Font by Mehr Nastaliq Web

ہند و پاک کے فاسی شعرا

فہمیدہ بیگم

ہند و پاک کے فاسی شعرا

فہمیدہ بیگم

MORE BYفہمیدہ بیگم

    سلطان محمود غزنوی کے عہد سے لے کر ادا خبر عہد مغلیہ تک بر صغیر ہند و پاک کی درباری علمی اور ادبی زبان فارسی رہی، یہ زبان اس ملک کی اپنی ادبی روایات پر اس حد تک اثر انداز ہوتی کہ اہل ملک اس کی دلکشی میں کھو کر اپنی ادبی خصوصیات کو بھی بھول گیے اور ملک میں ایک نئی اور تر و تازہ ادبی ثقافت وجود میں آئی جس سے ہندوستان کی تمام زبانیں متاثر ہوئیں۔

    اس سر زمین میں فارسی شاعری کا سر چشمہ سب سے پہلے لاہور میں چھوٹا، جب کہ سلطان محمود غزنوی نے پنجاب کا الحاق سلطنت غزنویہ سے کیا جو اس وقت فارسی زبان کا مرکز تھی، وہاں سے جو لوگ آکر پنجاب میں آباد ہوئے انہوں نے اپنی زبان اور تہذیب و تمدن کو قائم رکھا اور لاہور ثقافتی اعتبار سے غزنیں خورد کہلانے لگا۔

    لاہور میں اس عہد کا سب سے مشہور شاعر مسعود سعد سلمان لاہوری ہے جس کا شمار غزنوی اور سلجوقی دور کے بڑے بڑے شعرا میں ہوتا ہے، اس کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ ایرانی نقاد بھی اسے فاسی زبان کے اکابر شعرا میں شمار کرتے ہیں، مسعود فارسی کے بڑے شاعروں کی صف میں جگہ دی اس کے زندانی اشعار یا جنسیات میں جلوہ گو ہے جو اس نے اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں قید خانوں کے تاریک گوشوں میں بیٹھ کر لکھے، ان میں شاعر نے اپنی بے پایاں مصیبتوں کی بے مثل عکاسی کی ہے، مسعود کے کلام کا سوز و دل خراشی اسکی اپنی واردات ہے اور اس کے اشعار اس کے احساس کی دل پذیری کے گواہ ہیں۔

    چند از پی وصل در فراق افتم

    وہم از پی سود در زیاں بندم

    خونی کہ ز سُرخ لالہ بگشایم

    اندر تنِ زار ناتوں بندم

    دور غزنویہ کا دوسرا مشہور فارسی گو شاعر ابوالفرج رونی ہے جو ابراہیم بن مسعود غزنوی کا ہم عصر تھا، ابوالفرج کے قصاید کی ایک زمانے میں بڑی دھوم تھی، جن میں سے بیشتر ابراہیم بن مسعود غزنوی اور دوسرے ممدوحوں کی مدح پر مشتمل ہیں، رونی اپنے قصیدوں کو عام روش کے مطابق اکثر تغزل کے ساتھ شروع کرتا ہے اور ان میں مدح کے ساتھ ساتھ مناظر قدرت کی لطافت اور پاکیزگی بیان کرتا ہے، ابوالفرج کا شمار زبان فارسی کے مشہور قصیدہ گو شعرا میں کیا جاتا ہے عرفیؔ نے تو اپنے ایک شعر میں اسے انور ی کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔

    انصاف بدہ بوالفرج و انوری امروز

    بہر چہ غنیمت نشمارند عدم را

    لاہور کی ادبی زندگی صرف اندو شاعروں ہی تک محدود نہ تھی بلکہ ان کے علاوہ اور بھی کئی مشہور شعرا ہو گذرے ہیں جن کی تصانیف تو اکثر تلف ہو چکی ہیں لیکن ان کے نام اور اشعار بہت سے تذکروں میں ملتے ہیں، جن میں سے ابو عبداللہ لاہوری اور داتا گنج بخش ہجویری بہت مشہور ہیں غزنوی حکومت کے خاتمے کے بعد ہندوپاک میں فارسی شاعری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا، عہد عزنویہ میں لاہور اسلامی تہذیب و تمدن اور شعر و ادب کا مرکز تھا لیکن شمالی ہندوستان کی فتح کے بعد اسلامی ثقافت اور فاسی شاعری کا مرکز دہلی منتقل ہوگیا اور عہد مغلیہ تک کئی مسلمان خاندانوں کا دارالسلطنت رہا، اس دوران میں کئی فارسی گو شعرا پیرا ہوئے جن کی بدولت شاعری اپنے انتہائی عروج کو پہنچی، اس زمانے کے سب سے مشہور شاعر حضرت بو علی قلندر ہیں جو صوفی شعرا میں بلند مقام رکھتے ہیں، ان کی تحریر سادہ اور فکر بلند تھی، بو علی نے ایک مثنوی کے علاوہ بڑی زوردار اور والہانہ قسم کی غزلیں بھی لکھی ہیں، مثلاً ایک غزل میں لکھتے ہیں۔

    گو عشقِ حقیقی است و گر عشق مجاز است

    مقصود ازیں ہر دوسرا سوز و گداز است

    خواہی کہ روی برواے آں دوست قلندر

    آں ہدیہ کہ مقبول شود عجز و نیاز است

    بو علی کے بعد سب سے بڑے شاعر امیر خسروؔ دہلوی ہیں، جن کے کمالات پر اب تک بے شمار اکابر سخن اور نقادان ادب اظہارِ خیال کر چکے ہیں، ایران کے نامور شاعر ملا جامی نے اپنی بہارستان میں خسروؔ کے کلام کو نظامی کا ہم پلہ بتایا ہے۔

    امیر نے ہر صنفِ شاعری پر قلم اٹھایا قصیدہ میں ان کا اپنا کوئی انداز نہیں، وہ اس میں خاقانی اور انوری کی تقلید کرتے ہیں لیکن ان کی مثنویاں بلند پائیے میں ماور نقاد ان فن نے نظامی گنجوی کے بعد خسرو ہی کو سب سے بڑا کامیاب مثنوی گو مانا ہے پھر بھی خسرو کا خاص میدان تغزل ہے جس میں وہ سعدیؔ کے دوش بدوش نظر آتے ہیں، انہوں نے غزل میں نئے نئے مضامین اور نئے نئے اسلوب پیدا کیے، ان کی تمام غزلیات سلاست حقیقت نگاری اور مضمون آفرینی کا مظہر ہیں۔

    مثلاً

    خبرم رسید ام شب کہ نگار خواہی آمد

    سرمن فدائے راہ کہ سوار خواہی آمد

    ہمہ آہو ان صحرا سہ خود نہاد برکف

    بہ امید آں کہ روزے بشکار خواہی آمد

    اور

    بازیچہ ایست طفل فریب ایں متاع دہر

    بے عقل مردمان کہ بدیں مبتلا شدند

    خسروؔ گریز کن کہ وفارفت زیں جہاں

    زایل جہاں کہ ہمچو جہاں بے وفا شدند

    بو علی اور امیر خسروؔ کے علاوہ حسن دہلوی، ضیا بخشی بدایونی سید محمد گیسو دراذ اور جمالی بھی اس صدی کے مشہور فارسی گو شاعر ہو گذرے ہیں، ۱۵۲۶ء میں بر صغیر ہند و پاک کی ادبی تاریخ میں ایک اور درخشاں باب کا اضافہ ہوا، جب کہ تیموری حکومت کی بیاد پڑی جس میں جہاں دوسرے علوم و فنون کو بے انتہا عروج حاصل ہوا، وہاں فارسی شاعری بھی ایک بلند مقام پر پہنچ گئی، تیموری سلاطین جس درجے کے کشور کشا تھے، اسی درجے کے علم پرور اور ادب نواز بھی تھے تاریخ کی کتابیں ان کی رزمیہ داستانوں کے ساتھ ساتھ ان کی انجمن آرائی کے افسانوں سے بھی بھری پڑی ہیں۔

    مغلیہ سلاطین کی فیاضیوں اور شاعرانہ نکتہ سنجیوں نے شاعری کے حق میں ابر کرم کا کام کیا، جس کی وجہ سے بہت سے ایرانی شعرا ہندوستان آ گیے، اس ربط و ضبط سے ایران اور اس ملک کے درمیانِ علمی اور ثقافتی رشتوں کا آغاز ہوا، تمام مغلیہ سلاطین شعر و سخن کے قدردان تھے اور اعلیٰ علمی اور ادبی ذوق کے مالک تھے، ان میں سے بعض مثلاً بابر ہمایوں اور جہانگیر صرف شاعر ہی نہ تھے بلکہ ان کا مذاق شعر نہایت نقادانہ اور سلجھا ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے تمام بڑے بڑے شعرا ان کے درباروں سے وابستہ تھے۔

    ان شعرا میں ایک مشہور و معروف شاعر فیضی ہے جو شہنشاہ اکبر کے دربار کا ملک الشعرا تھا، فیضی متانت سخن اور استحکام شعر میں وہ مقام رکھتا تھا جو ایران کے بہت کم شاعروں کو نصیب ہوا، اس نے قصیدہ مثنوی اور غزل تینوں میں طبع آزمائی کی اور قدما کے مسلک کی تقلید کی، غزل نے فیضی کے ہاں پہنچ کر ایک طرف تو فصاحت اور سلاست کا اعلیٰ درجہ حاصل کیا اوردوسری طرف ایک مخصوص سادگی اختیار کی، فیضی اپنے زمانے کا بہت بڑا عالم تھا، اس لیے اس کی شاعری ادبی لطافتوں کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ بلند نگاہی کی بھی حامل ہے، اس کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت جوش اور ولولہ ہے جو اکبری عہد کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔

    مثلاً ایک جگہ کہتا ہے۔

    ایں شب کہ سپہر بے ملال است

    در طبعِ زمانہ اعتدال است

    بر جیس امید در نشاط است

    بہرام ہر اس در و بال است

    اسی دور کا دوسرا مشہور شاعر عرفی ہے جو ہمایوں کی واپسی کے بعد ایران سے آکر ہندوستان میں مقیم ہوا، عرفی کو زندگی نے مہلت نہ دی کہ وہ اپنی شاعری کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتا، تاہم اکبری ادور میں جس قدر شہرت اس نوجوان شاعر نے پائی کسی کو نصیب نہ ہو سکی اس کی زور طبیعت کا اصل میدان قصیدہ ہے لیکن غزل بھی خوب کہتا ہے، اس نے غزل میں جس قدر فلسفیانہ خیالات کا اظہار کیا، اس کے عہد کا کوئی شاعرنہ کر سکا، اس کی ایک مشہور غزل کا شعر ہے۔

    ساکنان کعبہ کجا؟ دولتِ دیدار کجا؟

    ایں قدر ہست کہ در سایہ دیوارے نیست

    اور خدا کی ذات کے تصور کو اسی طرح بیان کرتا ہے۔

    فقہاں دفتر را می پرستند

    حرم جویاں درے را می پرستند

    بر افگن پردہ تا معلوم گردد

    کہ یاراں دیگرے را می پرستند

    عرفیؔ نے اپنے کلام میں ان اخلاقی اوصاف کو پیش کیا جو عزت نفس دینی خود داری اور عالی حوصلگی سے تعلق رکھتے ہیں، اس کی شاعری ایک مخصوص رنگ کی حامل ہے، جیسے ہندوستانی فارسی کا رنگ کہا جا سکتا ہے جو خسرو اور فیضی کے سبک سے ملتا جلتا ہے، عرفی کا ایک اور ہمعصر شاعر نظیر نیشاپوری ہے جس نے اکبر اور خان خاناں کی مدح میں قصاید کہے لیکن نظیری کا اصلی رنگ طبیعت غزل میں جھلکتا ہے، اس کی ایک مشہور غزل کے چند اشعار ہیں۔

    از کف نمی دہد دل آساں ربودہ را

    دیدیم زوربا زوے نا آز مودہ را

    من در پئے رہائی واو ہر دم از فریب

    برسر گرہ زندِ گرہ ناکشودہ را

    ندیدہ جو راؤ زو فالا فہازنم

    نتواں نمود ترک ستائش ستودہ را

    گر اس کے کلام میں حافظؔ یا خسروؔ کا سا سوز و گداز اور جذبات کی فراوانی نہیں لیکن اچھی فنی تخلیق کے لیے جس کاوش اور انہماک کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس کے ہاں موجود ہے، دورِ مغلیہ کا ایک اور ممتاز قاری گو شاعر طالب آملی ہے جو دربار جہانگیر کا ملک الشعرا تھا اور جس کی شاعری میں تمام فنی خوبیاں بدرجہ کمال پائی جاتی ہیں، آملی امتیازی وصف دو چیزیں ہیں، تشبیہات کی ندرت اور لطف استعارہ مثال کے طور پر اس کا ایک شعر ہے۔

    زغارت چمنت بربہار منت ہاست

    کہ گل بدستِ تو از شاخ تازہ ترماند

    اور ایک دوسرا شعر ہے۔

    بے نیازانہ ز اربابِ کرم می گذرم

    چوں سیہ چشم کہ بر سرمہ فروشاں گذرد

    ان کے علاوہ سولہویں اور سترھویں عیسوی میں اس ملک میں اور بھی کئی فارسی شعرا پیدا ہوئے جن میں سے ابو طالب کلیم ظہوری، قدسی مشہدی غنی کاشمیری اور برہمن لاہوری نے فارسی شاعری کو بہت وسعت و رونق بخشی اواخر مغلیہ کا سب سے بڑا فارسی زبان کا شاعر مرزا عبدالقادر بیدلؔ ہے جو اورنگ زیب کے عہد کا بلند رتبہ شاعر تسلیم کیا جاتا ہے، بیدل کا انداز فکر سراسر صوفیانہ تھا، روحانی واردات اور تصور کو نظم کرنا اس کی امتیازی خصوصیت ہے، اس نے زندگی کے حقائق کو ہر زاویے سے پرکھا اور اس طرح اپنی شاعری میں بڑے لطیف نکتے پیدا کیے، مغلیہ عہد کے آخر میں فارسی شاعری میں جو تصنع اور مشکل نگاری آگئی تھی بیدلؔ نے اسے اور بھی ہوا دی اور اس طرح سے اس کے بیشتر اشعار بالکل چیستان ہو کر رہ گیے مگر بیدلؔ کی بعض غزلوں میں انتہائی درجے کا ترنم اور موسیقی بھی پائی جاتی ہے، جن کے بعض شعر زبان زدِ خاص و عام ہیں، مثلاً اس کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے۔

    ہمہ عمریا تو قدح زدیم و نرفت رنج خمار ما

    چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنار ما بہ کنار ما

    بیدلؔ کے علاوہ اٹھارویں صدی عیسوی میں نعمت خان عالی نورالعین واقف اور علی حزیں جیسے بلند پایہ شعرا ہو گذرے ہیں۔

    مغلیہ دور کا آخری اور عظیم شاعر مرزا اسداللہ خان غالبؔ ہے جو اس زمانے کی شاعرانہ روایات کا بہترین ترجمان ہے میرزا نے فارسی شاعری کو ان عجیب و غریب تشبیہوں اور پیچیدہ تراکیب کو پھر سے اجاگر کیا اور اپنے کلام کی بدولت اس سر زمین کی فارسی شاعری میں پھر سے جلال و جمال اور فکر و بیان میں ہم آہنگی پیدا کردی، غالبؔ کے کلام میں عرفیؔ کی آزاد خیالی فیضی کازور بیان اور نظیری کے تغزل کا رنگ پایا جاتا ہے، غالبؔ اس زمانے میں پیدا ہوا، جب مغلیہ سلطنت مٹ رہی تھی، اس لیے اس کی شاعری اس دور کا مرثیہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک نئے دور کی نوید بھی چنانچہ ایک غزل میں کہتے ہیں۔

    مژدہ صبح در ایں تیرا شبانم دادند

    شمع کشتند وز خورشید نشانم دادند

    گوہر از تاج گستند و بر دانش بستند

    ہر چہ بردند بہ پیدا بہ نہانم دادند

    غالبؔ کے بعد ہند و پاک کی فارسی شاعری میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوا، جب کہ اس ملک کی سیاست میں ایک زبردست انقلاب آیا، جس نے سارے ماحول کو بدل کر رکھ دیا، انیسویں صدی کے آغاز میں فارسی ہی ملک کی سرکار اور کاروباری زبان تھی اور علم و ادب کی محفلوں میں اسی زبان کے چرچے تھے لیکن اس انقلاب کے بعد زبان فارسی کی جگہ ایک نئی زبان نے لینی شروع کی تاہم غدر کے بعد بھی پرانی ادبی روایات قائم رہیں، بلکہ فارسی شاعری کو از سر نو پھولنے پھلنے کا موقع ملا کیوں کہ اب ملک ان روایات سے بالکل آزاد تھا، جن کے عہد مغلیہ کے شعرا پابند تھے، لہٰذا شعر اب شاہانہ درباروں سے نکل کر عوام کی زندگی اور ان کے ذہن کے نزدیک تر ہوگیا اور اس کے افکار و عقاید میں ایک عظیم تبدیلی واقع ہوئی، اس صورت حال کا مرقع شبلی گرامی اور اقبال کی شاعری ہے، اقبال غالب کا مداح تھا اور بیدلؔ کا عقیدت مند اس کے ہاں حافظؔ کا تغزل اور رومیؔ کی گہرائی پائی جاتی ہے، اس کے کلام میں وہی رعنائی اور دلکشی ہے جو نظیری اور عرفی کے کلام کا حسن ہے لیکن اقبال کی طبیعت فلسفیانہ تھی اور اس کے ذہنی نشو و نما کے ساتھ ساتھ اس کا فکر بھی ارتقائی منزلیں طے کرتا گیا۔

    اقبالؔ نے فارسی شاعری کو جذبات کے مکر وہ عناصر سے بالکل پاک کیا اور محبت و عشق کی ایک اعلیٰ و ارفع تصویر پیش کی، چنانچہ فرماتے ہیں۔

    بکوئے دلبراں کارے ندارم

    دلِ زارے غم یارے ندارم

    نخاک من غبارِ راہ گذارے

    نہ در خاکم دلِ بے اختیارے

    بہ جبریل امیں ہم داستانم

    رقیب و قاصد و درباں ندانم

    اقبال کی شاعری نے وطینت کی آغوش میں پرورش پائی اور حسن و عشق کی وادیوں میں جو ان ہوئی اور آخر کار ملت کے لیے زندگی کا پیغام بن کر جلوہ گر ہوئی، وہ خودی کی نشو و نما کاقائل ہے، جس سے انسان میں تسخیر نفس اور آفاقی قوتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور اس کے عزائم بلند ہوتے ہیں وہ اپنے اس خیال کو اس طرح سے ادا کرتے ہیں۔

    در دشتِ جنوں من جبریل زبوں صیدے

    یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ

    اقبالؔ کی شاعری فلسفیانہ بلند نگاہی کے علاوہ ادبی لطافتوں سے بھی بھر پور ہے اور جو صرف مقامی یا وقتی رجحانات کی آئینہ دار ہیں جب کہ آپ کا معیار اس قدر بلند ہے کہ اس سے تمام دنیا کے اہل ذوق کو تسکین ملتی ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : خیابان، پیشاور (Pg. 32)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے