قرآن اور حضرت علی مرتضیٰ
نام و نسب اور زندگی :- آپ کا اسم گرامی علی بن ابی طالب اور کنیت ابوالحسن ہے، آپ رسول کریم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے، حضرت فاطمتہ الزہرا آپ کے نکاح میں تھیں، نبی کریم کی اولاد حضرت علی و فاطمہ سے آگے چلی، آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنتِ اسد بن ہاشم تھیں، آپ کے والد اور والدہ دونوں ہاشمی تھے، آپ خلفائے راشدین میں سے خلیفائے چہارم اور بنی ہاشم میں سے اولین خلیفہ تھے، آپ نوجوانوں میں سب سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے، آپ کی ہجرت کا واقعہ بہت مشہور ہے، بقول بعض مفسرین یہ آیت آپ ہی کے بارے میں نازل ہوئی۔
وَ مِنَ النَّاس مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہٌ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہِ (البقرہ۔ ۲۰۷)
لوگوں میں سے وہ ہیں جو خدا کی رضامندی چاہنے کے لیے اپنی جان تک فروخت کر دیتے ہیں۔
آپ نے تبوک کے سوا تمام غزوات میں شرکت کر کے کارہائے نمایاں انجام دیا ہے، غزوۂ تبوک کے موقعہ پر نبی کریم ان کو اہل و عیال کی حفاظت کے لیے خود مدینہ منورہ میں چھوڑ گئے تھے، متعدد غزوات میں آن حضرت نے آپ کو علم عنایت فرمایا، غزوۂ خیبر کے موقعہ پر سرورِ کائنات نے فرمایا تھا۔
میں ایسے شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ مسمانوں کو فتح عنایت فرمائےگا وہ شخص اللہ اور رسول کو چاہتا ہوگا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اسے پسند کرتے ہوں گے اور آپ نے جھنڈا حضرت علی کو عنایت فرمایا
جب آپ نے مدینہ ہجرت کر کے صحابہ میں رشتۂ مواخات استوار فرمایا اور حضرت علی کو اپنا بھائی قرار دیا اور فرمایا آپ دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہیں جن صحابہ کو زندگی میں ہی جنت کی بشارت ملی تھی آپ ان میں سے ایک تھے آپ ایسے فضائل و فواضل کے جامع تھے جو دوسروں کو نصیب نہ ہو سکے مثلاً ورع و تقویٰ زہد کثرتِ علم و فضل اور حضور اکرم کی دامادی کا شرف، آپ ۴۰ ہجری ماہِ رمضان میں عبدالرحمٰن بن ملجم خارجی کے ہاتھوں شہادت سے سرفراز ہوئے آپ کی عمر اس وقت تریسٹھ ۶۳ برس تھی۔
حضرت علی کا علمی مقام :-آپ علم کے سمندر تھے، زور بیان قوت استنباط فصاحت و بلاغت اور شعر و خطابت میں عدیم المثال تھے، آپ فیصلہ کن عقل کے مالک تھے اور دور رس نگاہ رکھتے تھے، مشکل مسائل کا حل کرنے میں صحابہ اکثر آپ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے، رسول اکرم نے آپ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تھا، آپ نے ان کے حق میں یہ دعا فرمائی۔
اے اللہ اس کی زبان کو استقامت اور دل کو ہدایت عطا فرما
چناچہ رسول اللہ کی دعا قبول ہوئی اور آپ ان صفات سے بہرہ ور ہوئے، آپ کی قوت فیصلہ ضرب المثل کی حد تک مشہور تھی، عربی مثل میں عموماً کہا جاتا ہےقَضِیَّۃٌ وَّلاَ اَباَ حَسْنٍ لَّھاَ (پیچیدہ معاملہ ہے اور حضرت ابو الحسن علی موجود نہیں)
اس میں حیرت کی بات نہیں اس لیے کہ آپ نبوت کے گھرانے میں پلے بڑھے، علوم و معارف ان کی گھٹی میں پڑے تھے سینہ مبارک مخزن العلوم تھا۔
علقمہ حضرت ابن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ ہم کہا کرتے تھے مدینہ کے سب سے بڑے قاضی حضرت علی ہیں عطا سے دریافت کیا گیا آنحضور کے صحابہ میں حضرت علی سے بڑھ کر عالم تھا؟ کہا خدا کی قسم مجھے کوئی ایسا شخص معلوم نہیں جو ان سے بڑھ کر عالم ہو سعید بن جبیر حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت علی سے کوئی بات ثابت ہو جاتی تو ہم کسی دوسرے کی جانب رجوع نہ کرتے (اسدالغابہ، ج، ص ١٦- ١٤٠)
قرآن اور حضرت علی:- اسلام کے علوم و معارف کا اصل سر چشمہ کلام پاک ہے حضرت علی اس سر چشمہ سے ایسی اچھی طرح سیراب تھے کہ اس پر زیادتی محال تھی، آپ ان اصحاب میں سے تھے جنھوں نے آنحضرت کی حیات ہی میں پورا کلام مجید حفظ کر لیا تھا، نہ صرف لفظی طور سے حافظ تھے بلکہ اس کی ایک ایک آیت کے معنی اور شان نزول سے بھی واقف تھے، آنحضرت کو کلام مجید سنایا اور سب سے پہلے اس کو جمع کیا۔
جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفا صفحہ ۱۷۶ میں لکھتے ہیں کہ حضرت علی وہ ہیں جنھوں نے قرآن کو جمع کیا اور آنحضرت کے حضور میں پیش کیا محمد بن سیرین روایت کرتے ہیں
کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت علی نے حضرت ابو بکر صدیق سے بیعت کرنے میں ذرا توقف کیا حضرت ابو بکر نے وقتِ ملاقات پوچھا کیا آپ کو میری بیعت میں تامل ہے آپ نے کہا نہیں میں نے اس امر کی قسم کھائی ہے کہ جب تک قرآن شریف جمع نہ کرلوں گا بجز نماز کے وقت کے چادر نہ اوڑھوں گا اور کوئی کام نہیں کروں گا، بعد جمع قرآن آپ نے بیعت کی (کنز العمال جلد ۲ صفحہ۳۹۶ وتر جمہ تاریخ الخلفاءسیوطی صفحہ۱۹۷)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر سے جب لوگوں نے بیعت کی اور جناب علی مرتضی خان نشیں ہوئے تو لوگوں نے حضرت ابو بکر سے کہنا شروع کیا کہ حضرت علی نے آپ کی بیعت سے کراہت ظاہر کی تب حضرت ابو بکر نے حضرت علی سے کہلا بھیجا کہ کیا آپ کو مجھ سے بیعت کرنے میں کراہت ہے؟ حضرت علی نے فرمایا نہیں پھر انھوں نے پوچھا کہ خانہ نشین کیوں ہو گئے؟ آپ نے فرمایا کہ میں یہ سمجھا کہ کلام مجید میں کچھ نہ کچھ زیادتی ضرور کی جاۓ گی، لہٰذا میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں اپنی ردا سواۓ نماز کے اور کسی وقت نہ اوڑھوں اور جب تک کلام اللہ جمع نہ کرلوں اور کوئی کام نہ کروں، حضرت ابو بکر نے فرمایا آپ کی رائے مناسب ہے، فہرست ابن الندیم صفحہ ۴۱۰ میں بروایت عبد خیر حضرت علی سے مروی ہے کہ وقت وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کا اختلاف حضرت علی نے دیکھا تو قسم کھائی کہ جب تک قرآن شریف جمع نہ کرلوں گا کوئی کام نہ کروں گا، چنانچہ تین دن تک گھر میں بیٹھ کر آپ نے قرآن کو جمع کیا، عبد خیر کہتے ہیں کہ سب سے اول یہ قرآن جمع ہوا یہ قرآن حضرت جعفر کے یہاں تھا، ابن الندیم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن ابویعلٰی حمزہ جسنی کے یہاں دیکھا جس کے چند اوراق نہ تھے، یہ بطریق وراثت بنوحسن کے یہاں تھا اس میں سورتوں کی ترتیب اس مصحف کی طرح تھی، مناقب خوارزمی میں بھی بروایت عبد خیر بعد انتقال آنحضرت جمع قرآن فرمانا مرقوم ہے، ترتیب قرآن کے متعلق ارجح المطالب صفحہ۱۱۰ میں بروایت ابو عمر عثمان مرقوم ہے کہ حضرت علی نے سب سے پہلے سورۂ علق لکھی پھر سورۂ مدثر پھر مزمل پھر تبت یدا پھر تکویر اسی طرح تمام مکی سورتیں پہلے تھیں، اس کے بعد مدنی سورتیں تھیں، مولوی حاجی معین الدین ندوی خلفائے راشدین صفحہ ۲۸۹ میں لکھتے ہیں کہ ابن سعد میں ہے کہ آپ نے آنحضرت کی وفات کے بعد چھ مہینہ تک جو گوشہ نشینی اختیار کی اس میں آپ نے تنہا بیٹھ کر قرآن مجید کی تمام سورتوں کو نزول کی ترتیب سے مرتب کیا، ابن ندیم نے کتاب الفہرست میں سورتوں کی اس ترتیب کو نقل کیا ہے، فہرست ابن الندیم مقالہ اولی فن ثالث صفحہ۳۶ لغایت صفحہ ۴۰ میں ترتیب قرآن کے متعلق روایات لکھی ہیں، صفحہ ۳۹ میں مصحف عبداللہ ابن مسعود کی ترتیب قرآن کا ذکر ہے اس کے بعد مصحف ابی ابن کعب کی ترتیب کا جن میں سورتوں کے نام بہ ترتیب نزول مرقوم نہیں۔
ابن الندیم نے ترتیب نزول کی جہاں فہرست دی ہے وہ بروایت نعمان ابن بشیر لکھی ہے، حضرت علی کا وہاں کہیں تذکرہ نہیں کیا، ملاحظہ ہو صفحہ ۱۳۷ اور حضرت علی کے مصحف کا جہاں پر تذکرہ کیا ہے۔
وہاں پر کہیں ترتیب نزول کے متعلق کچھ نہیں لکھا ملاحظہ ہو روایت عبد خیر صفحه ۴۱ کتاب الفہرست۔
ترتیب نزول کا تذکرہ علامہ جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفا صفحہ ۱۹۷ میں اس طور پر کرتے ہیں کہ
”لوگوں کا گمان ہے کہ آپ نے قرآن شریف اسی ترتیب سے جمع کیا تھا جس طرح کہ نازل ہوا تھا، محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ اگر وہ قرآن شریف ہمارے پاس تک پہنچتا تو علم کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہوتا، یہ روایت البتہ ابو عمر عثمان والی روایت کی نؤید ہوسکتی ہے، بشرطیکہ صحیح ہو، حضرت علی مرتضی کو علم ناسخ و منسوخ میں بھی کمال حاصل تھا اس امر کو آپ پورے طور پر جانتے کہ کون آیت ناسخ اور کون منسوخ ہے، اس امر میں آپ کو بہت غلو تھا، جس کو اس امر میں ادراک نہ ہوتا، اس کو آپ درس اور وعظ سے روک دیتے چنانچہ جامع مسجد کوفہ میں جو شخص وعظ و تذکیر کرنا چاہتا تھا تو آپ اس سے دریافت کر لیا کرتے تھے کہ تم کو ناسخ و منسوخ آیات کا بھی علم ہے، اگر وہ نفی میں
جواب دیتا تو آپ اس کو تنبیہ فرماتے اور درس و وعظ کی اجازت نہ دیتے، حضرت علی کو ظاہری علوم کے علاوہ آنحضرت نے کچھ اور خاص باتیں بتائی تھیں، لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ قرآن کے علاوہ آپ کے پاس اور بھی کچھ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔
والذي فلق الحبة و برء النسمة الا فـهـم يـؤتـيـه الـلـهعز وجل رجلا فیالقرآن او ما في الصحيفة‘‘
(مسند امام احمد بن جنبل جلد ا۱، صفحہ ۷۹ و ۱۰۰ او بخاری کتاب الایات)
قسم اس ذات کی جو دانہ سے درخت اگاتا ہے اور جان کو جسم میں پیدا کرتا ہے قرآن کے سوا میرے پاس کچھ نہیں لیکن قرآن کو سمجھنے کی قوت یعنی فہم البتہ ہے اور یہ ایسی
دولت ہے کہ خدا جس کو چاہے دے اور حدیثیں بھی میرے پاس ہیں۔
اس موقعہ پر حضرت علی نے جو قسم کھائی اس میں خاص نکتہ مضمر ہے، قرآن کی آیتوں کی تشبیہ تخم اور جسم سے دی اور اس کے معانی اور مقاصد کی تشبیہ درخت سے دی ہے، درخت تخم ہی سے پیدا ہوتا ہے اور جان جسم ہی میں پوشیدہ ہوتی ہے، جس طرح ایک چھوٹے سے تخم سے عظیم الشان درخت ظاہر ہوتا ہے جو حقیقتاً اسی تخم کے اندر مختفی ہوتا ہے اسی طرح سے روح بھی جسم کے اندر مخفی رہتی ہے، جس سے تمام اعمال وافعال انسانی ظاہر ہوتے ہیں، کلام مجید کے ظاہری الفاظ سے بھی ہر صاحب فہم اپنی استعداد کے موافق معانی و مطالب اخذ کر سکتا ہے، طبقات ابن سعد و تاریخ ابن عساکر میں ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ خدا کی قسم کوئی ایسی آیت نازل نہیں ہوئی جس کے متعلق میں نہ جانتا ہوں کہ یہ کہاں اور کیوں اور کس کے حق میں نازل ہوئی، اللہ تعالی نے بوجہ کمال محبت مجھے عقل کامل و لسان ناطق عطافرمائی (کنز اعمال جلد ۶ صفه۲۹۶)
ابوالطفیل عامر ابن واثلہ کہتے ہیں کہ میں حضرت علی کے حضور میں حاضر ہوا وہ فرماں رہے تھے کہ مجھ سے دریافت کرو خدا کی قسم تم لوگ جو بات مجھ سے دریافت کرو گے میں تم کو اس سے مطلع کروں گا۔
مجھ سے کتاب اللہ کے بارے میں پوچھو بخدا کوئی آیت ایسی نہیں جس کے متعلق مجھے علم نہ ہو کہ یہ رات میں نازل ہوئی یا دن میں، زمین ہموار میں یا پہاڑ پر (استیعاب جلد۲صفحہ ۴۷۶، ریاض النضرۃ جلد۲صفحہ۱۹۸، ترجمہ تاریخ الخلفا السیوطی صفحہ ۱۹۶)۔
عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ کلام مجید سات حرفوں پر نازل ہوا اور کوئی حرف ایسا نہیں جس کے لیے ظاہر و باطن نہ ہو۔ اس کا ظاہر و باطن درحقیقت حضرت علی کے پاس ہے (۱)۔ ملانبین فرنگی محلی وسیلۃ النجاۃ صفحہ ۱۴۰ میں بعد اس ارشاد کے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے لا رطب ولا يابس الافي كتاب مبین سب تر و خشک اس کتاب میں ہے، حضرت علی کو ہفت بطن قرآن کا علم تھا اور ہر رطب و یابس جو قرآن میں نازل ہوا وہ امام العالمین کے حیطہ علم میں تھا، عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے ستر سورتیں قرآن شریف کی آنحضرت سے پڑھیں اور بہترین خلائق علی ابن ابی طالب نے پورا کلام مجید ختم کیا، جمع الفوائد جلد ۲ صفحہ ۲۱۲ میں بروایت حضرت ام سلمہ مروی ہے کہ میں نے آنحضرت کو فرماتے سنا ہے کہ قرآن علی کے ساتھ اور علی قرآن کے ساتھ، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک کہ حوض کوثر پر وارد نہ ہوں، (حـديـث الـقـرآن مـع علـى) کے متعلق روایات حصہ اول کتاب السیرۃ العلویہ بذکر المآثر المرتضوی موسومه به احسن الانتخاب فی ذکر معیشت سیدنا ابی تراب‘‘ میں مذکور ہو چکے، امام احمد مناقب میں بروایت عبداللہ ابن عیاش زرقی لکھتے ہیں کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ حضرت علی کے حال سے ہمیں مطلع کرو وہ کہنے لگے ہم کو اس کی ممانعت ہے اور اس کی باز پرس بھی ہوتی ہے اور ہم کو یہ برا بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم وہ بات کہیں جو ہمارے بنی عم ( بنی امیہ ) کہہ رہے ہیں علی ایسے تھے جو مزاح بھی کرتے تھے اور جب ڈراتے تھے تو لوہے کے دانتوں سے ڈراتے تھے، ان سے پوچھا گیا کہ لوہے کے دانتوں سے کیا مراد ہے؟ عبداللہ نے کہا قرائت قرآن فقہ فی الدین، شجاعت وسماحت مراد ہے۔ (ریاض النضرۃ جلد۲صفحہ۲۲۱)
حضرت علی کو کلام مجید سے اجتہاد اور مسائل کے استنباط میں یدطولی حاصل تھا، چنانچہ تحکیم کے مسئلہ میں جب خوارج نے آپ پر اعتراض کیا کہ فیصلہ کا حق سوائے خدا کے اور کسی کو نہیں ”ان الـحـكـم الا لله“ تو آپ نے تمام حفاظ اور واقف کاران کلام مجید کو جمع کر کے فرمایا کہ زوج و زوجہ میں جب اختلاف رائے ہو جائے تو حکم بنانے کی اللہ تعالی نے اجازت دی ہے ’’ان خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكماً من اهله و حكماً من اهلها“ اور امت محمدیہ میں جب اختلاف رائے ہو جائے تو حکم بنانا جائز نہ ہو اس کے کیا معنی کیا تمام امت محمدیہ کی حیثیت ایک مرد اور ایک عورت سے بھی خدا کی نگاہ میں کم ہے۔ (مسند امام احمد بن حنبل جلد صفحہ ۸۶ دریاض الصفر 5 جلد۲ صفحه ۲۴۰)
قرآن اور حضرت علی مرتضیٰ :- حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب یہ آیت طیبہ اتری ’’وتعیھا اذن و اعیتہ‘‘ اور محفوظ رکھیں اسے یاد رکھنے والے کان۔
تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی میں نے اللہ رب العزت سے التجا کی ہے کہ وہ تمہارے کانوں کو اس طرح بنا دے، حضرت علی المرتضیٰ نے فرمایا میں اس کے بعد کسی چیز کو نہیں بھولا، میرے لیے روا بھی نہیں تھا کہ میں بھولتا۔ (تفسیر الطبری ۳۵/۲۹)
القرآن مع علی و علی مع القرآن :- ارشاد مبارک حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
القرآن مع علی و علی مع القرآن ترجمہ قرآن علی کے ساتھ ہیں علی قرآن کے ساتھ ہیں۔
(کنزالعمال جلد 11 صفحہ 603 ،نیابع المودہ صفحہ 453، بحوالہ طبرانی الاوسطی بروایت ام سلمہ، تاریخ خلفاء علامہ سیوطی صفحہ 260 بروایت ام سلمہ)
عنِ ابْنِ وَاثِلَةَ أنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أرْقَمَ، يَقُوْلُ : نَزَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ مَکَّةَ وَ الْمَدِيْنَةِ عِنْدَ شَجَرَاتٍ خَمْسٍ دَوْحَاتٍ عِظَامٍ، فَکَنَّسَ النَّاسُ مَا تَحْتَ الشَّجَرَاتِ، ثُمَّ رَاحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَشِيَةً، فَصَلَّی، ثُمَّ قَامَ خَطِيْباً فَحَمِدَ اﷲَ وَ أثْنَی عَلَيْهِ وَ ذَکَرَ وَ وَعَظَ، فَقَالَ : مَا شَاءَ اﷲُ أنْ يَقُوْلَ : ثُمَّ قَالَ : أيُهَا النَّاسُ! إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتَمُوْهُمَا، وَ هُمَا کِتَابُ اﷲِ وَ أهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي، ثُمَّ قَالَ : أتَعْلَمُوْنَ أنِّي أوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهُمْ؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔
وَقَالَ حَدِيثُ بُرَيْدَةَ الْأسْلَمِيِّ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ۔
ترجمہ :- حضرت ابن واثلہ سے روایت کہ انہوں نے زید بن ارقم سے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے درختوں کے قریب پڑاؤ کیا، لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا، نماز ادا فرمائی پھر خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت فرمائی پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت و عترت ہیں‘‘ اس کے بعد فرمایا ’’کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ ایسا تین مرتبہ فرمایا، سب نے کہا جی ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا علی مولیٰ ہے‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ بریدہ اسلمی کی روایت کردہ حدیث امام بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے‘‘
الحديث رقم 46، أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، 110، الحديث رقم۔
آپ کا تفسیری پایہ :- بہترین قاضی و مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت علی مرتضیٰ قرآن عزیز کے اسرار و رموز کے بھی عظیم عالم تھے، حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ
میں نے تفسیر قرآن سے متعلق جو کچھ بھی سیکھا حضرت علی سے سیکھا
ابو نعیم الحلیہ میں حضرت علی کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ
بخدا مجھے ہر آیت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ کس ضمن میں اور کہاں اتری، مجھے ذاتِ ربانی نے روشن دماغ اور زبانِ گویا بخشی ہے
ابو طفیل کا قول ہے کہ
میں نے بزاتِ خود سنا کہ حضرت علی خطبہ فرما رہے تھے جو پوچھنا چاہو پوچھ لو، خدا کی قسم تم جو بات بھی پوچھو گے میں وہی تمہیں بتاؤں گا، مجھ سے کہا کہ اللہ کے بارے میں دریافت کر لو۔ بخدا کوئی آیت ایسی نہیں جس کے بارے میں مجھے علم نہ ہو کہ وہ دن کو اتری یا رات کو، میدان میں اتری یا پہاڑ پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.