Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شاہ محمد عمادالدین محمدی بیدار چشتی

فیض علی شاہ

حضرت شاہ محمد عمادالدین محمدی بیدار چشتی

فیض علی شاہ

MORE BYفیض علی شاہ

    پیدایش : بیدار کی ولادت کی صحیح تاریخ اور عمر کا پتہ نہیں چلتا لیکن وہ میر صاحب کے تذکرے کی تالیف کے زمانے (۱۱۶۵ھ) اور میر حسن کی ملاقات کے وقت (۱۱۸۸ھ تا ۱۱۹۲ھ) سے ۱۴ سال قبل (۱۱۷۴ھ) میں جوان تھے، اس وقت بیدار کی عمر ۳۰ سال ضرور ہوگی۔ (دیوان بیدار مرتب محمد حسین محوی صدیقی ص ۱۶)

    نام و نسب : بیدار کا اصل نام محمد علی، لقب میر، عرف میر محمدی اور تخلص بیدار تھا۔

    عام طور پر سید مشہور ہونے کے باوجود وہ نسباً شیخ فاروقی تھے جو بابا فریدالدین گنج شکر (متوفی ۵ محرم ۶۶۴ھ) کے سلسلہ اعقاب سے تعلق رکھتے تھے، بابا صاحب تک بیدار کا سلسلہ نسب ۱۴ واسطوں سے منتہی ہوتا ہے، بیدار کی والدہ کا نسبی تعلق بھی شیوخ فریدی کی ایک شاخ سے تھا، وہ مشہور صوفی حضرت شیخ سلیم چشتی کی اولاد سے تھیں، جن کا سلسلہ نسب ۸ واسطوں سے بابا فرید تک پہنچتا ہے، بابا صاحب حضرت عمر فاروق کی بیسویں پشت میں تھے اور ہندوستان کی ان معروف شخصیتوں میں سے تھے جن کے روحانی فیض سے اس ملک کی فضا آج بھی روشن ہے۔ (دیوان بیدار مرتب پروفیسر نسیم احمد ص xxx)

    وطنی نسبت اور مقام ولادت : بیدار عرب سرائے شاہ جہان آباد میں سکونت پذیر تھے، بیدار کا اصل وطن آگرہ تھا لیکن وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور عمر کا بیشتر حصہ انہوں نے وہیں بسر کیا، ثناؤالحق لکھتے ہیں کہ

    بزرگوں کا وطن اکبرآباد تھا لیکن ان کا قیام شروع ہی سے شاہ جہان آباد (دہلی) میں رہا اس لئے عموماً شاہ جان آبادی مشہور ہیں‘‘ (دیوان بیدار مرتب پروفیسر نسیم احمد، ص xxx1)

    اسباب کی ناموافقت اور حالات کی نامساعدت کی وجہ سے مجبوراً دلی کو چھوڑ کر اکبرآباد پہنچے اور وہیں سکونت کی طرح مستقل قیام کرلیا اور اسے اپنا وطن مالوف بنا لیا، اس کا پتہ ہمیں مصحفی اپنے تذکرہ ہندی میں ان الفاظ میں دیتے ہیں کہ حالا گوینت کہ از چندے اکبرآباد رونق افزا است شیفتہؔ دہلی کے تذکرہ گلشن بے خار کو دیکھنے سے اس روایت کی تصدیق ہو جاتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بیدار یہاں پہنچ کر کٹرہ دندان فعل میں رہا کرتے تھے جو آگرہ کا مشہور محلہ تھا ساری زندگی یہیں گزار دی۔ (دیوان بیدار مرتب محمد حسین محوی صدیقی ص ۱۶)

    بیدار بحثیت صوفی : بیدار ایک صاحب سلسلہ صوفی تھے، ابتداً شاہ عبدالستار دہلوی جن کا شمار اپنے دور کے بزرگان دین میں ہوتا تھا کہ ارادت مندوں میں شامل تھے، چناچہ ان کے انتقال پر انہوں نے اپنی ایک فارسی مثنوی شمیرہ و مدح اؤلیائے عظام میں ان سے اپنی عقیدت و مودت کا اظہار کیا ہے، مرشد اول شاہ عبدالستار کی وفات کے بعد بیدار مولانا فخرالدین جو ایک جید عالم اور صاحب طریقت بزرگ تھے کے مرید ہوئے، مولائے موصوف سے انہیں بے حد عقیدت تھی، بیدار نے مرشد ثانی کی تعریف و توصیف میں بھی شعر کہے ہیں اور ان کی وفات پر قطعہ تاریخ نظم کر کے نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔

    بحق گوہر بحر کمال فخر الدین

    فلک جناب و ملائک خصال فخر الدین

    (دیوان بیدار مرتب پروفیسر نسیم احمد ص xxxvlll)

    خواجہ فخرالدین چشتی سے بیعت ہوکر سلسلۂ چشتیہ کے طریق و اطور کو اپنی زندگی کا حاصل بنایا اور لباس درویشی زیب تن کیا، میر حسن اپنے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ قریب چہاردہ سال شدہ باشد کہ فقیر او را در لباس درویشی در شاہ جہان آباد دیدہ بود‘‘ آخرمیں انہوں نے خرقۂ خلافت پہنا۔

    پروفیسر عبدالغفور شہباز لکھتے ہیں کہ

    حضرت مولانا فخرالدین جو دہلی کے اکابر مشائخ میں تھے اور اکثر شاہ زادے اور اُمرا ان کے مرید تھے وہ ایک دفعہ اکبرآباد تشریف لائے اور حضرت سیدنا امیرابوالعلا اکبرآبادی کے مزار مبارک پر چند ماہ معتکف رہے، اسی زمانے میں حضرت ملا (کتابوں میں میر لکھا ہے) محمدی بدایونی المتخلص بہ بیدار جن کا مزار اکبرآباد کنارے بازار دانت کے کٹرے میں واقع ہے، یہ نظیر (آکبرآباد) کے بڑے دوست تھے، یہ اور نظیر دونوں حضرت سیدنا امیرابوالعلا اکبرآبادی کے مزار مبارک کے حاضر باش تھے، وہیں مولانا سے ملاقات ہوئی اور ان کے حلقہ استرشاد میں آئے اور وہیں سے مذاق تصوف پیدا ہوا، میر محمدی بیدار کا حال باطن یوں تحریر کرتے ہیں، اصل ان کی دہلی ہے، ذی علم آدمی تھے، عہدِ شباب کو عرب سرا میں بسر کیا جو شاہ جہاں آباد سے تین کوس ہے، حضرت مولوی محمد فخرالدین صاحب کے آگے سرِ عقیدت جھکایا اور ان کے انفاس متبرکہ سے فائدہ ظاہری و باطنی اٹھایا، آغاز صبح پیری میں اکبرآباد تشریف لائے، کٹرہ دندان فیل میں قیام کیا، دو دیوان کے مالک ہیں، اردو میں میر درد سے ان کو فیض سخن حاصل تھا اور فارسی میں مرتضیٰ اقلی بیگ فراق سے (زندگانی بے نظیر، صفحہ 163)

    بیدار بحثیت شاعر : بیدار میر و مرزا کے عہد کے ان ممتاز شعرا میں شامل ہیں جن کا ذکر بلا استثنا شعرائے اردو کے تمام تذکرہ نگاروں نے کیا ہے، انہوں نے اردو اور فارسی دونوں زبان میں طبع آزمائی کی ہے اور اپنے زمانے کے صاحبِ نظر سخن شناسوں سے اپنے کلام کے فکری و معنوی معیار اور زبان کی شستگی و رفتگی پر خراج تحسین حاصل کیا ہے، ان کا دیوان پہلی بار مولانا محمد حسین محوی صدیقی نے مقدمہ و حواشی کے ساتھ مرتب کر کے ۱۹۳۵ء میں مدراس یونیورسٹی کی جانب سے شائع کیا، یہ اشاعت دو حصوں میں ہے، پہلے حصہ میں اردو کلام اور دوسرے حصہ میں فارسی کلام شامل ہے، بیدار نے اپنے کلام اصلاح کی نسبت سے خواجہ میر درد کو دکھایا ہے، فارسی میں مرتضیٰ قلی خاں فرآق سے مشورہ سخن کرتے تھے، چنانچہ میر درد کے شاگرد تھے اس لئے بیدار کے کلام میں درد کا رنگ جھلکتا ہے، تصوف ان کے روح کے ساتھ پیوست تھا، اس کا اثر ان کی کچھ غزلوں میں دیکھنے کو ملتا ہے، غزلیں شروع سے آخر تک اخلاق اور تصوف کے مضامین سے لبریز ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ غزل سے امرد پرستی، بوالہوسی اور عامیانہ اظہار عشق کے مضامین نکال کر مرزا مظہر جان جاناں، خواجہ میر دردؔ اور سوداؔ جیسے شعرا نے تصوف اور اخلاق کا رنگ بھرا اور ایک شریفانہ مہذب قالب غزل کو مہیا کیا اس کوشش میں میر محمد بیدارؔ بھی برابر کے حصہ دار ہیں، ان کے کلام میں وہ ساری خوبیاں اور خصوصیات موجود ہیں جو ان کے معاصرین کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔

    ہم ہی تنہا نہ تیری چشم کے بیمار ہوئے

    اس مرض میں تو کئی ہم سے گرفتار ہوئے

    خانہ چشم میں رکھتے تھے شب و روز کہ تم

    قرۃ العین ہوئے راحت دیدار ہوئے

    نہ وہ اخلاص و محبت ہے نہ مہر و وفا

    شیوہ جور و جفا و ستم اظہار ہوئے

    (دیوان بیدار مرتب پروفیسر نسیم احمد ص L)

    بیدار تزکروں میں :

    ۱- تذکرہ میر حسن۔

    میاں محمد علی المتخلص بہ بیدار از شاگردان مرتضیٰ قلی بیگ کہ شاعر فارسی گو بود و فراق تخلص محی نمود، فریب چہاردہ سال شدہ باشد کہ فقیر او را لباس درویشی در شاہ جہان آباد دیدہ بود طبع درد مند داشت باریک و منجی بہ زبور حلم و حبا آراستہ، معلوم نیست کہ الحال کجاست

    ۲- تذکرہ سراپا سخن۔

    (الف) ’’شاعر نامراد میر محمدی بیدار، باشندہ دہلی، صاحبِ دیوان شاگرد مرتضیٰ قلی خاں فراق (سراپا سخن ص ۲۶۷)

    (ب) ’’شاعر نامدار میر محمدی بیدار باشند دہلی صاحب دیوان شاگرد مرتضیٰ قلی خاں فراق (سراپا سخن ص ۲۶۹)

    ۳- سخن شعرا۔

    بیدار تخلص میر محمد علی عرف میر محمدی دہلوی شاگرد مرتضیٰ قلی خاں فراق و مرید حضرت مولانا فخر الدین، شعر گوئی میں اچھی پیدا کی تھی، اکبرآباد میں جاکر راہی ملک بقا ہوئے، صاحبِ دیوان گزرے، سعادت خاں ناصر نے جوان کو میر محمدی متخلص بہ ضربان کے دھوکے میں ثناؤاللہ فراق کا شاگرد لکھا ہے

    سخن شعرا۔ عبد الغفور نساخ ص ۷۴-۷۵ ۱۷ شعر

    گلشن بے خار۔ مصطفیٰ خان شیفتہ ص ۳۷- ۳۸ ، ۳۱ شعر۔

    ۴- تذکرہ روز

    بیدار : مرزا محمدی اکبرآباد درویشی معتزل و قانع و متوکل از مریدان مولانا فخرالدین دہلوی قدس سرہ بود، چند روز قبل از وفات خود کتابی نزشت کہ فقیر فلاں تاریخ فلاں ماہ فلاں روز فلاں وقت ازیں عالم فانی نقل بہ و جہاں جاویدانی خاھر نمود، دوستان از راہ مہربانی بہ نماز جنازہ ام نوازید و ھمحان نہ وقوع آمد شعر فارسی)

    (تذکرہ روز روشن مظفر حسین صبا، ص ۱۳۱ تا ۱۳۲ انتشارات کتاب خانہ رازی طہران ۱۳۴۳) (دیوان بیدار مرتب پروفیسر نسیم احمد، ص XLll)

    وفات : 27 ذی الحجہ 1210ھ  1797ء میں انتقال کیا اور آگرہ میں دفن ہوئے۔

    بیدار کی صحیح تاریخ وفات وہ ہے جو تذکرہ آزردہ کے حاشیے میں اکمل التاریخ کے جلد سے نقل ہوئی ہے، اس کتاب مذکور میں اس واقع کی تفصیل اس طرح بیان کی گئی ہے کہ

    بمقام آگرہ بماہ ذی الحجہ ۲۷ تاریخ کو ۱۲۱۰ھ میں وصال ہوا مزار شریف قریب اکبری مسجد زیارت گاہ خلائق

    جناب معظم علی شاہ (صدر شعبۂ نفسیات : سینٹ جانس کالج  آگرہ) تحریر فرماتے ہیں کہ

    حضرت شاہ بیدار صاحب کا مزار شریف فوارہ سبزی منڈی میں واقع ہے، لوح پر جو قطعہ درج ہے وہ پڑھا نہیں جا سکتا کیونکہ اس پر متواتر سفیدی کی وجہ سے سب چھوٹ گیا ہے، اگر اس کو صاف کیا جائے گا تو اندیشہ ہے کہ حروف تلف ہوجائیں اور ٹوٹ جائیں اس لئے مطابقت ممکن نہیں (دیوان بیدار مرتب پروفیسر نسیم احمد، ص xxxvii)

    تاریخ وصال برمزار۔

    بیدار کہ بود فخرِ اہل عرفاں

    ہر گہ کہ ازیں سراے فانی بگزشت

    تاریخ براے رحلتش ہاتف گفت

    آں ہادیِ آفاق بحق واصل گشت

    مزار شریف:  آگرہ میں فوار چوراہا (پرانہ نام دانت کا کٹرہ تھا) پر ہے، ہر سال ذالحجہ کی 26،27 کو سادگی سے عرس ہوتا ہے۔

    نمونہ کلام

    جگا کہ خوابِ آسائش سے بیدار آہ ! ہستی نے

    عدم آسودگاں کو لاکے ڈالا یہاں تباہی میں

    تیغ خوں ریز بہ کف، خنجرِ برّاں بہ میاں

    ہر گھڑی سامنے آ جاتے ہو خوں خوار ہوئے

    بالیں پہ تو نے ظالم آ اک نظر نہ دیکھا

    عاشق نے جان تو دی پر کیا ہی حسرتوں سے

    کروں کیا، تیرے بِن دیکھے، میں اک دم رہ نہیں سکتا

    کہ ہوں مجبور میں اس امر میں بے اختیاری کا

    ہو گیا گرتے ہی تیری چشم سے دامن کے پار

    اشک تھا بیدار یہ یا آک کا پرکالہ تھا

    خورشید سپہر رسول الثقلین

    ہے ان کے علی و فاطمہ نورِ دو عین

    فانوسِ نبوت و ولایت کے بیچ

    مانند دو شمع جلوہ گر ہیں حسنین

    سلطانِ کریماں ہے علیِّ اکرم

    سائل کو نماز بیچ بخشی خاتم

    مولاے کرجم جس کا ہووے ایسا

    کب اس کو ہو احتیاجِ دینار و دِرم

    حسن سرورِ لشکرِ اؤلیا

    حسین ابن حیدر شہہ اتقیا

    غلام ان کا ہوں میں برا یا بھلا

    وسیلہ ہے میرا یہی اے خدا

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے