Sufinama

حضرت امام جعفر صادق اور تصوف

فیض علی شاہ

حضرت امام جعفر صادق اور تصوف

فیض علی شاہ

MORE BYفیض علی شاہ

    بنتے ہیں ان کے در سے غوث و قطب قلندر

    ہیں ہر ولی کے رہبر حضرت امام جعفر

    (قاسم نیازی)

    تصوف کے معنی :-

    لفظی معنی : راہ طریقت، سلسلہ بیعت و سلوک، وہ مسلک جس کے وسیلے سے صفائی قلب حاصل ہو، علم معرفت۔

    تزکیۂ نفس کا طریقہ، اشیائے عالم کو صفات حق کا مظہر جاننا۔

    پیروں، فقیروں، درویشوں اور قلندروں کا دنیاداری سے کنارہ کشی پر مبنی طرز زندگی

    ( فرہنگ آصفیہ اللسان العرب وغیرہ )

    تصوف حدیث کی اصطلاح میں لفظ احسان کے ساتھ آیا ہے جیسے کہ ’’حدیث جبریل‘‘ میں حضرت جبریل اسلام کیا ہے کہ بعد سوال کرتے ہیں احسان کیا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جواب دیتے ہیں اس طرح عبادت کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ کیفیت حاصل نہ کر سکو تو یہ تصور کرو کے اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

    ( حیث نمبر : 50، صفحہ نمبر 108، جلد 1 صحیح بخاری )

    اس حالت کو حاصل کرنے کے لئے جو طریقہ اور سلوک درکار ہے وہ تصوف ہے۔

    صوفی کے معنی :- صوفی کے تعریف کر تے ہوئے حضرت شیخ جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ

    صوفی وہ ہے جو پاک، صاف اونی کپڑا پہنتاہو اور لوگوں کے ساتھ وفادار ہو اور دنیا کو پس پشت چھوڑ دیا ہو اور وہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے پر گامزن رہتا ہے۔

    حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے میں نے حضور کے لئے صوف کے کپڑے بنائے جو آپ نے پہنے۔

    (سفر السعادہ :122)

    حضرت انس بن مالک سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اونی لباس زیب تن فرمایا۔

    ( سنن ابن ماجہ : حدیث نمبر 263)

    امیرالمؤمنین حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہ کا موٹا اور اونی لباس پہننا بہت سی صحیح سند روایت سے ثابت ہے۔

    صوفی وہ ہے جس کا دل ہر برائی سے پاک ہو نفرت، بغض، کینہ، عداوت، لالچ الغرض ہر دنیاوی خرابی سے پاک ہو، صفائی دل ہی صوفی کی سب سے بڑی علامت ہے۔

    حضرت ابو القاسم جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ ’’علم تصوف میں رسول اللہ کے بعد ہمارے مرشد حضرت علی مرتضٰی کرم اللہ وجہ ہیں‘‘

    فصل الخطاب:- حضرت امام جعفر صادق حضرت امام علی مرتضٰی کے کامل جانشین اور وصی ہیں، خاندان اہل بیت میں علم روحانی کے کامل جانشین پیرے اسوۂ رسول، سیرت نبوی کی کامل تصویر عالم فی الائمہ اہل بیت امام جعفر صادق جہاں شعریت میں تمام علما کے استاد ہیں وہیں اپنے عہد میں صوفیہ کے شیخ المشائخ بھی ہیں ولادیت غوثیت کبرا کے مسند نشین ہیں دنیا میں کوئی ولی ان سے بڑھ کر خدا کے قریب نہ تھا بلکہ تصوف میں آپ کی شخصیت حجت ہے مشعلہ راہ ہے۔

    ہے بزمِ مئے کشاں میرِ نجف ہے میرِ میخانہ

    مئے عرفاں سے ہے لبریز جامِ جعفرِ صادق

    (ضیا قادری بدایونی)

    فضل خطاب میں خواجہ پارسا نقشبندی لکھتے ہیں کہ

    شیخ عبدالحمان سلمی فرماتے ہیں اس طبقہ کا یعنی مشائخ صوفیہ کا علم پہلی دوسری اور تیسری صدی ہجری کے ساتھ خاص تھا اور حضرت امام جعفر صادق تک رہا اور ان کے بعد بھی جس نے فقرا کی صحبت اختیار کی وہ اپنے ہمعصر لوگوں پر فوقیت کے گیا

    اس کے یہ معنیٰ نہیں بعد میں تصوف ختم ہوگیا بلکہ علم تصوف کے عروج کا زمانہ مراد ہے جیسے آج کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اب تصوف کی ضرورت باقی نہیں یہ مستشرقین اور مغربی مفکرین کی تشریحات اور غلط فہمی کی وجہ سے ہے جو تصوف کو ایک سیاسی تحریک کی طرح دیکھتے ہیں ورنہ تصوف حدیث جبریل میں بیان کردہ اصطلاح 'احسان' کی عملی تفسیر کا نام ہے، دنیا کی چکا چوند اور مادی آلودگی سے بچنے اور روح میں اللّٰہیت و اخلاص پیدا کرنا تصوف کا مقصود ہے امت مسلمہ تصوف پر عمل پیرا ہوکر ہی کمال حاصل کر سکتی ہے اسی لئے جب عباسی والئی حکومت نے امام جعفر صادق کو پیغام بھیجا کہ میں نے بات کو ظاہر کر دیا ہے اور لوگوں کو موالات اہل بیت کی دعوت دی ہے اگر آپ خواہش مند ہوں تو آپ کو مزید کچھ نہیں کرنا ہے تو آپ نے جواب دیا۔

    تم میری امید نہیں ہو اور نہ ہی زمانہ میرا ہے چنانچہ ابو مسلم ابو عباس سفاح کی طرف مائل ہوگیا اور اسے خلافت سونب دی، امام جعفر صادق چاہتے تو علم سیاست میں اور منسب خلافت میں کوئی ان سے زیادہ اہل نہ تھا ان کو اپنے اجداد سے یہ خبر مل چکی تھی اب حکومت کس کا حصہ ہونے والی ہے اور وہ نور ولایت سے یہ جانتے تھے اقتدار کے لئے جس طرح کی سیاست درکار ہے وہ شرافت خاندان نبوی اور قرآن کے حصولوں کے خلاف ہوگی اگر وقتی طور پر حکومت حاصل ہو بھی گئی تو دنیا انقلابات کی آماجگاہ ہے اسے پھر ظلم و جبر کی طرف ہی پلٹنا ہے خدا نے اس کے برعکس ان کو سلطنت روحانی سے سرفراز فرما ہوا تھا آپ نے تقوی، زہد و ورا، پریزگاری، دنیا سے بے رغبتی، تذکیۂ نفس کی تعلیم کو اپنا نسب عین بنایا حاصل کلام امام جعفر صادق اور ائمہ اہل بیت کا سیاست سے دور ہونا مجبوری نہیں اختیاری تھا باض لوگ اہل تشعیہ میں کہتے ہیں امام جعفر صادق صوفیہ کو پسند نہیں فرماتے تھے اس کی مثال میں حضرت سفیان ثوری کا مکالمہ پیش کرتے ہیں جس میں امام کے لباس کے فاخرانہ ہونے پر سوال کیا تھا جو امام پر اعتراض نہیں بلکہ ایک شاگرد کا تجسوس تھا اور اسی لئے تھا کے حضرت سفیان ثوری جانتے تھے کے امام دنیا کے زیب و زینت کو پسند نہیں فرماتے پھر کیوں شہانہ لباس پہنا ہوا ہے تو امام نے ریاکاری سے بچنے اور زہد کے ظاہر نہ کرنے کی تعلیم دی جسے تصوف میں اقفا حال کہتے ہیں یہ بلند درجہ ہے حضرت ابوالقاسم جنید بغدادی حضرت غوث العظم حضرت بہاؤالدین نقشبندی بخاری حضرت نظام الدین اؤلیا نے دولت کو مخلوق پر خرچ کیا ظاہراً فاخرانہ طرز زندگی اپنائی ان حضرات مقدس کو زرہ برار بھی دنیا سے محبت نہ تھی اہل تصوف کو بیچارہ مسکین تصور کرنے والوں کے لئے ایک مثال اور درسہ ہے جیسے حضرت قبلہ گاہی میکش اکبرآبادی نے فرمایا ہے۔

    خاکساری بھی ہے ریاکاری

    ہستئی غیر کا نقاب اٹھا

    حضرت سفیان ثوری کا امام سے وصیت کے لئے عرض کرنا ان کی عقیدت کو ظاہر کرتا ہے جس کا ذکر ان کے باب میں کیا جائے گا۔

    حضرت امام جعفر صادق کا فقروں کو عزاز دینا :- شیخ عبد الرحمٰن سلمی اپنی کتاب تاریخ مشائخ صوفیہ میں کہتے ہیں کہ

    ’’جعفر صادق کی کنیت ابو عبداللہ ہے آپ نہایت اعلی اخلاق پر فائز تھے فتوت و شجاعت میں مثال تھے فہم قرآن میں دلیل تھے، ان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ آپ بیٹھے ہوئے تھے آپ کے دائیں بھی ایک فقیر تھا اور بائیں بھی ایک فقیر تھا ایک مالدار آیا تو آپ نے اسے اپنے سامنے بیٹھایا اس سلسلہ میں اس نے آپ پر طعن کیا تو آپ نے فرمایا اے فلاں ! یہ لوگ اللہ تعالی کے قائد ہیں اور رعایا کے لئے کوئی حرج نہیں کہ اپنے بادشاہ کے سامنے بیٹھے‘‘(فضل خطاب، صفحہ نمبر 44)

    امام جعفر صادق کی عبادت :- قیام شب ذکر اور ریازت کا شوق آپ کو اپنے دادا اور والد سے ملا زمانہ کے سب سے بڑے عابد و زاہد معرفت خدا میں کامل، مشاہدہ حق میں مشغول ذکر خدا میں رطب اللسان رہتے دن کا زیادہ تر حصہ عبادت میں گزرتا تھا۔

    حضرت امام مالک فرماتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادق کو تین کاموں میں مصروف پایا، نماز، روزہ اور تلاوت قرآن پاک۔

    حضرت سیدنا علی ہجویری فرماتے ہیں ’’حضرت امام جعفر بن محمد بن علی بن حسین اپنی عبادتوں کی وجہ سے ریاست سے بالکل الگ تھے (صفوۃ الصفوۃ جلد 2 صفحہ 94)

    ابو نعیم اصفہانی کہتے ہیں کہ حضرت جعفر بن محمد امامِ ناطق اور افضلِ امت تھے، آپ نے عبادت کو اپنا شعار بنایا گوشہ عافیت میں زندگی گزاری اور ریاست و اجتماعات سے علیحدگی اختیار کی‘‘(حلیۃ الاؤلیا، جلد 3 صفحہ 192)

    حافظ ابو الفتح اربلی لکھتے ہیں کہ

    ’’حضرت صادق کے مناقب جلیل اور ان کے اوصاف کامل تھے وہ اپنے آبا و اکرام کی سیرت پر قائم اور ان کے علوم کے حامل ہیں انہوں نے اپنے کو زہد و تقویٰٖ اطاعت و عبادت کے لئے وقف کر دیا تھا ان اوراد و وظائف کا یہ عالم تھا کہ جسے آسمان بھی برداشت نہیں کر سکتا‘‘

    حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی :- جن کے لئے حضرت ابوالقاسم جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ اؤلیا میں حضرت بایزید بسطامی کا وہی مقام ہے جو فرشتوں میں حضرت جبرئیل علیہ کا ہے، دیگر سالکین کے مقام کی نہایت بایزید کے مقام کی بدایت ہے، وہ حضرت امام جعفر صادق کے مرید اور خلیفہ ہیں سلسلہ نشبندیہ میں ان کے جانشین ہیں۔

    اپنے پیر و مرشد امام جعفر صادق سے اتنی شدید محبت تھی کہ کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی دوسری طرف توجہ نہ کی، ایک دن امام جعفر صادق نے فرمایا، با یزید! ذرا طاق سے کتاب اُٹھا لاؤ عرض کی حضور! طاق کہاں ہے؟ حضرت امام جعفرصادق نے فرمایا، تمہیں یہاں رہتے ہوئے اتنا عرصہ گزر گیا ابھی تک تمہیں طاق کا بھی پتہ نہیں، عرض کی حضور! مجھے تو آپ کی زیارت اور صحبتِ با برکت ہی سے فرصت نہیں، طاق کا خیال کیسے رکھوں، گویا آپ نے یوں کہا کہ مجھے تو بس آپ کے جلوؤں کا پتہ ہے یا آپ کے جملوں کا پتہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ کتاب کہاں اور طاق کہاں‘‘

    حضرت امام جعفرصادق یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا اگر تمہارا یہ حال ہے تو بس اب تم بسطام چلے جاؤ، تمہارا کام پورا ہوچکا ہے۔

    (یعنی ولادت کبرا دے کر بسطام کا قطب بنا دیا)

    حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں میں اپنی عمر اتنی ہی شمار کرتا ہوں جتنی امام صادق کی صحبت میں گزری ہے یعنی چار سال۔

    ابن رسول حضرت امام جعفر صادق کی حضرت داؤد طائی کو نصیحت :- حضرت داؤد طائی سلسلۂ قادریہ کے مشائخ کی ایک شاخ کے شیخ ہیں ان کو حضرت حبیب عجمی سے خلافت تھی جو امام حسن بصری کے خلیفہ ہیں، امام ابو حنیفہ کے شاگرد بھی ہیں صوفی بزرگ اور فقیہ ہیں ان کے بہت سے واقعات تصوف کی قدیم کتابوں میں ملتے ہیں ایک مرتبہ حضرت داؤد طائی، حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ اے فرزند رسول صلی الله علیہ وسلم! مجھے کوئی نصیحت فرمائیے؟ میرا دل سیاہ ہوگیا ہے، آپ نے فرمایا اے ابا سلیمان! تم تو اپنے زمانے کے مشہور عابد و زاہد ہو، تمہیں میری نصیحت کی کیا حاجت ؟ انہوں نے عرض کیا اے فرزند رسول صلی الله علیہ وسلم! آپ کو ساری مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے اور آپ پر سب کی نصیحت فرمانا واجب ہے، آپ نے فرمایا اے ابا سلیمان! میں ہمیشہ اس بات سے خائف رہتا ہوں کہ کل روز قیامت میرے جد کریم علیہ التحیتہ والتسلیم اس پر میری گرفت نہ فرمائیں کہ تم نے کیوں میری اتباع کا حق ادا نہ کیا کیونکہ اتباع نبوی صلی الله علیہ وسلم کا تعلق نہ نسب صحیح سے ہے اور نہ نسبت قوی سے بلکہ پیروی کرنے سے ہے، یہ سن کر حضرت داؤد طائی رو کر عرض کرنے لگے خداوندا جس شخص کا خمیر ہی نبوت کی خاک سے ہے اور جس کی طبع نشو نما اپنے جد کریم علیہ السلام کے برہان و حجت کے اصول سے ہے اور جس کی مادر معظمتہ بتول الزہرا ہیں جن کا نام نامی سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا ہے وہی جب بذات خود اس حیرانی و پریشانی میں ہیں تو داؤد کس گنتی و شمار میں ہے وہ زہد و عابد ہونے پر کیسے بھروسہ کر سکتا ہے۔

    حضرت داتا علی ہجویری فرماتے ہیں کہ

    حضرت داؤد طائی اہل تصوف میں رہبر و سردار تھے، اپنے زمانے کے بے مثل صوفی اور امام اعظم کے شاگرد تھے، آپ کو علومِ عقلیہ و نقلیہ سے وافر حصہ ملا اور فن فقہ میں فقیہ الفقہا مشہور تھے، حکومت و ریاست چھوڑ کر آپ نے گوشہ نشینی اختیار فرمائی، آپ کا زہد و ورع خصوصیت سے مشہور ہے، آپ کے فضائل و مناقب بہت زیادہ ہیں۔

    حضرت معروف کرخی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت داؤد طائی جیسا مستغنی عن الدنیا نہیں دیکھا، ان کی نظر میں تمام دنیا اور اہل دنیا کی کچھ حیثیت ہی نہیں تھی۔

    (کشف المحجوب، ص 241)

    حضرت امام جعفر صادق کے وصائے حضرت سفیان ثوری کو امام جعفر صادق کے جلیل القدر مرید اور شاگرد ہیں سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق سے کہا مجھے کوئی وصیت کیجئے جسے میں یاد کر لوں تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مجھے نفع بخشے تو آپ نے کہا کہ اے سفیان! جھوٹے کے لئے کوئی مروت نہیں ہوتی، حاسد کے لئے کوئی راحت نہیں ہوتی، بد اخلاق کو (حقیقی) سرداری نہیں ملتی اور بادشاہوں کو بھائی چارہ نصیب نہیں ہوتی، میں نے کہا اور نصیحت کیجئے تو فرمایا کہ اے سفیان! اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے رُک جاؤ عابد بن جاؤگے، اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اس پر راضی رہو غنی بن جاؤگے، اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو مسلم بن جاؤگے، فاجر کی صحبت اختیار نہ کرو ورنہ اس کا فسق و فجور تم پر غالب آ جائے گا اور اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ لو جو اللہ کی بہترین اطاعت کرتے ہیں، میں نے کہا اور کیجئے تو فرمایا سفیان! جو کوئی بغیر خاندان کے عزت اور بغیر بادشاہت کے رعب حاصل کرنا چاہتا ہے اس چاہیے کہ معصیت کی ذلت سے نکل کر اطاعت کی عزت کی طرف آئے میں نے کہا اور کیجئے فرمایا سفیان! جو شخص برے کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ محفوظ نہیں رہتا، جو بری جگہ جاتا ہے وہ متہم ہو جاتا ہے اور جو اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتا شرمندہ ہوتا ہے۔

    امام موسٰی کاظم کے لئے فرمانا یخرج اللہ منہ غوث ھذہ الامۃ و نورھا

    حضرت امام جعفر صادق اپنے جانشین اور صاحبزادہ حضرت امام موسٰی کاظم کے لئے فرماتے ہیں کہ

    ’’یہ میری اولاد میں سردار ہے اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ اللہ کا ایسا دروازہ ہے جس سے اللہ تعالٰی اس امت کے غوث اور اس کے نور کو پیدا کرے گا یہ سب سے اچھی اولاد ہے‘‘(صفحہ نمبر 50: فصل خطاب، از خواجہ پارسا نقشبندی)

    ھذا القیاس اس مراد اول تو حضرت امام محمد تقی ہیں حضرت امام نقی اور حضرت امام حسن عسکری ہیں اس بعد اؤلیا امت میں خواجہ خواجگان خواجہ سید حسن سنجری کاظمی اجمیری چشتی ہیں جن کے نور سے ایک عالم نے روشنی حاصل کی اپنے زمانے کے غوث اور نقیب الاشراف ہیں سادات شیرازیہ جیسے صفوی وغیرہ اکثر اؤلیا اللہ بھی کاظمی سادات میں سے ہیں۔

    ملفوظات:- کتب سیر و مناقب میں امام کے ملفوظ بے شمار ہیں اور ائیمہ اہل بیت میں امیر مومنین حضرت سیدنا علی مرتضٰی کے بعد سب سے زیادہ امام جعفر صادق سے اقوال مروی ہیں، ان ملفوظات کی یہ خصوصیت ہے کے ایسے دانشورانہ و حکیمانہ اقوال کسی دوسرے سے منقول نہیں لیکن یہاں صرف وہی ملفوظ لئے جا رہے ہیں جن کا تعلوق تصوف سے ہے صبر رضا اللہ کی محبت معرفت پر بے شمار اقوال اس کے علاوہ بھی بہت ہیں۔

    زہد و ورع و تقدس:- امام جعفر صادق کی دوسری نمایاں صفت اور خصوصیت ان کا ورع تھا لیکن یہ ورع ایسا نہیں تھا کہ وہ اس چیز کو حرام کر لیتے ہوں خدا نے حلال کر دیا ہے، انہوں نے حلال چیز کبھی ترک نہیں کی، وہ طلب حلال میں بشرطیکہ وہ اسراف و تکبر کے ڈیل میں نہ آتا ہو کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، وہ صحیح معنی میں نبی کے اس ارشاد پر عامل تھے۔

    کھاؤ، پیو، پہنو لیکن فضول خرچی اور تکبر سے بچو!

    لیکن جزبئہ طلب حلال کے باوجود، ان کی خوش ذوقی اپنی جگہ قائم تھی، وہ اچھے اور ستھرے کپڑے پہنتے تھے، وہ اسے پسند فرماتے تھے کہ لوگوں کے سامنے اچھے اور ستھرے لباس میں نمودار ہوں، وہ اپنے تقشف اور زہد و عبادت کو پوشیدہ رکھتے تھے تاکہ نفس میں کسی طرح کا جزبئہ ریا نہ پیدا ہوسکے وہ ان متقشفین میں نہیں تھے جو لوگوں کے سامنے اس طرح نمودار ہوتے ہیں کہ لباس زریں دربر اور امیرانہ طمطراق کے ساتھ اپنے زہد و تقشف کو ریا کاری کا زینہ بنا لیتے ہیں اور لوگوں کو مبتلائے فریب کرتے ہیں اور کوئی شبہ نہیں ان سے ان باتوں کا بہت سخت محاسبہ ہوگا۔

    ایک مرتبہ سفیان ثوری حضرت امام کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے آپ کے جسم اطہر پر اچھا سا لباس دیکھا جو بہت دلکش اور زیبا نظر آ رہا تھا، سفیان ثوری کہتے ہیں،

    میں حیرت اور تعجب سے آپ کی طرف دیکھنے لگا! حضرت امام نے مجھے اس طرح دیکھتے دیکھ کر فرمایا! کیا بات ہے کیوں میری طرف اس طرح تکے جا رہے ہو؟ شاید تمہیں میرے اس لباس پر تعجب ہے؟ میں نے اس ارشاد کے جواب میں عرض کیا اے ابن رسول اللہ! یہ لباس نہ آپ کا ہے، نہ آپ کے آبائے کرام کا تھا، یہ سن کر حضرت امام نے اپنے نطق گوہر بار کو جنبش دی اور فرمایا کہ وہ زمانہ اور تھا، یہ اور ہے، وہ زمانہ تھا غربت اور افلاس کا، وہ اپنی غربت اور تنگی کے مطابق بسر کرتے تھے اور اس زمانے میں کون سی چیز ہے جو میسر نہ ہو پھر آپ نے جبہ کا دامن کھولا، تو میں دیکھتا کیا ہوں اس کے نیچے سفید ادن کا کھر دار جبہ زیب جسم تھا، جس کے دامن اور آستین بالکل بالائی جبہ سے ملی ہوئی تھی، یہ دکھا کر آپ نے فرمایا کہ یہ (اونی جبہ) ہم نے خدا کے لئے پہنا ہے اور یہ (اچھا) تمہارے لئے، نہ تم پر ہم اسے ظاہر کر سکتے ہیں، نہ خدا سے اسے چھپا سکتے ہیں(حلیتہ الاؤلیا، ج۳ ص۱۹۳)

    اخلاص:- امام جعفر صادق نے فرمایا کہ اخلاص تمام اعمال فاضلہ کو جامع ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کا آغاز قبولیت سے ہوتا ہے اور اس رضائے الہٰی کی مہر لگتی ہے، اللہ جس کے عمل کو قبول فرما لے اور جس سے راضی ہو جائے تو سمجھ لو کہ وہی مخلص ہے خواہ اس کا عمل کتنا ہی کم کیوں نہ ہو لیکن اس کے برعکس جس کا عمل شرف قبولیت نہ پا سکے، وہ مخلص نہیں ہے خواہ اس کا عمل کتنا ہی زیادہ کیوں نہ ہو، آدم علیہ السلام اور ملعون ابلیس کی مثال ہمارے سامنے ہے، قبولیت اعمال کی علامت یہ ہے کہ ہر محبوب چیز کو راہ خدا میں خرچ کر کے استقامت دکھائی جائے، ایک مخلص شخص اپنی روح کو تپاتا ہے، اپنی کوشش صرف کرتا ہے اور علم کو عمل اور عمل کو علم سے استوار کرتا ہے کیوں کہ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو سب کچھ اس کے ہاتھ آ جاتا ہے لیکن اگر اسی کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو سب کچھ فنا ہو جاتا ہے، توحید میں تنزیہہ کا مفہوم بھی یہی ہے جیسا کہ پہلے ایک شخص نے کہا ہے کہ عمل کرنے والے ہلاک ہوئے مگر عبادت کرنے والے نہیں، عبادت کرنے والے ہلاک ہوئے مگر علم رکھنے والے نہیں، علم رکھنے والے ہلاک ہوئے مگر صادق حضرات نہیں، صادق حضرات ہلاک ہوئے مگر مخلص لوگ نہیں، مخلص ہلاک ہوئے لیکن متقی نہیں، متقی ہلاک ہوئے لیکن یقین کرنے والے نہیں اور واقعہ یہ ہے کہ یقین کرنے والے ہی بلند مقام پر فائز ہیں، اللہ کا ارشاد ہے، واعد ربک حتی یأتیک الیقین (ترجمہ : یقین (موت) آنے تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہو)

    اخلاص کا کم تر درجہ یہ ہے کہ بندہ اپنی پوری طاقت صرف کرے پھر بھی اپنے عمل کو اللہ کی نظر میں بہت بڑی چیز نہ سمجھے کہ یہ امید کر بیٹھے کہ اللہ اس کا اسے بھرپور بدلہ لازمی طور پر دےگا کیوں کہ اگر اللہ اس سے حق عبودیت ادا کرنے کا مطالبہ کرے تو وہ اس سے عاجز رہ جائے گا، ایک مخلص آدمی کا کم تر مقام یہ ہے کہ وہ دنیا میں تمام گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور آخرت میں جہنم سے نجات پاتا ہے اور جنت سے ہم کنار ہوتا ہے۔

    تقویٰ:- امام جعفر صادق نے فرمایا کہ تقویٰ کے تین درجے ہیں، اللہ کا تقویٰ، شبہات ہی نہیں بلکہ ادنیٰ اختلاف کا ترک کر دینا، یہ خاص الخواص کا تقویٰ ہے اللہ سے تقویٰ، حرام ہی نہیں بلکہ شبہات تک کو ترک کر دینا اللہ سے تقویٰ کہلاتا ہے، خاص کا تقویٰ خوف نار اور عقاب کا تقویٰ، اس میں حرام اشیا کا ترک ہوتا ہے، یہ عام لوگوں کا تقویٰ ہے۔

    تقویٰ کی مثال نہر میں بہنے والے پانی کی طرح ہے، تقویٰ کے ان تینوں درجات کی مثال ان درختوں جیسی ہے جو اس نہر کے کنارے لگے ہوئے ہوں، اس میں ہر طرح کے درخت ہوں، ہر درخت اپنی خاصیت، خوراک، لطافت اور کثافت کے بقدر اس نہر سے سیرابی حاصل کرتا ہے پھر اپنے پھلوں اور پھولوں سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، اللہ کا ارشاد ہے، صنوان و غیر صنوان یسقی بما واحد و نفضل بعضھا علی بعض فی الاکل (اطاعت کے کاموں کے لئے تقویٰ کی وہی حیثیت ہے جو درختوں کے لئے پانی کی حیثیت ہے) درختوں کی خصوصیات اور اس کے پھلوں کے رنگ اور مزہ کی مثال ایمان کے درجات سے دی جا سکتی ہے جو شخص ایمان کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہے اور اس کی روح کا جوہر مصفی ہے، وہی سب سے زیادہ متقی ہے، ایک متقی کی عبادت مخلصانہ ہوگی اور پاکیزہ بھی جو شخص اس طرح سے ہوگا وہ اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہوگا، اس کے برعکس جو عبادت غیر تقویٰ پر ہوگی وہ ہوا میں اڑنے والے ریت کے ذرات کی طرح ہوگا۔

    اللہ کا ارشاد ہے کہ

    أفمن أسس بنیانہ تقویٰ من اللہ و رضوان ان خیرا من أسس بنیانہ علی شفا جرف ھار فانھار بہ نار جھنم (تقویٰ کی تفسیر یہ ہے کہ اس چیز کو بھی ترک کردے جس کو لینے میں کوئی حرج نہیں ہے) کیوں کہ اندیشہ اس کا ہے کہ کہیں اس کے ذریعے اس کی گرفت نہ ہو جائے، یہ حقیقت میں اطاعت ہے جس کوئی نافرمانی نہیں ہے، ذکرِ الہٰی ہے جس میں کوئی نسیان نہیں ہے اور علم ہے جس میں کسی طرح کی جہالت نہیں ہے اور اس کا یہ عمل مقبول ہے، مردود نہیں ہے۔

    دنیا کی صفت:- امام جعفر صادق نے فرمایا کہ

    ’’دنیا کی ایک شکل ہے، اس کا سر کبر ہے، اس کی آنکھیں حرص ہیں، اس کے کان لالچ ہیں، اس کی زبان ریا ہے، اس کے ہاتھ شہوت ہیں، اس کے پیر خود پسندی ہیں، اس کا دل غفلت ہے، اس کا وجود فنا ہے، اس کا حاصل زوال ہے جو اس سے محبت کرے گا اس کے اندر تکبر پیدا ہوگا جو اسے اچھا سمجھے گا اس کے اندر حرص پیدا ہوگی جو اسے طلب کرے گا اس میں طمع پیدا ہوگی جو اس کی تعریف کرے گا اسے وہ ذلت کا لباس پہنائے گی جو اس کا ارادہ کرے گا، اس کے اندر عجب پیدا ہوگا جو اس پر بھروسہ کرے گا اس میں غفلت پیدا ہوگی جو اس کے سامان کو محبوب رکھے گا، اسے فتنہ میں ڈال دے گی، دنیا کسی کے لئے باقی نہیں رہےگی جو اسے جمع کرے گا اور اس میں بخل سے کام لے گا، اس کو وہ اپنے مستقر میں پہنچا دے گی اور وہ جہنم ہے۔

    ماخذ و مصادر:-

    صحیح بخاری، حیث نمبر : 50،صفحہ نمبر 108 ، جلد 1

    سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 263)

    سفر السعادہ، 122

    فضل خطاب، صفحہ نمبر 50، فصل خطاب، از خواجہ پارسا نقشبندی

    صفحہ نمبر 44، فصل خطاب، از خواجہ پارسا نقشبندی

    فرہنگ آصفیہ، جلد اول صفحہ نمبر 617

    امام جعفر صادق اور ان کے علوم و معارف، صفحہ 117 ،118، 119، 127

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے