سلسلۂ چشتیہ کا تعارف
سر زمین چشت را آب و ہوائے دیگر است
جاں ستان دیگر و ہر دل ربائے دیگر است
جس طرح تصوف اسلام کی روح ہے، اسی طرح سلسلۂ چشتیہ تصوف کی رنگین و پرسوز تصویر ہے، سلسلۂ چشتہ کا ارتقا، وجہ تسمیہ اور اس کی داغ بیل اور اس کے متقدمین مشائخ پر جائزہ پروفیسر خلیق احمد نظامی نے ’’تاریخِ مشائخ چشت‘‘ میں لکھ دیا ہے، لکھتے ہیں کہ
’’افغانستان میں ہری رود کے قریب تین شہر آباد تھے، فیروز کوه، چشت اور جام، عجیب اتفاق تھا کہ یہ تینوں شہر ایک ہی وقت میں مشہور ہوئے اور یہاں سے ایسی مذہبی، تہذیبی، اور سیاسی تحریکیں ابھریں جن کے اثرات کا سلسلہ دور دور پہنچا، فیروز کوه شنسبانی حکومت کا دارالسلطنت بنا اور یہاں شہاب الدین غوری نے پرورش پائی، چشت میں شیخ ابو اسحٰق نے ایک روحانی سلسلہ کی داغ بیل ڈالی اور جام نے ایک تمدنی مرکز کی حیثیت سے شہرت پائی، حال ہی میں وہاں قطب مینار جیسا ایک مینار دریافت ہوا ہے، جس سے اس علاقہ کے تہذیبی اثرات کا پتہ چلتا ہے، فیروز کوه کے بسنے والوں نے ہندوستان میں سلطنت دہلی کی بنیاد ڈالی اور چشت کے بسنے والوں نے اس ملک کی روحانی تسخیر کا کام انجام دیا، شیخ ابو اسحٰق پہلے بزرگ ہیں جن کے اسم گرامی کے ساتھ تذکروں میں چشتی لکھا ہوا ملتا ہے، افسوس ہے کہ اُن کے حالات تفصیل سے کسی تذکرہ میں درج نہیں، سیرالاؤلیا میں اُن کے متعلق صرف چند سطریں لکھی گئی ہیں، ظاہر ہے کہ ان کی مدد سے تو شیخ کی ایک دھندلی سی تصویر بھی نہیں بن سکتی، بعد کے تذکروں مثلاً مراۃ الاسرار، شجرة الانوار، خزینتہ الاصفیا میں جو تفصیل دی گئی ہے، وہ کرامت کے چند قصوں اور سماع کے چند واقعات تک محدود ہے اور کسی طرح شیخ کی پوری شخصیت کو اجاگر نہیں کرتی، ایک زبردست روحانی نظام کا یہ بانی فکر و عمل کی جن صلاحیتوں کا مالک تھا، اس کا کوئی اندازہ ان تذکروں سے نہیں ہوتا، کہا جاتا ہے کہ شیخ ابو اسحٰق شام کے رہنے والے تھے، اپنے وطن سے چل کر بغداد آئے اور شیخ ممشاد علو دینوری کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، شیخ دینوری اپنے زمانے کے مرتاض بزرگ تھے، دور دور سے عقیدت مند اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، اُن کا حال فریدالدین عطارؔ نے ’’تذکرۃ الاؤلیا‘‘ اور عبدالرحمٰن جامیؔ نے ’’نفحات الانس‘‘ میں لکھا ہے، عطارؔ کا بیان ہے کہ وہ اپنی خانقاہ کا دروازہ عموماً بند رکھتے تھے، جب کوئی آتا تو پوچھتے کہ مسافر ہو یا مقیم، پھر فرماتے کہ اگر مقیم ہو تو اس خانقاہ میں آ جاؤ، اگر مسافر ہو تو یہ خانقاہ تمہاری جگہ نہیں ہے، چوں کہ جب تم چند روز یہاں رہو گے اور مجھے تم سے انس ہو جائے گا اور پھر تم جانا چاہو گے تو مجھے اس کی تکلیف ہوگی اور مجھ میں فراق کی طاقت نہیں ہے، جب شیخ ابو اسحٰق اُن کی خانقاہ میں حاضر ہوئے تو پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے؟ عرض کیا کہ ابو اسحٰق شامی، فرمایا کہ
’’از امروز ترا ابو اسحٰق چشتی خوانند کہ خلائق چشت و دیار چشت آں از تو ہدایت یا بند و ہر کہ سلسلۂ ارادت تو در آید آنہا را نیز تا قیام قیامت چشتی خوانند‘‘
آج سے لوگ تجھے ابو اسحٰق چشتی کہہ کر پکاریں گے اور چشت اس کے نواح کے لوگ تجھ سے ہدایت پائیں گے اور ہر وہ شخص جو تیرے سلسلۂ ارادت میں داخل ہوگا اس کو قیامت تک چشتی کہہ کر پکاریں گے
اس کے بعد ممشاد علو دینوری نے ان کو تذکیر و ارشادِ حق کے لیے چشت روانہ کر دیا، جہاں اُن کی پر خلوص جد و جہد سے ایک عظیم الشان سلسلہ کی داغ بیل پڑی اور چشت بہت جلد ایک زبردست روحانی نظام کا مرکز بن کر چمک اٹھا، ایک بزرگ نے ان کے متعلق یہ اشعار لکھے ہیں کہ
’’و بہ اقتدی من اہل چشت شیوخہم كل ولی اللہ فی ميلاده متهم ابو اسحٰق اکبر شيخہم طود سما من الشيخ اطوادة اضحى هداة الدين يتبعونمہ لا يعدلون النهج فی معتادة‘‘
یعنی اہلِ چشت کے مشائخ میں سے تمام اؤلیا نے ان کے میلاد میں اقتدار کی، ان میں سب سے بڑے اور ذی وجاہت شیخ ابو اسحٰق ہیں جو مشائخ میں ایسے ہیں جیسے پہاڑوں میں ایک بلند اور اونچا پہاڑ، دین کے رہبر اُن کے پیرو ہیں اور اُن کی راہ سے عدول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، خواجہ ابو اسحٰق فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے، ایک دن اپنے مرید خواجہ ابو احمد چشتی سے فرمانے لگے کہ
اے ابو احمد! درویشی بالا تر ست از بادشاہی عرب و عجم، واللہ اگر ابو اسحٰق را ملاک سلیمان و ہند هم قبول نکند
ترجمہ : اے ابو احمد! درویشی عرب و عجم کی بادشاہی سے بھی بڑھ کر ہے، اگر ابو اسحٰق کو ملک مسلمان بھی دیں تو خدا کی قسم وہ قبول نہیں کرے گا۔
مشائخِ سلسلہ :-
بہت سے دیگر روحانی سلسلوں کی طرح سلسلۂ چشتیہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کے واسطہ سے حضرت رسول اللہ تک پہنچتا ہے، مشہور مشائخ کے اسمائے گرامی شیخ شمس الدین یحیٰی کے خلافت نامہ میں جو حضرت محبوبِ الٰہی نے عنایت فرمایا تھا، اس طرح درج ہیں کہ
(۱) حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ
(۲) رئیس التابعين، امام العلمين، الحسن البصری
(۳) قطب العالم والشيخ المعظم، عبدالواحد بن زید
(۴)قطب الولايۃ، الى الفضل والفضائل والدرايۃ، الفضيل بن عياض
(۵)سلطان السالکین، برہان الواصلین، تارک المملكنۃ والسلطنته، ابراهیم بن ادهم
(۶) تاج الصالحین، برہان العاشقین، حذيفۃ المرعشی
(۷) اکرم اہل الایمان، ھبيرة البصری
(۸) شمس الفقراء علو دینوری
(۹) سراج الاتقیا، ابی اسحٰق الچشتی
(۱۰) عمدة الابرار و قدوة الاخیار، ابی احمد الچشتی
(۱۱) ملجارالعباد، محمد الچشتی
(۱۳) ملک المشائخ، اہل التمکین، ناصرالملت والدین، یوسف چشتی
(۱۴)ظل اللہ فی الخلق، مودود چشتی
(۱۵)سديدالمنطق، الحاجی الشريف الزندنی
(۱۶) حجتہ الحق، على الخلق، عثمان الهارونی
(۱۷) بدرالعارفين معين الملته والدین، الحسن السنجری
تصامی نے ’’فتوح السلاطین‘‘ میں ان مشائخ کا ذکر اسی طرح کیا ہے۔
علی چوں ازیں کارواں رخت برد
یکے خرقہ بر پیر بصری سپرد
حسن چوں سفر کرد ازیں کوچگاہ
شرف یافت از و عبد واحد کلاه
رسیده از و بر فضیل عیاض
کہ شد تازه از بوئے خلقش ریاض
وز و خرقہ بر پورا وہم رسید
از ویافت آن خواجه مرعشی
حذیفہ بہ صد فرحت و دل خوشی
پس آں کہ بہ صدق ارادت ربود
هبيرة کہ تعریفش از بصره بود
ازاں پس بہ خواجہ علوکش عرب
بہ دینور نسبت کند در نسب
وز و خواجہ اسحٰق چشت نژاد
بہ بر در کشید آں لباس مراد
پس آں خرقہ بو احمد چشت یافت
کہ خورش برشت و ملائک بیافت
محمد کہ او نیز از چشت بود
کہ سودا کے خوش کرد از آں مایہ سود
وز و یوسف آں پیر چشتی گرفت
چور وحش ہوائے بہشتی گرفت
وز و یافت آں قطب پشتی سرشت
کہ بو دست مودود و مقبول پشت
وز و یافت آں اشرف الدین شریف
کہ شد زندگی نسبت آں حریف
وز و یافت ہارونی عثماں بہر
در آورد آں خلعت خوش بہ بر
وزو در بر آں خسر قر عہدے بعید
معین الدین آں پیر سنجری کشید
’’فتوح السلاطین‘‘ ہندوستان کے مذہبی اور غیر مذہبی لٹریچر میں غالباً پہلی کتاب ہے جس میں ’’مشائخِ چشت‘‘ کا شجرہ نظم کیا گیا ہے، شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی کتاب انتباہ میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ چشتیہ سلسلہ خواجہ حسن بصری کے ذریعے حضرت علی مرتضیٰ تک نہیں پہنچتا، اس لیے کہ خواجہ بصری اس وقت خورد سال تھے اور وہ خلیفہ نہیں ہو سکتے تھے، خواجہ فخرالدین دہلوی نے جو شاہ ولی اللہ کے معاصر تھے، اس خیال کی تردید میں ایک کتاب ’’فخرالحسن‘‘ لکھی ہے، جس میں خواجہ حسن بصری کا حضرت علی سے خلافت پانا ثابت کیا ہے، اس کتاب کی شرح مولانا احسن الزماں حیدرآبادی نے قول المستحسن کی شرح ’’فخرالحسن‘‘ کے نام سے عربی زبان میں لکھی ہے۔
خواجہ عبدالواحد بن زید، خواجہ حسن بصری کی مجلس معارف و حقائق کے رکن رکین تھے، حاکم نے مستدرک میں اور امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ان سے روایت کی ہے، طبقاتِ اکبری میں اُن کا قول نقل کیا ہے کہ
’’وكان رضی الله عنہ يقول عليكم بالخبر، والملح فانہ يزيب شحم الكلى ويزيد فی اليقين‘‘
یعنی عبدالواحد بن زید فرماتے ہیں کہ اے طالبانِ خدا! صرف روٹی اور نمک کھایا کرو کہ اس سے گردہ کی چربی دور ہوتی ہے اور ایمان و یقین زیادہ ہوتا ہے۔
ان کا انتقال ۲۷ صفرالمظفر ۱۷۶۰ء کو ہوا۔
خواجہ فضیل بن عیاض تبع تابعی تھے اور ایک روایت کے مطابق اعظم کے شاگرد تھے، اکابر محدثین میں ان کا شمار ہوتا تھا، تہذیب التہذیب میں اُن کے شیوخ حدیث اور تلامذہ کی طویل فہرست درج ہے، ہارون رشید کہا کرتا تھا کہ علما میں امام مالک سے زیادہ باہیبت اور فضیل بن عیاض سے زیادہ پرہیزگار میں نے کسی کو نہیں دیکھا ۲ ربیع الاول۱۸۷ھ کو مکہ معظمہ میں وفات پائی۔
حضرت ابراہیم بن ادہم بلخی کے متعلق شیخ علی ہجویری اور فریدالدین عطارؔ نے حضرت جنید بغدادی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مفاتیح العلوم ابراہیم ادھم علوم کے خزانہ کی چابیاں ابراہیم ادہم ہیں، وہ امام ابوحنیفہ کے معاصر تھے اور بقول علی ہجویری اُن سے پڑھا بھی تھا، لکھتے ہیں کہ
با امام ابو حنیفہ اختلاط داشته و علم از وی آموخته
خواجہ سدیدالدین حذیفة المرعشی کے متعلق صاحبِ ’’سیرالاؤلیا‘‘ کا بیان ہے کہ از کبار مشائخِ روزگار و سرور نامدار بود
خواجہ امین الدین ابی ہبيرة البصری کا تفصیلی حال تذکروں میں نہیں ملتا، میر خورد نے ان کو مقتدائے الامتہ، ناصرالشریعہ اور استادالطریقہ کے القاب سے یاد کیا ہے، خواجہ علو دینوری، شیخ نظام الدین اؤلیا نے اپنے خلافت نام میں مولانا شمس الدین یحییٰ کو عطا فرمایا تھا، اُن کو شمس الفقرا کہا ہے اور بعد کے تذکروں کی طرح اُن کے نام کے ساتھ ممشاد نہیں لکھا، یہ سلسلۂ سہروردیہ میں حضرت جنید بغدادی کے بعد ایک بزرگ ممشاد علو دینوری کا ذکر آتا ہے لیکن غالباً یہ دوسرے بزرگ ہیں، دارا شکوہ نے لکھا ہے کہ
آنچه در تذکرۃ الاصفیا و بعضے شجرات مشائخ چشت نوشتہ اند ایں است که شیخ علو دینوری و شیخ ممشاد دینوری نیست و شیخ ممشاد علو دینوری می نویسند، اما نفحات الانس و از بعضے کتب چنیں مفہوم می شود که شیخ علود دینوری غیر ممشاد دینوری اند
خواجہ ابی احمد چشتی کا ذکر جامیؔ نے ’’نفحات الانس‘‘ میں اجمالاً کیا ہے خواجہ محمد چشتی ان کے فرزند تھے اور جامیؔ کے بیان کے مطابق ایک اشارۂ غیی پر انہوں نے سومنات پہنچ کر محمود غزنوی کی مدد کی تھی، سیرالاؤلیا کا بیان ہے کہ
’’انہوں نے نماز معکوس بھی پڑھی تھی، خواجہ ناصرالدین یوسف چشتی، خواجہ محمد چشتی کے خواہر زادہ تھے، اُن سے ملنے کے لیے خواجہ عبداللہ انصاری ہروی چشت
آئے تھے کہ خواجہ مودود چشتی اُن کے فرزند ارجمند تھے، ان کے متعلق میر خورد کا بیان ہے کہ
جملا مشائخ کبار وقت محکوم و منقاد حکم او بودند و در غایت تعظیم و در نہایت تکریم او می کوشیدند
حاجی شریف زندنی نے چالیس سال تک خلقت کے ہجوم سے علٰیحدہ رہ کر مجاہدات کیے تھے اور درختوں کے پتے اور جنگل میں اگنے والے میوں پر گزر اوقات کی تھی، علما، فضلا اور اہلِ حقیقت سب اُن سے عقیدت کا تعلق رکھتے تھے، اُن کے خلیفہ خواجہ عثمان ہارونی کے متعلق میر خورد نے لکھا ہے کہ
در علم شریعت و طریقت و حقیقت اعلم وقت بود
ان ہی کے دامن تربیت سے وہ شیخ وقت وابستہ ہوا جس کی جد و جہد سے دیارِ ہند میں چشتیہ سلسلہ کی داغ بیل پڑی اور سلسلہ اس طرح پروان چڑھا کہ کسی دوسرے ملک میں اس کی مقبولیت کا حلقہ اتنا نہ بڑھ سکا تھا۔
ہندوستان میں مشائخِ چشت :-
خاندانِ چشت کے روحانی سردار اور ہندوستان میں سلسلۂ چشتہ کے بانی خواجہ معین الدین حسن چشتی ہیں جن سے نہ صرف سلسلہ کو بلکہ تصوف کو ملک میں عدیم المثال پہچان ملی، آج دنیا میں چشتیہ سلسلہ کی تعلیم و فیضان آپ ہی کا مرہون منت ہے، عہدِ خواجہ غریب نواز سے عہدِ نصیرالدین چراغ دہلی تک روحانیت کا ہندوستان میں سب سے سنہرا دور رہا ہے۔
سلسلۂ چشتیہ کی خصوصیت :-
حضرت میکشؔ اکبرآبادی فرماتے ہیں کہ خواجگانِ چشت کے حالات و اقوال سے جو اس سلسلہ کی نمایاں خصوصیت ثابت ہوتی ہیں وہ یوں ہیں
عشق الہٰی اور سوز و گداز، مرشد کے ساتھ محبت کی غیر معمولی اہمیت، انسان دوستی، خدمت خلق اور دل نوازی و دل داری، غیر مذاہب کے ساتھ رواداری اور شفقت، حکومت اور بادشاہوں س بے تعلقی ان سے دور رہنا‘‘
جیسے اخلاقی اقدار، نسبتِ عشق، خواجگانِ چشت اور سماع، خدمتِ خلق، حکمرانوں سے لا تعلقی، ترکِ دنیا، شریعت کی پابندی، اصلاحِ باطن، طہارتِ نفس، رواداری، نفسیاتی بصیرت کی اعلیٰ استعداد، مرشد سے محبت۔ (مسائلِ تصوف)
سلسلۂ چشتیہ نظامیہ نصیریہ کی سرسبز شاخ نصیریہ ہے جو اقدار و اصول سلوک چشت کے عین مطابق قائم ہے، اس سلسلہ کے جانشینوں کو دیکھا جائے تو علامہ کمال الدین چشتی اور خواجہ بندہ نواز گیسو دراز دو اکابر خلیفہ ہیں علامہ کمال الدین چشتی اور سراج الدین چشتی کے جانشینوں میں صرف سلسلۂ کلیمیہ فخریہ نے جس کے مجدد خواجہ فخرالدین دہلوی کی ذات ہے، انہوں نے موجودہ عہد اور پچھلی صدی میں جو انقلاب پیدا کیا صرف اس پر تحقیقی کی جائے تو کئی دفتر ختم ہو جائے، احقر کا تعلق بھی اسی سلسلے کی نیازیہ شاخ سے ہے، سلسلۂ نیازیہ حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی سے ہے جو محب النبی، سید عاشقین و المعشوقین، خواجہ فخرالدین فخرِ جہاں دہلوی کے روحانی جانشین ہیں، خانقاہ نیازیہ کے سجادہ نشیں حضرت شاہ محمد حسنین نیازی حسنی میاں نے سلسلۂ نظامیہ نصیریہ فخریہ نیازیہ کو بہت فروغ دیا، موجودہ سجادہ نشیں شاہ محمد مہدی میاں نیازی مدظلہ اس خدمت کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
الٰہی تا بود خورشید و ماہی
چراغِ چشتیاں را روشنائی
چوں گیتی را سراسر باد گیرد
چراغ چشتیاں ہرگز نہ میرد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.