Sufinama

حضرت شاہ نياز احمد بريلوى كى شاعرى ميں عرفانِ حق

احمد فاخر

حضرت شاہ نياز احمد بريلوى كى شاعرى ميں عرفانِ حق

احمد فاخر

MORE BYاحمد فاخر

    حضرت شاہ نیاز بریلوی سلسلۂ چشتیہ کے صوفی شعرا میں گہر آبدار کی حیثیت رکھتے ہیں، جنہیں مبدأ فیاض نے تصوف و سلوک کے ساتھ ساتھ عرفانِ حق اور خودی کی تشخیص کی بیش بہا دولت سے بھی سرفراز کیا تھا، مولانا روم، جامی، حافظ شیرازی، شیخ سعدی اور امیر خسرو وغیرہم ایسے مسلم الثبوت شاعر ہیں، جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ عرفانِ حق اور خودی کی تشخیص کا واضح اعلان کیا ہے، شاہ نیاز بریلوی کی شاعری کا دور کم و بیش وہی دور سمجھا جاتا ہے، جس دور میں میر تقی میرؔ اور مصحفیؔ جیسے دیگر شعرا اردو کے بال و پر سنوارتے ہوئے فارسی زبان کے اثرات کے تحت انہیں خیالوں کو اردو کا جامہ پہنا رہے تھے، واضح ہو کہ دہلی کے دور ثانی کے اہم نمائندہ شاعر غلام ہمدانی مصحفیؔ کو شاہ نیازؔ بریلوی سے شرف تلمذ حاصل ہے، جس کا ذکر مصحفیؔ نے ’’ریاض الفصحا‘‘ میں کیا ہے، یہ ہمارے ذہن نشیں ہونا چاہیے کہ اس وقت دہلی کے شعرا ابہام گوئی کو ترک کر چکے تھے، ان کی شاعر ی میں تصوف کا اثر و شمول محسوس کیا جا سکتا ہے، شاہ نیاز بریلوی نے باضابطہ طور پر اپنے لیے رسمی شاعری کا میدان منتخب نہیں کیا، بلکہ جو کچھ قلبی کیفیات پیدا ہوئیں، انہیں اپنے مریدین و حاضرین کے سامنے پیش کر دیا، ان کی شاعری کا سب سے اہم جزو ’’عشق محمود‘‘ ہے، جس کی تعلیم صوفیا کی تعلیمات کا جزو اعظم ہے، شاہ نیاز بریلوی کی شاعری کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں، تو اُن کی شاعری میں ایک مکمل کائنات کھل کر سامنے آتی ہے، جس کے مختلف گل سرسبد ہیں، اُن کی شاعری فارسی اور اردو کے دو حصوں میں تقسیم ہے، تاہم اُن کی شاعری کا اصل جوہر فارسی شاعری میں نظر آتا ہے، ان کے پیر و مرشد شاہ فخرالدین تھے، شاہ فخرالدین مشائخ چشت میں ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں، شاہ نیاز بریلوی کو کئی علوم و فنون پر دسترس حاصل تھی، عربی، فارسی زبان پر انہیں خصوصی ملکہ حاصل تھا، جس کا اظہار ان کی شاعری کے مطالعہ سے بھی ہوتا ہے، فارسی شاعری اس عہد کی اہل علم اور صوفیا کی زبان تھی، فارسی شاعری اپنی مثال آپ ہے، اردو زبان ان کے عہد میں نئی نویلی زبان تھی، اردو میں بھی ان کے اشعار برجستہ اور برمحل ہیں، دیوان نیاز مرتبہ ڈاکٹر انوارالحسن کے مطابق پروفیسر خلیق نظامی نے نیازؔ بریلوی کی 8 تصانیف کا ذکر کیا ہے، جس میں تحفۂ نیازیہ حضرت نیاز بے نیاز، حاشیہ شرح چغمنی، دیوان نیازؔ فارسی، اردو، رسالہ تسمیۃ المراتب، رسالہ راز و نیاز، شرح قصائد عربیہ، شمس العین شریف اور مجموعہ قصائد عربیہ قابلِ ذکر ہیں، تاہم ’دیوان نیاز‘ کو ان کی نمائندہ تصنیف سمجھا جاتا ہے۔

    ’’عرفان حق‘‘ یا ’’خودی کی تشخیص‘‘ کے ذیل میں اہل علم نے صفحات در صفحات سیاہ کیے ہیں، البتہ اس کی مختصر تعریف یہ ہے کہ انسان خدا کے پیغام اور دی ہوئی شریعت کے تقاضوں کو مکمل طور پر پہچانے، اور اُس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کرے، عرفانِ حق یہ وہی الہامی شئے ہے، جس کی تبلیغ کے ليے خدا نے کم و بیش ایک لاکھ چوتیس ہزار سے زائد انبیا و رسل کو دنیا میں مبعوث کیا، انبیا و رسل کے پیغامات کی تبلیغ اور اس کے نفوذ کے ليے ہی صوفیا کا قافلہ ہندوستان وارد ہوا، انہیں صوفیا کے گروہ کے ایک ركن شاہ نیازؔ بریلوی ہیں، اپنے مرشد شیخ فخرالدین کے ایما پر دہلی سے بریلی مقیم ہوئے اور یہیں پوری زندگی عرفان حق کی تبلیغ کے لیے وقف کر دی۔

    شاہ نیازؔ بریلوی کی زندگی سلسلۂ چشت کے اصولوں کے تحت اسلام کی اشاعت کے لیے وقف تھی، چنانچہ ان کی شاعری میں عرفان حق اور خودی کی تشخیص کی ایک وسیع کائنات آباد ہے، جا بجا اسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے، اپنی ایک فارسی غزل میں کہتے ہیں۔

    بہ بستانِ تجمل گل عذارے کردہ ام پیدا

    سراپا دل کشے، رنگیں نگارے کردہ ام پیدا

    قیامت قامتے، بالا بلائے آفت جانے

    بتے غارت گرِ دیں سحر کارے کردہ ام پیدا

    نگارے، کافرے زاہد فریبے عشوہ پردازے

    عجائب دل ربائے طرفہ یارے کردہ ام پیدا

    غزل کے ان اشعار میں عاشقانہ کیف و سرور کے ساتھ ’’محبوب و مطلوب‘‘ کی تصویر دیکھی جا سکتی ہے، محبوب کبھی ’’دل کش‘‘، کبھی ’’رنگیں نگار‘‘ تو کبھی قیامت قامت بالا اور ’’آفتِ جاں‘‘ کی شکل میں نظر آتا ہے، حتیٰ کہ عشق حقیقی کی سرگرانیاں اس مقام کو بھی پہنچ گئیں کہ محبوب کو ’’کافر‘‘ اور ’’زاہد فریبے‘‘ بھی کہہ دیا، اسے عشق اور اُس کے بے تکلفانہ رشتہ سے معنون کیا جانا چاہیے کہ عاشق اپنے معشوق حقیقی کو کافر اور ‘‘زاہد فریبے‘‘ کہہ دے، عشق حقیقی میں ان تکلفات کی اجازت ہے یا نہیں لیکن وہ شعرا جن کا تعلق تصوف سے ہے، اپنے محبوب کے ساتھ بے تکلف نظر آتے ہیں، یہ عشق کا مطالبہ ہے یا پھر رشتہ کی معراج کہ عاشق اپنے معشوق کے ساتھ بے تکلف نظر آتا ہے، اسی غزل میں یہ بھی کہا کہ

    بیا جاناں تماشہ کن، چراغانِ تنِ سوزاں

    بہ داغستان دل رنگیں بہارے کردہ ام پیدا

    جگر آتش دل آتش، سینہ آتش دیدہ ہاآتش

    بایں ہر چار آتش کاروبارے کردہ ام پیدا

    پھر عشق کی سرگرانیوں اور لذتِ دید کی کام جوئیوں کی طلب اس قدر اپنے شباب کو پہنچی کہ راست طور پر یہ اپنے محبوب سے ’’سراپا تجلی‘‘ کی فرمائش کر دی، دل کے ’’داغستان‘‘ میں تن سوزاں نے تیری آمد کی خوشی میں چراغاں کیا ہے، نیز جگر آتش، دل آتش، سینہ آتش اور دیدہ ہا آتش کے ذریعہ نخلِ تمنا پیدا کیا ہے اور یہی میری حالت اصلی ہے، نیز اس حالت اور کیفیت میں ہم تیری ’’تجلی‘‘ کے منتظر ہیں، یہ کیفیات غزل کے محاسن میں شمار کی جاتی ہیں، عاشقانہ لب و لہجے میں در حقیقت میں ’’عرفان حق‘‘ کی تصویر کی رونمائی گئی ہے، جیسا کہ ان اشعار کے کیفیات سے بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں، شاہ نیاز بریلوی کے تصوف اور ان کے مسلک کا مغز وحدت الوجود جسے ہم دوسرے لفظوں میں ’’ہمہ اوست‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں اور یہی نظریہ ان کی شاعری کا بھی ماحصل ہے، اپنے نظریہ کو شاہ نیازؔ بریلوی کچھ اس طرح ثابت کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ

    حسن جہاں ز حسنِ رخِ دلربائے اوست

    آبِ روانِ گلشنش از جوئہائے اوست

    گہہ شاخ و گاہ برگ وگہے غنچہ گاہ گل

    بالجملہ ایں ہمہ نشو و نمائے اوست

    سورۂ نور میں ’’اللہ نورالسموات والأرض‘‘ الخ میں باری تعالیٰ نے اپنی صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ کا نور زمین و آسمان میں پھیلا ہوا ہے‘‘ جس کی تفسیر، علما نے کئی طرح سے بیان کی ہیں، صوفی شعرا نے بھی اس مضمون کو اپنے اپنے طور پر بخوبی ادا کیا ہے، شاہ نیاز بریلوی نے اسی عنصر کو اپنے عاشقانہ لب و لہجے اور زیر و بم میں کہا کہ دنیا میں جو کچھ ہے اور جہاں روشنی، حسن اور رعنائی نظر آ رہی ہے، یہ تمام میرے محبوب کی رخ کے حسن کا پرتو ہے، اس سے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ درخت میں جو کبھی شاخ، کبھی برگ، کبھی غنچہ اور کبھی پھول جو اُگتا ہے، اس کی نشو و نما میں میرے محبوب کے تصرفِ خاص کا دخل ہے پھر اپنے محبوب کے تصرف و ملکیت کا بیان کچھ اس طرح محبوبیت کے انداز میں کیا ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے، کہتے ہیں کہ

    ہر چند ذرہ ذرہ ز مہر ہست کامیاب

    تاہم بہ گردش از پئے مہرو ہوائے اوست

    مَنْ لَمْ یَسَعْه وُسْعَة أرضٍ وَلاَ سَماء

    بیت المقدس دل بے شرک جائے اوست

    مذکورہ بالا اشعار میں شاہ نیاز بریلوی نے جس طرح اپنے وجدان اور احساس کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے، وہ اُن کا ہی خاصہ ہے، انہوں نے کہا کہ دنیا کی ہر شئے، زمین و آسمان، شمس و قمر، شجر و حجر، آب و ہوا وغیرہ پر اُسی کا خصوصی تصرف ہے، اُس کی مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی چیز گردش نہیں کرسکتی لیکن طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ جو زمین و آسمان کی وسعت میں سما نہیں سکتا، وہ میرے دل کے نہاں خانہ میں بلا شرکت غیرے سمایا ہوا ہے، اس بیان کے بعد ’’عرفان حق‘‘ کی مزید تشریح کی کوئی گنجائش نہیں بچتی ہے، زبان کی سلاست اور ترکیب بیان اچھوتے انداز اور دلکش پیرائے میں ہے، اسے ہم شاعرانہ تعلی نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ قوتِ فکرکا اظہار ہے، عرفان حق کا ایک پہلو یہ بھی ملاحظہ کریں۔

    خیال دوست در دل آں چناں است

    کہ عالم جملہ در چشمم نہاں است

    اگر خواہم کہ بینم خویشتن را

    ہمی بینم کہ جانانم عیاں است

    بہ بیں در صورتم باچشم تحقیق

    حقیقت را مجازم نردباں است

    وُجُوْدُ الکُلِّ عِنْدِیْ فِیْ نَیَامی

    نمودہ ما سوا وہم و گماں است

    عاشقانہ پیرایے اور کیف و مستی کے عالم میں صاف لفظوں میں کہا کہ میری نظر میں ’’محبوب‘‘ کے سوا کوئی اور شئے ہی ہے نہیں، یہ زمین و آسمان، تاج و تخت اور بادشاہی و سلطنت کی کوئی وقعت اور حیثیت میری نظر میں نہیں ہے، اپنے نظریہ کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی طور غیروں کی طرف نظر بھی کرلوں، تو اُس میں بھی محبوب کو عیاں دیکھتا ہوں، گویا کہ

    جدھر دیکھتا ہوں، جہاں دیکھتا ہوں

    تجھی کو عیاں اور نہاں دیکھتا ہوں!

    پھر اسی جذبۂ عاشقانہ میں یہ بھی کہہ دیا کہ یہی میرے لیے معراج ہے کہ ان تمام عناصر کو جو کہ مجاز ہیں، حقیقت (عرفان حق) کے لیے زینہ تصور کرتا ہوں، یہ وہی عرفان حق ہے، جس کی تعلیم صوفیا نے دی ہے اور یہی عنصر شاہ نیاز بریلوی کا طرۂ امتیاز بھی ہے، مولانا روم کی مثنوی پڑھ ڈالیں، اس مثنوی کا تکملہ اور خلاصہ ’’عرفان حق‘‘ كى شكل ميں آشكارا ہوگا، شاہ نیاز بریلوی اسی روایت کو اپنی غزلوں میں آگے بڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

    اگر دانی کہ ہر شی ہست لاشی

    بداں کہ ہر مکاں ہم لا مکاں است

    دلا سر حقیقت کس نداند

    مگر صاحب دلے کو رمزداں است

    نیازؔ ایں گفتگو از من مپندار

    کہ نے گفتار نائے را زباں ا ست

    عشق کی طبیعت میں جولانی ہوتی ہے، یہ افتاد طبع بھی ہے، تو اسے براق و وقاد کی صفت بھی ودیعت کی جاتی ہے لیکن یہی عشق جب محبوب کا سامنا کرتا ہے، تو اس کی یہ تمام صفتیں منکسرالمزاجی میں تبدیل ہو جاتی ہیں تاہم جب نصیبے میں ہجر ہی ہجر ہو، تو پھر یہی عشق ’’طوفان‘‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے، عشق کی کچھ سرگرانیاں دیکھیں، شاہ نیازؔ بریلوی کہتے ہیں کہ

    قیامت غلغل و غوغا ست در جوش و خروشِ تو

    کہ یک سرگوشِ عالم پر شد از ہائے و ہوئے شورت

    بر آمد ہرچہ از دل بر زباں ہا فاش گو اے دل

    کہ ہشیاراں برائے بے ہشی دارند معذورت

    جواب رب ارنی، لن ترانی نشنودی ہرگز

    بہ عشق آتشیں روئے بہ شد سوزانِ تن طورت

    عشق کے ادعا قوی ہوتے ہیں اوراس کی عقلی دلیلیں بھى ہوتی ہیں اور یہی اس کی کل کائنات بھی ہے، تجلی، طور، عشقِ آتشیں وغیرہم کی تلمیحات عشق محمود کے ہی شایاں ہیں، حضرت موسیٰ کی گزارش، حق تعالیٰ کا ’’لن ترانی‘‘ سے جواب اور پھر اصرار پر تجلی کے وقوع پر بے ہوشی کا بیان یہ حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مجاز میں اس کی اجازت ہے اور جب عشق محمود ہو تو پھر ان استعاروں کو عاشقانہ کیف و کم میں بیان کرنا عشق محمود کا لازمہ ہے، عشق محمود کی سرگرانیوں نے انہیں اس مقام پر لاکھڑا کردیا کہ وہ وثوقِ کا مل کے ساتھ ’’جوابِ ربِ ارنی، لن ترانی نشنودی ہرگز‘‘ کہہ سکتے ہیں، ان عناصر کے اظہار کے لیے عشق کو براق اور وقاد بھی ہونا چاہیے، شاہ نیازؔ بریلوی نے اپنی جودتِ طبع اور وقاد طبیعت کے بموجب اس عنصر کے اظہار سے سخنوری اور عشقِ محمود میں اپنے مراتب کا واضح اظہار کیا ہے، فارسی غزلیات میں ان کی شاعری کے اصل جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں، ایک مشہور زمانہ فارسی غزل جو اپنے تمام خوبیاں کے ساتھ اہل ذوق کو متوجہ کرتی ہے، اس کے چند اشعار دیکھیں، عرفان حق کے مظاہر کو کس خوبی کے ساتھ ملاحظہ کیا ہے، کہتے ہیں کہ

    ایں ہمہ بحر و بر منم، ویں ہمہ خشک و تر منم

    قطرہ منم گہر منم، من نہ منم، نہ من منم

    شاہد دلربا منم، مطرب خوش نوا منم

    سمع منم، بصر منم، من نہ منم نہ من منم

    حسن و جمال حق منم، عزو جلال حق منم

    حشمت و جاہ و فر منم، من نہ منم، نہ من منم

    طوطیِ صد زباں منم، بلبل نغمہ خواں منم

    روضہ منم، شجر منم ، من نہ منم، نہ من منم

    عرفانِ حق اس امر کی گواہی نہیں دیتے کہ جو کچھ ملاحظہ کیا اُس پر بے چوں چرا آمنا و صدقنا بھی کہہ دیا گیا بلکہ اس کے لیے آزمائش و امتحان کے مراحل بھی گرزنے ہوتے ہیں، اس کے جلوے کبھی فریب کی صورت میں نمایاں ہوتے ہیں تو یہ کبھی یک لخت حقیقت میں نظر آتے ہیں لیکن آفریں تو یہ ہے کہ انہوں نے جو کچھ ملاحظہ کیا، پرکھا، اسے حقیقت کی نظروں سے دیکھا اور پھر یہی عشق ایک اثاثۂ زیست بن کر رہ گیا، اس امتحان اور فریب نظر کی تکمیل اُس وقت ہوتی ہے، جب محبوب کی نظر عنایت ہو جائے، یہ وہی عشق ہے، بسا اوقات جس کی کار فرمائیاں اور سرگرانیاں اس نکتہ شباب کو پہنچتی ہیں کہ مکمل تب و تاب کے ساتھ اعلان کرنا پڑتا کہ ہم ’’کفرستان‘‘ میں اسلام یعنی مذہبِ عشق پر کار بند ہیں، اس عشق میں کوئی دخیل و شریک نہیں، کہتے ہیں کہ

    دارد آزادی، نہ تقییدات وہمی بے گماں

    ہر کہ دارد در زنجیر، در زندان عشق

    کافر عشقم مپرس از دینِ من ، اے ہم نشیں

    عشق اسلام است و دیں، در ملک کفرستان عشق

    فارغ از رسم و رہِ گبر و مسلماں ساختہ

    مرحبا صد مرحبا بر لطف و بر احسانِ عشق

    عرفان حق کے ادراک کے بعد عشق کی یہی بے نیازیاں ہوتی ہیں، وہ ایک صرف عشق کے مذہب کو قبول کرتا ہے، اس کے ماسوا جتنے بھی مشارب ہیں، اس یک گونہ تنفر ہوتا ہے بلکہ از خود اس سے بعد بھی پیدا ہوتا ہے، بشرطيکہ عشق محمود ہو، عشق غیر محمود کے نصیبے میں ایسی سعادتیں نہیں ہوتیں، عرفان حق یعنی ہمہ اوست کو اپنی ایک غزل میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے، ان کی نظر اس مقام کا احاطہ کئے ہوئی تھیں، کہ جس کے احاطہ کے بغیر کوئی عاشق عشق (تصوف) کے اعلیٰ مدارج نہیں پہنچ سکتا، وہ کہتے ہیں کہ

    کسے کہ سرنہاں است در علن ہمہ اوست

    عروس خلوت و ہم شمع انجمن ہمہ اوست

    ہمی صدائے بہ گوشم رساند بادِ صبا

    کہ لالہ و گل و نسرین و نسترن ہمہ اوست

    زمصحف ِ رخِ خوباں ہمی نمود رقم

    کہ خط و خال و رخ و زلف پرشکن ہمہ اوست

    یہ وہ مثالیں تھیں، جو شاہ نیازؔ بریلوی کی فارسی شاعری کے جوہر اصلی ہیں۔

    اردو شاعری میں عرفان حق : اردو زبان سے قبل دہلی میں فارسی شاعری کا غلغلہ تھا، اس عہد میں خسروؔ، عرفیؔ، نظیریؔ، طالبؔ، صائبؔ، بیدلؔ، حزیںؔ فارسی کے نمائندہ شاعر سمجھے جاتے تھے، ہمارے فارسی ادب کے سرمایہ میں جو کچھ بھی اثاثہ ہے، انہیں نمائندہ شعرا کی تخیلات کا پرتو ہے، ایرانی اثرات کے باعث ہندوستان کی فارسی شاعری پربھی تصوف کا بڑا اثر ہے، اس عہد کے شعرا کی شاعری تصوف کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے، دبستانِ دہلی کے نمائندہ شعرا کے دو ادوار گزرے ہیں، دور اول میں خان آرزوؔ، آبروؔ، ناجیؔ، مرزا مظہر جانِ جانان، عبدالحئی تاباںؔ، حاتمؔ، مخلصؔ اور یک رنگؔ جیسے شعرا شامل ہیں، تاہم دور اول کے شعرا میں ابہام گوئی کا چلن زیادہ تھا، دورِ ثانی کے شعرا نے ایہام گوئی کو یک لخت ترک کردینے میں ہی عافیت سمجھی، لہٰذا اس سے گریز کیا، اس تناظر میں ڈاکٹر ضیاؤالرحمٰن لکھتے ہیں کہ

    ’’دبستانِ دہلی کے دور اول کے شعرا میں خان آرزو، آبروؔ، حاتمؔ، ناجیؔ، مظہر جانِ جاناںؔ، تاباںؔ، یک رنگؔ، مخلصؔ وغیرہ اہم شعرا ہیں، ان شعرا کے کلام میں ابہام گوئی کا بہت رواج تھا لیکن بعد کے شعرا نے ایہام گوئی سے گریز کیا، دوسرے دور میں میرؔ، دردؔ، سوزؔ، سوداؔ وغیرہ اہم ہیں، ان کے یہاں تصوف کا رنگ صاف دکھائی دیتا ہے‘‘

    (اردو ادب کی تاریخ، ص 43-44، ناشر تخلیق کار پبلشر، دہلی)

    دہلی کے دور ثانی کے شعرا میں میر تقی میر، خواجہ میردردؔ، سوداؔ نمائندہ شاعر ہیں، ان شعرا کے یہاں تصوف کی چاشنی بداہۃً محسوس کی جاسکتی ہے، انہی دنوں شاہ نیازؔ بریلوی اپنے شیخ شاہ فخرالدین کی خانقاہ میں ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل میں مصروف تھے اور یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان شعرا کے اشعار اور اس کے گھن گرج سے دہلی کے اہل علم آشنا ہوئے ہوں گے، اس سلسلے میں کوئی ٹھوس نقلی دلیل تو نہیں ہے لیکن گمان اغلب ہے کہ ان شاعروں کے اثرات شاہ نیازؔ بریلوی نے بھی قبول کیے ہوں کیوں کہ قرین زمان ہے، ہندوی، ریختہ، ریختی یا پھر اردو میں سب سے پہلی غزل امیر خسروؔ نے لکھی تھی، ہندوی کی پہلی غزل میں ہی تصوف جلوہ گرہے، اردو چوں کہ عامی زبان تھی، اس لیے صوفیا اور اہل دل نے عوام کی اصلاح کے لیے اسی زبان کا سہارا لیا، چنانچہ انہوں نے بھی اس زبان میں شاعری کی اور اپنے نظریات و خیالات کو عام کیا، شاہ نیازؔ بریلوی کا نظریۂ تصوف ’’ہمہ اوست‘‘ کا ہے، اپنے نظریۂ ’’وحدت الوجود‘‘ کے ذریعہ ’’عرفان حق‘‘ کو اپنے انداز اور مخصوص طرزِ نوا کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ

    ہوتا نہ اگر اس کے تماشے میں تحیر

    حیرت سے میں آئینہ نمطِ دنگ نہ ہوتا

    گر شان پیمبر کی، بوجہل پہ کھلتی

    اسلام کے لانے میں اسے ننگ نہ ہوتا

    اسرارِ حقیقت کے خبردار جو ہوتے

    ہفتاد و دوملت میں کبھی جنگ نہ ہوتا

    لفظ ’’جنگ‘‘ کو اس مقام پر انہوں نے مذکر كے صيغے ميں استعمال کیا ہے، جبکہ عموماً لفظ ’’جنگ‘‘ مؤنث لكھى اور پڑھى جاتى ہے، بطور مذکر استعمال کرنا قافیہ کی پابندی ہے، یا پھر اُس وقت لفظ ’’جنگ‘‘ اردو میں مذکر ہی استعمال ہوتى ہو، یہ ایک الگ موضوعِ بحث ہے، تاہم ہم اس مقام پر ان کے عرفان حق کی بابت گفتگو کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ عشق کی کامجوئیاں اور اس کی سرگرانیاں ہیں کہ اس کی الفت میں میں سراپا حیرت ہی ہوں، دوسرے مصرعہ میں صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ عرفان ہر کسی کے نصیب میں نہیں، کیوں کہ ابو جہل پر نبی کریم کی شان پیغمبری منکشف ہوتی، تو اسے قبول اسلام میں کوئی شرمندگی نہ ہوتی لیکن اس کے نصیب میں قبولِ اسلام کا شرف حاصل کرنا لکھا ہوا نہ تھا، اس لیے وہ اس سعادت سے ہمیشہ کے لیے محروم رہا، یہ مضمون قرآن کریم کی آیت مبارکہ ’’انک لا تھدی من احببت‘‘ کی تفسیر بھی ہے، نیز انہوں نے ایک تلخ سچائی یعنی مسلکی تنازعات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر ’’حقیقت‘‘ یعنی ’’عرفان حق‘‘ سے ہم اگر واقف ہوتے، تو 72 فرقوں کی ہمارے درمیان جنگ نہ ہوتی، عرفان حق کا تقاضا تو یہ ہے کہ ملت کے تمام افراد ایک جسم ایک جان بن کر رہیں، یہی تعلیمات نبوی اور فرموداتِ الٰہیہ بھی ہے، اردو شاعری میں عرفان حق کی جلوہ کا نظارہ دیکھیں، کہتے ہیں کہ

    یا رکو ہم نے جا بجا دیکھا

    کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا

    کہیں ممکن ہوا کہیں واجب

    کہیں فانی کہیں بقا دیکھا

    دید اپنے کی تھی اسے خواہش

    آپ کو ہر طرح بنا دیکھا

    صورتِ گل میں کھلکھلا کے ہنسا

    شکل بلبل میں چہچہا دیکھا

    یہ غزل شاہ نیازؔ بریلوی کی اردو شاعری کی معروف غزل ہے، یہ غزل اہل علم و عرفان اور شائستہ افراد کے محفلوں میں بھی پڑھی جاتی ہے تو وہیں رند مشربوں کے ’’نائٹ کلب‘‘ میں بھی ڈھول اور طبلے کے ساتھ گائی بھى جاتی ہے، جب کہ یہ غزل اپنے تقدس کے تئیں احترام کا مقتضی ہے، الغرض، یہ غزل اپنے لب و لہجہ اور اپنی ہیئت اور ساخت کے باعث عرفان حق کا ادعا کرتی ہے، سچ تو یہ ہے کہ اس عشق محمود نے جب عرفان حق کے پردہ کو وا کیا، تو کسی کو منصور بنایا، تو کسی کو تخت شاہی سے اُتا رکر کاسۂ گدائی اور لباسِ فقیری عطا کر دیا، عشق کی مختلف الجہات نیرنگیاں ہیں، کبھی یہ کھال کھنچواتا ہے، کبھی تختۂ دار پر چڑھا ديتا ہے، کبھی لباسِ معشوقاں میں ناز و عشوہ برداریوں کے ساتھ تغافل کیش ہوتا ہے، تو کبھی موسیٰ کے اصرار پر فروغِ تجلی سے طور کو خاکستر کر دیتا ہے، اردو غزلیں ان کے اپنے مشہور نظریے ’’ہمہ اوست‘‘ کا آئینہ ہیں، زبان و بیان پر قدرت، اظہارِ بیان میں ندرت، فصاحت اور معانی کی بلاغت میں اپنی مثال آپ ہیں، فارسی غزلیں ہوں یا اردو غزلیں، ان میں یہ تمام شاعرانہ کمالات اور نظریاتی جمالیات دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کا مشرب عرفان حق اور اس کے مقتضیات پر کاربند ہونے کا ہے، انہوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ عشق کا تقاضہ پریشانی خاطر ہے اور یہی پریشانی خاطر ہمارا ایمان ہے۔

    قیدِ مذہب سببِ سلفِ تجرد تا دید

    دل بے قید زہر گبر و مسلماں برگشت

    ہر کہ سودائے محبت بہ سر زلف تو کرد

    نقدِ جمعیت دل داد و پریشاں برگشت

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے