Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

شیخ الحدیث حضرت سید شاہ ابو صالح ظہیرالدین احمد اصدقی

اشتیاق ایوبی

شیخ الحدیث حضرت سید شاہ ابو صالح ظہیرالدین احمد اصدقی

اشتیاق ایوبی

MORE BYاشتیاق ایوبی

    دلچسپ معلومات

    ’’حیاتِ اصدق‘‘ میں حضرت سید شاہ احتشام الدین احمد فریدی کی بھی سجادگی اور جانشینی سے متعلق تضادی باتیں بے بنیاد ہیں کیوں کہ حضرت شیخ الحدیث کے بعد آپ کی اولاد میں علم و فضل سے آراستہ علاوہ حضرت احتشام الدین احمد فریدی کے کوئی اہل نہیں تھا۔ ’’حیاتِ اصدق‘‘ میں صرف تین ہی اولاد کا ذکر ہے جب کہ آپ کی چھ اولاد تھیں، (1) سید منہاج الدین احمد فریدی (2) مولانا سید مصباح الدین احمد فریدی (3) سید مفتاح الدین احمد فریدی (4) سید شاہ احتشام الدین احمد فریدی، اول منکوحہ سے تولد ہوئے اور منکوحہ ثانی سے (1) سید ظفر عالم فریدی (2) سید اصغر عالم فریدی پیدا ہوئے۔ اشتیاق ایوبی

    آپ کا نام ظہیرالدین، کنیت ابو صالح، لقب احمد اور حسن ہے، والد ماجد کا نام الحاج سید شاہ فریدالدین ثانی ہے، آپ ولی مادر زاد تھے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو ولی مادر زاد پیدا کرکے اس خاندانی شرف خاص اور سنت ماضی کو قائم رکھا جو جدامجد بابا فریدالدین گنج شکر سے مخدوم محمد صالح اور حضرت فرید ثانی تک جاری رہا۔

    آپ اپنے وقت کے امام الصوفیہ صدرالشرعیہ اور ہادیٔ اتقیا تھے اور یگانۂ عصر میں شمار ہوئے۔

    تعلیم : چار سال کی عمر میں حضرت فرید ثانی نے مکتب کیا بقیہ ابتدائی تعلیم کے اکتساب کا سلسلہ حضرت مولانا سید شاہ بشیرالدین اور والد موصوف سے جاری رہا، بقیہ علوم درسیہ و شرعیہ کی تکمیل کے لیے مدرسہ اسلامیہ، الہ آباد تشریف لے گئے اور حضرت مولانا سید عبدالکافی و حضرت مولانا سید نذیر احمد سکندر پوری سے خوب خوب اکتسابِ علم کیا بعدۂ 1911ء میں دستارِ فضیلت سے سرفراز ہوئے۔

    درس و تدریس : بعد تکمیل علوم مدت دراز تک شیخ الحدیث کے منصب پر مدرسہ خانقاہ کبیریہ، شہسرام میں حدیث و فقہ کے درس و ارشاد کا سلسلہ جاری رہا علوم شرعیہ، عقلیہ، نقلیہ، تفسیر، حدیث، فقہ، منطق، معقولات میں یگانۂ عصر تھے یعنی تمام علوم ظاہری و باطنی میں جامع کمالات تھے۔

    بیعت : گھر میں ہی جامع شخصیت کے مالک امام الطریقت حضرت فرید ثانی کی صورت میں علم سینہ اور باطنی فیوض و برکات کا چشمہ انوار جاری تھا، لہٰذا والد ماجد کی بیعت اور خرقہ خلافت و اجازت اجرائے طریقت سے فیضیاب ہوئے آپ قادریہ چشتیہ دونوں سلسلوں میں یکساں مجاز تھے۔

    امامت : محلہ املی، آدم خاں شہسرام کی مسجد میں امام جمعہ کے فرائض انجام دیتے رہے۔

    خطابت : آپ خطیب بے مثال یعنی شہنشاہ خطابت تھے، خطابت کیا ہوتی علوم حقائق و اسرار کی برسات کرتے اثر انگیزی کا یہ حال ہوتا کہ مجلس وعظ میں ہی ہزاروں تارک دل منور ہوجاتے۔

    حلقہ ارادت : ارادت کا حلقہ بہت وسیع تھا، بہار و بنگال اور خصوصی طور پر کول فیلڈ کے علاقوں میں عقیدت مندوں اور ارادت مندوں کا جال بچھا ہوا ہے۔

    تصانیف : بیعت نامہ، شمائل فریدی، میلاد حضور، رسالہ سماع، چہل حدیث۔

    کرامت : صاحبِ کرامت اور مرتبہ ولایت میں اعلیٰ مرتبت تھے، کرامتوں کا صدور بکثرت ہوا۔

    خلافت و جانشینی : آپ کے خلفا کی تعداد بھی کثیر ہے، قبلِ وصال ہی فرزند ارجمند اول اجل خلیفہ و جانشیں حقیقی حضرت سید احتشام الدین احمد قادری اصدقی فریدی کو خرقۂ خلافت و اجازت مرحمت فرما کر سجادہ و جانشیں کیا۔

    وصال : 5 شعبان 1385ھ مطابق 30 نومبر 1965 بوقتِ نصف شب چہار شنبہ کی وہ مبارک و مسعود ساعت بھی آگئی کہ نگاہ قدرت نے قرب وصل کے لیے انتخاب کیا اور مالک حقیقی جا ملے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے