Font by Mehr Nastaliq Web

تذکرہ حضرت شاہ ابو ظفر امجدی ’’مقبول شاہ‘‘ المعروف وکیل صاحب

التفات امجدی

تذکرہ حضرت شاہ ابو ظفر امجدی ’’مقبول شاہ‘‘ المعروف وکیل صاحب

التفات امجدی

MORE BYالتفات امجدی

    حضرت شاہ ابو ظفر المعروف وکیل صاحب کا اصل نام محمد ابو ظفر تھا، آپ کی پیدائش ۲؍ جنوری ۱۸۹۳ء کو بہار شریف کے موضع بیلچھی میں ہوئی، والد کا نام محمد ظہیرالحق تھا، ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم بہار شریف سے حاصل کی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وکالت کی سند حاصل کی، پٹنہ ہائی کورٹ میں وکالت کیا کرتے تھے، وکالت کے دوران بیلچھی سے منتقل ہو کر پٹنہ کے دریا پور گولا میں ایک بنگلہ تعمیر کرایا جو آگے چل کر بیلچھی ہاؤس کے نام سے مشہور ہوا، اسی جگہ مستقل سکونت اختیار کی۔

    آپ کی شادی بیلچھی کے ایک معزز گھرانہ میں محمد تقی کی صاحبزادی زینب بی بی سے ہوئی، جن سے دو صاحبزادیاں جمیلہ خاتون (زوجہ مشہودالحق، جموئی)، محمودہ خاتون (زوجہ عطاؤالرحمٰن خان، نور پور، مالدہ) اور ایک صاحبزادے ابوالفتح علی احمد (متوفیٰ ۱۹۹۰ء) ہوئے، جن میں جمیلہ خاتون اور ابوالفتح علی احمد لاولد تھے، صرف محمودہ خاتون سے تین بیٹے حسین الرحمٰن خان، شمس الرحمٰن خان، احسان الرحمٰن خان اور تین بیٹیاں بلقیس جہاں (زوجہ شیخ عنایت اللہ)، عشرت جہاں (زوجہ ارشد حسین) اور فرحت جہاں (زوجہ طارق جمال) ہیں، جناب احسان الرحمٰن خان کو خانقاہ امجدیہ، بہلا میں نشان شریف کی ذمہ داری سپرد ہے۔

    حضرت ابو ظفر اوائل عمری سے ہی روحانیت کے حصول کی جانب راغب تھے، حصولِ مراد رہبر کی تلاش میں اکثر و بیشتر اؤلیاءاللہ کے مزارات مقدسہ پر بکثرت حاضری دیا کرتے تھے، اسی حاضری کے دوران اجمیر شریف میں کسی ایک شب بہ اشارہ خواجہ غریب نواز آپ کو پیر کی شکل و صورت کا انکشاف اور سیوان جانے کا حکم ہوا، لہٰذا دوسرے دن سیوان کے لیے روانہ ہوگیے، چنانچہ سیوان آمد ہوئی، تلاش پیر سرائے میں قیام کا خیال تھا، اسی راستے کو جسے اسٹیشن روڈ کہتے ہیں خانقاہ سے باہر ان کی شبیہ نظر آئی، یکہ روک کر قدم بوس ہوئے، ادھر حضرت تصدق علی شاہ کے خادموں نے سامان کو اٹھا کر خانقاہ میں رکھ دیا، جیسا کہ وہ منتظر ہوں مہمان کی آمد کے، آپ نے ان نو وارد کو حلقۂ ارادت میں داخل کیا، وہ ربیع الثانی ۱۳۳۱ھ مطابق مارچ ۱۹۱۳ءکا سال تھا، رہنمائے طریقت کی صحبت نے آپ کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا، مرشدِ کامل کی توجہ نے اتنی استعداد پیدا کر دی کہ اجازت و خلافت سے مشرف ہوئے، خلیفۂ اول کا اعزاز حاصل کیا اور مقبول شاہ کے لقب سے سرفراز ہوئے، حضرت تصدق علی نے خانقاہ امجدیہ کے متولی کے منصب پر فائز کیا اور رسم نشان کی ذمہ داری سپرد کی۔

    اللہ پاک نے آپ کو ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ تنویرِ باطن سے بھی مالا مال کیا تھا، امیری میں بھی فقیری عطا کی، آپ صاحبِ غنا کے ساتھ ساتھ صاحبِ فقر بھی تھے، آپ کا باطن نہایت صوفیانہ اور ظاہر سادہ تھا، دولت و حشمت کے باوجود مزاج میں عاجزی و انکساری تھی، وسیع الاخلاق تھے، کبر و نخوت ذرہ بھر نہیں تھا۔

    حدِ تعظیم کا یہ حال تھا کہ پٹنہ سے جب سیوان تشریف لاتے تو ایک اسٹیشن قبل پچروکھی اسٹیشن کے گزرتے ہی اپنی جوتیاں تھیلی میں رکھ لیا کرتے اور دیارِ پیر میں ننگے پیر رہا کرتے تھے، اگر آپ خانقاہ میں رات کو دیر سے پہنچتے تو کسی کو آواز دینا گوارا نہ فرماتے، نہ دروازہ کھٹکھٹاتے، نہ کسی خادم کو بیدار کرتے بلکہ خاموشی سے برآمدے یا اسارے میں قیام فرما لیتے اور وہیں شب گزار دیتے، جب بھی ٹرین کا سفر کرتے چڑھتے اترتے قلی کی مدد لیتے، کُرتا، پاجامہ، سیاہ شیروانی اور سرخ ترکی ٹوپی آپ زیب تن کرتے، دبلے پتلے دراز قد کے پُرکشش شخصیت کے حامل تھے، ریش مبارک چھوٹی تھی، گول چشمہ لگایا کرتے، دو چھٹانک غذا تناول فرماتے، شب میں دودھ پاؤروٹی کھایا کرتے، کتب بینی کا ذوق خوب تھا اور موسیقی سے خاص شغف تھا، مجلس سماع کے دلدادہ اور صاحبِ حال تھے، جب آپ پر حال کا غلبہ نہ ہوتا تو میرِ مجلس (حکیم خورشید علی شاہ) قوال کو گَت (دُھن) بجانے کا اشارہ فرما دیتے، جیسے ہی قوال گَت بجانا شروع کرتا، آپ پر کیفیت طاری ہو جاتی، آپ کھڑے ہو کر شہادت کی انگلی اٹھا دیتے پھر دائرہ کی شکل میں گِھرنی کے موافق رقص فرماتے، آپ گت پر دیر تک وجدانی کیفیت میں بے حال ہوتے۔

    آپ نے ۱۹۳۸ء میں حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی، آپ کا وصال خانقاہ امجدیہ، سیوان میں مؤرخہ ۱۸ ربیع الاول ۱۳۹۵ھ مطابق یکم اپریل ۱۹۷۵ء کو ہوا، اپنے پیر و مرشد کے پائنتی اور اپنے پیر بھائی کے بغل میں آسودۂ خواب ہیں، سجادہ نشیں حکیم خورشید علی اور آپ ایک ہی حجرہ میں آرام فرما رہے ہیں، آپ کے نماز جنازہ کی امامت مولوی عبدالحق چھاتوی نے کی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے