لوگ خواب میں دیکھتے ہیں۔

    تیسرے یہ کہ جیسے عام لوگوں کا خیال خود ان کے اندر اثر کرتا ہے اؤلیا کا خیال غیروں میں وہی اثر کرتا ہے۔

    آپ کی بعض کرامات کا حال ذیل میں بیان کیا جاتا ہے : ایک مرتبہ قاضی محی الدین کاشانی سخت بیمار ہوئے بظاہر آپ کے بچنے کی امید نہ تھی، حضرت محبوبِ الٰہی آپ کو دیکھنے تشریف لے گئے، قاضی صاحب جاں کنی کے عالم میں تھے، حضرت محبوبِ الٰہی کے قدموں کی برکت سے قاضی صاحب کی سب بیماری دور ہوگئی، آپ نے کھڑے ہوکر حضرت محبوبِ الٰہی کو تعظیم دی۔

    آپ کی خانقاہ میں باؤلی کھودی جارہی تھی، پانی کھاری نکلا، ایک روز آپ سماع میں تشریف رکھتے تھے، آپ نے خواجہ اقبال سے دوات، روشنائی، کاغذ اور قلم منگایا، آپ نے کاغذ پر کچھ لکھ کر خواجہ اقبال کو وہ کاغذ باؤلی میں ڈالنے کو دیا، پرچے کے ڈالنے سے پانی میٹھا ہوگیا۔

    آپ کے ایک مرید مولانا بدرالدین نے ایک مرتبہ رات کے وقت آپ کی دہلیز پر ایک اونٹ کھڑا دیکھا، آپ اس اونٹ پر سوار ہوئے، اونٹ ہوا میں اڑتا ہوا چلا گیا، آخر رات میں دیکھا کہ وہ اونٹ پھر واپس آیا اور حضرت محبوبِ الٰہی اونٹ پر سے اترے اور خانقاہ میں تشریف لے گئے۔

    آپ کے ایک مرید کے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر آپ اس کو اپنا جھوٹا پانی دیں گے تو یہ آپ کی کرامت ہوگی، حضرت محبوبِ الٰہی اس کے خطرے سے آگاہ ہوئے اور آپ نے اپنا جھوٹا پانی اس کو عنایت فرمایا۔

    دہلی کے ایک بادشاہ کا عجیب واقعہ ہے، سلطان غیاث الدین تغلق اگرچہ بظاہر محبوبِ الٰہی سے کچھ نہ کہتا تھا لیکن دل میں آپ کی طرف سے کدورت رکھتا تھا، ایک مرتبہ وہ بنگال سے دہلی روانہ ہو رہا تھا، اس نے حضرت محبوبِ الٰہی کو پیغام بھیجا کہ اس کے آنے تک وہ دہلی میں نہ ہوں اور اس کے بعد غیاث پور سے بھی چلے جائیں، آپ اس وقت کچھ رنجیدہ ہوئے اور آپ نے جواب دیا کہ

    ”ہنوز دہلی دور است“

    ترجمہ : ابھی دہلی دور ہے۔

    آخر کا ایسا ہوا کہ ابھی دہلی نہ پہنچا تھا کہ تغلق آباد کا محل غیاث الدین تغلق پر گرا اور وہ مرگیا، اس کو دہلی پہنچنا نصیب نہ ہوا، اب بھی بطورِ ضرب المثل کے لوگ کہتے ہیں کہ ”ہنوز دہلی دور است“

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے