طرفتہ العینِ آگرہ
شہر آگرہ عہدِ اکبری سے ہی ادب دوست اور علم گیت رہا ہے، ادیب اور درویش یہاں کثرت سے ہوئے جو اپنی طرح کے منفرد آہنگ و طرز رکھنے والے ہیں، آگرہ کی موجودہ بساوٹ اور نقشہ جس بنیاد پر قائم ہے وہ ابراہیم لودھی کا بسایا ہوا شہر ہے جو جمنا کے دونوں طرف برابر تھا آج بھی اگر جیوگرافیائی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس زمانے کے آثار نظر آجائیں گے کہیں کہیں مقدوش عمارات موجود ہیں جو اس عہد کی تعمیر اور طرزِ تعمیر کو ظاہر کرتی ہیں، اپنے وقت اور شان کا نشان بنی نظر آتی ہیں، لودھی علم دوست تھا اور درویشوں سے محبت کرتا تھا، آگرہ میں ایران، ترکی، عراق اور عرب کے بڑے بڑے مشائخ فقہا کو بڑی احترام سے بلاکر تواضع کی جاتی تھی، حکومتی مشورے لئے جاتے، دیکھتے ہی دیکھتے آگرہ علم و ادب نیز اہلِ صفا کا مرکز بن گیا سید رفع الدین محدث کی مسجد اور خانقاہ اسی دور کی تعمیر ہے آج یہ محلہ بیلن گنج کہلاتا ہے جو انگریزوں کے زمانے میں ایک افسر کے نام بیلون پر بدل دیا گیا تھا اس دور میں یہاں بڑی بڑی حویلیاں ہوا کرتی تھی آصف خاں (شاہ جہاں کے خاص درباری) نے یہاں کئی حویلیاں بنوائی اور بھی نہ جانے کتنے محلات تھے جو جو 1857 سے 1947 کے درمیان حالات اور تغیوراتِ زمانہ کا شکار ہوئی۔
خیر! دور بدلتے گئے لودھیوں کی حکومت جاتی رہی، بادشاہ بابر نے آگرہ کا رخ کیا، یہاں کی آب و ہوا اور اپنی حکومت کے طرز کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا دارالسلطنت بنا دیا، اکثر آگرہ میں وقت گزارتا تھا، کئی مسجد اور باغ بنوائے جس میں سے آرام باغ آج بھی موجود ہے، ایک مسجد بھی اعتمادالدولہ کے صدر دروازے کے سامنے واقع ہے، آگرہ اکبر کے دور میں ہندوستان کا مرکزی شہر بنا، اکبر نے سلطنتِ مغلیہ کو مضبوط کرکے ایک مرکز دارالسلطنت آگرہ سے باندھ دیا، اسی عہد میں بہت سارے محل عمارات اور حکومتی دفتر بھی بنوائے گئے۔
الغرض ایک پورا نیا شہر وجود میں آگیا جسے فتح پور سیکری کہا جاتا ہے، یہ جگہ آگرہ کی شہری بساوٹ سے 36 کلومیٹر دور واقع ہے جس میں حکمت یہ تھی کے راجپوت راجہ جو ہمیشہ مغل حکومت کو کمزور کرنے کے در پہ تھے آئے دن نئی سازش رچتے تھے، راجستھان کی سرہد اسی شہر سے متصل تھی، ان کی نگرانی یہیں سے ممکن ہو سکتی تھی، آگرہ میں لال قلعہ بھی اکبر کی ہی بنائی عمارت ہے، یہیں سے اکبر نے پورے ہندستان پر حکومت کی اسی شہر میں اکبر کا ادب پروان چڑھا جو بعد میں پورے ملک کی پہچان بنا، مذہب و زبان کے عالم کو اس دربار میں عزت ملتی تھیآگرہ اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں تک ہندوستان کی راجدھانی رہا یہی دور حکومتِ مغلیہ کا زریں دور بھی ہے زبان اردو کی بنیاد بھی اسی قلعہ سے اکبر کے دربار میں پڑی عہدے شاہ جہانی میں اس زبان میں اور نکھار آیا فوج کام نام اردو معلہ تھا جس کے معنی لشکر ہے ان کی زبان جو تمام ملک کے لوگوں کے ایک جہاں اکھٹے ہونے اور آپسی کلام سے شکلے اردو اور نامِ اردو سے جانی جانے لگی یہ سرکاری زبان جو اس وقت فارسی تھی کے بنا پرقائم ہوئی جس میں عربی، فارسی سنسکرت، ترکی، پوربھی، برج بھاشا، دکنی، اودھی کچھ کچھ بنگالی زبان شامل ہے۔
اردو کے نظریاتی اور سیاسی سماجی پہلو پہ نظر ڈالی جائے تو اکبر اور آگرہ اس کے بنیادی عناصر نظر آئیں گے اردو کا پہلا نام ہندوستانی زبان ہے جس کے داغ بیل حضرت امیر خسرو کے ادب سے پڑتی ہے، بحر حال ! آگرہ اردو کے بانیٔ شہر ہونے کا مدلل اور صادق داویدار ہے اودھ، دکن، پنجاب اور بہار میں اردو کے لئے سنگِ بنیاد رکھنے والے ادبا میں ولی اورنگ آبادی، قلی قطب شاہ ولی دکنی، خواجہ میر درد، ملا وجہی وغیرہ ہیں، اردو ارتقا میں ان کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے، ہمارا مقصد تو شہر آگرہ اور اردو کا تعلق بیان کرنا ہے جو اپنے سیاسی اور سماجی ارتقائی بنا پر اہم ہے، اردو ادب کی تاریخ لکھنے والے کسی طرح اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
میر تقی میر، مرزا غالب، مرزا مظہر جانِ جاناں، مصطفٰے خاں شیفتہ، سراج الدن خان آرزو، ماہر اکبرآبادی، نبی بخش حقیر، نظیر، اسیر رہا، رئیس، سید امجد علی اصغر، سید مظفر علی شاہ اللہی، ابوالحسن شیدائی، سعادت علی سعید اکبرآبادی، مرزا حاتم علی بیگ، منشی نیاز علی پریشاں، شاہ اکبر داناپوری، نثار اکبرآبادی، تصوف حسین واصف، رہا اکبرآبادی، خادم اکبرآبادی، عالی اکبرآبادی، ماہر اکبرآبادی، نظام الدین دلگیر، اخضر اکبرآبادی، میکش اکبرآبادی، مخمور سعیدی، ل اکبرآبادی، مخمور اکبرآبادی آگرہ کے ایسے شعرا ہیں جن کا کلام دنیا بھر میں مشہور ہوا اور ایک عالم ان کے نام سے واقف ہے اور نہ جانے کتنے ادیب شعرا ہیں جو آگرہ کی تہذیب کی ہی طرح بن پہچانے، ’’بن منوائے اپنی درویشانہ خو لئے‘‘ تاریکی میں اس سرزمین میں سو رہے ہیں۔
ان میں سے بعض 1950 کے بعد پاکستان میں آگرہ کا نام روشن کیا، ملاحاظہ کیجئے۔
سیماب اکبرآبادی
اعجاز حسین صدیقی
صبا اکبرآبادی
رعنا اکبرآبادی
اختر اکبرآبادی
آفریدی اکبرآبادی
اثر اکبرآبادی
سیفی اکبرآبادی
سرور اکبرآبادی
ضیا اکبرآبادی
منظر صدیقی
بزم آفندی
نجم آفندی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.