حضرت فرید ثانی اصدقی
دلچسپ معلومات
خلف اصغر حضرت سید شاہ ابو صالح ظہیرالدین احمد فریدی معروف شیخ الحدیث کو معتدد مشاہیر شہر کی موجودگی میں اپنا سجادہ اور جانشیں مقرر کیا اور خلف اکبر مولوی نصیرالدین احمد کو بھی خلیفہ و مجاز بنایا۔
آپ کا نام الحق سید فریدالدین لقب فرید ثانی اور ہادی ہے، والد ماجد سید وجیہ الدین ہیں، مولد و مسکن گہوارۂ علم و ادب مدینۃ الاؤلیا سے موسوم ریاست بہار کا سرسبز و شاداب کو ہساروں سے گھرا مناظر قدرت میں بے مثال سلطان شیر شاہ سوری کی آخری آرام گاہ شہر سہسرام ہے جس کی بنیاد تو حضرت سید میر حسین شہید اولاد امام زین العابدین نے 582ھ میں رکھی لیکن شاد و آباد کرنے کا فخر حضرت مخدوم محمد صالح چشتی درود 900ھ کی ولایت و تصرف اور سوری خاندان کے سلاطین پر مبنی پٹھانی شجاعت کو حاصل ہو، عینی ساداتِ کرام کی سیادت اور سوری پٹھانوں کی شجاعت و حشمت دونوں اسلام کی آبیاری میں کار فرما رہی، سوری خاندان نے حضرت مخدوم محمد صالح پیر چشتی کی رہنمائی میں صرف سہسرام ہی نہیں بلکہ ریاستِ بہار اور آس پاس کی ریاستوں میں بھی اسلام کو عروج بخشا، مخدوم محمد صالح کے وصال کے بعد بھی آپ کے خاندانی بزرگوں پر مشتمل کاروان ولایت نے اسلام اور شریعت و طریقت پر مبنی متصوف تبلیغی مشن جاری رکھا اور اسی مشن کا پرچم بہ سلسلۂ خاندانی حضرت فرید ثانی اور سید شاہ ابو صالح ظہیرالدین احمد کے دست طریقت میں مصروف عمل رہا اور آج بھی یہ مشن امیر کارواں حضرت سید احتشام الدین فریدی (سجادہ نشیں : خانقاہ فریدیہ، سہسرام) کی صورت میں سرگرم عمل ہے، صدیاں گزر گئیں، زمانہ نے سیکڑوں کروٹیں لیں، متعدد تغیر و تبدل وقوع پذیر ہوئے مگر مخدوم محمد صالح چشتی کی ولایت اور خاندانی شرف و وجاہت آج بھی جاری و ساری ہے۔
مخدوم محمد صالح کا اہم کارنامہ : شاہانِ سور کے دور میں مہدوی تحریک کو فروغ حاصل تھا، شیخ علائی مہدویت کے عظیم مبلغ تھے، ان سے اس تحریک کو بڑ اعروج حاصل ہوا جس کا اثر صوبۂ بہار اور شہسرام تک پہنچا لہٰذا سلطان سلیم شاہ سوری فرزند شیر شاہ کو تدارک کی فکر دامن گیر ہوئی سلطان نے شاہ فرید ثانی کے جدامجد حضرت مخدوم محمد صالح سے رجوع کیا حضرت مخدوم نے اس باطل تحریک کی مدافعت کا بیڑہ اٹھایا اور سلطان سلیم شاہ سور کو پشت پناہی اور راہنمائی کا شرف عطا کیا، سلطان سلیم شاہ سور نے شیخ علائی کا خاتمہ کیا جو مہدوی تحریک کا ختم الباب تھا۔ (دیباچہ عوارف المعارف، ص 166)
نسب پدری فرید ثانی : ابن وجیہہ الدین بن تقی اللہ تا مخدوم محمد صالح تا بابا فریدالدین گنج شکر۔
نسب مادری : مادری نسب حضرت امام حسن مجتبیٰ تک پہنچتا ہے۔
ابتدائی حالات : آپ کی عمر چار سال کی تھی کہ ماں باپ دونوں دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے یتیمی اور اسیری نے مقید کرلیا ایک مقرب ضعیفہ نے پرورش و پرداخت انجام دیا آپ صغر سن ہی تھے کہ حضرت حافظ شاہ احسان علی پاک پٹنی شہسرام آئے اور ایام قیام آپ کو نماز تہجد میں مشغول دیکھ کر فرمایا کہ یہ بچہ اپنے وقت کا ولیٔ کامل ہوگا یہ حقیقت ہے کہ آپ ولی مادر زاد تھے کیونکہ اگر والد ماجد کی جانب سے اعلیٰ نسب صلب حاصل تھا تو والدہ ماجدہ کی جانب سے سرمایۂ ولایت بطن مادر بھی حاصل تھا جہاں آپ کی ولایت پروان چڑھ رہی تھی، آپ زہد و تقویٰ فقر و غنا، صبر و استقامت، علم و حلم میں یکتائے وقت صاحب حال اور صدق مقال بزرگ تھے۔
سلسلۂ تعلیم : ابتدائی تعلیم کا سلسلہ گھر سے ہی شروع ہوا، متوسطات کی تعلیم حضرت شاہ جمال سے پائی اور بقیہ علوم درسیہ و شرعیہ کی تکمیل جلالۃ العلم حضرت سید شاہ احمد حسین سمروی اور حضرت مولانا سید شاہ ظہورالحسن امتھوی سے ہوئی، بطور ثبوت سید سلیمان ندوی (ماہنامہ معارف، ص 375، 1936ء) کے اپنے مضمون میں اس طرح رقم طراز ہیں کہ حضرت مولانا شاہ ظہور الحسن قادری امتھوی کے شاگردوں میں مولانا امیر حسن بلیاوی اور جناب مولانا سید شاہ فریدالدین شہسرامی (سابق مدرس : مدرسہ خانقاہ کبیریہ، شہسرام) اپنے علم و فضل کے لحاظ سے ممتاز تھے۔
درس و تدریس : تکمیلِ علوم کے بعد مدت دراز تک مدرسہ خانقاہ کبیریہ، شہسرام کی مسند درس پر فائزالمرام رہے اور علم سے تشنہ لبوں کو سیراب کرتے رہے۔
بیعت و خلافت : خواجہ قیام اصدق کی بیعت سے 26 صفر 1283ھ مشرف ہوئے بعدہٗ خرقہ خلافت و اجازت اجرائے طریقت سے بھی سرفراز ہوئے۔
امامت : اپنے محلہ کی امامت کے ساتھ عرصۂ دراز تک عیدگاہ شہسرام کی امامت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
تعمیر : محلہ شاہ ہارون عرف برتلہ کی مسجد اور پختہ کنواں اہلِ شہر کے تعاون سے آپ کی ہی تعمیر کردہ ہے۔
تلامذہ : حضرت مولانا سید محمد ہاشم چشتی (سجادہ نشیں : خانقاہ اصدقیہ، پیربیگھ)، سید شاہ فدا حسین (سجادہ نشیں : خانقاہ فیاضیہ، سملی، پٹنہ سیٹی)، مولانا ضیاؤالحسن انصاری (مدرس : مدرسہ خیریہ نظامیہ، شہسرام) وغیرہ۔
خلفا : آپ کے خلفا کی تعداد بارہ ہے، آپ کے اول و اجل خلیفہ و مجاز اور سجادہ نشیں فرزند دلبند شیخ الحدیث سید شاہ ابوصالح ظہیرالدین احمد اصدقی ہیں۔
وصال : 4 محرم الحرام 1343ھ مطابق 1945ء بوقت شب ملک عدم سے ملک بقا چشت ملاظہ فرمائیں۔
تصانیف : کراماتِ اصدقیہ، دیوانِ فریدؔ (اردو)، دیوانِ فریدؔ (فارسی)۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.