حضرت سید احمد اللہ احمدی قادری
حضرت سید احمداللہ قادری ابن سید الہام اللہ ابن سید خلیل اللہ ابن سید فتح محمد ابن سید ابراہیم قطب مدنی شہر اکبرآباد میں اس وقت پیدا ہوئے جب مغلوں کے انحطاط اور سیاسی افراتفری کا دور تھا، شاہ عالم ثانی تھے تو ہندوستان کے بادشاہ لیکن در حقیقت انگریزوں کی سازشوں اور بڑھتے رسوخ نے انہیں بے بس بنا دیا تھا، ادھر بغاوتوں اور خانہ جنگیوں نے حکومت کو عاجز کر رکھا تھا، دہلی میں جب یہ سازش ہو رہی تھی تو اس وقت آگرہ مغل حکومت کے لئے اہم ترین شہر تھا جہاں نہ صرف سب سے زیادہ مغلوں کی تاریخی عمارات ہیں بلکہ آگرہ قلعہ سیاسی طور پر علامتِ استقام حکومت بھی تھا اسی غرض سے باغیوں اور دشمنوں کے نشانے پر آگرہ پہلے رہتا، جاٹوں کی بغاوت کے وقت بھی آگرہ کو نشانہ بنایا گیا، مراٹھوں نے بھی آگرہ کے اس پاس ڈیرا ڈالا، الغرض یہ عہد انتشار کا تھا شرافا، نجبا سبھی اضطرابی حالت سے گزر رہے تھے اس صورت حال میں حضرت احمداللہ قادری نے خدمت خلق اور تبلیغِ دین کا فریضہ انجام دیا، صبر و استقامت کے ساتھ علمِ ظاہر و باطن کی شمع کو جلائے رکھا، سلسلۂ قادریہ میں آپ بیعت بھی کرتے اور آپ کے کئی خلفا کا ذکر بھی کتب میں مل جاتا ہے، آگرہ میں آپ کی شخصیت خصوصیت کی حامل تھی، سعید احمد مارہروی لکھتے ہیں کہ
حضرت کا اسم گرامی سید احمداللہ عرفیت و تخلص احمدی، آگرہ کے سادات عظام اور علمائے کرام سے تھے، رسمی علوم میں مولانا شاہ عادل اکبرآبادی کے شاگرد رشید تھے، 1216ھ میں وصال فرمایا سید امجد علی شاہ قادری آپ کے فرزند رشید نے یہ تاریخ رحلت موزوں فرمائی جو آپ کے مزار واقع مسجد شاہی محلہ مدرسہ پر کندہ ہے۔
چوں بجنت کرد و مسکن مولوی معنوی
شمع بزم احمدی مجلس فروز قادری
بر گزشتم از سر ہوش و شنیدم ایں ندا
مقتدائے راہ احمد بود بے شک احمدی
حضرت سید امجد علی شاہ اصغر اکبرآبادی
آپ کے تین صاحبزادے تھے، بڑے سید امجد علی شاہ، منجھلے سید محمد میر اور چھوٹے غلام مصطفیٰ، مولوی ڈپٹی امداد علی جناب غلام مصطفےٰ کے صاحبزادے ہیں۔
(بوستانِ اخیار)
حضرت میکش اکبرآبادی لکھتے ہیں کہ
’’حضرت مولانا سید امجد علی شاہ اصغر کے والدماجد مولانا سید احمداللہ کا سلسلہ طریقت اباعن جدً قادری تھا، ابتدائی تعلیم بھی والد سے ہی حاصل کی‘‘
حضرت استشہادات میں لکھتے ہیں کہ
’’قبلہ گاہی والد صاحب حضرت احمداللہ قادری خواجہ معین سمرقندی کی مسجد (لودھی خاں کا ٹیلہ فری جنگ اور دنیا گنج کے پاس) حویلی میں سکونت پذیر رہے، خواجہ معین سمرقندی کی مسجد میں نماز پنجگانہ جمعہ اور عیدین پڑھاتے رہے اور مجلس وعظ برپا کرتے، مریدین کی نماز میں آپ کے پیچھے قریب ہزار آدمی نماز پڑھتے تھے، جاٹ گردی کے زمانے میں ہماری حویلی میں آگ لگی تمام کاغذات مع املاک اور جاگیر کے جل گئے اور تقریبا ایک ہزار کتابیں بھی جل گئی پختہ حویلی کوئلہ ہوکر رہ گئی، اس زمانے میں حضرت قبلہ گاہی صاحب مدرسہ سید افضل خاں میں اپنے استاد مولانا عادل صاحب کے پاس تشریف لے آئے کیوں کہ وہ حضرت قبلہ کے استاد تھے اور مدرسہ ان کی ملکیت تھا اور میر منا کو جو حضرت قبلہ گاہی صاحب کے خلیفہ تھے مسجد خواجہ معین خاں میں مقرر کردیا وہ وہاں واعظ و جماعت حسب دستور کرتے رہے‘‘
(حضرت غوث الاعظم سوانح و تعلیمات مع تذکرہ فرزند غوث الاعظم، صفحہ 190، 191)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.