حضرت امام حسن مجتبیٰ اور قرآن
سورۂ کوثر کی پہلی تفسیر امام حسن مجتبی نے لکھی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ
اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱)فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ(۲)اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ۠(۳)
اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا کیا ہے یعنی بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں تو تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو، بے شک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔
کوثر کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، ان سب اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اے محبوب! بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں اور کثیر فضائل عنایت کر کے تمہیں تمام مخلوق پر افضل کیا، آپ کو حسنِ ظاہر بھی دیا حسنِ باطن بھی عطا کیا، نسب عالی بھی، نبوت بھی، کتاب بھی، حکمت بھی، علم بھی، شفاعت بھی، حوضِ کوثر بھی، مقامِ محمود بھی، امت کی کثرت بھی، فتوحات کی کثرت بھی اور بے شمار نعمتیں اور فضیلتیں عطا کیں جن کی انتہا نہیں۔ (خازن، الکوثر، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۴۱۳-۴۱۴ملتقطاً)
اکثر علما کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا اور آپ کی ذریت کوثر کے مصادیق میں سے ہیں کیوں کہ یہ سورہ ان لوگوں کے جواب میں نازل ہوا ہے جنہوں نے پیغمبر اکرم کو ابتر ہونے کا طعنہ دیا تھا۔
امام محمود آلوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ
عن ابن عباس رضی الله عنها قال کان اکبر ولد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم القاسم ثم زينب ثم عبدالله ثم ام کلثوم ثم فاطمه ثم رقيه فمات القاسم عليه السلام وهو اول ميت من ولده عليه السلام بمکة ثم مات عبدالله عليه السلام فقال العاص بن وائل السهمی قد انقطع نسله فهو ابتر فانزل الله تعالیٰ ان شَانِئَكَ اوالابتر۔
(روح المعانی ج : 15، جز : 30، ص : 286)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سب سے بڑے صاحبزادے حضرت قاسم تھے، اس کے بعد سیدہ زینب، اس کے بعد عبداللہ، اس کے بعد ام کلثوم، اس کے بعد حضرت فاطمہ، اس کے بعد حضرت رقیہ، جب حضرت قاسم کا وصال ہوگیا تو مکہ مکرمہ میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے صاحبزادوں میں یہ سب سے پہلے تھے جن کا وصال ہوگیا، اس کے بعد حضرت عبداللہ کا وصال ہوگیا تو عاص بن وائل سہمی نے کہا کہ بس پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل ختم ہوگئی، فھو ابتر پس بے نام و نشان ہو گئے تو اس وقت یہ سورت نازل ہوئی اور فرمایا کہ محبوب تیرا دشمن بے نام و نشان ہوگا تمہارا دین اور رسالت اور نبوت قیامت تک قائم رہیں گے، محمود آلوسی فرماتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک اس سورت کا شان نزول یہی ہے کہ عاص بن وائل اور دیگر دشمنان رسول کو جواب دینا مقصود تھا۔
امام فخرالدین رازی کی تفسیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ہے کہ
الۡکَوۡثَرَ سے مراد آپ کی اولاد ہے، کہتے ہیں یہ سورہ چوں کہ ان لوگوں کی رد میں نازل ہوا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نرینہ اولاد نہ ہونے پر طعنہ دیتے تھے، پس اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی نسل عنایت فرمائے گا جو ہمیشہ باقی رہے، دیکھیے! اہل بیت کے کتنے افراد مارے گئے پھر دنیا ان سے پر ہے اور بنی امیہ کا کوئی قابل ذکر باقی نہیں رہا پھر یہ بھی دیکھ لو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل میں کتنی بڑی ہستیاں عالم ہیں جیسے الباقر، الصادق، الکاظم اور الرضا علیہم السلام (لفظ علیہم السلام امام فخرالدین رازی کی عبارت میں نفس زکیہ کے ذکر سے پہلے موجود ہے، اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ فخر رازی حفظ مراتب کا لحاظ رکھتے ہوئے ائمہ کو علیہم السلام کے لائق سمجھتے ہیں) والنفس الزکیۃ۔ (تفسیر کبیر ۳۲: ۳۱۳)
اس کوثر کا اول باب ہونے کا سب سے پہلا شرف جس کو حاصل ہے وہ سبط اول سخی ذکی کریم اہل بیت امیرالمؤمنین حضرت امام حسن مجتبیٰ ہیں کیوں نہ ہوں کہ اس گھر میں پیدا ہوئے جہاں قرآن روز و شب نازل ہوتا تھا ان کے نانا کی زبان سے ہی قرآن نازل ہوا آپ کے والد حضرت علی مرتضی ناطق قرآن ہیں، قرآن کے علم میں بھی کوئی ان کے بابا سے بڑھ کر عالم نہ تھا امام المفسرین عبداللہ ابن عباس سے کسی نے پوچھا آنحضور کے وصال کے وقت آپ کے عمر تو کم تھی تو آپ کو قرآن کا اتنا علم کس سے حاصل ہوا اس پر فرمایا حضرت علی سے میں قرآن کا علم سیکھا ہے آپ فرما تے میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ صبح نازل ہوئی کے شام میں اور کس کے لیے نازل ہوئی صرف سورہ فاتح کی تفسیر کروں تو ستر ۷۰ اینٹوں کی پشت بھر جائے، الغرض امام حسن کے استاد آپ کے والد بزرگوار تھے جن کی شان یہ تھی تو اندازہ لگائے کے کیسی تربیت ملی ہوگی، امام حسن مجتبیٰ کی قرآنی سیرت کا ایک مختصر سا نمونہ یہ بھی قابل غور ہے کہ جب کبھی آپ تلاوت فرماتے اور ان آیات تک پہنچتے جن میں خطاب ''یا ایھا الذین آمنوا'' کے ذریعہ ہوا ہے تو بے ساختہ کہہ اٹھتے کہ ''لبیک! اللھم لبیک۔
قرآن کی محبت : حضرت امام حسن کے روز و شب قرآن کی تلاوت میں گزرتے شوق اور انہماک سے قرآن پڑھتے خوبصورت انداز میں قرعت کرتے کوئی بھی آپ سے بڑ کر قرآن کو خوش الحان لہجہ میں پڑھنے والا نہ تھا قرآن سے وہ وہ نقاط و مفہوم بیان فرما تے کے بڑے جلیل القدر صحابہ حیرت میں پڑھ جاتے، ایک قول میں قرآن کی فضیلت پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
قیامت کے دن قرآن کریم اعمال کی قضاوت کرنے والی کتاب ہوگی، امام حسن نے فرمایا کہ ''انّ ھذا القرآن یجیٔ یوم القیامة قائداً وسائقاً یقود قوماً الیٰ الجنّة أحلّوا حلالہ و حرّموا حرامہ و آمنوا بمتشابہ ویسوق قوماً الیٰ النار ضیّعوا حدودہ و احکامہ واستحلّوا محارمہ''
یہ قرآن قیامت کے دن ایک رہبر کی صورت آئے گا جن لوگوں نے حلال خدا کو حلال اور حرام الٰہی کو حرام جانا اور جو قرآن مجید کے متشابہات پر ایمان لائے انہیں جنت کا راہی بنائے گا اور جن لوگوں نے حدود و احکام خداوندی کو نہیں مانا نیز حرام الٰہی کو حلال جانا انہیں راہی دوزخ کرے گا۔
دیلمی امام حسن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
ما بقی فی الدنیا بقیة غیر ھذا القرآن فاتخذوہ اماماً یدلّک علیٰ ھداکم و انّ أحقّ الناس بالقرآن من عمل بہ و ان لم یحفظہ و أبعدھم منہ من لم یعمل بہ و ان کان یقرأہ''
دنیا میں اس قرآن مجید کے سوا کچھ باقی نہیں بچا ہے، اسے اپنا امام اور مقتدا قرار دو تا کہ یہ تمہیں راہی یدایت کرے، قرآن کریم کے تئیں سزاوار ترین شخص وہ ہے جو اس کے تعلیمات پر عمل کرے، اگر چہ اس کی آیات کا حافظ نہ بھی ہو اور قرآن کریم سے دور شخص وہ ہے جو قرآنی معارف پر عمل پیرا نہ ہو بھلے ہی وہ قرآن کی تلاوت کرنے والا ہو۔
(ارشاد القلوب،ص٧٩)
مذکورہ حدیث میں امام عالی مقام نے قرآن مجید کو اپنی عملی زندگی میں جگہ دینے کی تاکید فرمائی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
من قرأ ثلاث آیات من آخر سورة الحشر اذا أصبح فمات من یومہ ذالک طبع بطابع الشحداء و اِن قرأ اذا أمسی فمات فی لیلتہ بطابع الشّھدائ''
جو شخص صبح کے ہنگام سورۂ حشر کی انتہائی تین آیات کی تلاوت کرے اور اسی دن اس دنیا سے رخصت ہو جائے اسے شہدا کا مقام و مرتبہ ملے گا اور اگر رات ہو جائے اور اس کی تلاوت کے بعد مر جائے تو بھی اسے شہیدوں جیسا اجر و ثواب نصیب ہوگا۔
امام حسن قرآن کریم کی آیت ''انّا کلّ شئیِِ خَلقناہُ بقدرِِ''(سورۂ قمر٤٩) کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ ''ہم نے ہر چیز کو حتیٰ جہنمیوں کے لیے بھی ان کے اعمال کے مطابق خلق کیا ہے''(التوحید،ص٣٨٢،ح٣٠)
رمضان اور حضرت امام حسن :- امام حسن کی ولادت بھی ماہ نزول قرآن معنی رمضان مبارک میں ہوئی گویا قرآن اور تفسیر القران دونوں کا تعلق رمضان سے ہی ہے اکثر مؤرخین و محدثین نے آپ کی ولادت بدھ کے دن ۳ ھجری ۱۵ رمضان لکھی ہے، حالاں کہ ۵ ۔۳ ۔۲۹ اور ۱۱ کا ذکر بھی آیا ہے لیکن سب سب سے معتبر روایات میں ۱۵ ہی مذکور ہے۔
بیان ولادت اور عقیقہ :- حضرت زہرا نے اس مبارک مولود کو ولادت کے ساتویں دن ریشمی کپڑا جو حضرت جبرئیل پیامبر اکرم کے لیے لائے تھے میں لپیٹا اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں لے کر آئیں، حضرت نے اس مبارک مولود کا نام حسن رکھا اور ایک بکرا آپ کے لیے عقیقہ کیا۔
حسن نام کیوں رکھا گیا :- جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضرت امام حسن کی ولادت کے بعد آپ کی والدہ ماجدہ حضرت زہرا نے حضرت علی کو فرمایا کہ نئے مولود کا نام رکھیے، حضرت امیرالمؤمنین نے فرمایا کہ ان کا نام حضرت رسول خدا رکھیں گے اور پھر رسول خدا نے فرمایا کہ میں ہی منتظر ہوں کہ خداوند ان کے نام کا حکم دے، خداوند متعال نے جبرئیل کو وحی کی کہ محمد کے پاس ایک بچہ پیدا ہوا ہے ابھی ان کے پاس جاؤ اور انہیں فرزند کی مبارک باد دو اور محمد کو اطلاع دو کہ علی کی نسبت تیرے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کی موسیٰ سے ہے، اپنے نومولود کا نام ہارون کے بچوں پر رکھو، اس حکم کے بعد جناب جبرئیل رسول خدا کے پاس پیغام لے کر آئے اور کہا علی کے فرزند کو ہارون کے فرزند جیسا نام رکھو، پیامبر نے پوچھا جناب ہارون کے بچوں کا نام کیا تھا تو جبرئیل نے عرض کی اس کے بچہ کا نام شبر تھا پیامبر نے فرمایا میری زبان عربی ہے تو جبرئیل نے عرض کی اپنے فرزند کا نام حسن رکھو۔
حضرت امام حسن کی زندگی :- سات سال اور کچھ ماہ حضور کے ساتھ زندگی گزاری اور حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ تیس سال اور اپنے باپ کے بعد 9 سے 10 سال اکیلے زندگی گزاری، آپ کا قد بڑا اور داڑھی گھنی تھی، لوگوں نے آپ کے والد کی شہادت کے بعد جمعہ کے دن 21 رمضان سال 40 ہجری کو آپ کی بیعت کی آپ کے لشکر کا سپہ سالار عبیداللہ بن عباس اور ان کے بعد قیس بن سعد بن عبادہ تھا۔
لوگوں نے جب امام کی بیعت کی تو اُس وقت آپ کی عمر مبارک 37 سال تھی ابھی آپ کی حکومت کے 6 ماہ اور 3 دن ہی گزرے تھے کہ سال 40 ہجری کو آپ کی معاویہ کے ساتھ صلح کا واقعہ پیش آیا اس کے بعد امام مدینہ چلے گئے اور 10 سال تک وہاں قیام پذیر رہے، آپ کی کنیت ابو محمد اور ابوالقاسم ہے، مقدس ترین القاب سید، سبط، امین، حجت، برّ، تقی، اثیر، زکی، مجتبیٰ، سبط اول اور زاہد ہے۔
امام حسن کا کرم و سخاوت :- انس بن مالک نقل کرتے ہیں کہ ایک کنیز نے ایک پھولوں کا دستہ امام کو ھدیہ پیش کیا تو امام حسن نے اسے فرمایا کہ تجھے خدا کی راہ میں آزاد کیا
تو راوی کہتا ہے کہ میں نے آنحضرت کو عرض کیا کہ کیا آپ نے فقط پھولوں کے ایک گلدستہ کے بدلے اسے آزا د کر دیا ہے؟ تو امام نے جواب میں فرمایا خداوند متعال نے ہماری اس طرح تربیت کی ہے، خداوند قرآن میں سورہ نسا کی آیت نمبر 86 میں فرماتا ہے کہ وَ إِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها کہ جب کوئی تمہارے ساتھ اچھائی کرے تو اس کا بڑھ کر جواب دو یا حداقل اسی طرح جواب دو اس کے بعد فر مایا بہتر یہ ہے کہ اس کو آزاد کردو۔
آپ کریم اہل بیت کے نام سے معروف ہیں، چوں کہ آپ نے اپنی زندگی میں کئی دفعہ اپنی تمام دولت فقرا میں مساوی طور پر تقسیم کر دی، ابن شھر آشوب نے امام صادق سے روایت کیا ہے کہ حضرت امام حسن پچیس مرتبہ پیدل حج پر گئے اور دو مرتبہ یا ایک روایت کے مطابق تین مرتبہ اپنے مال کو خدا کے ساتھ تقسیم کیا کہ آدھا مال اپنے لیے رکھا اور آدھا مال خدا کی راہ میں فقیروں کو دیا، حسن اخلاق و مروت میں کوئی آپ سے بڑھ کر نہ تھا اپنے نانا کی ہی طرح سخی اور حسن خلق والے تھے انکشار اور درگزر میں اس درجہ کے آپ کے غلام ملول ہوتے کے آپ کچھ تو فرما دیں کے اسے تنبیہ ہو مگر اللہ اکبر دنیا نے ایسی برداشت شاید ہی دیکھی ہوگی۔
امام حسن کا حلم اور صبر :- داتا گنج بخش حجویری نے اور دوسرے کئی مصنفین نے لکھا ہے کہ ایک شامی بوڑھے شخص نے جب آپ کو سواری پر سوار دیکھا تو آپ کو گالیاں دینا شروع کر دی لیکن امام حسن نے سکوت اختیار کی جب اس شخص کی گالیاں ختم ہوئی تو حضرت امام حسن نے گشادہ روی کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوئے جب کہ آپ مسکرا رہے تھے اس شخص پر سلام کیا اور فرمایا اے شخص میرے خیال میں تم مسافر ہو اور لگتا ہے کہ کچھ چیز یں تم پر مشتبہ ہو گئی ہیں، اگر ہم سے مدد طلب کرتے ہو تو ہم تم سے مشکلات کو برطرف کر سکتے ہیں اور تمہیں کچھ دے سکتے ہیں اور اگر ہم سے کوئی چیز چاہتے ہو تو تمہیں دے سکتے ہیں اور اگر ہم سے راہنمائی چاہتے ہو تو تمہاری راہنمائی کر سکتے ہیں اور اگر چاہتے ہو تو تمہارا سامان اٹھاؤں تو اٹھا لوں گا اور اگر بھوکے ہو تو تمہارا پیٹ بھر سکتے ہیں اور اگر برہنہ ہو تو تمہیں لباس دیتے ہیں اور اگر نیاز مند ہو تو تمہیں بے نیاز کر دیں گے اور اگر کسی جگہ سے بھگائے گئے ہو تو ہم تمہیں پناہ دینے کے لیے تیار ہیں اور اگر کوئی حاجت رکھتے ہو تو اسے پورا کر سکتے ہیں اور اگر ہماری طرف سفر کیا ہے تو واپس جانے تک ہمارے مہمان ہو اور یہ تمہارے لیے بہتر ہے، چوں کہ ہمارے پاس مہمان نوازی کے لیے گھر موجود ہے، بہت بڑا مال و منزلت تمہارے اختیار میں ہے۔
جب اس شامی مرد نے امام حسن کی اس محبت آمیز گفتار کو سنا تو رونے شروع کیا اور اس طرح دگر گوں ہوا اسی لمحہ یہ کلمات جاری کیے، الشھد انک خلیفۃ اللہ فی ارضہ اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہو خداوند متعال آگاہ ہے اس سے کہ اپنی رسالت کو کس میں قرار دے۔
پھر اس کے بعد فرمایا میں سمجھ رہا تھا کہ آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک دشمن ترین مخلوقات میں سے ہو لیکن اب پتہ چلا ہے کہ آپ میرے نزدیک خدا کی محبوب ترین مخلوقات میں سے ہیں اس کے بعد اس نے اپنا سامان امام کے گھر منتقل کیا اور جب تک مدینہ میں رہا آپ کا مہمان رہا پھر اس کے بعد شام کی طرف واپس چلا گیا جب کہ خاندان رسالت کی سچی محبت اس کے دل میں تھی اور اس کا معتقد تھا۔
شبیہ رسول :- حضرت انس سے روایت ہے کہ نبی کریم کے ساتھ امام حسن سے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا، امام حسن رسول کریم سے چہرے سے سینے تک اور امام حسین سینے سے قدموں تک رسول کی شبیہہ تھے۔
امام حسن کی محبت اللہ کے قرب کا باعث :- بخاری مسلم ترمذی نسائی وغرہ کی بہت سی آحدیث میں یہ مفہوم بیان ہوا ہے کہ فرما یا سرکار دو عالم نے کے جس نے امام حسن و امام حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے مچھ سے محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا جس نے مچھ سے بغض رکھا اس نے اللہ سے بغض رکھا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْقَطَّانُ قَال عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ حَدَّثَنَا تَمِيمُ بْنُ بُهْلُولٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبَانٍ عَنْ سَلَّامِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ مَعْرُوفِ بْنِ خَرَّبُوذَ عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (ع) قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ص) يَقُولُ أَنَا سَيِّدُ النَّبِيِّينَ وَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ سَيِّدُ الْوَصِيِّينَ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ الْأَئِمَّةُ بَعْدَهُمَا سَادَاتُ الْمُتَّقِينَ وَلِيُّنَا وَلِيُّ اللَّهِ وَ عَدُوُّنَا عَدُوُّ اللَّهِ وَ طَاعَتُنَا طَاعَةُ اللَّهِ وَ مَعْصِيَتُنَا مَعْصِيَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيل۔
ترجمہ : علی بن محمد بن موسیٰ اپنی اسناد کے ساتھ ابی طفیل اور وہ حضرت امام حسن سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول خدا سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں جنت میں رہنے والے پیامبروں کا سردار، علی اوصیا کا سردار اور حسن و حسین جوانوں کے سردار ہیں اور ان کے بعد والے آئمہ نیک و متقی لوگوں کے سردار ہیں ہماری مدد کرنے والا خدا کی مدد کرنے والا ہے اور ہمارا دشمن خدا کا دشمن ہے اور ہماری اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور ہمارے حق میں معصیت، خدا کی معصیت ہے اور ہمارے لیے بس خدا ہی کافی ہے اور وہ کتنا اچھا وکیل ہے۔
عمر اور سنہ شہادت :- 50 ھجری میں 47 سال میں کچھ مہینے کم عمر میں زہر سے شہید ہوئے۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رقمطراز ہیں کہ امام حسن کی شہادت کا سبب آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث بن قیس کی جانب سے دیا جانے والا زہر تھا جسے لالچ دیا گیا تھا کہ اس کا نکاح یزید بن معاویہ سے کرا دیا جائے گا۔ (سر الشہادتین)
امام نائب و زیر مصطفے حسن
خلفۃ اللہ باالیقیں مجتبی حسن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.