Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تذکرہ حضرت شاہ تصدق علی اسد

التفات امجدی

تذکرہ حضرت شاہ تصدق علی اسد

التفات امجدی

MORE BYالتفات امجدی

    حضرت مولانا سید تصدق علی سلطان اسد کا وطن شہر میرٹھ سیدواڑہ محلہ اندرکوٹ حال نام اسمٰعیل نگر ہے، آپ کا نسب نامہ ۳۵ویں پشت میں حضرت امام جعفر صادق سے جاملتا ہے، آپ کے آبا و اجداد افغانستان سے سلطان محمود غزنوی کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے، اس خانوادے کے لوگ غیر منقسم ہندستان کے مختلف علاقوں مئو شمس آباد، راول پنڈی اور شہر میرٹھ میں آباد ہوئے، سید تصدق علی اسد کے مورث اعلیٰ نے شہر میرٹھ میں سکونت اختیار کی وہیں ۱۲۷۲ھ میں آپ کی ولادت ہوئی، آپ کے والد ماجد کا نام حضرت حکیم سید برکت علی قادری چشتی تھا جو اپنے زمانے کے جید عالمِ دین اور طبیب بھی تھے، آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی تھی، فارسی و عربی بھی والد محترم اور ہمشیرہ محترمہ کی نگرانی میں حاصل کی، حافظہ بھی اللہ پاک نے کیا خوب عطا کیا تھا عربی و فارسی کے بے شمار اشعار ازبر تھے۔

    سید تصدق علی کا قد میانہ، پیشانی کشادہ، رنگ گندمی، ریش مبارک نہ گھنی نہ کم، دراز گیسو، چہرہ گول، آنکھیں بڑی بڑی، دبلا پتلا جسم، آواز شیریں، رفتار تیز ہر کام میں چستی۔

    والد محترم کے وصال کے بعد آپ کی طبیعت اُچاٹ ہوگئی تھی، آپ کی ہمشیرہ محترمہ آپ کی بیقراری و اضطرابی کیفیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ چمن قادری راولپنڈوی قدس سرہٗ سے سلسلۂ قادریہ میں ۱۲۹۴ھ میں جس وقت آپ کی عمر محض ۲۲ برس تھی بیعت کرادی، آپ اُن کی صحبت میں مسلسل ۱۰ برس تک اور اوراد و وظائف میں مشغول رہےمگر کسی طرح بھی ان اوراد و وظائف کا راز ان پر عیاں نہیں ہوتا تھا، بے چینی و اضطرابی کیفیت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی، آپ کے پیر و مرشد بھی حیران تھے کہ آخر کیا بات ہے، سید تصدق علی نے اوراد و وظائف میں کوئی کوتاہی و تساہلی نہیں کی پھر بھی کیا بات ہے، اسی اثناء میں آپ نے دو خواب دیکھے جنھیں اپنے پیر و مرشد کے گوش گزار کیا:

    (۱) ایک وسیع میدان ہے اُس میں شامیانہ نصب ہے وہاں ہزاروں نورانی چہرے والے اصحاب سر جھکائے بیٹھے ہیں، شامیانے میں ایک اونچی اور مخصوص جگہ پر دو نورانی صورت بزرگ تشریف فرما ہیں اور آپ اس شامیانے کی چوب پکڑے کھڑے ہیں، اُس میں سے ایک بزرگ نے دوسرے بزرگ سے فرمایا کہ وہ لڑکا جو چوب پکڑے کھڑا ہے اس کو ہمارے سپرد کر دیجیے کیوں کہ اُس کی تعلیم ہمارے خانوادے کے شیخ سے ہوگی، دوسرے بزرگ نے ارشاد فرمایا کہ بہت خوب ہم بخوشی اُس لڑکے کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، آپ کے خاندان میں اُس کی تربیت و تلقین ہمیں بسر و چشم منظور ہے۔ اُس کے بعد اُن بزرگ نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہم نشست بزرگ کے دست مبارک میں دے دیا پھر اُسی درمیان آپ کی نیند ٹوٹ گئی۔

    (۲) تھوڑی دیر بعد پھر آپ کی آنکھ لگ گئی اُس وقت آپ نے دیکھا کہ ایک مکان عالی شان ہے اس کے صحن میں بے شمار درویش دو زانوبیٹھے ہوئے ہیں، آپ بھی اُس مجلس میں شریک ہوئے، تھوڑی دیر بعد شربت کا دور چلنے لگا، اسی اثناء میں ساقی نے ایک جام بھر کو آپ کے روبرو کیا معاً دوسرے ہم مشرب نے وہ جام آپ کے ہاتھوں سے چھین لیا اور کہا کہ اُن کا حصہ اس بزم میں نہیں ہے، اُن بزرگ کا کلمہ سنتے ہی آنکھ کھل گئی۔

    حضرت چمن شاہ قادری نے اس خواب کی تعبیر میں ارشاد فرمایا کہ ۔۔۔۔ پہلے خواب میں ہر دو بزرگ حضرت غوث الاعظم قدس سرہٗ اور خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہٗ ہیں، تم کو حضرت غوث الاعظم نے خواجہ اجمیری کے حوالے کر دیا ہے اور وہ بزم فقراء قادریہ کی تھی، اس باعث بزم میں تم کو حصہ نہیں ملا، انشاء اللہ العزیز اب بہت جلد تم کو سلسلۂ چشتیہ بہشتیہ کے کسی شیخ کامل سے فیض حاصل ہوگا پھر آپ نے حلقۂ ارادت سے آپ کو الگ کیا اور فرمایا کہ بہتر ہے کہ تم بہار کی جانب روانہ ہو۔

    آپ کی ہمشیرہ محترمہ کو حضرت چمن شاہ قادری سے بیعت حاصل تھی آپ کو دیوان حافظ اور دیوان صائب ازبر تھے، خوش تحریر اور خوش تقریر تھیں، حسنِ اخلاق بلند تھا، کوئی فرد و بشر آپ سے شاکی نہ ہوا، غرض ہمہ صفت موصوف تھے جب اپنی حالت کو آپ نے ہمشیرہ محترمہ سے سنایا تو ہمشیرہ نے جواب دیا کہ بھائی ! تم اتنے ملول نہ ہو تم تو بڑے خوش نصیب ہو کہ خواجہ صاحب نے تم کو اپنی حضوری میں غوث پاک سے مانگ لیاہے، اب خدا پر صابر رہو ضرور ایک روز دامن مراد حصول مقصد سے بھر جائے گا۔

    دہلی میں آپ جب جامع مسجد پہنچے تو ایک درویش مستانہ سے ملاقات ہوئی وہ بڑے کم گو تھے لیکن وہ کسی سے ہم کلام نہ ہوتے تھے، آپ ایک روز علی الصباح ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اُس وقت وہ تنہا سرجھکائے ہوئے بیٹھے تھے آپ نے نہایت ادب سے اپنی ساری روداد ان کے روبرو بیان کی تو ان مست بادۂ عشق نے اپنی زبان سے حضرت سرمد شہید کی یہ رباعی ارشاد فرمائی:

    سرمد غمِ عشق بوالہوس را ندہند

    سوزِ دلِ پروانہ مگس را ندہند

    عمرے باید کہ یار آید بکنار

    ایں دولت سرمد ہمہ کس را ندہند

    بعد اس کے خاموش ہوئے پھر ذرا دیر بعد ارشاد فرمایا کہ ابھی زمانہ مواصلت بہت دور ہے چند روز اور صبر کرو، غنچۂ دل نسیم مراد سے شگفتہ ہوگا، وہاں تم ضرور عروسِ مقصد سے ہمکنار ہوگے، آپ نے نوید فرحت سن کر اسی روز دہلی سے صحرانوردی و سیر و سیاحت اختیار کی، کہیں بسواری کہیں پاپیادہ سفر کیا، حصار، لاہور، پنجاب، سندھ، بلوچستان، راجستھان، ملتان، خان پور، کوئٹہ، کراچی، اسلام آباد، بمبئی، بھرت پور، گوالیار، جھانسی اور پھر میرٹھ کا رُخ کیا۔

    آپ کی دو شادیاں ہوئی تھیں، پہلی شادی جھانسی کے شہر کوتوال سید عبدالغفور (مرید و خلیفہ حضرت غوث علی پانی پتی) کی صاحبزادی سیدہ زینب سے ہوئی تھی جن کے بطن سے ایک صاحبزادے حضرت حکیم سید خورشید علی اور سات صاحبزادیاں تھیں، آپ کی دوسری شادی بحکم پیر و مرشد (حضرت سید امجد علی) سارن کے علاقے میں سیدہ صابرہ سے ہوئی جن کے بطن سے ایک صاحبزادے سید حسرت علی المعروف بہ بالک شاہ اور ایک صاحبزادی سیدہ خیرالنساء تھیں۔

    مولانا سید تصدق علی ۱۳۰۶ھ کے کسی مہینے میں سیوان تشریف لائے اور سیوان کی سرائے میں قیام کیا، آپ سرکار کی طرف سے پروں کی خریداری پر مامور تھے، چڑیوں کے شکاریوں سے آپ پَر خریدنے اور انھیں اپنے افسر کے ہاں پوسٹ کر دیتے، پَر کی خریداری کے علاوہ تلاش پیر میں بھی سرگرداں رہتے، ایک دن یکایک دل مضطرب ہوگیا اور ان کی طبیعت پر دیوانگی کی کیفیت طاری ہوگئی، آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے، اسی اضطراب و بیقراری میں بے ہوش ہوگئے، اُسی عالم میں حضرت چمن شاہ قادری کی شکل نورانی نظر آئی، آپ نے صورت دیکھ کر فوراً ہی قدم بوس ہوئے، حضرت چمن شاہ قادری نے سر اٹھا کر سینے سے لگایا اور ارشاد فرمایا :

    ’’اس قدر پریشان نہ ہو تھوڑے روز اور صبر کرو انشاء اللہ سیوان کے کان شہیداں میں وہ درویش امام الاصفیاء پیشوائے فقراء سید امجد علی سلطان رنگیلا تشریف لائیں گے، انھیں کے ہاتھ پر بیعت ہونا تمھیں وہی حقیقت کی تلقین اور سِرّ وجود سے آگاہ کریں گے، میں نے تیری نسبت بہت کچھ سفارش کی ہے‘‘

    حضرت چمن شاہ قادری یہ بشارت دے کر رخصت ہوگئے:

    ‘‘آپ کو جب ہوش آیا تو آپ نے اپنے آپ کو بہت شاداں و فرحاں پایا۔

    آپ پھر اُسی طرح سرکاری کاموں میں مشغول ہوگئے مگر تلاش پیر میں گشت کرتے رہے، رجب المرجب ۱۳۰۹ھ کے ایام میں حضرت چمن شاہ قادری نے بشارت دی کہ اے سید تصدق علی ! تجھ کو جس کا نشان دیا گیا تھا وہ ہزار داستان چمن وحدت جانب دکھن چہچہہ زن ہے جلد جا اور حضوری حاصل کر، زمانہ آگیا ہے تیرا غنچۂ امید سربستہ و کامرانی سے شگفتہ ہوگا، آپ نے جب یہ اطلاع سنی آپ کا دل باغ باغ ہوگیا باقی شب کاٹنا پہاڑ ہوگیا، اسی بے قراری میں جاگتے جاگتے صبح ہوگئی، آپ نے جلد نماز فجر ادا کی اور اوراد معینہ سے فراغت حاصل کرکے جانب جنوب روانہ ہوگئے جب ٹیڑھی گھاٹ پہنچے تو آپ نے ایک راہ گیر سے دریافت کیا کہ کل کوئی شاہ صاحب تشریف لائے ہیں وہ کہاں تشریف فرما ہیں، راہ گیر نے جواب دیا کل اسی باغ میں ایک سوداگر ٹھہرے ہیں شکلاً وہ شاہ صاحب نہیں ہیں (حضرت سید امجدعلی کی شباہت کسی شاہ صاحب کی طرح نہیں تھی وہ ہمیشہ لباس بدلتے رہتے کبھی سپاہیانہ، کبھی عام لباس، کبھی ٹاٹ، کبھی امیرانہ و شاہانہ) اگر ہیں تو پورب والے باغ میں تشریف فرما ہیں، آپ کو جب یہ خبر ملی تو خیال کیا کہ ہو نہ ہو یہ وہی ہوں گے، آپ ان کی جانب چل پڑے حضرت سید امجد علی ایک درخت کے سایے میں مشغول عبادت تھے، آپ نے جب حضرت کی صورت نورانی دیکھی ساری تھکن دور ہوگئی، آپ نے مؤدبانہ سلام تعظیمی ادا کیا، حضرت صاحب نے زبان گوہر بار سے ارشاد فرمایا کہ بابا یہاں سلام درکار نہیں ہے، نیاز کا خواست گار ہے، کہو مزاج اچھا ہے، کہاں رہتے ہو اور کس نام سے پکارے جاتے ہو، کون کام کرتے ہو اور یہاں کب سے مقیم ہو، پنجاب کس لئے چھوڑا، پورب میں کس واسطے آئے وللہ خود تو میرے پاس کبھی نہ آتے، معلوم ایسا ہوتا ہے کہ کسی زبردست کے ہانکے ہوئے آئے ہو ایک بل کی رسی سے کام نہ چلا دوبل کی رسی بٹ کر تیار کرو، خیر بابا بیٹھو، آپ بیٹھ گئے تھوڑی دیر بعد حضرت نے ارشاد فرمایا کہ بابا خاموش کیوں ہو، کچھ کہو کیوں کہ فقیر کو زیادہ مہلت نہیں ہے۔

    آپ نے عرض کیا کہ دل فراق یار میں ملتہب ہے جستجوئے یار نے خانہ بدوش بنا رکھا ہے، برسوں سے بیاباں کی خاک چھان رہا ہوں، شہر بہ شہر اور کوچہ بہ کوچہ ٹھوکریں کھاتے گزر گئے کہیں منزل کا نشان نہ ملا، افسوس کہ پہلی ہی منزل پر ہنوز بھٹک رہا ہوں اس واسطے دست بستہ ملتجی ہوں کہ نظر کرم فرمائیے جلد جادۂ مقصود پر پہنچائیے اور جام فنا پلا کر بے خود بنا دیجیے تاکہ پردۂ دوئی آنکھوں سے اٹھ جائے، اپنے گنج حقیقت سے مجھ کوعطا کیجئے، آپ ہادی برحق ہیں گذشتہ بزرگوں نے آپ کی بشارت دے رکھی ہے، مجھے اپنے فیض سے محروم نہ رکھیے، حضرت نے ارشاد فرمایا :

    اے بابا! میں کس قابل ہوں میں تو درویش نہیں ہوں بلکہ درویشوں کا ناقل ہوں، خیر ! اگر تمھارا یہی خیال ہے کہ میں قابل ہوں تو کیا مضائقہ ہے، البتہ حسنِ ارادت اور نیت خالص رکھتے ہو تو بیشک اپنے مقصد میں فائزالمرام ہو جاؤ گے۔

    حضرت نے ارشاد فرمایا : منازلِ سلوک کی راہیں بہت کٹھن ہے ۔جہاں بڑے بڑے تیزرو خارستان میں اُلجھ کر نا کام ہوجاتے ہیں، اُس کھیل میں عقل و خرد کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں، اس سے بہتر ہے کہ نماز روزہ کیے جاؤ نہیں تو بارِ عشق اٹھانا بہت مشکل ہے، آپ نے عرض کیا یا حضرت ! مریدکا اعتقاد اپنے مرشد سے صادق ہے اور مرشد کے دامنِ رحمت کا سایہ اُس کے سر پر ہے تو ضرور بہ آسانی طے ہوجائے گا، اس کا اعتقاد جو خود اس کا رہبر ہے بے شک ایک روز درِ محبوب تک پہنچا دے گا، حضرت نے آپ کے اس قول اور سمجھ پر دلی مسرت کا اظہار فرمایا اس کے بعد حضرت نے ایک عارفانہ غزل جو ہمہ اوست ہے امیر شاہ رام پوری کی ارشاد کی:

    غزل

    یہ جو صورت ہے تری صورتِ جاناں ہے یہی

    یہی نقشہ ہے یہی رنگ ہے ساماں ہے یہی

    بسترا ٹاٹ کا دو پارچہ کمبل کی کلاہ

    تاجِ خسرو ہے یہی تختِ سلیماں ہے یہی

    اپنی ہستی کے سوا غیر کو سجدہ ہے حرام

    مذہبِ پیرِ مغاں مشربِ رنداں ہے یہی

    دونوں عالم میں نہیں تیرے سوا کوئی امیر

    عقل کو سوجھ ہے فہمید ہے عرفاں ہے یہی

    آپ نے عارفانہ غزل سن کر التماس کیا کہ اس خاکسار نے بھی اس بحر میں چند اشعار کہے ہیں، بار خاطر نہ ہوتو پیش کروں، حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا غزل سننا مرغوب ہے آپ نے آداب بجا لاکر غزل پیش کی ۔

    بو یہی گل ہے یہی بلبلِ نالاں ہے یہی

    نخلِ پیوند یہی اور گلستاں ہے یہی

    موجِ قلزم ہے یہی کوہ و بیاباں ہے یہی

    دُرِّ یکتا ہے یہی لعل بدخشاں ہے یہی

    حسنِ لیلیٰ ہے یہی خوابِ زلیخا ہے یہی

    قیس دیوانہ ہے یہی یوسفِ زنداں ہے یہی

    کس کو جاہل کہوں اور کس کو کہوں میں عالِم

    عقلِ فرزانہ ہے یہی طفلِ دبستاں ہے یہی

    طور پر جلوے سے جس کے ہوئے موسیٰ بیخود

    عاشقو! دیکھو وہ رشکِ مہہِ تاباں ہے یہی

    آپ کی غزل کو حضرت صاحب نے بہت پسند کیا بعدہٗ حضرت صاحب نے آپ کو دو رکعت صلوٰۃ عاشقانہ ادا کرنے کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت نے اپنے روبرو بیٹھا کر آپ کا ہاتھ اپنے دست مبارک پر رکھ کر سات بار استغفار پڑھوایا پھر پانچوں کلمہ مع درود شریف تلقین فرما کر سلسلۂ چشتیہ صابریہ امجدیہ میں بیعت سرّی سے مشرف کیا اور آپ کا نام امیر سلطان اسد رکھا اور آپ کے حق میں دعائے خیر فرمائی، ایک گلوری پان اپنے لب طاہر سے لگا کر عنایت کیا جس کے کھانے سے آپ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوگئی اور اپنے مقصد میں کامران و بامراد ہوگئے۔

    سید تصدق علی اسد پختہ صاحبِ قلم اور علم تصوف کے رمز شناس تھے وہ عالمِ باعمل کے ساتھ صوفی، فلسفی، مفکر، ماہر نجوم اور شاعر بھی تھے، فارسی و عربی کے ایک اچھے اُستاد کی حیثیت سے بھی ان کی اپنی پہچان تھی، حافظہ بھی غیر معمولی تھا، عربی، فارسی اور ہندی پر یکساں قدرت حاصل تھی، فارسی اور اردو کے بے شمار اشعار ازبر تھے، ان کی تحریروں میں انشاء پردازی کے جوہر واضح طورپر نظر آتے ہیں، مولانا کی تصنیفات میں ’’ارشاد اعظم المعروف بہ جلوۂ حقیقت ‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۵ ء’’سرِّہستی ‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۷ء ’’کاسۂ عشق ‘‘ مطبوعہ ۱۹۹۷ء ’’ارشادِ اعظم واحد (جلد اول)۲۰۰۰ء اور ارشاد اعظم (جلد دوم)۲۰۱۵ء ہیں جو تصوف کی اہم کتابوں میں شمار کی جاتی ہیں۔

    حضرت سید امجدعلی نے آپ کو سیاہ لباس عطا کیا تھا، آپ ہمیشہ سیاہ لباس زیب تن کیا کرتے تھے، کرتا، تہمد، پاجاما ،کوٹ، واسکٹ، خرقہ، عمامہ، انگرکھا، بنڈی، سب سیاہ ہوتے، آنکھوں میں گول چشمہ اور سیاہ جوتے کبھی کامدار اور کبھی کھڑاون بھی پہنتے تھے۔

    جب آپ عالم پیری میں داخل ہوئے تو عرس کی تقریب میں اپنے صاحبزادے حضرت حکیم سید خورشید علی کو مسند سجادگی عطا کی اور اپنے خلیفہ حضرت شاہ ابوظفر بیلچھوی الملقب بہ مقبول شاہ کو متولی کے منصب پر سرفراز کیا، حکیم سید خورشید علی حضرت سید امجد علی کے مرید تھے، حضرت سید خورشید علی کے بچپن کازمانہ تھا حضرت سید امجد علی سے لوگ مرید ہوتے تو آپ کے دل میں بھی اشتیاق ہوا کہ میں بھی مرید ہوتا، یہ بات آپ نے دادا جان ( حضرت سید امجد علی) سے توتلاتی آواز میں کہی کہ ’’دادا دادا ہم بھی مریدہوں گے‘‘ حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور آپ کو اپنے حلقۂ ارادت میں داخل کیا، آپ نے خلافت اپنے والد محترم حضرت سید امجد علی سے حاصل کی۔

    آپ ۱۳۰۹ھ سے تا وصال اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں رہے، آپ کے پیر و مرشد کا وصال ۱۵؍ربیع الثانی ۱۳۲۸ھ کو ہوا تھا، ان کے وصال کے بعد آپ ان کے جانشیں ہوئے۔

    سید تصدق علی کا وصال کسی بیماری کے سبب نہ ہوا، شب برأت کی شب میں تھوڑی طبیعت ناساز ہوئی تو آپ نے اپنے حجرے میں ہی آرام فرمایا اُسی حجرے میں ۱۵؍شعبان المعظم ۱۳۴۷ھ المطابق ۲۷؍جنوری ۱۹۲۹ء بروز اتوار ۲ بجکر ۲۰ منٹ میں وہ آفتاب ولایت دارالفنا سے دارالبقا کو ہجرت کر گیا، نماز جنازہ آپ کے جانشیں و خلف اکبر حکیم سید خورشید علی امجدی نے پڑھائی جس جگہ آپ کا وصال ہوا اُسی جگہ آپ کی تدفین بعد نماز عصر ہوئی، اس کے بعد آپ کے مزار پُرانوار پر آپ کے جانشیں نے گنبد تعمیر کرایا، مزار مبارک کے لئے مولانا عترت حسین عترت نے چار قطعات تاریخ کہے جس میں دو درج ذیل ہیں:

    شیخم کہ تصدق بہ علی بودہ است

    خضریست کہ حقا بہ بقا راضی شد

    ہاں! خضر چہ گوئم ہم اوراست فنا

    اینست بقا، او بخدا راضی شد

    ۱۹۲۹ء

    بسے نوحہ کن اے دلِ پُر حزن

    کہ جانم صدا می دہد آہ دل

    کہ بگذاشت مارا و جنت شتافت

    تصدق علی صابری شاہ دل

    ۱۳۴۷ھ

    سید تصدق علی ۱۴ویں صدی کے باکمال بزرگ ہیں، آپ باغ و بہار اور عبقری شخصیت کے مالک تھے، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیوں اور کمالات سے نوازہ تھا، آپ خوش طبع خوش خط اور خوش پوشاک تھے، آپ کو چاروں سلاسل سے اجازت و خلافت حاصل تھی، آپ اپنے بزرگوں کی طرح ہمہ اوست وحدت الوجود کے قائل تھے، آپ حنفی اہل سنت اور فارسی عربی کے اچھے استاد بھی تھے، آپ کے مریدوں کی تعداد زیادہ تھی، تمام مریدین و متوسلین آپ سے والہانہ ارادت رکھتے تھے، آپ کے پیر نے آپ کوامام الاؤلیاء تیز رفتار و شیر شاہ جیسے القاب سے نوازا تھا، آپ کی بزرگی کا یہ عالم تھا کہ مختلف سلاسل کے بزرگ آپ سے استفادہ کرتے اور فیضیاب ہوتے، آپ کے حاضرین میں کسی سلاسل کی قید نہ تھی، بہار اور بیرون بہار میں مختلف خانقاہوں کے اعراس کے موقعے پر شرکت کرتے تھے، تمام سجادگان آپ کی تعظیم کیا کرتے تھے، سلسلۂ رشیدیہ کے نامور بزرگ حضرت شاہ عبدالعلیم آسی غازی پوری سے زیادہ قربت تھی، حضرت آسی جب بھی سیوان آتے خانقاہ امجدیہ میں ضرور تشریف لاتے، ایک واقعہ ہے کہ حضرت سید امجد علی کا یک روزہ عرس تھا اُس عرس میں شرکت کے لئے حضرت آسی جیوں ہی پالکی پر سوار ہوئے آپ کے معتقدین نے ایک کاغذ بڑھایا جس میں سماع کے متعلق باتیں لکھی تھیں کہ وہاں مزامیر کا استعمال ہوتا ہے، آپ نے اوپر سے نیچے تک پڑھا اور ان صاحب کے حوالے کردیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’جو شاہ صاحب کا مسلک ہے وہی میرا مسلک ہے‘‘ پھر آ پ رات بھر خانقاہ امجدیہ کے عرس میں شریک رہ کر صبح اپنی خانقاہ واپس ہوگئے۔

    مولانا سید تصدق علی پر مجلس سماع میں وجد کی کیفیت طاری رہتی، وجد کے عالم میں کپڑے تار تار ہوجاتے، قوال کو نذرانہ اپنی بچھی ہوئی سجادگی کے نیچے سے دیا کرتے تھے، آپ صاحب کرامت بزرگ تھے، سیوان اور اہل سیوان جوق در جوق آپ کے پاس آتے اور اپنے مسائل پیش کرتے، آپ ان کے لئے دعا فرماتے، آپ کی دعائوں سے راجہ اسمٰعیل علی خان کے محل ثانی کو اولاد نصیب ہوئی۔

    اللہ پاک نے آپ کو فیاضی عطا کی تھی، آپ کے پاس سے کوئی محروم نہ جاتا، خانقاہ میں کسی کو کوئی شے پسند آجاتی تو اسے فوراً اس کے حوالے کر دیتے تھے، اخفائے حال غضب کا تھا، اپنے کمالات کا برملا اظہارنہ کیا کرتے، انکساری حد درجے کی تھی، اوراد و وظائف کثرت اور پابندی سے کرتے تھے، سفر حضر کبھی ناغہ نہ فرماتے تھے، دعائے حیدری کے ذاکر تھے۔

    حضرت سید امجد علی نے آپ کو ۱۳۰۹ھ میں بیعت سے شرف یاب کیا اور ۱۳۱۱ھ میں’’مسجد بیت الموجود ابدیہ حیاتیہ‘‘ میں تمام حاضرین و رؤسائے سیوان کے روبرو دستارِخلافت اور پٹکۂ خلافتِ سرداری اپنے دست مبارک سے عنایت کیا، اہل سیوان اور اس کے اطراف کے حضرات جہاں آپ سے بہرہ مند ہوئے وہیں تلاشِ حق کے شیدائیوں نے آپ کے روحانی علم سے دل کی پیاس بجھائی، آپ کے وقت میں جب خانقاہ امجدیہ کا سالانہ عرس ہوا کرتا تھا تو خانقاہ کے مہمانوں کے علاوہ خانقاہ سے متصل دکھن ٹولہ میں کسی فرد کے گھر چولھے میں آگ نہ جلتی تھی، خانقاہ کا لنگر اتنا وسیع تھا کہ پورے محلے میں لنگر تقسیم کیا جاتا تھا، سماع کی محفل میں پھلواری شریف، سہسرام وغیرہ کی چوکیاں اپنے عارفانہ کلام سے محفل کو گرماتی تھیں، غزلوں کا ا نتخاب بہت سخت ہوتا۔

    سیوان میں قدیم دور سے ہی شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں اور یہاں ایک سے ایک استاد شاعر گزرے ہیں، طرحی نشستیں خوب ہوا کرتی تھیں، آپ نے بھی طرحی غزلیں کہی ہیں، شعری نشست میں تو کبھی شریک نہیں ہوتے تھے مگر طرح پر غزل ضرور ہوجاتی تھی۔

    کھانے پینے میں کوئی خاص پسند نہ تھی جو حاضر رہتا وہی نوش فرماتے مگر مہمان نوازی بہت تھی، مہمانوں کا خیال رکھا جاتا، ناز برداری بہت کرتے، کسی کو ناراض نہیں جانے دیتے، مہمانوں کی پسند کا خیال رکھتے، کھانے میں آپ کو ماش کی دال، چپاتی اور ادرک لہسن اور ہری مرچ کی چٹنی بہت پسند تھی، کئی بار آپ کا فاتحہ ابی و شیخی نے انھیں اشیاء پر دیا ہے، آپ کے مریدین بھی زیادہ تھے، آپ نے اپنے مریدوں کو لباس عطا کیا تھا، کسی کو سرخ، کسی کو سبز، کسی کو زرد، کسی کو سفید، ان حضرات کے نام بھی انھیں لباس کی مناسبت پر رکھے جاتے جیسے سرخ پوش شاہ، سبز پوش شاہ وغیرہ وغیرہ۔

    آپ کے خلفاء و مریدین کی تعداد یوں تو بہت تھی لیکن ان میں حسب ذیل حضرات بطور خاص قابل ذکر ہیں:

    (۱) حضرت حکیم سید شاہ خورشید علی چشتی صابری امجدی (المتوفی ۴؍صفرالمظفر۱۳۹۴ھ المطابق ۲۷؍فروری ۱۹۷۴ء)

    (۲) حضرت سید شاہ حسرت علی الملقب بہ بالک شاہ (المتوفی ۱۳۵۷ھ المطابق ۱۹۳۹ء)

    (۳) حضرت شاہ ابوظفر الملقب بہ مقبول شاہ (المتوفی ۱۸؍ربیع الاوّل ۱۳۹۵ھ المطابق یکم اپریل ۱۹۷۵ء)

    (۴) حضرت مراد علی شاہ (المتوفی ۱۷؍اپریل ۱۹۵۱ء )

    (۵) حضرت بابا خلیل داس چترویدی (المتوفی۲۸؍اکتوبر ۱۹۶۶ء)

    (۶) حضرت شاہ اختر حسین گیاوی الملقب بہ بیراگ شاہ (المتوفی ۱۸جمادی الثانی۱۳۸۵ھ المطابق ۱۴؍اکتوبر ۱۹۶۵ء)

    (۷) حضرت سید مولوی شاہ محمد اسحاق الملقب بہ خاموش شاہ

    (۸) حضرت شاہ محمد شہاب الدین الملقب بہ صحبت شاہ

    (۹) حضرت عترت حسین موتیہاروی

    (۱۰) حضرت بھولا شاہ چھاتوی

    (۱۱) حضرت ظہورشاہ

    حکیم سید شاہ خورشید علی چشتی صابری امجدی کے علاوہ حضرت مراد علی شاہ اور حضرت بابا خلیل داس چترویدی سے سلسلے کا فیض جاری ہے۔

    اخیر میں آپ کی ایک پالتو بلّی کا تذکرہ بھی نامناسب نہ ہوگا، یہ بلّی بڑی فرماں بردار اور عادت و اطوار کے معاملے میں عام بلّیوں سے خاصی مختلف تھی، ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتی، کھانے پینے کی چیزیں سامنے رہتے ہوئے بھی ان کی طرف ملتفت نہیں ہوتی تھی، اسے جب کھانا دیا جاتا تبھی کھاتی، آپ کے وصال سے ایک روز قبل وہ غائب ہوگئی، وصال کے تیسرے روز خانقاہ میں آئی اور عالمِ اضطراب میں چاروں طرف سرگرداں رہی جیسے اپنے مالک کو تلاش کر رہی ہو، آخر جب آپ کے مزار مبارک کے قریب پہنچی تو قبر کا طواف کیا اور مزار کے پائنتی اپنا سر زمین پر رکھا اور جاں بحق ہوگئی، دادا جان (حکیم سید شاہ خورشید علی امجدی) نے اسے نہلایا دھلایا اور کفن میں لپیٹ کر اس پر عطر لگایا اور آپ کے پائنتی ہی اسے دفن کر دیا۔

    نوٹ : ارشادِ اعظم واحد جلداول کے قلمی نسخے کی ابتدا میں حضرت سید تصدق علی نے اپنے حالات قلم بند کئے تھے جو پانی سے بھیگ جانے کی وجہ سے ٹھیک سے پڑھنے میں نہیں آتے اور اس کے چند صفحات بھی غائب ہیں جب یہ کتاب ۲۰۰۰ء میں شائع ہوئی تو اس کے مرتب ابی و شیخی حضرت سید شاہ صغیر احمد امجدی نے حالات والے حصے کو حذف کردیا اس احقر نے شاہ تصدق علی کے حالات لکھتے ہوئے مذکورہ صفحات کے ان حصوں سے مدد لی ہے جو پڑھے جاسکتے ہیں اس کے علاوہ ارشادِ اعظم واحد، جلوۂ حقیقت اور سرِّہستی سے فیض اٹھایا ہے چند باتیں وہ بھی ہیں جو میں نے اباّ حضور سے براہ راست سنی تھیں۔

    آپ کے حلیۂ مبارک کے متعلق جو کچھ تحریر ہے وہ میں نے حضرت ڈھیلا شاہ اور حضرت عبدالحق چھاتوی سے سن کر لکھا ہے، ان دونوں حضرات نے حضرت شاہ تصدق علی کو دیکھا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے