حضرت سید خیرالدین مونس اللہ چشتی المعروف صادق علی
آپ کا نام مبارک بمطابق دیوان صادق ”مطبوعہ 1310ھ صفر“ قدوۃ العارفین، زبدۃ السالکین، آگاہِ طریقت دستگاہِ حقیقت حضرت سید خیرالدین المعروف بہ صادق علی المتخلص صادق ہے، لقب مونس اللہ چشتی کنیت ابوالعباس ہے، حضرت غوث الاعظم کی اولاد امجاد حضرت قادر قمیص کی اولاد سے 1140 ھ بمقام سادھورہ شریف ضلع انبالہ ریاست پنجاب (ہریانہ) میں اس جمالِ جہاں آرا کو زینت بخشی۔
اسم مبارک سید خیرالدین ہونے کا ثبوت راقم کے پاس مجموعہ کلام دیوان صادق (مطبع رزاقی کانپور، 1310ھ) کے ص 4، 5، 20 پر درجِ ذیل اشعار سے ملتا ہے۔
جب شر کو اٹھا خیر میں آیا صادق خیرالدین ہوا
شکرِ خدا اس یار نے مجھ کو خلق درد آشام کیا
جب چھوڑ کر حب دنیا کو میں صادق خیرالدین ہوا
ہے خانہ بھلا ویرانہ بھلا اور شہر بھلا کہسار بھلا
میں صادق خیرالدین ہوں یا رو راہ میں اپنے پیارے کی
ہے اب تو وصال دایم لیکن میں بھی ہوا مسمار عجب
تعلیم : بغرض اکتساب تعلیم ظاہری و باطنی پنجاب سے دہلی تشریف لائے اور قطب العالم امام التجرید والتفرید حضرت مولانا فخرالدین فخرِ جہاں کے حلقہ درس و ارشاد میں شامل ہوئے، تکمیل علومِ ظاہری و باطنی سے کلی فراغت کے بعد قلب مضطرب میں عشق الٰہی کا شرارہ شعلہ فشاں ہوا کسی طور ضبط و تحمل ہاتھ نہ آیا، انجام کار سلطان الطریقت، امام الشریعت، محرم اسرارِ حقیقت، حضرت مولانا فخرالدین فخرِ جہاں کی بیعت سے چالیس سال کی عمر میں مشرف ہوئے جب کہ حضرت فخرِ جہاں کی عمر اس وقت سولہ سال کی تھی جس کا اظہار دیوان صادق کے ص 18، 17 پر درج اشعار میں اس طرح کیا ہے۔
پی شراب عشق اب تو مست و متوالا ہوا
مئے کی مخموری میں ایں و آں سے نروالا ہوا
اب مجھے صحبت ہے ان سے اک صفیر اک کبیر
یار تو شش سال کا اور میں چہل سالہ ہوا
معترضین کی تشفی کے لیے حضرت فخرِ جہاں سے شرفِ بیعت کی صداقت میں دیوان صادق کے ص 2، 3 پر درج اشعار پیش کرتے ہیں۔
آشنائے بت ہوا میں کفر میں سرشار ہوں
کافروں کا دین و ایماں فخر مولانا مرا
مولوی صاحب چراغ چشت فخرالدین نام
صادق استاد برہان فخرِ مولانا مرا
بیعت و ارادت کے بعد کچھ دنوں تک ریاضات و مجاہداتِ شاقہ میں مستغرق رہے اور منزل سلوک کی تکمیل کی تائید کے ثبوت میں مرشد طریقت حضرت فخرِ جہاں نے خرقۂ خلافت و اجازت اجرائے طریقت و دیگر نعمتِ باطنی عطا کیا جس کا ثبوت دیوان صادق کے ص 14، 15 پر درج اشعار جس میں آپ نے برادرِ طریقت و خلیفہ و مجاز نور محمد مہاروی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
یار کو خلوتِ خاص میں جس دم جلوہ اک درکار ہوا
جامہ پہنا امکان کا اور آپ ہی وہ اظہار ہوا
ہے نورِ محمد فخر مجھے بس میں ہوں صادق خیرالدین
میں لے کے بغل میں شیشہ باہم ساقی کے میخوار ہوا
حضرت سید خیرالدین بمعروف صادق علی شاہ متخلص صادق کے خواجہ فخرالدین دہلوی کے مرید و خلیفہ ہونے کا ثبوت سخنؔ دہلوی کے دیوان سخن (مطبوعہ 1303ھ 1886ء کے جلد 2 میں ص 35، 34 پر درج ذیل اشعار سے ثابت ہے۔ (یہ دیوان بھی راقم کے پاس موجود ہے)
غلامِ خواجہ ہندالولی عطائے رسول
حبیب و مقتدر بارگاہِ رب قدیر
قیامِ اصدق چشتی و صادقی فخری
یہ نامِ حق میں ہمارے ہیں آیۂ تطہیر
برائے خواجہ فخرِ زمن محب نبی
برائے صادق اصدق شہر بشیر و نظیر
سخنؔ دعا یہ کلام اپنا ختم کرتا ہے
بیانِ حال کیا اس نے مختصر تحریر
(دیوان سخنؔ، مطبوعہ 1303ھ 1886ء)
حضرت محمد عبدالعزیز خاں متخلص بہ نغزی کے مجموعۂ کلام (مطبوعہ 1329ھ) کے ص 5 اور ص 16 پر اشعار شجرہ سے بھی حضرت فخرالدین دہلوی سے ارادت و خلافت کا ثبوت ملتا ہے، مجموعہ نغز پر قطعۂ تاریخ محمد قاسم صاحب کے مرید محمد اکبر نذر امروہوی نے لکھا ہے۔
بحق شاہ فخرالدین حضرت
بروحِ پاک دایم بار رحمت
بحق سیدی صادق علی شاہ
محب صادق اللہ باللہ
غلام غلامان تست تغزی
فدا برجان و نام تست نغزی
(مجموعۂ کلامِ نغز 1329ھ راقم کے موجود ہے)
دیگر : مجموعۂ نغز، ص 9، 1329ھ
اے بلبلِ باغِ بنی وی قمری شاخِ علی
وی طوطیٔ صدق و صفا گاہی نظر برمن فگن
اے باغبانِ اصدقی زیبایش گل صادقی
آرایش گلِ اؤلیا گاہی نظر برمن فگن
دیگر : مجموعۂ نغز، ص 9، 1329ھ
مقبولِ رب ذوالمنن گاہی نظر برمن فگن
محبوب حضرت مجتبیٰ گاہی نظر برمن فگن
اے گلبن چشتی چمن از باغ فخر نسترن
وی نرگس جادو فگن گاہی نظر برمن فگن
نفزی غلام بے درم دار دامید از کرم
گوید بہردم ایں سخنؔ گاہی نظر برمن فگن
(مجموعۂ نغز، ص 11، 1329ھ)
اوپر دیے گئے اشعار بھی حضرت سید خیرالدین المعروف بہ سید صادق علی شاہ کی ارادت و خلافت اور عظمت و ولایت کا ثبوت دے رہے ہیں، درج بالا اشعار جناب عبدالعزیز خاں نغزی (رئیس : میرٹھ، اترپردیش) کے مجموعۂ کلام نغزی (مطبوعہ 1329ھ) میں ماخوذ ہیں۔
اب آئیے ایک اور بزرگ صوفی شاعر جناب سید محمد شریف الدین حسن اصدقی بمعروف صفی اللہ متخلص راغب شہسرام کے فارسی دیوان میں درج شدہ اشعار ملاحظہ فرمائیں جس سے حضرت سید خیرالدین المعروف بہ صادق علی شاہ مونس اللہ چشتی کی ارادت و خلافت اور اجازت اجرا طریقت کا ثبوت ملتا ہے اور ان تمام ثبوت و شواہد سے یہ بات پایۂ ثبوت تک پہنچتی ہے کہ آپ بلاشبہ خواجہ فخرِ جہاں کے اعظم و اجل خلیفہ تھے اور فیوض و برکات سے ایک عالم کو سیراب کرتے رہے۔
مقبولِ حضرتِ حق شاہ قیام اصدق
قطبِ زماں الحق شاہ قیام اصدق
منظورِ فخرِ عالم عالی جناب صادق
محبوبِ خیر صادق شاہ قیام اصدق
ہر کس بعشق مولا آمد بہ آستانش
فرمود واصل حق حق شاہ قیام اصدق
راغب دل صفایش آئنہ معانی
ہم واقف حقایق شاہ قیام اصدق
(دیون راغبؔ 1323ھ)
حضرت راغب کا فارسی دیوان بھی راقم کے پاس موجود ہے۔
دیگر : مجموعہ نغز ص 16
بحقِ جنابِ شہر فخرِ دیں
مشرف بافلاک فخرِ زمیں
بحق شہرِ عرفان صادق علی
محبِ بنی وہم عاشقِ علی
بحقِ شہہ اصدق الصادقیت
زبانش چو حکم فضا طقیت
بحقِ شہنشاہِ آں بحر و بر
کہ نورِ محمد در و جلوہ گر
جمیع عرض ہا نغزی بے نوا
اجابت بکن از پئے انبیا
(مجموعۂ نغز، 1329ھ)
حضرت صادق علی خرقۂ خلافت سے سرفراز و فیضیاب ہونے کے بعد یگانۂ روزگار اور یکتائے وقت اؤلیائے کاملین کی صف میں شمار ہوئے اور تشنگانِ طریقت کی سیرابی کے لیے ملک و بیرون ملک سیاحت اختیار کی۔
دورانِ سیاحت لاکھوں تاریک دلوں کو منور کرتے اور صاحبِ حال و مقبول بندگانِ الٰہی کی تکمیل نیز فیضانِ باطنی و عطائے خرقۂ خلافت کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جزیرہ سراندیپ پولو پلانگ میں اقامت پذیر ہوئے اور بہ سبب علات 27 صفر 1248ھ بوقت نصف شب واصل بحق ہوئے وہیں مدفون ہیں، قبلِ وصال ہی آپ نے مرید اجل و افضل فخرالاؤلیا حضرت خواجہ سید قیام اصدق کو خرقۂ خلافت و دیگر تبرکات عطا کیا بعد وفات حضرت فخرالاؤلیا خواجہ سید قیام اصدق خلیفہ و جانشیں ہوئے اور ضلع نالندہ پیر بیگھ شریف کی سر زمین پر حضرت خواجہ قیام اصدق کی خانقاہ عالیہ سے قادریہ چشتیہ فخریہ صادقیہ سلسلۂ طریقت ملک گیر سطع پر عام و اشہر ہوا۔ (تاریخ ابلاغ چشت، ص 69)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.