حضرت سید امجد علی شاہ قادری
حضرت امجد علی شاہ قادری کا خاندانی پسِ منظر :- آپ نسباً جعفری سادات میں سے ہیں، آپ کے جدِ چہارم قطبِ مدینہ حضرت سید ابراہیم مدنی قادری جو آستانۂ سرورِ کائنات حضور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مجاور اور شیخِ وقت تھے، مستجاب الدعوات بزرگ تھے، یہ خاندان اپنے علم و عمل تقوٰی و پرہیزگاری کے لیے مشہور تھا، آپ کا نسب پچیس واسطوں سے حضرت اسحٰق محتمن ابنِ امام جعفر صادق تک پہنچتا ہے۔
سلسلۂ قادریہ میں بیعت :- حضرت امجد علی شاہ خود تحریر فرماتے ہیں کہ
’’جب فرزند محبوبِ سبحانی حضرت شاہ عبداللہ بغدادی قادری آگرہ تشریف لائے اور محلہ تاج گنج میں قیام فرمایا تو میں حاضرِ خدمت ہوا اور قدم بوس ہوا حضرت نے میرا سر اپنے سینے لگا لیا اور مجمع کثیر میں فرمایا کہ اے میرے بیٹے امجد علی! میں آگرے میں اپنے جد حضرت غوث اعظم کے حکم سے اس لیے آیا ہوں کہ تمہیں خرقۂ بزرگانِ کلاہ، علم اور خلافت عنایت کروں، میں حضرت غوث پاک کے حکم کی اتباع میں یہاں تک پہنچا ہوں، تمہیں مبارک ہو کہ یہ دولت بے مانگے مل رہی ہے، یہ سن کر خوشی کی حد نہ رہی اور مجھ پر ایک بے خودی طاری ہوگئی جب مجھے ہوش آیا تو میں نے عرض کیا کہ اے میرے آقا کمزور چیونٹی سے پہاڑ کا بوجھ کیسے برداشت ہوگا، حضرت نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ واللہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون‘‘(قرآن)
یہ منصب میرے جد حضرت غوث اعظم نے تمہیں عنایت فرمایا ہے میرے ہاتھ سے لو اور قدرتِ قادریہ کا تماشا دیکھو، حضرت غوث پاک نے ایک دزدِ روسیاہ کو ایک نظر میں قطبِ وقت بنا دیا تھا، تم تو شریفِ قوم اور صاحبِ علم ہو سید ہو اور درویشوں سے نسبت رکھتے ہو، تمہارے والد بھی اسی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے، اگر تمہیں اپنی شفقت کی وجہ سے اس نعمت سے نوازا گیا تو کیا بعید ہے پھر گیارویں کے دن مجھے طلب فرمایا اور شرفا، نجبا اور مشائخ کے ایک بڑے مجمع کے سامنے اپنے ہاتھ سے مجھے خرقۂ خلافت پہنایا اور اپنے سر مبارک کی کلاہ میرے سر پر رکھی اور علمِ قادری اور خلافت نامہ جو میرے پاس موجود ہے عطا فرمایا اور مریدوں کو حکم دیا کہ ان کو میرا قائم مقام اور نائب سمجھتے ہوئے ہر مہینے کی گیارویں اور خاص کر بڑی گیارویں کی فاتحہ میں ان کے معاون رہیں اور میرے جد کی نیاز ان کو پہنچائیں، بال برابر ان کے حکم سے انحراف نہ کریں جو کوئی ان کے خلاف ہوگا وہ میرے اور میرے جد بزرگوار کے خلاف ہے پھر رام پور میں طلب فرما کر علم اور خلعتِ خاص عطا فرمائی، حضرت امجد علی شاہ آخری وقت تک اپنے شیخ کے پاس حاضر ہوتے رہے اور روحانی تعلیم میں حضرت کی نظرِ کرامت سے مستفیض ہوتے رہے۔
ایک دیوان اور چند تحریریں آپ کی یادگار ہیں جس میں چار قصائد حضرت علی مرتضیٰ پر، تین حضور غوث پاک پر اور ایک ایک حضرت بہاؤالدین نقشبند اور حضرت ضیاؤالدین بلخی پر، 251 کے قریب اردو غزلیں بھی شامل ہیں اس کے علاوہ پورا دیوان فارسی میں ہے جو 2413 فارسی اشعار 915 اردو اشعار ہے جس میں ایک مثنوی، 44 قطعات، 14رباعیات اور قصائد پر مشتمل ہے، 1266ھ جامِ جمشید، آگرہ سے شائع ہوا۔
آپ کے خلفا و مریدین کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے، آگرہ میں آپ کی ذات سے سلسلۂ قادریہ کو بہت فروغ ہوا، کئی خانقاہیں قائم ہوئیں، ایک مشہور خلیفہ اور داماد حضرت حکیم سید نورالدین قادری بھی ہیں جن سے اب تک روحانی فیض جاری ہے، حضرت امجد علی شاہ کے جانشین اول اور فرزند اول حضرت منور علی شاہ ہوئے، حضرت مظفر علی شاہ اللہی اکبرآبادی، حضرت اصغر علی شاہ، حضرت میکش اکبرآبادی باالترتیب نسباََ جانشیں ہوئے، فی الوقت سجادہ نشیں حضرت سید اجمل علی شاہ جعفری قادری نیازی آپ کے سلسلۂ نسب میں چھٹی پیڑی اور موجودہ وقت میں آپ کے قائم مقام اور جانشینِ نسبی و باطنی ہیں۔
ہر سال دو 2 تاریخ کو ربیع الاول میں آپ کا عرس ہوتا ہے، مزار پنجہ مدرسہ شاہی، آگرہ میں ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.