تذکرہ حضرت شاہ امجد علی چشتی صابری
حضرت سید شاہ امجد علی کے آبا و اجداد ملک افغانستان کے باشندہ تھے اور ان کی ہندوستان میں تشریف آوری دسویں صدی عیسوی میں وہاں کے مشہور حکمراں سلطان محمود غزنوی کی رکابِ جلوس کے ساتھ ہویٔ تھی۔
آپ کی ولادت موضع قاضی پور مین پوری صوبہ اتر پردیش میں گیارہ جمادی الثانی ۱۲۵۴ ھ میں ہویٔ تھی، آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام جعفر صادق سے جا کر ملتا ہے، آپ حنفی المسلک تھے، آپ کا خاندان زمیندار ہونے کے باوجود پیشہ کاشتکاری تھا، خاندانی شرافت اس قدر تھی کہ جو کھانا آپ کھاتے وہی کھانا خدام کو بھی کھلاتے جیسا کپڑا بہ نفس نفیس خود پہنتے تھے ویسا ہی کپڑا اپنے خدام کو پہنایا کرتے، آپ کے والد سید بہادر علی مقام ٹنڈلا میں سرکاری ملازمت کیا کرتے تھے، کمسنی میں آپ کو بکریاں چرانے کا بیحد شوق تھا، آپ کے ساتھ پچاس ساٹھ بکریاں ہمراہ رہا کرتیں اور آپ اسی شغل میں مصروف رہتے، ابتدائی عمر جو کھیل کود کی ہوتی ہے، اسی عالم میں آپ کے ساتھ دریا میں غسل فرماتے ہوئے ڈوب جانے کا واقعہ پیش آیا لیکن حضرت خضر علیہ السلام بحکم رب العالمین آپ کو دریا سے باہر نکال کر خشکی پر لے آئے اور دو سبز بادام دے کر ارشاد فرمایا کہ اس کو کھا لینے کے بعد تجھ پر اسرارِ وحدت اور رموزِ کائنات منکشف ہو جائیں گے اور علم الدنی بھی حاصل ہو گا، باقی تلقین تجھے قطبِ عالم سے حاصل ہوگا جن کی خدمت میں بارہ برس گزارنے ہونگے، آپ مادر زاد ولی تھے، وقتاً فوقتاً ولایت کا ظہور بھی ہوتا رہتا تھا۔
نوجوانی میں آپ محکمہ ریلوے میں ڈرائیور کے عہدہ پر فائز تھے، آپ اسی آمدنی سے گزر بسر کیا کرتے تھے، دورانِ ملازمت ایک دن آگرہ اسٹیشن پر آپ کے ایک دوست دوڑے آئے اور کہنے لگے کہ ابھی اسٹیشن پر تین درویش تشریف فرما ہیں، یہ سن کر آپ اُن سے شرفِ نیاز حاصل کرنے کے لئے چل پڑے، آپ کے وہاں پہنچتے ہی ان میں سے ایک درویش نے نعمتِ عظمیٰ اور خلافتِ کبریٰ عطا ہونے کی خوشخبری دی، آپ اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر تلاشِ حق میں نکل پڑے، پہلے چار سال تک مین پوری میں گوشہ نشین ہوکر اوراد و وظائف میں مشغول رہے پھر بھی دل کو سکون نہ ملا، بے چین ہوکر گھر سے نکلے اور ٹنڈلا جا کر اپنے ایک شناسا کے گھر قیام کیا، وہیں مسجد میں حضرت حاجی قطب علی شاہ چشتی صابری بنارسی (المتوفی ١٣١٩ھ المطابق ١٩٠١ء) سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، حضرت قطب شاہ نے آپ کو دیکھ کر فرمایا واہ کیا رینی سے شہاب ٹپک رہا ہے، صرف رنگریز کی ضرورت ہے، آپ نے عرض کیا یا شاہ بیشتر ہی دو بزرگوں نے رنگریز کا نشان دے دیا ہے اور وہ رنگریز آپ ہی ہیں، حضرت متبسم ہوئے اور حسب دستور چشتیہ صابریہ میں داخل کیا، ان کے حکم سے متعدد چلّے بھی کئے، آپ نے پیر و مرشد کی کہاری کی خدمت اختیار کی۔
پیر و مرشد کی بارہ سال کی متواتر خدمت و اطاعت کی وجہ سے ان کے چہیتے بن گئے، انہوں نے آپ کو چہار سلسلے کی خلافت سے سرفراز فرما کر اشاعتِ توحید و حقانیت کی خاطر سفر کا حکم فرمایا، آپ مختلف مقامات کا سفر کرتے ہوئے کلکتہ پہنچے اور پھر وہاں سے بردوان مرشد آباد ہوتے ہوئے دیناج پور آۓ پھر پورنیہ کی راہ لی، راستے میں موضع بہلا کی ایک مسجد میں شب بھر قیام کا ارادہ فرمایا لیکن اس گاؤں میں مہینوں قیام رہا کیونکہ مدت دراز سے وہاں سلفیوں کا بول بالا تھا اور پورا قصبہ منکرانِ اؤلیا سے بھرا ہوا تھا، وہاں آپ نے تصوف و ولایت کا ایستادہ نشان استادہ کیا جس کا پھریرا آج بھی لہرا رہا ہے۔
آپ موضع بہلا (اتر دیناج پور) سے دربھنگہ، مظفر پور، عظیم آباد پہنچے تو خانقاہ شاہ ارزاں میں سات روز ٹھہرنے کی سعادت حاصل کی اور آستانہ شاہ ارزاں کی زیارت سے مشرف ہوئے پھر بہار شریف وغیرہ شہروں کا سفر کرتے ہوئے جمعہ کے دن جنوری ١٨٩١ ء میں سیوان ریلوے اسٹیشن پر اترے اور یکہ سے سیوان شہر کے دکھن موضع مڑکن ٹیڑھی گھاٹ میں شاہراہ کے پورب جانب ایک باغ میں عارضی طور پر رہائش اختیار کی، یہیں سید شاہ تصدق علی سلطان اسد شیر شاہ (جو میرٹھ سے سیوان تلاشِ پیر میں آپ سے تین سال قبل ١٣٠٦ھ مطابق ١٨٨٩ء میں آۓ تھے اور پروں کی تجارت کیا کرتے تھے) کی ملاقات آپ سے ہوئی اور وہ آپ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہو کر اپنی منزلِ مراد کو پہنچے۔
پیر اور مرید میں ایسا روحانی رشتہ قائم ہوا کہ انہوں نے ١٣١١ھ مطابق ١٨٩٣ء میں سیوان جنکشن کے نزدیک ایک مسجد اور خانقاہ کی بنیاد ڈال کر ساتھ رہنا اختیار کیا اور یہیں سے اشاعتِ دین کے فروغ میں مشغول ہوۓ اور وصال کے بعد اسی خانقاہ میں سپردِ خاک ہوئے جو خانقاہ امجدیہ سیوان بہار کے نام سے مشہور ہے۔
آپ کی ذات میں قلندرانہ رنگ بدرجہ اتم موجود تھا، آپ نے کسی استاد سے ظاہری تعلیم حاصل نہیں کی، آپ اُمّی تھے، آپ کو علمِ لدنی حاصل تھا، تمام عمرمجرد رہے، حضرت سید شاہ امجد علی کے بہلا میں قیام کے دوران آپ کے ایک مرید حضرت شاہ مہتاب الدین کے گھر یکایک زبردست آگ لگ گئی، اس کی خبر آپ کو دی گئی، آپ کی دعا کے اثر سے آسمان ابر آلود ہوا اور زوروں کی بارش ہوئی جس سے گھر خاکستر ہونے سے محفوظ رہا، یہ دیکھ کر بہلا والے حیرت ذدہ رہ گئے، آپ کا قیامِ سیوان کے دوران ایک عیسائی مہوس سے سامنا ہوا جو کیمیاگری کے ذریعے تھوڑا سونا بنا کر اپنا گزارا کرتا تھا، آپ نے اس سے فرمایا کہ کیا نظر سے سونا بنا سکتے ہو، اس مہوس نے کہا، صرف سُنا ہے، آپ نے فرمایا دیکھنا چاہتے ہو؟ فوراً مٹی کا ایک ڈھیلا منگا کر اس کو کپڑے سے ڈھک دیا اور ایک ایسی نگاہ ڈالی کہ وہ سونا بن گیا، اس واقعہ کو دیکھ کر وہ مہوس ایسا گرویدہ ہوا کہ دائرہ اسلام میں داخل ہوکر آپ کا خلیفہ ہوا جسے آپ نے سلطان بہار کا لقب عطا کیا۔
آپ کا وصال ١٥ ربیع الثانی ١٣٢٨ھ مطابق اپریل ١٩١٠ء میں دورانِ سفر ٹرین میں دروندا ریلوے جنکشن کے قریب ہوا، وصال کی تاریخ ھوالغفور ( ١٣٢٨ھ ) سے نکلتی ہے، ہر سال پندرہ ربیع الثانی کو آپ کا ایک روزہ عرس تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے، اس کے علاوہ خانقاہ کا چھ روزہ (قمری) عرس جو آپ نے ١٣٠٩ ھ میں اپنے حیات ظاہری سے ہی رائج کیا تھا۔ ماشاءاللہ اسی شان و شوکت سے زندہ ہے، یہ چھ روزہ عرس ہر سال ٢٧ چیت فصلی سے شروع ہوکر ٢ بیساکھ فصلی اور چاند کی ١١ تاریخ سے ١٦ تاریخ تک ہوا کرتا ہے، حضرت سید شاہ امجد علی کے وصال کے بعد مسندِارشاد پر حضرت سید شاہ تصدق علی جلوہ افروز ہوئے جو ۱۵ شعبان المعظم ۱۳۴۷ھ المطابق ۲۷ جنوری ۱۹۲۹ء کو وصال فرما گئے اور اس کے بعد آپ کے فرزند و خلیفہ حضرت سید شاہ حکیم خورشید علی خانقاہ امجدیہ سیوان کے سجادہ نشین ہوئے جنہوں نے ۱۳۶۹ھ میں خانقاہ کی ایک شاخ موضع بہلا صوبہ بنگال میں قائم کی جو تا ہنوز باقی ہے، آپ کا وصال ۴ صفر ۱۳۹۴ ھ کو خانقاہ امجدیہ سیوان میں ہوا اور یہیں سپردِخاک ہوئے، آپ کے وصال کے بعد اپ کے فرزند و خلیفہ حضرت سید شاہ صغیر احمد امجدی سجادہ نشین ہوئے جو ۷ رجب ۱۴۲۱ھ المطابق ۱۴ ستمبر ۱۹۰۲ء کو وصال فرما گئے اور خانقاہ امجدیہ سیوان میں مدفون ہوئے۔
ارشادات بشکل ملفوظات:
حضرت سید شاہ امجد علی کی ملفوظات کو حضرت سید شاہ تصدق علی سلطان اسد نے ارشادِ اعظم کی صورت میں قلمبند کیا جس کے چند نمونے حاضرِخدمت ہے۔
(۱) انکساری انسان کے حق میں اکسیر اعظم ہے۔
(۲) جو خدا سے بے خبر ہے، وہ نامحرم ہے۔
(۳ ) فقیر کے لئے رنج و راحت اور زحمت و مسرت سب یکساں ہے۔
(۴ ) جس مشتاق نے خود کو شناخت کیا، اس نے گنجِ بقا حاصل کیا۔
(۵) عشق صراط المستقیم ہے۔
(۶) فقیر جب تک خود کو ظاہر نہیں کرتا، کوئی اس کو پہچان نہیں سکتا ہے۔
(۷) فقیر کو جامہ رنگین بہ غرض خود نمائی دنیا کمانے کے لئے ہرگز پہننا روا نہیں۔
(۹) پارچہ رنگین جامہ بزرگانِ سلسلہ چشت ہے اور یہ چشت اہلِ بہشت ہیں، اہلِ دنیا کوجامہ اہلِ بہشت کو نادرست کہنا مناسب نہیں۔
(۱۰ ) حباب دریا سے جدا نہیں ہے ایسے ہی انسان خدا سے جدا نہیں ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.