تذکرہ حضرت بابا خلیل احمد چشتی صابری امجدی
حضرت خلیل احمد امجدی المعروف بابا خلیل داس چترویدی ایک عظیم صوفی کے علاوہ زبردست عالمِ دین، محقق، مناظر، ادیب، خطیب، شاعر، سماجی کارکن، تحریک آزادی کے جنگجو تھے، وہ عربی فارسی، اردو، سنسکرت، ہندی، انگریزی کے علاوہ کئی زبانوں کی بھی اہلیت رکھتے تھے، ان کے کل تصانیف میں مطبوعہ چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد ۴۳؍ ہے، اس کے علاوہ بہت سی غیر مطبوعہ بھی ہیں۔
انہیں ویدوں پر عبور تھا، نوجوانی میں آریہ سماجی فکر سے متاثر تھے لیکن حضرت شاہ تصدق علی نے ان کے ذہن میں موجود باطل خیالات کو رفع کراپنے حلقۂ ارادت میں شامل کرلیا اور خلافت کی سند سے سرفراز فرمایا، ان کی تصانیف میں ویدوں کا مآخذ، ویدوں کے متعلق دو تین باتیں، اسلام اور فطرت، وحی اور اسلام، اعتراضاتِ قرآن کا قلع قمع، قرآن پاک اور توحید، قرآن پاک اور ذات و صفاتِ الٰہی، آریہ سماج کا جنم، ویدوں کی زبان سے الہام وید کی تردید، دیانند کی زبان سے الہام وید کی تردید، قرآن پاک اور غذائے انسانی، مولیٰ اور معاویہ، اسلام اور مسلم، امامت و ولایت، وحی الٰہی کے حقیقی معیار، قرآن پاک اور سائنس، قرآن مبین مع التدوین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
انہوں نے سیوان کی خانقاہ امجدیہ سے حضرت تصدق علی امجدی کے زیر حمایت اور اپنی ادارت میں رسالہ ’’مصلح‘‘ ماہنامہ بھی جاری کیا، جس میں ویدوں کی تشریح ہوتی تھی، چنانچہ جنوری ۱۹۲۷ء کے شمارے میں اپنے پیر و مرشد کے لطف و عنایت کا تذکرہ ان الفاظ اور جملوں میں کرتے ہیں۔
’’مجھے یقین ہے کہ میں جو کچھ تھوڑا بہت کام کرتا ہوں، وہ میری اپنی استعداد یا اپنی لیاقت کا ثمرہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے فضل محبوب اللہ کی رحمت، پیران عظام اور بزرگانِ دین کی برکتِ خواجگانِ چشت کی سخاوت اور خصوصاً میرے ماویٰ اور میرے مولیٰ میرے روحانی باپ اور مجھے انسان بنا کر کمالِ انسانی تک پہنچنے کا راستہ دکھلانے والے میرے پیر و مرشد حضرت شاہ تصدق علی مدظلہٗ کی پدرانہ شفقت کا نتیجہ ہے، یہ بابرکت سائے میرے سر پر تاقیامت قائم رہیں، آمین یا اللہ العالمین‘‘
بابا خلیل داس چترویدی کی پیدائش ۲۷؍ شوال ۱۳۱۵ھ مطابق ۲۱؍ مارچ۱۸۹۸ء بروز پیر کو سیوان کے کاغذی محلہ میں ہوئی، والد کا نام امیر حسن تھا، ان کی ابتدائی تعلیم اردو فارسی اور عربی میں ہوئی تھی، ۱۹۱۰ء میں وی ایم ہائی اسکول سیوان سے میٹرک پاس کیا تھا۔
اعلیٰ تعلیم کے لیے بی این کالج، پٹنہ میں داخلہ لیا لیکن پڑھائی کو بیچ میں ہی ترک کرکے گاندھی جی کی آواز پر ڈاکٹر مغفور احمد اعجازی اور آنجہانی پرجاپتی مشر کے ساتھ تحریک آزادی میں شامل ہوگیے، انہوں نے قرآن شریف کا انگریزی ترجمہ بھی کیا تھا، شجرۂ امجدیہ بھی منظوم فرمایا تھا، ان کی لکھی ہوئی انگریزی کتاب Should religion to Abolished'' ابھی غیر مطبوعہ ہے، اس کے مخطوطے چار حصوں پر مبنی ہیں، اگر اس کی کتابی شکل دی جائے تو ۲۰۰۰؍ صفحات پرمشتمل ہوگی، آپ نے طالب علمی کے زمانے سے ہی لکھنا شروع کردیا تھا، طالب علمی کے زمانے سے نظمیں اور بھجن لکھتے تھے، کانگریس کے اجلاس میں مولانا مظہرالحق اور ڈاکٹر راجندر پرشاد کے ساتھ جانے لگے تھے، ان کی ایک بھجن کانگریس کے اجلاس میں خوب پڑھی جاتی تھی، اس بھجن کا مکھڑا تھا۔
’’بھارت جننی تیری جئے ہو جئے ہو‘‘
روحانی پیشوا بننے کے بعد عوام میں’’ بابا‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہوئے، ’’داس‘‘ کا لقب گاندھی جی کا عطا کردہ ہے، پیر و مرشد کے وصال کے بعد ۱۹۳۰ء میں بابا خلیل داس نے بنارس میں سکونت اختیار کر لی اور وہیں تبلیغ و اشاعت میں مشغول ہوگیے، ہندوستان کے مختلف صوبوں میں بطور خطیب وہ مناظرے میں جایا کرتے تھے، اپنی خطابت کے سحر سے عوام کو محسور کر دیتے تھے، اہلِ بنارس ان کے استقبال میں بنارسی ساڑی ان کے قدموں میں بچھا دیا کرتے تھے، جلسوں کے استقبال میں منوں پھولوں کا ہار ان کے گلے میں ڈالے جاتے تھے۔
آپ کا حلقہ بہت وسیع تھا، خاص طور سے پنجاب، اترپردیش، دہلی، مہاراشٹر میں آپ کے مریدین کثرت سے تھے، آپ ایک خانقاہ کی تعمیر کا ارادہ رکھتے تھے مگر تکمیل نہ ہوسکی، اہلِ بنارس نے ’’ایوانِ خلیل‘‘ کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، آپ سراپا صوفی تھے ان کی پوشاک کالے رنگ کا کرتا اور کالی تہمد ہوا کرتی تھی، سادہ کھانا کھایا کرتے تھے، وہ اپنے گھر (ایوانِ خلیل) پر بزرگانِ سلف کا سالانہ عرس کیا کرتے تھے، اپنے پردادا پیر حضرت قطب علی شاہ بنارسی لنگر دوسی پورہ بنارس کے ۲۶؍ رجب کے عرس کے موقع پر اپنے سرپر چادریں، پھول، شیرنی رکھ کر مع مریدان و وابستگان اور قوال کے ہمراہ جلوس کی شکل میں حاضر ہوتے تھے اور فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے، ان کے مریدوں اور عقیدت مندوں میں ہر مذہب کے لوگ شامل تھے، بابا خلیل شاہ کا سلسلہ ان کے مشہور خلیفہ بابا حاتم شاہ (متوفیٰ ۲۷؍ صفرالمظفر ۱۴۰۶ھ مطابق ۱۱؍ نومبر ۱۹۸۵ء مزار مبارک موضع مٹیارا، لار یوپی) اور ان کے تین خلفا بابا حبیب شاہ (متوفیٰ ۲۲؍ رجب المرجب ۱۴۱۵ھ مطابق ۲۵؍ دسمبر ۱۹۹۴ء مزار مبارک موضع چھاتا، سیوان)، امیر حمزہ چشتی (متوفیٰ ۲۷؍ نومبر۱۹۹۰ء) اور مولانا عظیم الدین شاہ (لکڑی درگاہ، سیوان) سے سلسلے کا فیضان جاری ہے، بالآخر ۱۴؍ رجب المرجب ۱۳۸۶ھ مطابق ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء بروز جمعہ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے، مدفن ایوان خلیل بنارس کے عالم پورہ میں ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.