حضرت سید رفیع الدین قادری محدث اکبرآبادی
شہر اکبرآباد کے صوفیائے کرام میں اولین جن شخصیتوں نے خانقاہی تعلیمات اور تصوف کو عام کیا اس میں حضرت سید رفیع الدین محدث کا نام آگرہ کی تاریخ میں صفحۂ اول میں ہوتا ہے۔
حضرت عبدالحق محدث دہلوی اپنی مشہورِ زمانہ کتاب اخبارالاخیار کے صفحہ ۵۱۳ میں ان کا ذکر اہتمام سے کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ
’’آپ حسب و نسب میں صاحب فضیلت بزرگ تھے، آپ کے آباؤ اجداد سب کے سب عالم، صالح اور متقی تھے، تفسیر معینی کے مصنف میر معین الدین آپ کے اجداد میں سے تھے جو سالہا سال تک مدینہ منورہ کے مجاور رہے ہیں اور اب تک آپ کی اولاد میں سے بعض مکہ معظمہ میں قیام پذیر ہیں، یہ تفسیر معینی جامع پاکیزہ اور مفید تفسیر ہے، اس کے علاوہ چند رسائل جو جزوی مسائل کے تحقیق میں ہیں سپرد قلم کئے ہیں، شیخ صفی الدین کی طرف نسبت کرنے والے اپنے کو ساداتِ صفویہ بتلاتے ہیں یہ بھی آپ کے اجداد میں سے ہیں، غالبا شیخ المحدیث قدوۃ المحقیقین مولانا جلال الدین محمد دوانی جن کو سادات اسلامی کہتے ہیں یہ بھی آپ کے اجداد میں سے تھے اور یہ وہ بزرگ ہیں جن کو روضۂ سرکار دوعالم سے آپ کو سلام علیک کا جواب ملا کرتا تھا غرض کہ سید رفیع الدین صفوی بڑے دانشمند محدث تھے جود و سخاوت اخلاق اور مہر بانیوں کے مجسمہ تھے، آپ معقولات میں مولانا جلال الدین کے شاگرد ہیں جو آپ کے آبا و اجداد کی بزرگی کے پیش نظر شیراز میں آپ کے گھر آکر آپ کو پڑھا یا کرتے تھے، آپ کو علم حدیث میں شیخ شمس الدین محمد ابن عبد الرحمٰن محقق علم حدیث اور قدوۃ المتاخرین سے شرف تلمذ حاصل ہے، کہتے ہیں کہ شیخ سخاوی نے سید رفیع الدین کی آمد سے قبل تقریباً پچاس کتابوں سے روایت کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد سید رفیع الدین نے بالمشافہ حدیث پڑھی اور عرصہ دراز تک شاگرد رہے، آپ کا اصلی وطن شیراز تھا اور پیدائش بھی شیراز میں ہوئی اس کے بعد اپنے والدین کے ساتھ حرمین کے ساتھ شریفین میں سکونت پذیر ہوگئے پھر سلطان سکندر کے زمانے میں گجرات سے دہلی روانہ ہوئے اور سلطان سکندر کو آپ سے بے حد عقیدت تھی اگر چہ آپ کو مال و دولت بہت ملتا تھا لیکن سب کو اللہ کے راستہ میں لٹا دیتے تھے آخر میں سلطان سکندر کے اصرار سے آگرہ میں مقیم ہوگئے
بادشاہ سکندر لودھی آپ کی بے حد تعظیم و تکریم کرتا اور ہمیشہ حضرت مقدس کہہ کر مخاطب کیا کرتا اپنے زمانے میں آپ ممتاز مشائخ میں شمار ہوتے، تمام کلمہ گو و غیرکلمہ گو کے دلوں پر آپ کا نیک اثر تھا، بادشاہ وقت بھی آپ سے فتوے طلب کرتے اور ہمیشہ اموراتِ سلطنت میں آپ کے نیک مشوروں پر کاربند ہوتے تھے، اس کی وجہ کمالِ علم اور اخلاص تھا۔
سعید احمد مارہروی اپنی کتاب اپنی تصنیف بوستان اخیار میں لکھتے ہیں کہ
سکندر ابراہیم ، بابر، ہمایوں، شیر شاہ، سلیم شاہ چھ بادشاہ آپ کے زمانے میں گزرے، طرح طرح کے فتنہ و فساد اور ملکی انقلاب اس عرصہ میں ظہور میں آئے، بعض علما و مشائخین ایک عہد میں مقبول اور دوسرے زمانے میں غیر مقبول ہوکر دوشمن حکومت سمجھے گئے مگر آپ کا طرز عمل ایسا مقبول اور پسندیدہ تھا کہ جملہ سلاطین آپ کے مطیع و فرماں بردار رہے
آپ کی خانقاہ و مسافر خانہ عام اور آپ کا دسترخوان خلیل دستر خوان تھا، ہزاروں علما، فضلات، غربا، امرا دور دراز ملکوں سے آکر آپ کی خانقاہ میں فروکش ہوتے اور آپ کی سخاوت دریا دلی سے اکثر آپ ہی کے محلہ میں آباد ہوجاتے تھے اگرچہ آپ دنیاوی کاروبار نطق رکھتے تھے مگر جو کچھ حاصل ہوتا تھا سب مصارفِ خیر خصوصاً مسافروں غریبوں اور طالب علموں کی پرورش میں صرف کردیتے تھے، تمام عمر خانقاہ میں درس و تدریس خصوصا علم حدیث کا چرچہ رہا، آپ کے ہزاروں شاگرد درجہ کمال کو پہنچے۔
شیخ مبارک والد ابوالفضل و فیضی جب مسافرانہ طور پر آگرہ میں وارد ہوئے تو اول آپ ہی کی خانقاہ میں ٹھرے تھے پھر آپ کے ہی محلے میں آباد ہوئے، ہمیشہ نازک حالتوں میں آپ ان کی مدد فرماتے رہے۔
مولانا محمد حسین آزاد اپنی تصنیف درباراکبری میں لکھتے ہیں کہ
’’میر موصوف (ابوالفضل) حسنی حسینی سید ہیں، قریہ ان کا متعلق شیراز تھا مگر مدت تک عرب میں سیاحی کرتے رہے، ہند میں آتے تھے تو آگرہ میں رہتے تھے، عرب میں جاتے تھے تو مکہ اور مدینہ منورہ میں سفر کرتے رہتے تھے اور درس و تدریس سے لوگوں کو فیض پہنچاتے تھے، معقول و منقول اپنے بزرگوں سے حاصل کئے تھے، مولانا جلال الدین دوانی کی شاگردی سے نئی روشنی پائی تھی، شیخ سخاوی کہ (جو) شیخ ابن حجر عسقلانی کے شاگرد تھے، سید موصوف نے علوم نقلی ان سے حاصل کئے تھے‘‘
چنانچہ شیخ نے اپنی مصنفات میں بھی ان کا کچھ کچھ حال کہا ہے، فقۂ ہند کی جلد سوم میں صفحہ ۱۷٩ میں محمد اسحاق بھٹی نے بھی اخبارالاخیار کے حوالہ سے آپ کا وہی ذکر لکھا ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔
راقم کے جدامجد حضرت میکش اکبرآبادی نے اپنی تصنیف آگرہ اور آگرہ والے کے مضمون نظیر اور زندگانیٔ بے نظیر میں نظیر کے استاد شاہ غلام رسول کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’شاہ غلام رسول ہمشیرہ حضرت سید اصغر سے منسوب تھیں اور شاہ غلام رسول صاحب کی صاحبزادی سید منور علی شاہ کو بیاہی تھیں جو سید امجد علی شاہ اصغر اکبرآبادی کے صاحبزادے تھے، سید غلام رسول حضرت سید رفیع الدین صفوی کی اولاد ہیں جن کا مزار بیلن گنج آگرہ میں ہے‘‘
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ان کا ذکر اخبارالاخیار میں بڑی عظمت سے کیا ہے لکھا ہے کہ ان کے خاندان کی عظمت و توقیر کی وجہ سے شیراز میں شیخ جلال الدین دوانی ان کے مکان پر انھیں پڑھانے آتے تھے، اس زمانے کی معاشرت کے اعتبار سے یہ بہت ہی عجیب بات ہے کہ اتنا بڑا علامہ کسی کے گھر پڑانے کے لئے جائے، سید رفیع الدین حدیث میں علامہ سخاوی کےشاگرد ہیں جو مشہور محدثین میں ہیں، یہ سلطان سکندر کے زمانے میں دہلی تشریف لائے اور پھر سلطان ہی کی درخواست پر آگرے میں قیام فرمایا، سید مجاہدالدین ان کی اولاد سے تھے، وہ ان کے صاحبزادے سید مبارزالدین اور سید محمد کاظم یہ سب ملکو گلی آگرہ میں رہتے تھے اور وہیں مسجد کے پیچھے دفن ہیں، سید غلام رسول صاحب سید محمد کاظم کے صاحبزادے تھے، سید امجد علی شاہ نے کئی دستاویز تحریر فرمائے ہیں، اس لئے اس بارے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ غلام رسول اور سید محمد معظم ایک ہی شخص نہیں ہیں۔ (آگر اور آگرہ والے،ص ۱۵۳)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.