Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

حضرت شاہ عظیم الدین چشتی صابری امجدی

التفات امجدی

حضرت شاہ عظیم الدین چشتی صابری امجدی

التفات امجدی

MORE BYالتفات امجدی

    شہر سیوان سے 17 کلومیٹر شمال کی جانب بڑہریا بلاک میں ایک مشہور بستی ہے جو لکڑی درگاہ کے نام سے معروف ہے، یہاں ایک جلیل القدر صوفی بزرگ حضرت دیوان شاہ ارزانی (متوفی 3 ذی الحجہ 1028ھ) کا چلہ گاہ واقع ہے، جن کی نسبت سے یہ مقام درگاہ کے طور پر مشہور ہوا، یہ بزرگ آج سے ساڑھے چار صدی قبل کے ہیں اور شہنشاہ اکبر (متوفی 1605ء) کے پھیلائے ہوئے باطل دین دینِ الٰہی کی مخالفت کرنے ہندوستان تشریف لائے تھے۔

    اسی بستی (لکڑی درگاہ) کے ایک معزز فرد مولوی محمد ولایت شاہ تھے، ان کی پہلی اہلیہ سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا مولانا محمد اسحاق شاہ پیدا ہوئے، جب کہ دوسری اہلیہ سے چار بیٹے، محمد شہید، محمد صدیق، محمد ظہیرالدین اور حفاظت حسین پیدا ہوئے۔

    آگے چل کر مولانا محمد اسحاق شاہ کی شادی بی بی کشیدن بیگم سے ہوئی، جن کے بطن سے دو بیٹیاں اور سات بیٹے پیدا ہوئے، حمید شاہ، مجید شاہ، توحید شاہ، مسلم شاہ، تسلیم شاہ، مولانا عظیم الدین اور حافظ کلام الدین۔

    انہی میں سے مولانا عظیم الدین عرف بابو جان نے طریقت و معرفت کی وہ شمع روشن کی، جس نے ہزاروں بندگانِ خدا کو اپنا گرویدہ بنا لیا، آپ کی ولادت یکم جنوری 1925ء کو آبائی وطن شاہ تکیہ، لکڑی درگاہ (سیوان) میں ہوئی، اعظم گڑھ کے کسی مدرسے سے فراغت کے بعد آپ کوچۂ عشق و معرفت کی جانب مائل ہوئے اور شیخِ طریقت کی تلاش میں بیقرار رہے۔

    بالآخر دیوریا کے موضع مٹیارا جگدیش، جو لار کے قریب واقع ہے، وہاں حضرت بابا حاتم علی چشتی صابری امجدی کے دستِ اقدس پر سلسلۂ صابریہ امجدیہ میں بیعت کی، انہوں نے آپ سے 6 ماہ 18 دن کا مخصوص چلہ کرایا، جس سے آپ کی شخصیت مزید نکھر کر روحانی سانچے میں ڈھل گئی، پیر و مرشد آپ کی مجاہدہ کی کیفیت سے نہایت خوش ہوئے اور تکمیلِ سلوک کے بعد اجازت و خلافت سے مشرف فرمایا۔

    آپ کی روحانیت سے متاثر ہو کر بڑی تعداد میں لوگوں نے رہنمائی حاصل کی، آپ کا حلقۂ ارادت ہندوستان سے نکل کر نیپال تک وسیع ہو گیا، تبلیغِ دین کے لیے آپ نے 1970ء کی دہائی میں ارریہ کو مرکز بنایا، ارریہ کوٹ کے قریب گاچھی ٹولہ میں مسجد اؤلیا اور خانقاہِ چشتیہ صابریہ تعمیر فرمائی، جہاں سے آپ سلسلۂ صابریہ کی خدمت میں مصروف عمل رہے، سوموار کا دن عام ملاقات کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔

    آپ نے دیہی علاقوں میں بھی کئی مساجد کی بنیاد ڈالی، آپ کا دائرۂ اثر ارریہ، کٹیہار، کشن گنج، بھاگل پور، مظفر پور، جوگبنی، بیراٹ نگر (نیپال) وغیرہ تک پھیلا ہوا تھا، آپ کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں تھی، آپ نے بنارس میں اپنے دادا پیر حضرت بابا خلیل داس کی صحبت میں رہ کر بھی روحانی فیض حاصل کیا، آپ انہیں پھوپھا جان کہہ کر مخاطب کرتے تھے، ارریہ کی خانقاہ میں ہر سال گیارہویں شریف، بارہویں شریف اور 6 رجب کو عرس کا اہتمام ہوتا، جس میں قل شریف، علما کی تقاریر، صلوٰۃ و سلام، اور لنگر کا بندوبست کیا جاتا، مسجد میں آپ باجماعت نماز ادا کرتے، ذکر و اذکار کی محفلیں برپا کرتے اور مریدوں کو ان کے ظرف کے مطابق وظائف عطا فرماتے، میلاد اور نذر و نیاز کے مواقع پر اپنی نورانی اور شعلہ بیانی سے دلوں کو منور کرتے، آپ کو طب و حکمت سے بھی خاص دلچسپی تھی، آپ کے مزاج میں جلال بھی پایا جاتا تھا، بغیر ضرورت کہیں تشریف نہ لے جاتے، یادِ الٰہی کے سوا کوئی شغل نہ تھا، مریضوں کی شفایابی کے لیے تعویذات بھی عنایت فرماتے، آپ کا رنگ گندمی، قد دراز، ریش مبارک طویل، زلفیں دراز تھیں، لباس میں پائجامہ، کرتا، تہمد اور ٹوپی استعمال فرماتے، سماع سے رغبت رکھتے تھے، آپ نے دو نکاح کیے، پہلا نکاح اپنے شیخِ طریقت کی دخترِ نیک نورجہاں بنتِ حاتم علی شاہ سے ہوا، جن سے ایک بیٹے مولانا محمد علی (مرحوم) کی ولادت ہوئی، وہ ممبئی میں مقیم تھے، اس نکاح سے آپ کو دامادی کا شرف بھی حاصل تھا، دوسرا نکاح صابرہ خاتون بنتِ حبیب شاہ ساکن شاہ ٹولہ، موضع چھاتا بختیار، سیوان سے ہوا، ان سے ایک بیٹی رابعہ خاتون اور دو بیٹے احمد علی اور غلام ربانی پیدا ہوئے۔

    درگاہ مولانا عظیم الدین شاہ کے موجودہ سجادہ نشیں جناب احمد علی ہیں، جن کی نگرانی میں عرس کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔

    آپ کے خلفا و مریدین میں درج ذیل حضرات قابلِ ذکر ہیں۔

    مولانا محمد علی، جناب احمد علی، فضلِ حق (ارریہ)، علی امام (جوگبنی)، جمال الدین (بیراٹ نگر)، محمد صیاد (خیریا بستی)، محمد فیروز (فاربس گنج)، محمد عالم (ارریہ)، محمد افتخار عالم (ارریہ)، بدیع الزماں (بھورا) اور ایک نیک سیرت خاتون نغمہ چشتی بنت محمد عالم (ارریہ) جنہوں نے خدمتِ خانقاہ میں نمایاں کردار ادا کیا، ان کا پورا خاندان حلقۂ ارادت میں شامل ہے، وہ نہایت سنجیدہ اور بااخلاق خاتون ہیں۔

    آپ نے تقریباً 90 سالہ عمر پائی اور سلسلۂ صابریہ امجدیہ کو وسعت دینے میں گراں قدر خدمات انجام دیں، آپ کا وصال 8 ذی الحجہ 1437ھ، مطابق 11 ستمبر 2016ء بروز اتوار وقتِ عصر خانقاہ چشتیہ صابریہ ارریہ میں ہوا، آپ کے اہل خانہ نے آپ کے جنازے کو آبائی وطن لا کر شاہ تکیہ، لکڑی درگاہ (سیوان) میں 10 ذی الحجہ 1437ھ، مطابق 13 ستمبر 2016ء بروز منگل بعد نمازِ ظہر سپردِ خاک کیا، نمازِ جنازہ کی امامت مولانا کمال الدین نے فرمائی، آپ کا آستانہ پختہ، خوش نما اور دلکش انداز میں تعمیر شدہ ہے، ہر سال 14 ذی الحجہ کو دن گزار کر پندرہویں شب کو ایک روزہ عرس منعقد کیا جاتا ہے، جس میں مریدین، معتقدین و متوسلین کی بڑی تعداد شریک ہوتی ہے، جلوسِ چادر، قل شریف، مجلسِ سماع اور لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

    راقم الحروف نے پہلی بار مؤرخہ 30 نومبر 2024ء کو آپ کے آستانے پر حاضری دی، جہاں جناب احمد علی، جناب محمد شریف اور دیگر مریدین سے قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے