Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت سید امجد علی شاہ قادری اصغرؔ اکبرآبادی کی صوفیانہ شاعری

فیض علی شاہ

حضرت سید امجد علی شاہ قادری اصغرؔ اکبرآبادی کی صوفیانہ شاعری

فیض علی شاہ

MORE BYفیض علی شاہ

    ہندوستان کی تہذیب و تمدن میں صوفیائے کرام کا کردار ہمیشہ سے نمایاں اور مرکزی رہا ہے، صوفیا نہ صرف روحانی تربیت کے پیشوا رہے بلکہ انہوں نے اپنے فکری، اخلاقی اور ادبی اثرات سے ایک ہمہ گیر تہذیبی فضا کو جنم دیا، ان صوفیائے کرام کی زبانِ حال و قال اکثر شعری قالب میں ڈھلی نظر آتی ہے، جس نے اردو و فارسی ادب کو ایک لطیف روحانی جہت عطا کی۔

    اودھ، دہلی، آگرہ اور ان کے اطراف و جوانب میں صوفی شعرا کی ایک درخشاں روایت موجود ہے، جنہوں نے اپنے فکر و فن سے انسانی دلوں کو عشقِ الٰہی، فنا فی اللہ، وحدت الوجود اور اخلاقِ حسنہ کا درس دیا، انہی بزرگوں میں آگرہ کے عظیم صوفی شاعر حضرت سید امجد علی شاہ قادری اصغرؔ اکبرآبادی کا نام نمایاں ہے، جن کی شاعری روحانی پیغام، کلاسیکی جمالیات اور عارفانہ نکات کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔

    مرزا مظہر جان جاناں، خواجہ میر دردؔ، خواجہ رکن الدین عشقؔ اور شاہ ترابؔ علی قلندر، غمگین دہلوی، امجد علی شاہ اصغرؔ اکبرآبادی، سراجؔ اورنگ آبادی صاحبِ حال بزرگ اور اہل خانقاہ گزرے ہیں صوفیانہ محافل میں جن کے کلام کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اس سے بڑھ کر جن کے مصرعے وظیفہ اور روحانی درجات طے کرنے کے لیے اسم عظم کا درجہ رکھتے ہیں وہ شاہ نیاز احمد بریلوی کا کلام ہے۔

    مصحفی جو حضرت شاہ نیاز کے مرید و شاگرد تھے کہتے ہیں کہ ’’والحق کہ درویشی و شاعری دوش بدوش راہ می رود‘‘ ایک صوفی شاعر کے تذکرے میں لکھتے ہیں کہ ’’درویشے است صوفی کہ اکثر مسائل صوفیا را کہ مراد از وحدت وجود باشد بدلائلی و براہین چناں کہ شیوۂ صوفیان بافضل و کمال ست از روئے نص و حدیث بہ اثبات رسانیدہ و در ریختہ موزوں ساختہ‘‘ (تذکرہ مصحفی، ص۷۲)

    میکشؔ اکبرآبادی اپنے مضمون “حضرت نیاز بے نیاز بحیثیت ایک شاعر کے” میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اکثر اہل کمال ایسے ہوتے ہیں جن میں چند کمالات مجتمع ہوجاتے ہیں مگر بعض کمال اس درجہ نمایاں ہوتے ہیں کہ ان کے دوسرے کمالات ان کسی کمالات میں محو ہو کر رہ جاتے ہیں، مثلاً حکیم مؤمن خاں مؤمنؔ کا طب اور نجوم شاعری میں دب کر رہ گیا، ذوق و امیر کا علم و فضل شاعری میں گم ہوگیا، مولانا محمد علی جوہرؔ کی شاعری ان کی سیاست میں یکسر کھو گئی، اس طرح شاہ نیاز احمد کے تقدس اور مذہبی رہنمائی کی جہت ہندوستان پر اتنی غالب آگئی کہ آپ کی شاعرانہ حیثیت اتنی نمایاں نہ ہو سکی جس کی وہ مستحق تھی، یوں تو کوئی محفل سماع ایسی نہیں ہے جس میں آپ کا کلام سند قبول حاصل نہ کرتا ہو، آپ کے لاکھوں سے افزوں مریدین و معتقدین کے زبان پر اشعار وظیفہ کی طرح جاری رہتے ہیں مگر یہ سب چیزیں عموماً یا اہل حال تک محدود رہیں اور یا اگر عوام تک پہنچیں بھی تو اسی تقدس و تبرک کی حیثیت سے“

    (صفحہ ۸۲، علامہ میکش اکبرآبادی، ادبی مجلہ مرتبہ معین فریدی، شائع کردہ بزم اقبال آگرہ و انجمن ترقی اردو اتر پردیش شاخ، آگرہ)

    صوفیائے کرام کی شاعری : اکثر اہل تصوف و اہل حال کے حلقہ میں مقبول ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تصوف کے مسائل عام فہم نہیں ہوتے، ان کو سمجھنے کے لیے وحدۃ الوجود، وحدۃ الشہود کو جاننا نیز عشق حقیقی کا حصول لازمی ہے، ادبی حلقوں میں اس صوفیانہ روایت کا گہرا اثر ہمیشہ رہا ہے، جیسے میکش اکبرآبادی فرماتے ہیں “تصوف یا حقیقیت شناسی سے ہمارا مشرقی ادب مالامال رہا ہے حتٰی کہ وہ لوگ جو تصوف باکل نا آشنا ہیں شاعری کی دنیا میں بڑے صوفی معلوم ہوتے ہیں یہ محض اس تقلید اور ماحول کا اثر ہے جو تصوف اور شاعری سے مل کر حاصل ہوا ہے اس لیے عام طور سے اردو اور حصوصاً فارسی شاعری کو سمجھنے کے لیے اصول تصوف جیسی عظیم المرتبت شہ کو بیان کیا جا سکے“ یہی معاملہ حضرت امجد علی شاہ قادری اصغرؔ اکبرآبادی کی شاعری کا بھی ہے ہندوستان میں ان کا نام سلسلۂ قادریہ کے شیخ المشائخ کی حیثیت سے تو معروف رہا لیکن شاعر کے طور پر کم ہی لوگ آپ سے واقف ہیں، خود آپ کا مزاج بھی گوشہ نشینی اور نام و نمود سے یکسر بے نیازی کی گواہی دیتا ہے، جیسا کے سید آفاق احمد عرفانی کہتے ہیں کہ

    “قبلہ سید امجد علی شاہ صاحب اصغرؔ کی شہرت ایک عالم باعمل اور ایک متشرع صوفی مرتاض کی حیثیت سے بھی ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی تھی، جس سے وہ قطعی بے نیاز تھے پھول کو اس سے کیا غرض کہ نسیم صبح گاہی نے اس کی خوشبو کہاں تک پھیلادی ہے“

    مزید کہتے ہیں کہ

    “اردو اور فارسی میں نہایت اعلیٰ درجے کے شعر کہتے تھے ان کا ذکر اس پر تذکرہ نگار نے بھی کیا ہے گلشن بے خار میں مصطفیٰ خاں شیفتہؔ نے بھی کیا ہے“

    (مقالات عرفانی صفحہ۱۰۴۔۱۰۵)

    حضرت امجد علی شاہ حضرت عمادالدین بیدار سید ولی محمد نظیرؔ اکبرآبادی، میر تقی میرؔ، سراجؔ اورنگ آبادی کے ہم اثر تھے۔

    دیوان اصغرؔ اکبرآبادی : ایک دیوان اور چند تحریریں آپ کی یادگار ہیں جس میں چار قصائد حضرت امام علی مرتضیٰ پر، تین حضور غوث پاک پر اور ایک ایک حضرت بہاؤالدین نقشبند اور حضرت ضیاؤالدین بلخی پر، 251 کے قریب اردو غزلیں بھی شامل ہیں اس کے علاوہ پورا دیوان فارسی میں ہے جو 2413 فارسی اشعار 915 اردو اشعار جس میں ایک مثنوی قطعات 44 رباعیات 14 قصائد پر مشتمل ہے، 1266ھ جام جمشید، آگرہ سے شائع ہوا

    (صفہ نمبر 188، کتاب حضرت غوث الاعظم سوانح و تعلیمات مع تذکرہ فرزند غوث الاعظم، مصنف میکشؔ اکبرآبادی)

    آگرہ

    ’’بزمِ آخر‘‘ میں مفتی انتظام اللہ شہابیؔ نے لکھا ہے کہ آگرہ میں اردو کا پہلا مشاعرہ حضرت مولانا امجد علی شاہ صاحب نے ہی کرایا تھا، جس میں اسداللہ غالبؔ اور نظیرؔ اکبرآبادی بھی شریک ہوئے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت کے حلقہ قربت میں عالم ادیب اور صوفیا سب ہی شامل تھے، شاہ اکبرؔ داناپوری کے عم اقدس حضرت قاسم ابوالعلائی داناپوری نے بھی اپنی تحریروں میں حضرت کا ذکر کیا ہے، انوارالعارفین میں محمد حسین مرادآبادی نے حضرت سید انوارالرحمٰن بسمل نے ساداتِ صوفیا میں قصرِ عارفاں میں محمد رحمٰن چشتی نے گلشنِ بے خار میں مصطفیٰ خاں شیفتہؔ نے نغمئہ عندلیب میں حکیم غلام قطب الدین خان باطنؔ سوانح عمری غوثِ پاک مفتی انتظام اللہ صدیقی، تذکرۃ اللہی مولانا ابوالحسن فریدآبادی یادگارِ شعرا میں مسٹر اسپرنگر، نسبِ معصومی حکیم معصوم علی تاریخِ مشائخِ قادریہ میں ڈاکٹر یحییٰ انجم نے، فرزندِ غوثِ اعظم میں حضرت میکش اکبرآبادی نے مفصل ذکر فرمایا ہے۔

    قادریہ سلسلہ کے زیادہ تر تذکرہ میں آپ کا ذکر آسانی سے مل جاتا ہے، اردو کے قدیم شعرا پر لکھی گئیں اکثر کتابوں میں اور خاص کر آگرہ کے صوفی بزرگ شعرا میں، آگرہ کے فارسی شعرا کے ابواب سے مفتی انتظام اللہ شہابی کے مضمون میں بھی آپ کا نامِ نامی اسم گرامی شامل ہے، آفتاب اجمیر میں بھی تفصیلی بیان موجود ہے۔

    آگرہ کے فارسی شعرا۔۔۔

    اصغر اکبرآبادی۔ مولوی سید امجد علی شاہ متفی 1230ھ

    عاشق چیست بیقرار ایہا

    زیستن در امیدوار ایہا

    (شاعر آگرہ نمبر 1936جون ،جولائی صفہ نمبر 71)

    جناب حافظ محمد حسین مرادآبادی

    سیدالسند، محب الفقرا الغرابا، شیخ المشائخ طریقۂ قادری، مولوی امجد علی ابن مولوی سید احمداللہ جعفری حضرت سید عبداللہ بغدادی کے خلیفہ اعظم تھے، ان کے طریقے کے لوگ کہتے ہیں کہ حضرت سید عبداللہ ارشاد حضرت محبوب سبحانی کی تعمیل میں ان کی تعلیم کے لیے بغداد سے ہندوستان تشریف لائے تھے، ان کا نسب پچیس واسطوں سے حضرت سید اسحٰق ابن امام جعفر صادق تک پہنچتا ہے۔ (انوارالعارفین، صفحہ نمبر 598، مطبع منشی نول کشور لکھنؤ)

    حکیم قطب الدین باطنؔ نے اپنے تذکرے میں ان کا احوال قلمبند کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔

    اصغر و امجد تخلص مولوی امجد علی خلف مولوی احمدی زیب جدِ دہلی (آگرہ)، اپنے فن کے استاد تھے، حضرت سید عبداللہ صاحب بغدادی کے اخص خاصان اولاد محبوب سبحانی سے تھے، خرقہ خلافت ان کے سے تن مبارک کو پیرایہ دیگر باقی عمر کو بیچ فقر کے بسر لے گیے صدہانا قصوں کے فیض انفاس متبرکہ سے استفادہ کامل لیا، احقر ان کے کلام سے مستفیض ہوا اور عجب لطف پایا بندگی والد مرحوم سے بہت ربط تھا ان کا کلام ان کو ضبط تھا

    (گلستان بے خزاں (نغمئہ عندلیب) صفحہ نمبر : 6،7 / تاریخ ادب اردو جلد دوازدہم، صفحہ نمبر :459،460)

    نواب مصطفیٰ خاں شیفتہؔ لکھتے ہیں کہ اصغر تخلص سید امجد علی اکبرآبادی، حکیم محمد میر کے جو میرے والد کے دوستوں میں تھے بڑے بھائی تھے، بزرگ خاندان کے فرد تھے سید عبداللہ بغدادی علیہ الرحمۃ سے خلافت حاصل کی اور عزت وقار اور تورع کے ساتھ زندگی بسر کی۔ (گلشنِ بے خار، صفحہ نمبر 81)

    حضرت سید انوارالرحمٰن نقشبندی بسملؔ جے پوری کہتے ہیں کہ آپ خلیفہ حضرت سید عبداللہ بغدادی،،،، اکابر اؤلیائے امت میں سے تھے، اصغر تخلص فرماتے تھے، حضرت عبداللہ شاہ بحکم حضرت غوث اعظم آپ کی تربیت باطن کے لیے بغداد سے تشریف لائے تھے، آپ کے نبیرہ سید مظفر علی شاہ بھی آگرہ کے مشہور مشائخ میں سے تھے، آپ نسباً ساداتِ جعفری میں سے ہیں اور اب تک ساداتِ میوہ کٹرہ کا حسب نسب مسلم ہے۔ (سادات الصوفیہ، صفحہ نمبر 137)

    حضرت سیمابؔ اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ

    سید امجد علی شاہ جعفری قادری آپ کے جدِ پنجم قطب الاقطاب مولانا سید ابرہیم قطبِ مدنی جعفری مدینہ منور سے بعہد جہاں گیر آگرہ تشریف لائے خان جہاں لودی جو جہاں گیری عہد کا مشہور امیر تھا آپ کا معتقد اور مرید تھا اس نے آپ کے لیے مدرسہ مسجد اور مکانات اپنے محل کے قریب تعمیر کرا دئیے تھے، جس مقام پر یہ مکانات تھے وہ اب لودی خاں کا ٹیلہ کہلاتا ہے، آپ سید عبداللہ بغدادی رامپوری کے خلیفہ اعظم تھے، شاعری میں اصغر تخلص فرماتے تھے، آپ کا مطبوعہ دیوان موجود ہے، 1230ھ میں آپ نے وفات پائی محلہ مدرسہ میں آپ کا مزار ہے

    (آگرہ کے صوفی شعرا، شاعر آگرہ، نمبر جون 1936 صفحہ نمبر 52 ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم ہمدرد یونیورسٹی، دہلی)

    انتخاب کلام حضرت امجد علی شاہ قادری

    وصال ۱۲۳۰ ھ /1814ء

    ہم کو مت جانیو فقیر اصغر

    ملک وحدت کے بادشاہ ہیں ہم

    جب حسن ازل پردائے امکان میں آیا

    بے رنگ باہر رنگ ہر ایک شان میں آیا

    گل ہے وہی سنبل ہے وہی نرگس حیراں

    اپنے ہی تماشے کو گلستان میں آیا

    اصغر غلام نام تو مست ازل از جام تو

    خو کردۂ انعام تو یا غوث اعظم الغیاث

    ‎اصغرؔ سوال جس نے کیا تھا الست کا

    ‎قالو بلیٰ جواب خود اس نے سکھا دیا

    ‎شمعِ ازل کا نور جو روشن ہوا بہت

    ‎فانوسِ دل میں، اس کو خدا نے چھپا دیا

    معرفت کی راہ میں ہے بھول جانا راہ نما

    جو کے بھولا ہے خودی کو وہ خدا کو پا گیا

    ‎امجد علی بہ بین بکمال علی ولی

    ‎یعنی کسے بمرتبہ حیدر نمی رسد

    یا علی بر حال زار من نظر کن از کرم

    آستانت را دلم ملجا مقرر یافتہ

    وصفش عیاں بخلق وجمالش نہان بود

    چوں ذات حق نہاں و عیاں مرتضٰی علی

    ہست ذاتت بے نقاب و وصف تو ہم آشکار

    لافتٰی الا علی لاسیف الا ذوالفقار

    بغیر یاد خدا ہست در دل عشاق

    بخانہ کس زہد جائے غیر محرم را

    خوب شد اصغر از رہ تسلیم

    دل خود تابع رضا کردی

    بگفتا کہ غوغا و شور فقیرں

    کجا بشنوز سرورے کجکلاہی

    ممدد بگفتا کہ امجد علی کیست اصغرؔ

    بگفتم فقیرے ولی بادشاہی

    جوں قطب بیٹھ رہ تو اے ماہ اک مکاں

    ہر جائی مثل سورج صبح و مسا نہ ہونا

    اے سالک دیں دل سے تو اپنے نہ ہو غافل

    اس کعبۂ وحدت کی میاں راہ یہی ہے

    تمثال جہاں وجود از ویافت

    آئینہ دل زصیقلش تافت

    واضح باشد بہ جانِ آگاہ

    در دیر زہر صنم انا اللہ

    نخواہم چراغے بیابیں تربت

    کہ ہر ہر رگِ گاہے است شمع مزارم

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے