Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تذکرہ حضرت شاہ امجد علی چشتی صابری

التفات امجدی

تذکرہ حضرت شاہ امجد علی چشتی صابری

التفات امجدی

MORE BYالتفات امجدی

    حضرت شاہ امجد علی کے آبا و اجداد ملک افغانستان کے باشندہ تھے اور ان کی ہندوستان میں تشریف آوری دسویں صدی عیسوی میں وہاں کے مشہور حکمراں سلطان محمود غزنوی کی رکابِ جلوس کے ساتھ ہویٔ تھی۔

    آپ کی پیدائش مین پوری صوبہ اتر پردیش میں ہویٔ تھی، آپ کے اجداد کا پیشہ کاشتکاری تھا، آپ کے والد سید بہادر علی آگرہ شہر سے متصل ٹونڈلا میں سرکاری ملازمت کیا کرتے تھے، کمسنی میں آپ کو بکریاں چرانے کا بےحد شوق تھا، آپ کے ساتھ پچاس ساٹھ بکریاں ہمراہ رہا کرتیں اور آپ اسی شغل میں مصروف رہتے، آپ مادر زاد ولی تھے، وقتاً فوقتاً ولایت کا ظہور بھی ہوتا رہتا جس کا ذکر کرنا طولِ مضمون ہے۔

    نوجوانی میں آپ محکمہ ریلوے میں ڈرائیور کے عہدہ پر رہے اور اسی آمدنی سے گزر بسر کیا کرتے تھے، دورانِ ملازمت ایک دن آگرہ اسٹیشن پر آپ کے ایک دوست دوڑے آئے اور کہنے لگے کہ ابھی اسٹیشن پر تین درویش تشریف فرما ہیں، یہ سن کر آپ اُن سے شرفِ نیاز حاصل کرنے کے لئے چل پڑے، آپ کے وہاں پہنچتے ہی ان میں سے ایک درویش نے نعمتِ عظمیٰ اور خلافتِ کبریٰ عطا ہونے کی خوش خبری دی، آپ اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر تلاشِ حق میں نکل پڑے، پہلے چار سال تک مین پوری میں گوشہ نشیں ہو کر اوراد و وظائف میں مشغول رہے پھر بھی دل کو سکون نہ ملا، بے چین ہو کر گھر سے نکلے اور ٹونڈلا جا کر اپنے ایک شناسا کے گھر قیام کیا، وہیں مسجد میں حضرت شاہ قطب علی شاہ بنارسی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ان کے حلقۂ ارادت میں داخل ہو کر ان کی خدمت با برکت اختیار کی، ان کے حکم سے متعدد چلّے بھی کئے، آپ نے پیر و مرشد کی کہاری کی خدمت اختیار کی، پیر و مرشد کی بارہ سال کی متواتر خدمت و اطاعت کی وجہ سے ان کے چہیتے بن گئے، انہوں نے آپ کو سلسلے کی خلافت سے سرفراز فرما کر اشاعتِ توحید و حقانیت کی خاطر سفر کا حکم فرمایا، آپ مختلف مقامات کا سفر کرتے ہوئے کلکتہ پہنچے اور وہاں سے بردوان مرشد آباد ہوتے ہوئے دیناج پور آۓ اور پھر پورنیہ کی راہ لی، راستے میں موضع بہلا کی ایک مسجد میں شب بھر قیام کا ارادہ فرمایا لیکن اس گاؤں میں مہینوں قیام رہا کیونکہ مدت دراز سے وہاں سلفیوں کا بول بالا تھا اور پورا قصبہ منکرانِ اولیا سے بھرا ہوا تھا، وہاں آپ نے ولایت و معرفت کا ایسا نشان استادہ کیا جس کا پھریرا آج بھی لہرا رہا ہے۔

    آپ بہلا سے دربھنگہ،مظفر پور، عظیم آباد، بہارشریف وغیرہ کا سفر کرتے ہوئے جمعہ کے دن جنوری 1891ء میں سیوان ریلوے اسٹیشن پر اترے اور یکہ سے سیوان شہر کے دکھن موضع مڑکن ٹیڑھی گھاٹ میں شاہ راہ کے پورب جانب ایک باغ میں عارضی طور پر رہائش اختیار کی۔

    یہیں حضرت شاہ تصدق علی اسد کی ملاقات آپ سے ہوئی اور وہ آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو کر اپنی مراد کو پہنچے، پیر اور مرید میں ایسا روحانی رشتہ قائم ہوا کہ انہوں نے 1893ء میں سیوان جنکشن کے نزدیک ایک مسجد اور خانقاہ کی بنیاد ڈال کر ساتھ رہنا اختیار کیا اور یہیں سے اشاعتِ دین کے فروغ میں مشغول ہوۓ اور وصال کے بعد اسی خانقاہ میں سپردِ خاک ہوئے جو خانقاہ امجدیہ کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کی ذات میں قلندرانہ رنگ بدرجۂ اتم موجود تھا، آپ نے کسی استاد سے ظاہری تعلیم حاصل نہیں کی، آپ کو علمِ لدنی حاصل تھا، تمام عمر مجرد رہے۔

    آپ کا وصال 15 ربیع الثانی 1328ھ موافق ماہ اپریل 1910ء میں دورانِ سفر ریل میں دروندا ریلوے جنکشن کے قریب ہوا، وصال کی تاریخ ھوالغفور سے نکلتی ہے، ہر سال پندرہ ربیع الثانی کو آپ کا ایک روزہ عرس تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے، اس کے علاوہ خانقاہ کا چھ روزہ عرس جو آپ نے 1309ھ میں ہی رائج کیا تھا آج بھی اسی شان و شوکت سے ہوتا ہے، یہ چھ روزہ عرس ہر سال 27 چیت فصلی سے شروع ہو کر 2 بیساکھ فصلی اور چاند کی 11 تاریخ سے 16 تاریخ تک ہوا کرتا ہے۔

    سید تنویر احمد امجدی المتخلص بہ موجود چشتی کی یہ منقبت آپ کی شان کا بہتر عکاسی کرتی ہے۔

    ترا اسم پاک ہے امجدی تری ذات ذاتِ قلندری

    ترا وصف کس سے بیان ہو ترا بازو بازوۓ حیدری

    تو علی کے قلب کا چین ہے تری رگ میں خونِ حُسین ہے

    ترے گھر کے خواجۂ سنجری ترے گھر کے صابرِ کلیری

    تو تو صوفیوں کا امام ہے ترا سب سے اونچا مقام ہے

    کوئی رنگ بھی ترے رنگ کا کبھی کر سکا نہ برابری

    تو ہے میرِ منزلِ کارواں تو نشانِ منزلِ بے نشاں

    تری ذات پر نہ ہوں کیوں فدا سبھی رہنماؤں کی رہبری

    تو ہے نور میری نگاہ کا میں غبار ہوں تری راہ کا

    تری منقبت لکھوں روز و شب اسی راہ پہ چلے شاعری

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے