خانقاہ کا اتحاد
جو قوم متحد ہوئی بیدار ہوئی
جو منتشر تھی دہر میں وہ خوار ہو گئی
“ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ تصوف کا انکار اس کا مفہوم سمجھا جائے گا“ (حدیث)
تمام اہل خانقاہ ایک جسم کی طرح متحد ہیں :- خانقاہ میں جس قدر لوگ ہوتے ہیں وہ اپنے اتحاد اور متحدہ اداروں کے باعث ایک جسم کی طرح ہوتے ہیں دوسری جماعتوں میں یہ بات نہیں ہے ان میں ایسا اتحاد نہیں پایا جاتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی تعریف اس طرح فرمائی ہے ’’کانَّهُمْ بُنْيَانَ مرْصُوصٌ‘‘ (وہ مؤمنین ایسے متحد و متفق ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جیسے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار) اور اس کے بر عکس اعدائے مسلمین کا ذکر اس طرح فرمایا ہے؟ ’’تحسَبٌهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُم شتَّی‘‘ (تم ان کو متحد و متفق خیال کرتے ہو حالاں کہ ان کے دل پراگندہ ہیں)
حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ
’’بے شک! مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر کوئی عضو مبتلائے درد ہوتا ہے تو تمام جسم میں تکلیف ہونے لگتی ہے، اسی طرح اگر کسی مؤمن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو تمام مؤمنین اس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں
صوفیہ کے لیے جمعیت خاطر ضروری ہے :- تمام صوفیہ کے لیے یہ اک لازمی اور ضروری وظیفہ (فریضہ) ہے کہ وہ اجتماع خاطر جمعیت خاطر کی بھرپور حفاظت کریں دلوں میں پراگندگی پیدا نہ ہونے دیں، ولی اور روحانی اتحاد سے اس پرا گندگی ازالہ کر دیں اس لیے کہ وہ سب ایک روحانی رشتہ میں منسلک ہیں اور تالیف الہی کے رابطہ سے باہم مربوط ہیں اور مشاہدہ قلوب کے ساتھ وابستہ ہیں بلکہ خانقاہوں میں ان کی موجودگی ہی اس لیے ہے کہ تزکیہ قلب ہے اور آراستگی نفس حاصل ہو اور اسی بنا پر ان کے مابین رابطہ ربط وضبط کا سلسلہ قائم ہے اسی دنیاوی غرض سے ایسا نہیں ہے) اس صورت میں ان کے لیے باہمی خیر سگالی اور محبت رافت اور بھی زیادہ ضروری ہے۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا مؤمن آپس میں ایک کے دوسرے کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آتے ہیں اور اس شخص میں کچھ بھی بھلائی نہیں ہے جو نہ خود دوسروں سے محبت کرتا ہے اور نہ دوسرے اس سے محبت کرتے ہیں
شیخ ابو زرعہ طاہر بن یوسف اپنے مشائخ کی اسناد کے ساتھ حضرت ابو ہریرہ سے روایت کرتے ہیں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ ارواح ایک لشکر کی طرح ہیں جو ایک جگہ جمع ہوگئی ہیں، تو جان پہچان والی ارواح آپس میں مانوس ہو جاتی ہیں اور جو ایک دوسرے سے متعارف نہیں وہ الگ تھلگ ہے رہتی ہیں
پس یہی حال اہل خانقاہ کا ہے کہ جب لوگ ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو ان کے دل اور ان کے باطن بھی مجتمع ہو جاتے ہیں اور اجتماع سے جمعیت خاط پیدا ہو جاتی ہے) اور ان کے نفوس ایک دوسرے کے مقید ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ایک دوسرے کے مال کے نگراں ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ مؤمن دوسرے مومن کا آئینہ ہے پس جب کسی میں وہ تفرقہ (پریشانی خاطر اور پراگندگی قلب) کا ظہور پاتے ہیں وہ دیکھتے ہی کہ کسی صوفی میں تفرقہ پیدا ہوگیا تو وہ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں (اس سے بچتے ہیں) اس لیے کہ تفرقہ کا ظہور نفسانی خواہش کا نتیجہ ہوتا ہے اور غلبۂ نفس سے وقت کا زیاں ہوتا ہے، چنانچہ جب کبھی کسی درویش میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ نفس کا شکار ہو جاتا ہے تویہ لوگ اس کو پہچان لیتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ یہ شخص اب جمیعت کے دائرے سے خارج ہوگیا اور یہ لوگ فیصلہ صادر کر دیتے ہیں کہ اس نے حکم وصیت کو ضائع کیا ضبط نفس میں سستی برتی اور حسن رعایت اوقات کو ترک کر دیا اس وقت اس کے ساتھ نفرت کا برتاؤ کر کے اس کو پھر دائرہ جمعیت میں کھینچ کر لایا جاتا ہے۔
تنافر اور محاسبہ موجب خیر ہے :- ہمارے شیخ ضیاؤالدین ابو نجیب سہروردی اپنے مشائخ کی روایات کے ساتھ شیخ محمد بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے شیخ رویم سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ صوفیوں میں خیر اسی وقت تک ہے جب تک وہ آپس میں تنافر رکھیں اگر وہ آپس میں مصالحت نہ کریں گے اور باہم نہ مل بیٹھں گے تو تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
حضرت رویم نے اس قول میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ باہم ایک دوسرے پر نظر ر کھیں اور ایک دوسرے کا محاسبہ کرتے رہیں (دیکھیں کہیں کسی کا نفس اس پر غالب تو نہیں آگیا ہے) اور جب وہ اس قسم کے محاسبہ اور نگہداشت کو ترک کر دیں گے تو ایسی صورت میں اندیشہ ہے کہ آپس میں چشم پوشی اور درگزر سے کام لینے لگیں اور طریقت کے دقیق اور پوشیدہ آداب سے اغماز کرنے لگیں اور ان سے غافل ہوجائیں اس صورت میں ان کا نفس ان پر غالب آ جائے گا، اس لیے ضروری ہے کہ آپس میں تنافر رکھیں اور ایک دوسرے کا محاسبہ کرتے رہیں، حضرت عمر فاروق فرمایا کرتے تھے کہ اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے مجھے میرے عیوب سے باخبر کیا، شیخ ابو زرعہ زندگی اپنے مشائخ کی اسناد سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق نے ایک مجلس میں جس میں مہاجرین و انصار دونوں موجود تھے فرمایا کہ
اے حاضرین ! اگر میں تم کو امور میں رخصت (اجازت) دے دوں تو تمہارا طرز عمل میرے ساتھ کیا ہوگا؟ یہ سن کر لوگ خاموش رہے، حضرت عمر نے مکرر یہی ارشاد کیا، تیسری مرتبہ جب آپ نے فرمایا کہ بعض امور میں تم کو میں رخصت و اجازت دے دوں تو تم کیا کرو گے؟ اس وقت جناب بشر بن سعد نے جواب دیا کہ اگر آپ ایسا کریں تو ہم آپ کو طعنوں کے تیروں کا نشانہ بنا ڈالیں گے (آپ پر اعتراض کریں گے کہ آپ کو اس کا حق نہیں ہے) یہ سن کر حضرت عمر نے فرمایا کہ تم اب تم ہو یعنی تم اپنی اعلیٰ اور مخصوص صفات ایمانی کے ساتھ قائم ہو۔
مخاصمت کے وقت صوفی کی روش کیا ہونا چاہیے :- جب کوئی صوفی نفس سے مغلوب ہو کر اپنے بھائی سے جھگڑے یا آمادۂ پیکار ہو تو دوسرے بھائی کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ وہ اس کے نفس کا مقابلہ اپنے قلب سے کرے کیوں کہ جب نفس کا تقابل قلب صافی سے کیا جاتا ہے تو برائی اور شر کا مادہ زائل ہو جاتا ہے اور اگر اس نے بھائی کے نفس کا مقابلہ اپنے نفس سے کیا تو پھر ایک فتنہ کھڑا ہو جاتا ہے اور عصمت رخصت ہو جاتی ہے، خواجہ نظام الدین اؤلیا نے بھی یہی تعلیم فرمائی کے جب کوئی نفس سے کام لے اور اختلاف کرے تو تم قلب یعنی دل سے کام لو اپنے دل میں اس کے لیے برائی نہ رکھو اس کے دل سے بھی برائی جاتی رہے گی، سلطان المشائخ کی ایک مثال مشہور ہے کہ کوئی تمہاری راہ میں کانٹے بچھائے تو تم اس کی راہ میں کاٹے نہ بچھاؤں ورنہ سب جگہ کاٹے ہی کاٹے ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :- إدفع بِالَّتِي هِی اَحْسَنُ فَإِذَ الذى بَینَک وَبَيْنَهُ عَدَاوَۃٌ كَانَهُ وَلِی حَمِيمٌ وَمَا یُلَقَّاھَا الَّا الَّذِينَ صَبُرُو۔
تم اچھے طریقے سے دشمن کی دشمنی کی مدافعت کرو تا کہ وہ شخص ہیں ساتھ تمہاری دشمنی ہے، تمہارے گہرے دوست کی طرح ہو جائے اور یہ طریقہ صرف وہی لوگ اختیار کر سکتے ہیں جو صابر ہیں
پس اگر شیخ یا خادم کے پاس کوئی درویش اپنے بھائی کی شکایت لے کر پہنچے (شکایت کرے) تو اس کو اختیار ہے کہ ان دونوں میں سے (جس کو شکایت ہے اور جس سے شکایت ہے) جس پر چاہے خفگی کا اظہار کرے، اگر زیادتی کرنے والے سے خفگی کا اظہار کرنا مقصود ہو تو اس سے کہے تو نے اپنے بھائی پر ظلم تعدی کیوں روا رکھی اور جس پر تعدی اور زیادتی ہوئی ہے اس سے کہے کہ تم سے کون سا ایسا گناہ سرزد ہوا جس کی پاداش تم پر یہ زیادتی ہوئی اور وہ تم پر مسلط ہوا؟ تم کو چاہیے تھا کہ تم اپنے قلب سے اس کے کا مقابل کرتے تم نے ایسا کیوں نہیں کیا اور اپنے بھائی رفیق و یار کا طریقہ کیوں اختیار نہیں کیا اور حق صحبت کیوں ادا نہیں کیا اس طرح وہ دونوں ہی قصور وار ہیں اور جمعیت کے دائر سے خارج ہوگیے ہیں اس لیے دونوں کو ملامت کر کے جمعیت اتحاد کے دائرے کی طرف واپس لایا جائے گا، پس وہ استغفار کرے گا اور اپنی بے گناہی پر اصرار نہیں کرے گا۔
حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ فرمایا کرتے تھے کہ
اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِينَ إِذَا أَحْتِمَا اسْتَبْشِرُوا وَإِذَا سَاءُوا اسْتَغْفِرُواه
الہی تو مجھے ان لوگوں میں شامل فرما دے جو اچھا کام کر کے خوش ہوتے ہیں اور جب ان سے برائی سرزد ہوتی ہے تو استعفا کرتے ہیں
اس طرح تعدی کرنے والے اورجس پر تعدی کی گئی ہے ان کی استغفار ظاہری طور پر بھائیوں کے ساتھ ہوگی اور باطن میں اس کا تعلق اللہ تعالی سے ہوگا، استغفار کرتے وقت وہ اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کریں گے، اس طرح وہ مصالحت میں استغفار و انحسار کو اپنا کر خاکساری کے نقطہ کمال پر یعنی ایسی جگہ پہنچ جائیں گے جہاں جوتیاں اتاری جاتی ہیں (خاکساری ان کو حاصل ہو گا ہے)۔
شیخ ابو نجیب سہروردی کا طریق مصالحت :- ہمارے شیخ کا طریقہ مصالحت یہ تھا اور اس سلسلہ میں ان کا معمول اس طرح تھا کہ جب کسی درویش کی اپنے بھائیوں کے ساتھ رنجش ہو جاتی تھی تو آپ اس درویش سے فرماتے تھے اٹھو! اور اسغفار پڑھوں اس پر وہ درویش کہتا تھا کہ میرا دل صاف نہیں ہے (استغفار کس طرح پڑھوں) تو آپ فرماتے تھے تم کھڑے ہو جاؤ اور استغفار تو پڑھو تمہاری کوشش اور صلح کی خاطر قیام سے تم کو صفائے باطن بھی میسر ہو جائے گی، چنانچہ ایسا ہی ہوتا تھا اس کو صفائے باطن عطا ہو جاتی تھی اس کے دل میں نرمی پیدا ہو جاتی اور دوسرے درویشوں سے جو رنجش اس کے دل میں ہوتی وہ دور ہو جاتی۔
اور حقیقت یہ ہے کہ جماعت صوفیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ باطنی کدورت (کسی کی رنجش) کے ساتھ رات نہیں گزارتے اور نہ اس حال میں وہ کھانے کے لیے جمع ہوتے ہیں جب تک تفرقہ دور نہیں ہوتا اور سب کو جب تک جمعیت خاطر حاصل نہیں ہوتی وہ اس وقت کسی کام کے لیے جمع نہیں ہوتے، پس شیخ کے لیے یہ ضروری ہے کہ یے کیوئی ایسا درویش استغفار کے لیے کھڑا ہو تو اس کی معافی کو رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ معاف کر دینا چاہیے، حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ تم رحم کرو تا کہ تم پر بھی رحم کیا جائے گا اور معاف کر دو تاکہ (تم سزاوار معافی بن جاؤ) تم کو بھی معاف کیا جائے گا۔
خدام خانقاہ کی قوت لایموت :- صادق و مخلص فقیر جو خانقاہ میں مقیم ہے اور چاہتا ہے کہ خانقاہ کے مال وقف سے یا اس مال سے جواہل خانقاہ کے لیے در در سے اکٹھا یا جاتا ہے، کھائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کے ذکر میں اس طرح مشغول ہو جائے کہ اگر وہ روزی کماتا تو ایسا ذکر اس کے لیے ممکن نہ ہوتا اور اگر خانقاہ میں اس کو اوقات فرصت میسر ہے یا وہ ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف رہتا ہے اور وہ اہل باطن کی طرح ریاضت اور محنت کے فرائض پورے نہیں کرتا ہے اور نہیں کر رہا (ریاضت باطنی میں مصروف نہیں ہے) تو ایسے درویش کو خانقاہ کے مال وقف یا دوسرے ذرائع سے جو مال خانقاہ کے لیے آیا ہے اس سے کھانا روا نہیں بلکہ اس کو خود اپنے لیے روزی کمانا چاہیے، اس لیے کہ خانقاہ کا کھانا تو صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو یاد الہی میں اس طرح مصروف و متفرق ہیں کہ دوسے کاموں کی ان کو فرصت ہی نہیں اور وہ ہمہ وقت اور ہمہ تن اپنے مولیٰ کی یاد میں مصروف ہیں اس لیے دنیا والے ان کی خدمت (فتوحات سے) کرتے ہیں، البتہ اگر ایسا شخص جو پیر طریقت سے استفادہ کرتا ہے اور اس کی زیر تربیت ہے اور اس کی ہدایت سے راہ راست پر گامزن ہے اس کے بارے میں اگر شیخ کی رائے ہے کہ اس کو خانقاہ سے کھانا دیا جائے تو شیخ کا فیصلہ ضرور کسی بصیرت پر مبنی ہوگا وہ اس کو کھانا کھلا سکتا ہے، بشرطیکہ فتح کا یہ خیال بھی ہو کہ اس کو فقیروں کی خدمت میں لگا دیا جائے گا ایسی صورت میں خادم جو کھانا کھا رہا ہے وہ اس کی خدمت کا معاوضہ سمجھا جائے گا۔
شیخ ابو عمرو الزجاجی سے منقول ہے کہ میں ایک عرصہ دراز تک حضرت جنید بغدادی کی خدمت میں رہا، اس پوری مدت میں حضرت جنید نے نہ مجھ پر نظر ڈالی نہ دیکھا کہیں میں کس قسم کی عبادت میں مشغول ہوں اور نہ کبھی انھوں نے مجھ سے کلام کیا یہاں تک کہ ایک روز خانقاہ بالکل خالی تھی اس وقت میں اٹھا، میں نے اپنے کپڑے اتارے، خانقاہ کو خوب اچھی طرح صاف ستھرا کر دیا، ہر طرف پانی چھڑ کا، بیت الخلا کو بھی دھو ڈال، شیخ جنید جب خانقاہ میں آیے اور یہ تمام صفائی دیکھی اور میرے اوپر گرد و غبار پڑا ہوا دیکھا تو میرے لیے دعا کی اور مرحبا! جزاک اللہ اور رضیت علیک بہا، تین بار فرمایا، یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ مشائخ عظام نوخیز جوانوں کو خدمت پر معمور کر دیتے ہیں تاکہ وہ بدکاری سے محفوظ رہیں اسی طرح ان کو دو حصے مل جاتے ہیں، ایک حصہ معاملے کا دوسرا حصہ خدمت کا، روحانی مراتب بھی حاصل ہوں اور اجر خدمت بھی میسر آئے۔
رسول اللہ نے اصحاب کرام کو مختلف خدمات پر مامور کر دیا تھا :- حضرت ابو محذورہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے ہمارے واسطے اذان دینے کی خدمت مقرر فرما دی تھیں، بنی ہاشم کے لیے چاہِ زم زم سے پانی کھینچے اور پلانے کا حکم تھا اور بنی عبدالدار کے ذمے دربانی کے فرائض معین و مقرر تھے اس سنت کی پیروی میں مشائخ بھی خادموں کو مختلف خدمات پر مامور کردیتے ہیں پس خادم کے ذمہ کسی قسم کی خدمت رکھی جائے وہ اس کے بجا لانے میں عذر نہیں کرتا اور صرف اس شخص کو خدمت کی بجا آوری سے معذور رکھتے ہیں جو ہر وقت مشغول رہتا ہے اور کامل الشغل ہے، پورے طور پر مشغول ہونے سے ہماری مراد ہاتھ پاؤں سے مشغول ہونا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ و ہمہ وقت محاسبہ نفس اور یاد الہی میں مشغول رہتا ہو اور اس کی یہ مشغولیت کبھی دل اور جسم کے ساتھ ہو اور کبھی بغیر جسم کے یعنی صرف اس کا دل مشغول ہو (بہر دو صورت مشغولی میں محبوب کیا جائے گا)، عبادت اور مشغولی کی کمی و بیشی کا اس کو بالکل خیال نہ رہے اس واسطے کہ فقیر کا پورا حقوق وقت پر پوری طرح قائم ہونا ہی شغل کامل ہے، جب چیز اس کو حاصل ہو جاتی ہے تو اس سے وہ نعمت فراغت اور نعمت کفایت (صحت) کا شکر ادا کرتا ہے پس مشغولی میں دو شکر ہیں اور اس کے برخلاف بیکاری نعمت فراغت اور نعمت کفایت کی ناسپاسی اور شکر ناگزاری ہے۔
حضرت سری سقطی فرماتے ہیں کہ جو شخص قدر نعمت نہیں جانتا اس سے نعمت کو اس طرح سلب کر لیا جاتا ہے کہ اس کو خبر بھی نہیں ہوتی، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شیخ (ضعیف شخص) کسب سے معذور ہوتا ہے اس کی پیری مانع کسب ہوتی ہے اور رباط کے کھانے میں اس کو شریک کر لیا جاتا ہے لیکن جوان کے لیے یہ عذر نہیں ہے وہ کسب کر سکتا ہے، جماعت صوفیہ میں یہ طریقہ عموماً جاری ساری ہے، اس خصوص میں شریعت کا فتوی یہ ہے کہ اگر خانقاہ کے وقف میں یہ شرط موجود ہے کہ ہر صوفی (خواہ بوڑھا خواہ جوان) اور صوفیوں جیسا لباس پہننے والا (متصوف) اور خرقہ پوش اس مال وقف سے فائدہ اٹھا سکتا ہے تو اس صورت میں ہر جوان اور بوڑھے کے لیے یہاں کا کھانا کھانا از روئے شریعت و فتویٰ جائز ہے لیکن یہ صرف جواز کی صورت ہے اہل باطن کے بلند ارادے اور بلند ہمتی کے خلاف ہے (وہ اس طرح وہاں کا مال کھانا شایان شان نہیں سمجھتے اور اپنی بلند ہمتی کے منافی خیال کرتے ہیں) اور اگر وقف میں شرط یہ ہے کہ جو شخص عملاً اور حالاً طریق صوفیہ پر گامزن ہے، صرف وہی خانقاہ کے لنگر سے مستفید اور متمتع ہو سکتا ہے تو اس صورت میں بیکار لوگوں اور تضیع اوقات کرنے والوں کے لیے وہ جائز نہیں ہے اور اس سلسلہ میں صوفیائے کرام اور مشائخ عظام کے معمولات اور ان کے طریقے مشہور ہیں۔
رسول اللہ کا ایک ارشاد گرامی :- شیخ الثقہ ابوالفتح نے اپنے مشائخ کے حوالوں سے حضرت ابو سعید الخدری سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ارشاد فرمایا کہ وہ مؤمن کی مثال ایک ایسے گھوڑے کی ہے جو اصطبل سے بدکتا ہے اور پھر اصطبل ہی لوٹ کر آتا ہے، اسی طرح مؤمن سہو کرتا ہے اور پھر ایمان کی طرف رجوع کرتا ہے اس لیے تم اپنا کھانا پرہیزگاروں اور جو مؤمنین تم میں صاحب معرفت ہیں ان کو کھلاؤ
قائم اک اتحاد کے دم سے نظام ہے
اس کے بغیر زیست بشر کی حرام ہے
(عوارف المعارف، شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی، مترجم:٬ صفحہ نمبر ۲۵۳- ۲۵۹ )
اے جماعت صوفیہ! ایک دوسرے کے محتاج (ضرورت مند) رہا کرو کیوں کہ جو کچھ تم کو چاہیے وہ تم ہی سے آتا ہے۔
- حضرت عبداللہ انصاری
اہل خانقاہ کو متحد ہونا چاہیے بہت سی احادیث کا مفہوم ہے جو ایک حسد و بغض رکھتا ہے اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی افسوس کا مقام ہے اب اہل خانقاہ میں بھی اتحاد ختم ہو گیا ہے وہ بھی علمائے ظاہر کی طرح خلوص سے پیش نہیں آتے اس کی اصلاح ضرور کرنی چاہیے۔
اختلاف کی وجہ اور اصل مقصد سے دوری
- خانقاہ مرکزِ عشق ہے جوڑنے کی جگہ ہے اختلاف اور توڑنے کی نہیں، اہل خانقاہ اسرارِ حقیقت سے آگاہ و طالب ہوتے ہیں جو اسرارِ حقیقت سے آسنا ہو وہ لڑاکو نہیں ہوتا جیسے حضرت قبلہ شاہ نیاز بے نیاز فرماتے ہیں کہ
جو ہیں آشنا سر اسرار کے
وہ ہیں یار ہر یار و اغیار کے
اختلاف خدا کی معرفت نہ ہونے کی بنا پر ہوا کرتے ہیں جسے خدا کی معیت حاصل ہوتی ہے وہ ملک اور نظریہ، سلسلہ تک کے فرق کو اہمیت نہیں دیتا، کثرت میں وحدت کے مرکز کی معرفت رکھتا ہے۔
اسرارِ حقیقت کے خبردار جو ہوتے
ہفتادہ و ملت میان کبھی جنگ نہ ہوتا
- شاہ نیاز احمد بریلوی
- حافظؔ شیرازی نے فرمایا ہے بہتر فرقے کیا کریں مجبور ہیں جب ان کو حقیقت نظر نہ آتی تو اپنی قیل و قال شروع کر دی (یعنی اپنے خیال کے افسانہ میں گم ہو کر رہ گیے)
جنگ ہفتادہ و ملت ہمہ را عزر بنہ
چوں ندیند حقیقت رہ افسانہ زدند
- شمس الدین حافظؔ شیرازی
یہ حال تو اہل ظاہر کا ہے اہل باطن میں یہ بات نہیں ہونی چاہیے وحدت الوجود کی روح سے سب ایک ہی کل کے جز ہیں، تمام اہل طریقت رسول اللہ کے باغ سے ہیں، ان باغ و باغات کے شجر و ثمر ہیں، گل ہیں جن کے الگ الگ رنگ و خوشبو ہے سب اپنی اصل میں حق سے ہیں اور حق ہیں اللہ کے قلب رسول اللہ کے قلب سے منور ہیں، حضرت علی مرتضیٰ کے دستِ مبارک کے طربیت یافتہ ہیں ان کے سب علوم و قولِ ربانی ہے، خاص کر ۱۴ خانوادے ۴ پیروں سے نکلے جس میں زیادہ معروف قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ، ظفریہ، شازیہ، فردوسیہ، رفاعیہ۔۔۔۔۔وغیرہ اور ان کی شاخیں نام اور طریقوں سے الگ الگ نظر آتے ہیں، حقیقت و روح سے ایک ہی شاخِ محمدی عشقِ الٰہی کی بے رنگی سے نکلے رنگ ہیں وہ اپنی ابتدا اور انتہا میں ایک رنگ ہیں۔
چار پیر :-
۱- امیرالمؤمنین امام دوم حضرت حسن مجتبٰی
۲- سیدالشہدا امام سوم حضرت حسین
۳- حضرت خواجہ حسن بصری
۴ - حضرت خواجہ کمیل بن زیاد
ابو الفضل نے ’’آئینِ اکبری‘‘ میں چودہ جانوادوں کے نام اس طرح گنوائے ہیں۔ (۱) جینیان (۲) طیفوریان (۳) کرخیان (۴) سقطیان (۵) جنیدیان (۶) گازردنیان (۷) طوسیان (۸) فردوسیان (۹) سہروردیان (۱۰) زیدیان (۱۱) عیاضیان (۱۲) ادھمیان (۱۳) ہیبریان (۱۴) چشتیان۔
دنیائے تصوف میں سب سے معروف چار سلسلہ فی الوقت ادیم المثال ہیں جو کثرت اؤلیا و مریدین و مرکزہائے عقیدت کے اعتبار معروف و مقبول ہیں جن کا فیض جاری و ساری ہے
سلسلہ قادریہ - قطب ربانی، شیخ صمدانی، غوث الاعظم، عبدالقادر جیلانی بغدادی سے۔
سلسلہ چشتیہ - جس کے بانی حضرت ابواسحٰق شامی ہیں لیکن سلسلہ کے سب سے بڑے بزرگ مقبول ترین روحانی شخصیت جس سے چشتیت مقبول عام ہوئی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہیں سلسلہ چشتیہ کی دو عظیم شاخ صابر یہ نظامیہ ہے۔
سلسلہ نقشبندیہ - حضرت سید بہاؤالدین نقشبند بخاری۔
سلسلہ سہروردیہ : حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی۔
دیگر سلاسل :-
یسویہ : سلسلے کے بانی حضرت خواجہ احمد یسوی ترکی میں معروف ہے۔
نوریہ : سلسلے کے بانی حضرت شیخ ابوالحسن نوری بغدادی ہے، حضرت سری سقطی کے خلیفہ ہیں۔
شطاریہ : سلسلے کے بانی حضرت عبداللہ شطار ہندی ہیں۔
طیفوریہ : سلسلے کے بانی حضرت ابو طیفور بایزید بسطامی ہیں۔
شاذیلہ : سلسلے کے بانی حضرت ابوالحسن شازلی ہیں مصر اور عرب میں یہ سلسلہ زیادہ معروف ہے۔
انصاریہ : سلسلے کے بانی حضرت عبد اللہ انصاری جو حضرت ابوالحسن خرقانی کے خلیفہ ہیں افغانستان میں سلسلہ مشہور ہے۔
حسینیہ نجاریہ : سلسلے کے بانی سید جلال الدین بخاری یہ سلسلہ نسباً و طریقتاً سادات اکرام سے ملتا ہے۔
نیازیہ : سلسلے کے بانی حضرت خواجہ شاہ نیاز احمد المعروف نیاز بے نیاز بریلوی ہیں۔
ابوالعلائیہ : سلسلے کے بانی حضرت امیر ابوالعلا احراری نقشبندی ہیں، آگرہ میں درگاہ واقع ہے، یہ سلسلہ نقشبندیہ احراریہ کی شاخ ہے اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے روحانی فیض سے ایک نئی تابناکی آ گئی۔
سلاسل کی کثرت کے باوجود اہل تصوف ایک ہیں ان میں روحانی اتحاد ہوتا ہے حضرت عبداللہ انصاری کے ملفوظات میں ہے فرماتے ہیں کہ اے جماعتِ صوفیہ! ایک دوسرے کے محتاج (ضرورت مند رہا کرو) جو کچھ تم کو چاہیے وہ تم ہی میں سے آتا ہے۔
کسی کی طرف حقارت سے نہیں دیکھنا چاہیے کیوں کہ اؤلیا ہمیشہ چھپے ہوتے ہیں کسی خانقاہ کے فرد کو اپنے سے کم نہیں سمجھنا چائے بلکہ اس کا ادب ہم پر بزرگوں کی نسبت کی وجہ سے واجب ہے۔
چار چیز ہوں تو بر آئے مسلماں کی مراد
احتماد ایتقاد و اتفاق و اتحاد
- دلاور فگار
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.