تذکرہ پاک حضرت بابا مراد علی شاہ چشتی صابری امجدی
حضرت بابا مراد علی شاہ کا اصل نام دُوبَر خان اور والد کا نام دُکھی خان تھا، آپ دو بھائی تھے، چھوٹے بھائی کا نام جنگی خان تھا، آپ ایک دیندار خاندان سے تعلق رکھتے تھے، آپ کی پیدائش 1861 عیسوی میں اتر پردیش کے ضلع دیوریہ کے موضع مجھولی، تحصیل سلیم پور بچھم محلہ میں ہوئی، لڑکپن سے ہی آپ کی طبیعت لہو و لعب کی طرف مائل نہ تھی اور خرد سالی سے ہی تارک الدنیا ہو چکے تھے۔
آپ کے بچپن کا وقت مسجد یا گوشہ نشینی میں گزرتا تھا، کچھ بڑے ہوئے تو جامع مسجد کے پیش امام سے قاعدہ بغدادی وچند کتابیں پڑھیں، سنِ شعور کو پہنچے تو گھر کے باہر کبھی کسی فقیر سے کبھی کسی جوگی سے ملاقاتیں کر ان کی صحبت میں بیٹھا کرتے، جوانی کے ایام میں آپ کا بیشتر حصہ موضع نول پور کے ندی سے تھوڑی دور اتر جانب ایک خوف ناک جنگل نما مقام پر بسر ہوتا، جہاں لوگوں کو دن میں تنہا جانے کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی، وہاں آپ ایک جھونپڑی بنا کر یادِ الٰہی میں مشغول رہتے، آپ اس اطراف و جوانب کے صوفیوں، سنیاسیوں اور جوگیوں سے رابطہ رکھتے، مجھولی ایک قدیم بستی ہے، جس میں صوفیوں کی آمد برابر ہوا کرتی تھی، خصوصی طور پر چھوٹی گنڈک سے متصل واقعہ نول پور میں مقیم ایک درویش باحق حضرت شاہ مرزا محمد قطب الدین لکھنوی ثم نولپوری چشتی نظامی سلیمانوی (متوفی 1331 ہجری مطابق 1912ء) کی صحبت میں ایک عرصہ دراز گزارا، وہیں آپ کا ربط ضبط ٹوڈل شاہ نامی ایک ہم وطن فقیر سے بھی خوب رہا۔
آپ کی زندگی کی چار دہائی سے زائد بہاریں گزر چکی تھی لیکن اب تک آپ کے دل کو اطمینان و سکون میسر نہ ہوا، تسکینِ قلب کی خاطر رہبر و رہنمائی کی تلاش و جستجو میں مدت تک جویاں رہے مگر مراد دل کے گل نہ کھل سکے، زندگی کا ایک ایک لمحہ درد و بے قراری میں گزرتا جاتا، اسی اضطراب میں ہاتھ میں بانسری لے کر کبھی آبادی تو کبھی ویرانہ میں چکر لگاتے پھرتے اور بانسوری کی سریلی آواز میں محبوب کا نشان ڈھونڈتے پھرتے، منزل کی طلب میں نہ کھانے کی فکر نہ آرام کا خیال رہتا۔
نولپور کے گرد و نواح میں ایک موضع شیام پور کے باشندہ حضرت حافظ محمد یار خان سے آپ کا یارانہ تھا، وہ آپ کے خیر خواہ تھے، چنانچہ جب حضرت سید تصدق علی شاہ کی شیام پور میں رونق افروزی ہوئی تو حافظ موصوف کی وساطت سے آپ کو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، آپ دیکھتے ہی قدم بوس ہوئے، یہ ملاقات یادگار بن گئی، حضرت تصدق علی شاہ (شیر شاہ/سلطان اسد/پر والے شاہ صاحب) نے اپنے پاس رکھی تھیلی سے گڑ نکال کر کھانے کو دیا، گڑ کے حلق کے اندر جاتے ہی دل کی دنیا میں اطمینان و سکون کے گل کھل گیے، دامنِ مراد بھرتے گیے، بیعتِ سرّی کا ارادہ ظاہر کیا، حضرت تصدق علی شاہ کے ساتھ ہو لیے اور ان کے ہمراہ سیوان آ گیے، خانقاہ امجدیہ میں قیام پذیر ہوگیے، حضرت سید تصدق علی شاہ سے سلوکِ بیعت میں داخل ہوئے، مراد شاہ کا لقب اور لباس زرد پایا، آپ اسی نام سے معروف ہوئے، حلقۂ ارادت میں داخل ہونے کا سال 1322 ہجری مطابق 1904ء ہے، وہ ایک طویل مدت تک خانقاہ امجدیہ میں رہ کر مرشد کی حضوری اور مہمانوں کی خدمت گزاری میں مشغول رہے۔
حضرت بابامراد علی شاہ اپنے پیر و مرشد کو اپنے وطن مجھولی میں اس مقام پر بھی لے گیے، جہاں وہ پہلے عبادت و ریاضت کیا کرتے تھے، اسی جگہ خانقاہ کی بنیاد عمل میں آئی، جو خانقاہ اسدیہ مرادیہ سے موسوم ہوئی، گویا سلسلۂ امجدیہ کی ایک شاخ قائم ہوئی، جس کے توسل سے زمانہ حال میں درجن سے زائد خانقاہیں فیضانِ صابری و امجدی کی اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے، اسی خانقاہ میں رہ کر بابا مراد شاہ نے بندگانِ خدا کی اصلاح تزکیہ نفس اور راہِ سلوک کے مسافروں کی رہنمائی کی، پیر و مرشد کے وصال کے بعد مراد علی شاہ کبھی مجھولی تو کبھی برن پور، آسنسول، بنگال میں اپنے دو مریدین شاہ عبدالغنی حولدار اور شاہ عبدالغفار کی رہائش پر قیام کرتے، آپ نے آخری آرام گاہ کے لیے رحمت نگر برنپور (پچھم بنگال) کو منتخب کیا، آپ نے سنتِ نبوی کے پیش نظر عمر دراز میں حضرت بی بی آمنہ سے نکاح کیا، 90 سال کی عمر میں 17 اپریل 1951ء میں اس دارِ فانی سے منتقل ہو کر اپنے معبودِ حقیقی سےجا ملے، جہاں ایک خانقاہ مرادیہ کی تعمیر ہوئی، جس کے سجادہ نشیں مشہور و معروف خلیفہ حضرت محمد شفیع خان عرف بابا بھولا شاہ ہوئے، جن کی ذات سے سلسلۂ امجدیہ کو کافی فروغ حاصل ہوا، انہوں نے وہاں کے منصبِ سجادگی کو اپنے برادرزادہ اور روحانی فرزند و خلیفہ حضرت اظہارالحسن عرف اظہار شاہ بہ لقب کلیم اللہ شاہ کے سپرد کیا، حضرت اظہار شاہ نے کافی عرصے تک خانقاہ کے نظام کو بہ حسن و خوبی قائم و دائم رکھتے ہوئے، مؤرخہ 28 اپریل 2010ء کو وصال فرمایا اور خانقاہ کے احاطے میں مدفون ہوئے، اظہار شاہ کے تین صاحبزادگان میں بڑے صاحبزادے جناب کاشف کمال صابری موجودہ سجادہ نشیں ہیں اور سلسلۂ امجدیہ کو فروغ دے رہے ہیں، اللہ پاک ان کے دستِ مبارک سے سلسلہ کو وسیع پیمانے پر فروغ دینے کی قوت و توانائی بخشے، آمین۔
حضرت مراد شاہ کے خلفا میں حضرت محمد شفیع عرف بابا بولا شاہ کے علاوہ حضرت شاہ عبدالغفار عرف سلطان شاہ ساکن برن پور متوفی 1973ء، حضرت مولوی فیاض شاہ عرف فانی شاہ ساکن گیا متوفی 1990ء، سکھ دیو پرساد غلام رسول عرف مقبول شاہ ساکن آرا متوفی 1980ء قابل ذکر ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.