تذکرہ حضرت سراج اورنگ آبادی
سراج اورنگ آبادی اردو تہزیب کا ایک اہم نام ہے، وہ اردو کے صوفی شعرا میں اپنی ایک علاحدہ شناخت رکھتے ہیں، اردو شاعری کے ابتدائی دور میں جہاں حاتم، آبرو، یقین وغیرہ اردو شاعری کے حق میں تذبذب کا شکار تھے، اس وقت ولی کے جانشین سراج کی شاعری کا طوطی بول رہا تھا۔
نام و نسب اور پیدائش :- دکنی شعری روایتوں کے امین سراج اورنگ آبادی کا اصل نام سراج الدین اور تخلص سراج تھا، سراج کے آبا و اجداد سادات کاظمیہ میں سے تھے، سراج کے جد امجد سید محمد کا یہ خاندان سراج سے چار سال قبل مدینہ منورہ سے ہجرت کرکے ہندوستان آیا تھا، اورنگ آباد سے قریب دیول گھاٹ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، یہاں ایک صوفی درویش سید عبدالطیف شہید رہا کرتے تھے، ان کی لڑکی سے سید درویش کا نکاح ہوا، اسی کے بطن سے سید درویش کے یہاں ایک لڑکا ۱۳ صفر ۱۱۲۴ھ بروز پیر اورنگ آباد میں تولد ہوا، لڑکے کا نام سراج الدین رکھا گیا، سراج کی یہی تاریخ ولادت خاتم الولایہ سے بھی برآمد ہوتی ہے، انگریزی کیلینڈر کے مطابق ۲۱ مارچ ۱۷۱۲ء کے دن یہی تاریخ رہی تھی، پروفیسر عبد القادر سروری اور عبدالودود نے قیاساً سراج کی تاریخ ولادت ۱۱۲۸ھ بمطابق ۱۷۱۶ء متعین کی ہے جو اس مخطوطے کی بازیافت کے بعد غلط ثابت ہوئی۔
(سراج اورنگ آبادی از ڈاکٹر سید یحیٰ نشیط صفحہ نمبر ۲-۳)
تعلیم:- سراج کی تعلیم کی طرف ان کے والدماجد نے خاصی توجہ کی، سراج کو خود بھی فارسی ادب اور شاعری سے غیر معمولی دلچسپی تھی، جیسا کہ پروفیسر عبدالقادر سروری کلیات سراج میں لکھتے ہیں کہ
جیسا ماحول انھیں اس وقت اورنگ آباد میں میسر تھا اور جو اہتمام ان کی تعلیم کے لئے ان کے بزرگوں نے کیا تھا اس سے با آسانی یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت پر خاصی توجہ دی گئی تھی، چنانچہ ۱۲ سال کی عمر تک وہ التزام کے ساتھ متداولہ علوم کی تحصیل میں مصروف رہے، چنانچہ پانچ سات سال کے اندر اندر انہوں نے تمام مشہور اساتذہ فارسی کا کلام پڑھ لیا تھا اور نہ صرف پڑھ لیا تھا بلکہ اس کی روح کو اپنے اندر جذب کر لیا تھا
جزب و بے خودی کی کیفیت:-
تیرھویں سال سے سراج کی زندگی میں ایک انقلاب رونما ہوا، جذب اور بے خودی کی کیفیت ان پر طاری ہوئی، تن بدن کا ہوش نہ رہا اور اسی حالت میں وہ گھر سے نکل کر چلے جاتے، اس زمانے میں ان کی منزل زیادہ تر شاہ برہان الدین غریب کے مزار پر ہوتی، کبھی کبھی وہ از خود رفتگی کی حالت میں رات رات بھر صحرا نودی کیا کرتے، یہ حالت خود سراج نوشتہ موجود ہے، یہ زمانہ ۱۱۴۱ھ تا ۱۱۴۸ ھ تک رہا، قاقشال کے بیان سے بھی ان واقعات کی توضیح ہوتی ہے، وہ اس میں اس کا بھی اضافہ کرتے ہیں کہ
بعض وقت وہ رات رات بھر کوہ صحرا میں پھرتے ہوئے گزار دیتے، ان کے والد ان کو پکڑ پکڑ لاتے لیکن جہاں انھیں موقع ملتا وہ بھاگ نکلتے، آخر مجبور ہوکر پدر بزرگوار نے اس دیوانہ شوق کو طوق و سلاسل پہنانا تک گوارا کر لیا، والد کی تمام کوششوں کے باوجود یہ حالت سات سال تک برابر قائم رہی
چنانچہ بارہویں سال سے جب جذب و بے خودی کی کیفیت ان پر طاری ہوئی تو اضطراری طور پر فارسی اشعار ان کی زبان سے جاری ہوئے ان اشعار کے متعلق سراج اورنگ آبادی خود لکھتے ہیں کہ
اگر وہ اشعار جمع کئے جاتے تو ایک اچھا خاصہ ضخیم دیوان تیار ہو اور لوگ اس کو پھڑتے تو لوگ اس کو پڑھتے تو ان کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے اشعار کو معجزہ سمجھے سراج کی زبان عالم بے خودی میں فارسی اشعار جاری ہو جاتے تھے، سراج نے انوارالسراج کے دیباچہ میں خود لکھا ہے کہ
عالم دیوانگی کی کیفیت جب بھی طاری ہوتی تو ان کی زبان سے بے ساختہ فارسی اشعار نکل پڑتے، ان اشعار کو انھوں نے شور انگیز کہا ہے
(مونوگراف سراج اورنگ آبادی از سید یحیٰ نشیط ص ۴)
بیعت اور اردو شاعری کا آغاز :-
سراج نے ۱۱۴۶ھ یا ۱۱۴۷ھ میں حضرت شاہ عبدالرحمٰن سے بیعت کی اور یہی زمانہ ان کے اردو شاعری کے آغاز اور عروج کا ہے، غالباً اسی لئے وہ اپنے شعر کی تاثیر کو مرشد کے فیض کا اثر بتاتے ہیں کہ
مشعل سوز جگر ہے ہر غزل مری سراجؔ
شمع دلِ روشن ہے فیض شاہ جہاں کے طفیل
مرشد نے سلوک کی ساری منزلیں طے کرا دیں اور سراج صوفی صافی بن گئے، مرشد کے حکم سے انہوں نے ۱۱۵۲ھ بمطابق ۱۷۴۹ء میں شعر کہنا ترک کر دیا اور یاد الہی میں محو ہو گئے، اب جو ان کا اردو کلام ہمیں دستیاب ہوا ہے وہ صرف سراج کی ۲۸ سالہ عمر کا اثاثہ ہے، اس میں سے بھی بچپن کے دس سال اور عارضہ کے سات سال منہا کر دئے جائیں تو ان کی شاعری کی مدت ۱۰-۱۱ سال رہ جاتی ہے۔
تھوڑی سی مدت میں انھیں اس فن میں وہ کمال اور شہرت نصیب ہوئی جو ایک عمر کی سعی کے باوجود بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہے، ۱۱۵۶ھ میں پہلے پہلے سراج کی شاعری کی شہرت گجرات اور شمالی ہند کے علمی مرکزوں دہلی وغیرہ تک پہنچ گئی تھی، ریختہ میں وہ ولی کے بعد سب سے بڑے استاد تسلیم کئے گئے اور ولی کے جانشین سمجھے گئے۔
عبدالقادر سروری کلیات سراج کے ص نمبر ۵۴ پر لکھتے ہیں کہ
دکن کے آزاد یعنی عبدالجبار خاں آصفی نے سراج کے کلام پر تذکرہ کرتے ہوئے بہت سی ایسی باتیں لکھی ہیں جو کسی اور تذکرے میں نہیں پائی جاتیں، وہ لکھتے ہیں کہ سراج کی غزلیں عام طور پر محفلوں میں پڑھیں جاتیں اور قوال انھیں گا کر سنایا کرتے تھے، جب غزل گائی جاتی تو محفل پر ایک وجد کا عالم طاری ہو جاتا تھا، خود سراج کے پاس ہفتے میں ایک روز محفلیں سماع منعقد ہوتی جس میں شہر کے عمائد اور مشائخ جمع ہوئے تھے
غرض یہ سب کچھ سراج کو ۵-۶ سال کے اندر اندر حاصل ہو گیا کیونکہ ۱۱۵۲ھ کے بعد مرشد کے حکم کی بنا پر انہوں نے شاعری ترک کر دی، ترک شاعری کے بعد سراج کے اس قیمتی شعری اثاثے کو محفوظ رکھنا نہایت مشکل تھا مگر سراج کے برادر طریق عبدالرسول خاں نے ان کے اس اثاثے کو محفوظ رکھنے کے لئے اسے دیوان کی شکل میں مرتب کرلیا یہی وہ دیوان سراج ہے جو انوارالسراج کے نام سے معروف ہے، یہ دیوان عبدالرسول خاں نے ۱۷۳۹ میں مرتب کیا تھا، اسی نسخہ کی مدد سے عبدالقادر سروری نے ۱۹۴۰ء میں کلیات سراج شائع کی، یعنی سراج کی کلیات کا اولین نسخہ مرتب ہو جانے کے ۲۰۰ سال بعد شائع ہوا۔
سراج کی نہایت خوبصورت غزل ایک بے حد مترنم بحر میں سب غزلوں سے زیادہ مقبول ہے اور ان کے شعری سرمائے کا ایک گراں بہا رتن ہے۔
خبر تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سے کروں ادا
کہ شراب حسرت آرزو، خم دل میں تھی سو بھری رہی
چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا
مگر ایک شاخ نحالِ غم جسے دل کہیں سو بھری رہی
وہ عجب گھڑی کہ جس گھڑی لیا درس نسخہ عشق کا
کہ کتاب عقل کہ تاک پر جو دھری تھی سو وہ دھری رہی
کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کا
نہ خطر رہا نہ حزر رہا مگر اک بے خطری رہی
سراج ایک صوفی شاعر:-
آخری زمانہ میں سراج صوفی درویشوں میں شمار ہونے لگے تھے، ان کے حلقۂ ارادت میں کئی مریدین آ گئے تھے اور ان سے کسب فیض کر رہے تھے، پروانہ عبدالرسول خاں، تاج الدین، شاہ چراغ ان کے خاص متقدمیں میں سے تھے، سراج کے مرشد کے انتقال کے سال ۱۱۶۱ھ میں ضیاؤالدین پروانہ برہان پوری سراج سے بیعت ہوئے اور ۱۶ سال تک ان کی خدمت میں رہ کر فیض حاصل کرتے رہے، سراج سے انہیں بڑی عقیدت تھی، اپنے مرشد کے نام کی مناسبت سے پروانہ تخلص اختیار کیا، پروانہ کے بیعت ہوجانے سے سراج کا غم و اندوہ کم ہوتا گیا۔
وفات:-
ضعف معدہ اور اسہال جیسے امراض نے انھیں کمزور کر دیا تھا، آخر اسی مرض میں بتاریخ ۴ شوال ۱۱۷۷ھ بروز جمعہ اس دار فانی کو چھوڑ گئے، ان کے انتقال پر ملال پر سارا شہر سوگوار رہا، اپنے انتقال سے چار ماہ قبل ۱۵ جمادی اولیٰ ۱۱۷۷ھ کو شاہ عبدالرحمٰن چشتی کے عرس کے موقع پر سراج نے شہر کے ائمہ و مشائخ کی موجودگی میں ضیاؤالدین پروانہ کو خرقہ و خلعت سے نوازا اور انھیں اجازت بحال کر دی، سراج کے انتقال کے بعد ان کی تجہیز و تکفین ان کے تکیہ ہی میں عمل میں آئی، سراج کا تکیہ آج بھی اورنگ آباد میں تکیہ شاہ سراج کے نام سے مشہور ہے۔
تاریخ وصال : سراج کی 'تاریخ' ولادت خاتم الولایہ نکالی گئی اسی طرح مادۂ تاریخ میں احمد کا اضافہ کرکے ایک شاعر نے خاتم الولایہ احمد سے ان کی تاریخ وفات نکالی، لچھمی نرائن کو سراج سے بڑی عقیدت تھی انہوں نے اپنے تذکرے میں سراج کے متعلق تمام تذکروں سے زیادہ تفصیل سے لکھا تھا، سراج کی رحلت پر انہوں نے تاریخ وفات اس طرح کہی ہے۔
سید حق پرست عرفاں سنج
کہ از و یافت شعر حسن و رواج
سالِ رحلت شفیق کرد رقم
رو برحماں نمود شاہ سراج
تصانیف :-
۱- انوارالسراج
یہ اردو کلیات ہے، اسے شاہ عبدالرسول خاں نے مرتب کیا تھا، اس کے دیباچے میں ضیاؤالدین پروانہ نے سراج کے سوانحی کوائف تفصیل سے بیان کئے ہیں، اس کلیات کی تکمیل کا سال مؤرخین نے سراج کے شعر کو مانا ہے، سراج نے اپنی ایک غزل میں کہا تھا کہ
جب کیا جزو پریشان سخن شیرازہ بند
تھے پرس چوبیس میری عمر بے بنیاد کے
سال ہجری تھے ہزار و یک صد و پنجاہ و دو
واقفِ علم لدنی صاحب ارشاد کے
شاہ عبدالرسول خاں کی مرتبہ کلیات کو ۱۹۴۰ء میں بنیاد بنا کر عبدالقادر سروری نے اسے پہلی بار شائع کیا تھا، اس کلیات کی مشمولات میں مثنویاں، حمد باری، مناجات، نعت، رباعیات، قصیدہ، مستزاد، مخمسات، ترجیح بند وغیرہ ہیں، شاعری کا اتنا کثیر ذخیرہ اور اس میں شعریت کا اہتمام سراج کی آٹھ دس برس کی شاعری کا کمال ہے، انوارالسراج ان کا تخلیقی سرمایہ ہے۔
۲-منتخب دیوانہا
اس میں سراج نے مختلف شعرا کا کلام یکجا کر دیا تھا، فارسی شعرا کا یہ انتخاب ۱۱۶۹ھ/ ۱۷۵۶ء میں کیا تھا، اس انتخاب سے ۱۷ سال قبل سراج مرشد کی ایما پر ۱۱۵۲ھ/ ۱۷۴۹ء میں شاعری ترک کر چکے تھے۔
۳- بوستانِ خیال
بوستان خیال سراج کی مثنوی تاریخی نام ہے، اسی سے ۱۱۶۰ھ برآمد ہوتی ہے، حسن اتفاق کہ اس مثنوی کے اشعار کی تعداد ۱۱۶۰ ہیں، اس مثنوی کو سراج نے صرف دو دن میں قلمبند کیا تھا، اس مثنوی میں سراج نے اپنی حالت زندگی بیان کی ہے بالخصوص واردات عشق کا بیان بتفصیل ہوا ہے۔
احسن مارہروی نے اس مثنوی کا تجزیہ کرتے ہوئے گزشتہ صدی کے اربائع اول میں لکھا تھا کہ
سراج کی مثنوی ایک دل ریش درویش کے دلی جذبات ہیں جن کی حقیقت کو مجاز کے پردے میں حفظ مراتب کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، اس مثنوی کے مطالع سے اچھی طرح واضع ہو جاتا ہے کہ وہ تمام مظاہر قدرت کو جلووں کو ہمہ اوست کی عینک سے دیکھتے ہیں
۳- سوز و گداز
سراج کی یہ ایک مختصر مثنوی ہے جس میں ۵۳ اشعار ہیں اس مثنوی میں غم فراق کے احوال شرط و بسط کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، سوز و گداز کی زبان پر قدیم دکنی اثرات مرتب ہیں، اس مثنوی میں شاعر صبا سے التجا کرتا ہے کہ وہ اپنے کوائف فراق محبوب تک پہنچا دے۔
۴-نالۂ ہجر
یہ ۴۰ اشعار کی مثنوی ہے، اس کا موضوع بھی روداد غم فراق ہے، اس مثنوی کا اسلوب اور کنیڈا سوز و گداز سے بڑی مماثلت رکھتا ہے۔
۵-احوال فراق
اس مثنوی کا نام ادارۂ ادبیاتِ اردو حیدرآباد میں موجود مخطوطہ نمبر ۵۵۹ کے مطابق پیغام فزستا سوے دلربا لدست قاصد بھی ہے، اٹھایس(۲۸) اشعار کی اس مثنوی میں فراق زدہ محبوب اپنی اضطراری کیفیت اپنے معشوق تک پہچانا جاتا ہے، ترسیل پیغام کا ذریعہ صداے گریہ آہ ہے، آہ کو قاصد بنانے کا تصور بالکل نیا ہے۔
۷-خط بندگی
اس مثنوی میں سراج نے پیغام رسانی کے لئے بجائے قاصد کے خط کا استعمال کیا ہے، سراج کا یہ خط محبوب کے خط کے جواب میں ہے۔
۶- مطلب دل
یہ نہایت مختصر مثنوی کی ہیت میں ہوئی نظم ہے، گیارہ اشعار کی اس نظم میں بھی فراق ہی کا رونا ہے۔
۷- اضواالسراج
مرشد سے عقیدت اور احترام شیخ کے جذبے کے تحت ضیاؤالدین پروانہ برہان پوری نے سراج کے ملفوظات جمع کئے ہیں، یہ اقوال و ہدایت پروانہ سراج کے آخری ایام میں ان کی خدمت کے دوران یکجا کیا ہے اور اس کا نام اضواالسراج رکھا، ان ملفوظات کی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے پروانہ نے کہا ہے کہ
دیرہ اسباب بصیرت کے لئے یہ جلا نخش ہیں
۸-مکتوبات سراج
سراج کے تعلقات ان کی عزلت پسندی کی وجہ سے کچھ زیادہ نہیں تھے، دوست احباب مریدین اور تلامذہ کا حلقہ بھی محدود تھا وہ اپنی ضرورت کے وقت ان سے بذریعہ خط رجوع ہوتے تھے، عبدالقادر سروری نے سراج کے بعض مکاتب دیوان سراج کے اردو نسخہ سے حاصل کئے۔ یہ تمام مخطوط فارسی زبان میں ہیں اور ان میں نجی حالت بھی قلم بند ہوئے ہیں، سراج کے خطوط میں کوئی ادبی بحث نہیں ملتی ہے۔ (مونوگراف سراج اورنگ آبادی از سید یحیٰ نشیط)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.