Sufinama

خواجہ غریب نواز کی درگاہ کا تاریخی پسِ منظر

فیض علی شاہ

خواجہ غریب نواز کی درگاہ کا تاریخی پسِ منظر

فیض علی شاہ

MORE BYفیض علی شاہ

    بقول خواجہ غریب نواز

    تصوف کا تعلق دل کی نفاست سے ہے، دل اللہ کا گھر ہے، یہ کائنات کی کل حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے اس نور سے وجدانی کیفیت پیدا ہوتی ہے، تصوف روحانی تعلیم کی اس منزل کو کہتے ہیں جہاں اسرارِ خداوندی کے پرتو نظر آتے ہیں، علم و عرفان کے وہ دروازے کھل جاتے ہیں جہاں حقیقت جلوہ نما ہے

    شیخ علی اپنی تصنیف ’’ہند کی مایہ ناز ہستیاں و دیگر مضامین‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ

    ’’تضوف دین کا وہ جز ہے جہاں روحانی احساسات پیدا ہوتے ہیں اور خدا بینی و خود بینی کی کوشش امتحاں کو پہنچ کر انسانی وجود کا اصل مقصد ہاتھ آ جاتا ہے، وہ مقصد صبر و استقلال ذکر و فکر راز و نیاز اور امید و خوف کے ذریعہ رب العالمین کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، اس کے لیے ضرورت ہے علم و عمل کی، اس علم کو علمِ عرفان کہتے ہیں‘‘

    خدا کے بہت برگزیدہ بندے جیسے انبیا اس علم کو الہام کے ذریعہ پاتے تھے، ان کے بعد اؤلیائے اکرام اس الہام کو ایک خاص مسلک سے حاصل کرتے تھے جو تصوف کی خاص تکنیک بن گیا، اس تکنیک کے چار مدارج ہیں یعنی شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت۔

    خواجہ غریب نواز تاریخِ آثار اور تعمیرات :-

    ۱۔ حالِ تعمیر روضۂ خواجہ غریب نواز :- اخبارالاخیار میں لکھا ہے کہ

    ’’خواجہ حسین ناگوری نے جو حضرت شیخ حمیدالدین ناگوری کی اولاد میں تھے، حضرت خواجہ غریب نواز کے مزار پر انوار پر بہت عرصے تک مجاوری کی اس زمانہ میں اجمیر شریف بالکل غیر آداب تھا اور اس کی گرد و نواح میں بہت سے درندے رہا کرتے تھے، یہاں تک کہ حضور کے مزار مقدس پر کوئی عمارت نہ تھی، خواجہ حسین ناگوری نے روضۂ مقدس کی عمارت بنوانے میں کوشش کی اور سلطان غیاث الدین خلجی کے اعانت سے اپنے ارادے میں کامیابی حاصل کی اس کی وجہ یہ ہوئی کہ سلطان مزکور خواجہ حسین ناگوری سے نیاز حاصل کرنے کا بہت مشتاق تھا، کئی مرتبہ آپ کو بلوایہ گیا مگر آپ تشریف نہ لے گئے جب سب طرح سے لاچار ہوگیا تو بادشاہ نے اپنے مشیروں کی صلاح سے یہ کہلا بھیجا کہ میرے پاس موئے مبارک حضرت محمد ہیں، یہ سنتے ہی خواجہ حسین زیارت کے لیے تشریف لے گئے سلطان نے بہت سے تحفہ تحائف آپ کے حضور میں پیش کیے لیکن حضرت ممدوح کے منظور نہ فرمائے اگر آپ کے صاحبزادے والا تیار نے خواہش ظاہر کی خواجہ حسین نے فرمایا کہ اس شرط سے تم لے سکتے ہو کہ اس روپے سے خواجہ بزرگ اجمیری اور حضرت شیخ حمید الدین ناگوری کے روضۂ مقدسہ کی عمارت بنوا دوں، صاحبزادے صاحب نے یہ منظور کر لیا اور سب وعدہ دونوں بزرگوں کے رونے بنوادے خواجہ بزرگ کے روضۂ منورہ کی دیوار میں اور سنگ مرمر کی جالی پر خط نستعلیق میں یہ تاریخ کندہ کرا دی۔

    از پے تاریخ نقش گنبد خواجہ معین

    گفت ہاتف گو معظم قبۂ عرش بریں

    اس تاریخ سے ۹۳۹ہجری نکلتی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی کے نقش نگار کی تاریخ ہے کیوں کہ سن ۸۶۸ ہجری میں سلطان غیاث الدین خلجی کا انتقال ہوچکا تھا اور اوپر کی عبارت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے زمانہ میں ہی روضۂ منورہ کی تعمیر ہوئی ہے، گنبد کا بڑا کلس اور کنگوروں کی چھوٹی چھوٹی کلسیاں بھی سنہری ہیں اندر کے رخ لاجوردی اور سنہرے بیل بوٹے بنے ہوے ہیں، چھت میں کاشانی مخمل کی زریں چہت گیری لگی ہوئی ہے اور اس کے چاروں کونوں میں قمقمے سونے کی زنجیروں میں لٹکے ہوئے ہیں مؤرخ نے ہر ایک قمقمے کا تخمینہ پانچ ہزار روپے کا لکھا ہے ان کے علاوہ چاندی کے قمقمے بہت سے لٹکے ہوئے ہیں اور کئی بڑے بڑے آئینہ دیوار میں نصب میں اور ان کے گرد سنہری چوکٹے لگے ہوئے ہیں اور غالباً ایسا معلوم ہوتا ہےکہ خواجہ حسین ناگوری کے وقت میں اندر کی نقاشی از سر نو ہوئی ہے، مزار شریف پر سیپ کے کام کا صندلی چھپر کہٹ رکھا ہوا ہے چھپر کھٹ کی چھت میں سبز مخمل رومی کی اور کبھی زر اور نگ کی نہایت زرین چہت گیری لگی رہتی ہے اس کے چاروں کونوں پر سونے کے قمقے لٹکے رہتے ہیں چھپر کھٹ کے اندر نہایت عمدہ سنگ مرمر کا مزار مقدس بنا ہوا ہے اس پر سنگ طلائی ابری دیشب و نیز زه وا عجوبہ و مہینہ وغیرہ کے بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں مزار شریف کا تعویز بھی سنگ مرمر کا ہے اسین لعل بد خشانی جڑا ہوا ہے آپ کے مزارپر زرلفت یا کمخواب کا غلاف بشیہ چڑہا رہتا ہے اور اس پر پھولوں کی چادر رہتی ہے۔

    مزار مبارک کے گرد چاندی کا کٹہرا لگا ہوا ہے بعض مورخین کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ چاندی کے کٹہرے کی جگہ پہلے سونے کا کٹہرا تھا چنانچہ جہاں گیر بادشاہ نے تزک امیری میں لکھا ہے کہ ۵۲۰۱ ہجری میں ان کے وسیلے سے میری بعض مرادیں پوری ہوئیں اس اس کے نذرانہ میں جانلیدار طلائی کٹہرہ بنوا دیا اور اس کی لاگت میں ایک لاکھ دس ہزار روپے خرچ ہوا، اس کٹہرے کے متصل چاندی کا کٹہرا راجہ جے سنگہ جی سوائی جیپور کا بنوایا ہوا ہے جس کا وزن بیالیس ہزار نوسو اکسٹھ تولہ و ماشہ ہے، بعض مؤرخوں کا قول ہے کہ یہ دونوں کٹہرے شاہ جہاں بادشاہ کی بیٹی جہاں آرا بیگم نے بنوائے اور اپنے تمام گرو پشیون کو آستانہ شریف کی خدمت گزاری کے لیے نذر کر دیا، چنانچہ ان لوگوں کی اولاد اب تک موجود ہے، گنبد شریف کے فرش میں سنگ مرمر کے مربع پتھر نہایت جلا کیے ہوئے لگے ہیں انکے گزرنگ موٹی کی بیڑیاں جڑی ہوئی ہیں، گنبد کے مشرقی دروازہ سے ملے ہوئے دو ہجرے بنے ہوئے ہیں ان میں ایک حجرہ کا دروازہ تیغہ کیا ہوا ہے، اکثر لوگوں کا قول ہے کہ اس کے اندر سونے کی سلاطین اور سونے چاندی کے برتن رکھے ہوئے ہیں، غالباً وہ سلاطین اسی کٹہرے کی معلوم ہوتی ہیں جو جہاں گیر بادشاہ نے بنوایا تھا، روضۂ منورہ کے مشرقی دروازہ میں جو کواڑ دن کی جوڑی ہے اس کی نسبت لوگ کہتے ہیں کہ یہ اکبر بادشاہ نے چتوڑ گڑھ کے قلعہ سے لا کر چڑہائی تہی چنانچہ یہ شعر اس پر کندہ ہے شعر۔

    رکہے ہمیشہ تری تیغ کار کفر تباہ

    بحق اشهد ان لا اله الا اللہ

    اس دروازہ کے آگے جو دوسرا دروازہ ہے اس کی دیواروں پر خط نستعلیق یہ نظم کہی ہوئی ہے۔

    بیا کہ کعبہ اہل دل است خواجہ معین

    کہ طوف مرقد آدمی کنبد شاہ و گدا

    ز راہ صدق ور آور مقام خواجہ معین

    کہ ہست روضئہ پاکش چو جنت الماوا

    روضہ کے باہر والے دروازہ میں ۰۴۲۱ ہجری میں نواب فیض اللہ خاں نبگش رئیس فرخ آباد نے از و بات کی کمانی دار کواڑ چڑھوائے اور ان پر یہ تاریخ کنده گرا دی۔

    قطعۂ تاریخ

    خان فیض اللہ نیگش کہ نگاہش عالی است ساخت دروازه درگاه معین جاوید

    چوں کہ درگاہ معین است چو خورشید بلند سال تاریخ شدہ باب طلوع خورشید

    اسی دروازہ کے شمالی رخ کے پہلو میں بہت بڑا عقیق یمنی رز درنگ جڑا ہوا ہو روضۂ شریف کی غربی اور جنوبی محرابوں میں سنگ مرمر کی جالیوں پر زرین پڑے پڑے ہوئے ہیں گرمی کی موسم میں زرین پر دوں کو مارے جس کے پردے لگائے جاتے ہیں درگاہ معلیٰ کے متعلق ۷۵ ہزار روپیہ سالانہ کی صحافی ہے کہ جو بادشاہی وقت سے اب تک چلی آتی ہ، اگر روضہ عنوان بلکہ اشک فردوس کیا جاتی تو بجا و زیبا ہے۔

    ۲ حالاتِ اکبری مسجد درگاہ شریف :-

    یہ مسجد اکبر بادشاہ نے بڑے ذوق شوق سے بنوائی تھی اور زرِ کثیر صرف کیا تھا، وہ اب تک موجود ہے، شاہ جہانی دروازے سے ذرا آگے بڑھ کر اکبری مسجد کی سیڑھیوں سے متصل ایک سہ دری میں یونانی شفا خانہ ہے، اسی سے متصل ایک بلند زینے پر اکبری مسجد کا بلند و بالا دروازه سے اس مسجد کی تعمیر کا حکم اکبر بادشاہ نے اس وقت دیا تھا جب وہ جہاں گیر کی ولادت کے چھ ماہ بعد اظہار تشکر و نیاز کے لیے شعبان ۹۷۷ھ میں حاضر دربارِ خواجہ ہوئے تھے، یہ مسجد سنگ سرخ سے تعمیر کی گئی ہے محرابوں پر سنگ مرمر کی پچ کاری ہے، مسجد کا رقبہ مع متعلقہ عمارت ۱۴۰ مربع فٹ ہے، محراب مسجد ۵۶ فٹ بلند ہے، گنبد کے گوشوں پر مرمر میں مینار ہیں، صحنِ مسجد میں ایک ہشت پہل حوض تھا جواب مٹی سے پُر کر دیا گیا ہے، تقریبا ڈیڑھ دو سو سال قبل اس میں ایک کنواں بھی تھا، ۱۳۲۰ھ میں مسجد کی متعلقہ عمارات کی مرمت کرانے کی سعادت نواب غفور علی خاں داناپوری نے حاصل کی، آج کل دارالعلوم معینیہ عثمانیہ کے پرائمری درجات اوقات درس میں یہاں لگائے جاتے ہیں اور بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

    ۳ حالاتِ جامع مسجد شاہ جہانی :-

    ملک رانا اودے پور کی فتح کے بعد شاہ جہاں بادشاہ کو اجمیر شریف میں آنے کا اتفاق ہوا اور چوں کہ یہاں کوئی مسجد نہ تھی اس لیے بادشاہ کو خیال ہوا کہ یہاں ایک وسیع اور رفیع مسجد تعمیر کرائی جائے جب بادشاہ لاہورمیں تخت شاہی پر بیٹھا تو اس کے بنوانے کا حکم دیا، حضرت عبداللہ چشتی ’’مراۃالا سرار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ مسجد چودہ برس میں تیار ہوئی اور اس کی لاگت کا اندازہ دو لاکھ چالیس ہزار کا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نتے نتے ملتوی ہوگئی اور بعد ایک مدت کے پوری ہوگئی، کیوں کہ اس مسجد کی حیثیت کے لیے تین چار سال کافی ہیں اس مسجد کا طول ۷۰ گز اور عرض ۲۷ اور صحن ۹۹ گز شرعی ہے شرعی گز متوسط درجہ کے آدمی کے ۲۴ انگشت کا ہوتا ہے، صحن میں پانچ دروانے ہیں تین مشرقی رو ایک شمال رو اور ایک جنوب رو، ہر ایک دروازہ کی محراب میں سنگ مرمر لگا ہوا ہے اور اس میں سنگ موسیٰ کو مختلف کتبہ کندہ ہیں، بیچ کی محراب میں ’’لا الہ الا محمد رسول اللہ‘‘ سونے کے پانی سے لکھا ہے، ایک یہ بات وہاں کی عحبیب و غریب مشہور ہے بتاریخ ۷ ماہ رجب ۱۹۲۱ ہجری میں تبرکات حضرت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو وہاں آکر رکے گئے تو بیچ کی خراب میں ٹھنڈا پانی خود بخود دن بھر جاری رہا اور تمام لوگوں نے اس کو تبرکا لیا حوض کے بجائے مسجد کے جنوبی پہلو میں ایک بہت گہری جھیل ہے جو اب جھالر کے نام سے مشہور ہے پہلے برسات کے موسم میں اس میں ایک ڈالر بھی نکلتا تھا جو گڑھ بہیٹلی کے نام سے مشہور تھا اور آگے جا کر بوندی کے نام سے مشہور تھا، جب اکبر بادشاہ نے شہر کی فصیل بنوائی تو اس نالہ کو درگاہ شریف کے بازار کی طرف کاٹ دیا اور اس کا بند بندھواں دیا، بند کے کنارے شاہ قلی خاں اجمیر کے صوبہ کا مقبرہ بنا ہوا ہے جو انہونے اپنی حیات ہی میں بنوا دیا تھا، اس کی وجہ سے لوگوں کو بہت آرام ہوگیا اسکی گہرائی کا کچھ پتہ نہیں لگتا، یہاں ایک دفع کا ذکر ہے کہ خشک سالی کی وجہ سے بہت ہی تھوڑا پانی رہ گیا تھا یہاں تک کہ لوگ کٹوروں سے بھرتے تھے لیکن پھر بھی تمام شہر کے آدمیوں کے لیے خالی ہوگیا اس کے بعد معلوم ہوتا ہے تہ سے پانی ملتا ہے جب برساتیں بکثرت بارش ہوتی ہے تو اس میں عجیب کیفیت آتی ہے، حوض میں بتخیں تیرتی ہیں اور بہت سے لوگ رات کے وقت کشیتوں میں چراغ جلا کر خواجہ حضرت کو نام کے چھموڑتے ہیں اس میں سے دو موریاں نکلتی ہیں ایک آستانہ سے ہوتی ہوئی بازار میں جا نکلتی ہے اور دوسری درگاہ شریف میں گذرتی ہوئی مشرق کی طرف چلی گئی ہے، اس کا نقشہ جھالر کے جنوبی رخ سے کہنچا گیا ہے، اس میں درگاہ شریف کے پہلے درجہ کی عمارتین نظر آتی ہیں۔

    ۴ حالات ڈھائی دن کی مسجد/ڈھائی دن کا جھونپڑا :-

    ڈھائی دن کی مسجد جس کو ڈھائی دن جھونپڑا بھی کہتے ہیں اس مسجد کی جگہ راجہ اندرسین کے زمانہ میں بہت بڑا مندر بت خانہ کے نام سے مشہور تھا، سیکڑوں تصاویریں ہزاروں جانوروں کی صورتین اس میں بنی ہوئی تھیں سلطان شہاب الدین غوری بادشاہ ۵۹۵ ہجری میں یہاں آیا تو اس بت خانہ کی تمام صورتیں مسخ کر دیں اور اس کو خانہ خدا بنا دیا عمارت میں بھی تھوڑی سی ترمیم کر دی یعنی غربی دیوار کے بیچ میں ایک محراب سنگ مرمر کی بنوا دی اور اس پر آیاتِ قرآنی بخط طغرا کندہ کرکے تاریخ نبا لکھ دی وہ یہ ہے۔

    فی الحادی والعشرین جمادی الاخر سنہ خمسه و تسعین و خمسه ماۃ باتی مرست ابو بکر بن احمد کوہتام سے سال بھر ٹک جاری رہی، چنانچہ عربی دیوار میں یہ عبارت کندہ ہے۔

    تی تولیتہ ابو بکر بن احمد جمال الفضلہ با تاریخ ذی الحجه ستون و تسعین خمسه ماۃ سن ۴۱۶ ہجری من سلطان شمس الدین التمش نے اس مسجد کی حیثیت کو بدل کر ایک اور درجہ سنگ سرخ سے بہت عمدہ اور مضبوط بنوا دیا اس کی صورت اس طرح ہوگئی ہے کہ غربی سمت میں قدیمی تب خانہ کا درجہ قائم ہے امین بہت عارہ عمدہ صاف اور شفاف سنگ مر مر کے ستون اور اس پر تین تین برجیاں دونوں طرف اور بیچ میں ایک بڑی برجی بنی ہوئی ہے اور ستون کے نقش و نگار بھی راجہ اندرسین ہی کے زمانہ کے ہیں اس درجہ کے غربی دیوار کے وسط میں سنگ مرمر کی محراب ہے جو سلطان شہاب الدین غوری نے بنائی تھی مشرق کی طرف اسی درجہ سے ملا ہوا دوسرا درجہ بھی تفانہ ہی کا ہے یہ درجہ طول میں تو پہلے درجہ کے برابر ہے لیکن عرض میں کچھ کم ہے دونوں درجوں کے آگے تیسرا درجہ سلطان شمس الدین التمش کا بنایا ہے، اس میں بڑی بڑی سات محرابیں ہیں بیچ کی محراب بہت بڑی ہے اسی کے دونوں طرف دو مینار سرخ پتھر کی بنی ہوئی ہیں، شمال محراب کے پہلو میں یہ کتبہ کندہ تھا فی نو تبہ تولیتہ احمد محمد العارض یہ اس شخص کا نام ہے جس کے اہتمام سے سلطان شمس الدین التمش کی تعمیر کروائی تھی لیکن اب یہ پتھر دوسرے درجہ کی برجی کے اندر جنوب کی طرف لگایا ہے، چار دیواری تخمیناً پونے بارہ گز کی ہے اور آمد و رفت کے لیے دو عالیشان دروازے بنے ہوئے ہیں۔

    ۵ احوالِ مجلس خانہ :-

    یہ مجلس خانہ دوسرے درجہ کے شرق رو اور پاپخ رو کا دالان میر حفیظ علی متولی آستانہ کے اہتمام سے ۰۷۴۱ ہجری میں نہایت عالیشان بنایا گیا تھا اس کی عمارت پہلے ایسی ہی تھی جیسی اتر دکہن والے دالانو کی تھی، اس میں وسعت نہ تھی اس واسطے اس کو منہدم کرا کے یہ دالان بنایا گیا، اس کی تعمیر میں تخمیناً چھ ہزار روپیہ علاوہ مصالحہ قدیم کے خرچ ہوئے اب دوبارہ حاتم زمان فریدوں دوران عالی جناب معلیٰ القاب نواب رفعت جنگ بشیر الدولہ بہادر مدار ملہام ریاست حیدرآباد دکن نے بصرف زر کثیر بنوا یا، یہ مجلس خانہ ایک دفعی بنتے بنتے گر گیا جس کو پھر بنوایا گیا، اس تعمیر میں تقریباً ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے اس کے علاوہ نواب صاحب ممدوح نے اپنی بینازانہ دریا دلی سے اس کی روشنی کے خرچ کے واسطے کچھ گاؤں بھی وقف کر رکھے ہیں حبس کی آمدنی سے مجلس خانہ میں نہایت عالیشان جھاڑ فانوس سجائے جاتے ہیں اور ہزار بتی کی روشنی ہوتی ہے، یہ مجلس خانہ ایسا وسیع ہے کہ با وجود ہزار ہا خلقت کے پھر بھی جگہ فراخ رہتی ہے دور دور مقام سے نامی نامی قوال آ کر گاتے ہیں، اس مجلس کا انتظام نہایت ہی عدہ طور سے کیا جاتا ہے، معزز لوگوں کو جاڑے میں چادر وغیرہ بھی دی جاتی ہے چوں کہ عرس شریف میں اسی جگہ مجلس ہوتی ہے اسی وجہ سے مجلس خانہ کے نام سے مشہور ہے اس کے آگے ایک دروازه شمال رو ایک جنوب رو نہایت خوش وضع بنا ہوا ہے دروازے کے شرقی پہلو میں ایک چھوٹا سا دالان ہے جہاں پانی کی سبیل لگتی ہے اس کے سامنے ایک مربع حوض بنا ہوا ہے اس حوض کے پہلو میں ایک دروازہ ہے سے سبیلی دروازہ کہتے ہیں، ان دونوں دروازوں میں سے روضۂ منورہ کے جانے کا راستہ ہے دروازہ سے روضہ شریف کے راستہ کی طرف تمام فرش سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور دروازے کے ادھر یعنی دوسرے درجہ کی طرف سنگ سرخ کا فرش ہے مگر شرقی حصہ میں ایک سنگ مرمر کا چبوترہ بنا ہوا ہے جس میں شاہ نصیرالدین جو صاحبِ کرامت ہیں اسی جگہ مدفون ہیں آپ کے متصل مولانا کافی کا مزار ہے، کہتے ہیں اس چبوتروں کے نیچے قدیم تیخانہ بنا ہوا تھا، شاہان اسلام کے وقت میں نیون کو توڑ ڈالا باقی عمارت بدستور قائم رہنے دی اس چبوترہ کے مشرقی شمالی حصہ میں عمدہ عمدہ دالان بنے ہوئے تھے نظر جس کے اب حجرے بنا دئیے گیے ہیں اس کے صحن میں ایک ہشت پہل جہتری گنبد کی شکل کی بنی ہوئی ہے اس کے اندر ازدہات کا فتیل سوز جس کو چراغ صحن کہتے ہیں قد آدم اونچا نصب ہے کہتے ہیں کہ یہ چراغ اکبر بادشاہ نے قلعہ چتور گڑ سے لاکر چڑھایا تھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ چراغ اسی تیخانہ کا ہے، اس صحن میں بلند دروازے کے قریب غرب کی طرف ایک دیگ ہے جو بڑی دیگ کے نام سے مشہور ہے اتنی بڑی ہے کہ شاید اس کی نظیر دوسری جگہ مل سکے، یہ دیگ پہلے جلال الدین اکبر بادشاہ نے بنوائی تھی اور اس کی وجہ یہ ہے ۹۷۴ ہجری میں جب جلال الدین محمد اکبر بادشاہ چتور گڑھ کو فتح کرنے گیا تو قلعہ فتح کرنے سے پہلے یہ عہد کیا تھا کہ قلعہ فتح کرنے کے بعد اجمیر شریف جاؤں گا اور بڑی دیگ چڑہاؤں گا، چناچہ قلعہ چتور گڑھ فتح کرنے کے بعد جلال الدین محمد اکبر شاہ پیادہ پا کونچ کرتا ہوا ۷ رمضان المبارک روز یک شنبہ سنہ مزکور کو اجمیر میں داخل ہوا اور زیارت سے مشرف ہو کر دیگ چڑ ہائی، اب دوبارہ درگاہ شریف کی طرف سے یہ دیگ نبوائی گئی دوسری دیگ چھوٹی دیگ کے نام سے مشہور ہے، یہ دیگ بھی اسی صحن میں بلند دروازہ کے قریب مشرق کی طرف سے یہ دیگ ۱۰۲۲ھ میں جہاں گیر بادشاہ نے بنوائی تھی، جہاں گیر بادشا نے اپنی تزک جہاں گیری کے آٹھویں جشن میں کہا ہے کہ میں نے دیگ اکبر آباد سے تیار کراکر روضۂ منورہ خواجہ میں چڑھائی اور اس میں کھانا پکوا کر فقیر اور مسکینوں کو کھلایا، پانچ ہزار آدمی اس کے کھانے سے شکم سیر ہوئے، کچھ عرصہ بعد اس دیگ میں جابجا سوراخ ہوگئے تھے۱۲۶۶ھ میں ملا مداری صاحب مدارالمہام ریاست گوالیار نے دونوں دیگوں کو بنوایا، اکثر دولت مند عرس شریف کے موقع پر دیگ پکواتے ہیں، بڑی دیگ میں سومن چانول اور چھوٹی دیگ میں ۸۰ من چانول اور اس قدر شکر گھی میوہ وغیرہ ڈالا جاتا ہے اور رات کو دیگ پک کر سب کو لوٹی جاتی ہے اور لوٹتے وقت عجیب لطف نظر آتا ہے اور لوگ تبرکاً دیگ کے کھانے کو خرید کر کہا تے ہیں۔

    عمارات درگاہ خواجہ غریب نواز :-

    درگاہ خواجہ صاحب کی تعمیر تقریباََ 800 سال سے بادشاہوں اور نوابوں نے نذر اور خدمت کی طرح کرائی یہ ان کا خراج عقیدت بھی تھا اور منت بھی درگاہ معلٰی میں کئی درجن عمارات ہیں جوں کئی ادوار کی طرز تعمیر اور آثارِ قدیمہ کا بہترین نمونہ ہے۔

    مسجد محمودی :-

    یہ مسجد پانچ ناموں سے مشہور ہے، (۱) مسجد محمودی (۲) مسجد جہاں گیری (۳) مسجد عالم گیری (۴) مسجد صندل خانہ (۵) پھول خانہ کی مسجد

    سلطان محمود خلجی نے خدائے تعالی کا شکر ادا کر کے حضرت کے مزار اقدس کا طواف کیا اور ایک بڑی مسجد بنوائی، خواجہ نعمت اللہ کو سیف خاں کا خطاب دے کر اجمیر کی حکومت ان کے سپرد کی، اسی بنا پر اس مسجد کا قدیم نام ’’مسجد محمودی‘‘ ہے اور درگاہ شریف میں سلسلۂ تعمیر کی ابتدا اسی مسجد سے ہوئی ہے، درگاہ شریف کی جملہ عمارات اس کے بعد کی تعمیر ہیں۔

    (۲) اس مسجد کا دوسرا نام ’’مسجد جہاں گیری‘‘ ہے، واقعہ یہ ہے کہ ’’مسجد محمودی‘‘ عہد جہاں گیری تک اپنے حال پر برقرار رہی، اس زمانہ میں حضرت مجدد الف ثانی سرہندی نے اپنے ورود اجمیر کے موقع پر اسی مسجد میں نماز پڑھی، کتاب’’جواہرِ مجددیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اس مسجد کی ایک دیوار نہایت خمیدہ تھی، لوگ اندیشہ ناک ہوئے، آپ نے (مجدد صاحب) نے فرمایا مطمئین رہو ابھی نہیں کرے گی، جب آپ اجمیر شریف سے واپس ہوئے شہر سے باہر ہوتے ہی گر گئی، اس حکایت کے مطابق ممکن ہے کہ اس انہدام کے بعد جہاں گیر ہی کے حکم سے اس مسجد کی درستی از سر نو عمل میں آئی ہو یا عہد جہاں گیری کے کسی امیر نے درستی کرائی ہو‘‘

    (۳) اسی طرح اس مسجد کا ایک نام ’’مسجد عالم گیری‘‘ بھی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عہد عالم گیری میں اس کی درستی اور مرمت ہوئی ہے۔

    (۴) اس مسجد کو ’’مسجد صندل خانہ‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ خواجہ بزرگ کے مزار مبارک کے لیے اس میں صندل سائی ہوتی تھی اور وہ صندل مزار شریف پر نذر کیا جا تا تھا، آج بھی مزار مبارک پر روزانہ خدام حضرات صندل پیش کرتے ہیں۔

    (۵) اسی مسجد کو ’’پھول خانہ کی مسجد‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ روزانہ صبح کو پانچ بجے اور دن کے چار بجے مزار شریف کے پھول اتارے جاتے تھے اور اسی مسجد کی غربی دیوار کی ایک کمان میں رکھے جاتے تھے جو اسی غرض کے لیے ضرورت کے مطابق بنوائی گئی تھی، پھر یہ جمع شدہ پھول ملوسر کے ایک کنوئیں میں ڈالے جاتے تھے، آج کل گلہائے مبارک دوسری جگہ ایک اندھے کنویں میں ادب کے ساتھ ڈالے جاتے ہیں، مسجد کے موجودہ نقش و نگار ۱۳۲۰ ھ مطابق ۱۹۰۲ ء سے نواب اسحٰق خاں جہاں گیرآبادی کا نام روشن کر رہے ہیں، اسی مسجد کے صحن کی چھت کچھ سال پہلے خادم خواجہ سید عمر میاں نے ڈلوائی۔

    اؤلیا مسجد :-

    یہ مسجد صندل خانہ کی مسجد سے جانب مشرق واقع ہے، اس کے گرد دور تک سنگ مرمر کا فرش مصفی بنا ہوا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں غریب نواز نے اجمیر میں پہلی بار داخل ہوکر قیام فرمایا تھا اور یہیں آپ نماز ادا فرماتے تھے۔ (احسن السير، ص؍۵۶)

    گنبد شریف :-

    جہاں گیری کی ایک کتاب ’’اقبال نامہ جہاں گیری‘‘ میں بضمن حالات سلطان محمود خلجی یہ تحریر ہے کہ

    بعمارت روضہ خواجہ معین الدین چشتی همت مصروف داشت و ایں روضہ کہ امروز بر جاست از آثار دولت اوست یعنی (سلطان محمود خلجی) حضرت خواجہ بزرگ کے روضہ کی تعمیر میں مصروف ہوا، چنانچہ جو گنبد کہ اس وقت موجود ہے اس کے عہد حکمرانی کی نشانی ہے، عہد شاہ عالم کی تالیف مرآة آفتاب نما‘‘ کے مصنف نواب شاہ نواز خان بھی اس کی تائید کرتے ہیں، خلاصہ آں کہ وے عمارت روضۂ متبرکہ خواجہ معین الدین چشتی ہمت یعنی خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا روضہ بنوانے کی جانب (سلطان محمود خلجی) متوجہ ہوا، چنانچہ موجودہ گنبد شریف اس کے عہد حکمرانی کی نشانی ہے، غرض محقق روایت یہی ہے کہ فرماں روائے مانڈو سلطان محمود خلجی نے یہ گنبد بنوایا ہے، اجمیر ۸۵۹ ھ مطابق ۱۴۵۵ ء میں سلطان موصوف کے قبضہ میں آیا ہے، اس لیے گنبد شریف کی تعمیر ۸۵۹ھ سے ۸۷۳ ء کے درمیانی زمانے میں کسی وقت ہوئی ہے، گنبد شریف مکرانہ کے سفید پتھر کا ہے، مقعر یعنی گنبد کا اندرونی حصہ سنگ بستہ ہے جس میں چونے سے ریخ بندی کی گئی ہے اور محدب یعنی گنبد کا بالائی حصہ ریختہ یعنی پختہ اینٹوں سے چن کر اس پر پلاستر چڑھایا گیا، پلاستر اول درجہ کا ہے جس کو آرائشی پلاستر یا گھٹائی کا پلاستر کہتے ہیں، اندرون گنبد رنگین و طلائی نقوش ۹۳۹ھ مطابق ۱۵۳۲ ء میں عہد اکبری سے پہلے ہوچکے ہیں اور اس کام کی تکمیل کا تاریخی مادہ ’’قبر عرش بر میں‘‘ ہے جس سے ۹۳۹ ھ اعداد بر آمد ہو تے ہیں، رفتہ رفتہ جب یہ نقوش دھند لے ہو گئے تو ۱۳۰۲ ھ مطابق ۱۸۸۹ ء میں تخمینا کئی ہزار روپیہ خرچ کر کے والی رامپور نواب مشتاق علی خاں نے گنبد کے اندرونی حصے اور بیگمی دالان کی حچت اور دیواروں کو از سر نو مطلا و مذہب کرایا، گنبد شریف کے اوپر موجودہ تاج نما طلائی کلس، والیٔ رامپور نواب کلب علی خاں کے سوتیلے بھائی نواب حیدر علی خاں (نواب بلسی) نے ۱۳۱۴ھ مطابق ۱۸۹۲ ء میں پڑھایا ہے، اسی بیگمی دالان کی چھت اور دیواروں کو ۲۰۰۲ - ۲۰۰۱ ء میں انجمن سید زادگان خدام خواجہ نے دوبارہ مطلا و مذہب کرایا اور بیگی دالان کی دیواروں پر پنجتن پاک اور چھت پر خلفائے راشدین کے اسمائے مبارک لکھوائے۔

    بلند دروازه :-

    اس دروازہ کا سنِ تعمیر کسی تاریخ میں مرقوم نہیں ہے، البتہ شہرت عام اس دروازه کو سلطان محمود خلجی فرماں روائے مانڈو کی جانب منسوب کرتی ہے اور زمانہ قریب کی کتابوں میں بھی یہی روایت موجود ہے۔ (احسن السیر، ص؍۶۰)

    رائے بہادر مسٹر ماردا نے اپنی تالیف میں اس دروازے کا بانی سلطان غیاث الدین کو بتاتے ہوئے ۱۴۶۹ء سے ۱۵۰۰ء تک اکتیس سالہ دور میں اس کا تعمیر ہونا لکھا ہے، یہ پورا دروازہ سنگ سرخ کا ہے، پچھتر فٹ بلند ہے اور اس پوری عمارت پر چونے کا پلاسٹر چڑھا ہوا ہے۔

    محجر حضرت صاحبزادی صاحبہ :-

    حضرت حافظ جمال جو خواجہ بزرگ کی صاحبزادی ہیں اور حضرت امۃ اللہ کے بطن سے پیدا ہوئی ہیں، یہ مزارِ مبارک ان کا ہے، گنبد شریف سے جانب جنوب واقع ہے لیکن محجر پر کوئی کتبہ ہے نہ کسی کتاب میں سن تعمیر مرقوم ہے، البتہ قیاس اس کی تصدیق کرتا ہے کہ یا تو گنبد شریف کے ساتھ خلجی عہد حکمرانی میں یہ بھی تعمیر ہوا یا جہاں گیر و شاہ جہاں کے حسن عقیدت کی یادگار ہے۔

    اکبری مسجد :-

    شاہزادہ سلیم جہاں گیر کی پیدائش کے چھ مہینے بعد جب اکبر بادشاہ شعبان ۹۷۷ھ میں اجمیر پہنچے تو اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، چنانچہ اکبر نامہ کی جلد دوم میں لکھا ہے کہ

    ’’عمارت عالی بنا از مسجد و خانقاه دراں حواشی طرح انداخته‘‘

    یعنی اکبر بادشاہ نے ایک مسجد اور مسجد کے اطراف ایک خانقاہ کی ایک مع عالیشان عمارت بنوائی۔

    غالباً ۹۷۸ھ میں اس کی تعمیر پایۂ تکمیل کو پہنچی ہے اس لیے کہ بعض کتابوں میں اس مسجد کا سن تعمیر ۹۷۸ھ لکھا ہے۔

    یہ مسجد سنگ سرخ سے تعمیر ہوئی ہے، محرابوں پر سنگ مرمر کی پچکاری میں لاجوروی کام ہے، یہ مسجد اپنی متعلقہ عمارات کے ساتھ ۱۴۰ × ۱۴۰ فٹ طویل و عریض ہے، محراب مسجد ۵۶ فٹ بلند ہے جس کے بازوؤں پر اوسط درجے کے مرمریں مینار ہیں، صحن مسجد میں ہشت پہلو ایک حوض ہوا کرتا تھا، مسجد کے جانب مشرق اس کا صدر دروازہ ہے، صحن مسجد کا شمالی حصہ اب تک بدستور موجود ہے، جنوبی اور مشرقی عمارات میں محافظ خانے بن گئے ہیں، مسجد کے پیچھے جانب غرب ایک کنواں تھا جس کا پانی مسجد کے حوض میں آتا تھا، سو ڈیڑھ سو سال سے وہ کنواں آٹ گیا ہے، ۱۳۲۰ھ میں اس مسجد اور اس کے صحن کی مرمت نواب غفور علی داناپوری نے کرائی۔

    بڑی دیگ :-

    بلند دروازے سے آگے بڑھتے ہی دائیں جانب بڑی دیگ ہے، یہ دیگ اتنی بڑی ہے کہ شاید اس کی نظیر کسی اور مقام پر نہ ہو، اس دیگ کی تاریخ یہ ہے کہ اکبربادشاہ نے منت مانی تھی کہ اگر قلعہ چتوڑ فتح ہوگیا تو ۱۲۵ من کھانا پکنے والی دیگ بنوا کر آستانہ عالیہ کی نذر کروں گا، اس کے بعد قلعہ چتوڑ پر حملہ آور ہوا اور فتح پاتے ہی مع لشکر چتوڑ سے اجمیر آیا اور بڑی دیگ بنوا کر خواجہ بزرگ کے دربار میں پیش کی اور اس میں کھانا پکوا کر غربا و مساکین میں تقسیم کیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے