Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

صوفیوں کا رویہ ہندوؤں کے ساتھ

خلیق احمد نظامی

صوفیوں کا رویہ ہندوؤں کے ساتھ

خلیق احمد نظامی

MORE BYخلیق احمد نظامی

    ہندوستان میں چشتیہ سلسلہ کا ایک اہم اصول یہ رہا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ شگفتہ تعلقات رکھے جائیں، نافع السالکین میں لکھا ہے کہ

    ’’حضرت قبلۂ من قدس سرہٗ فرمودند کہ در طریق ماہست کہ بامسلمان و ہندو صلح باید داشت و ایں بیت شاہد آوروند‘‘

    حضرت قبلہ قدس سرہ‘ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے سلسلہ کا یہ اصول رہا ہے کہ مسلمان اور ہندو دونوں سے صلح رکھنی چاہیے اور یہ بیت پڑھا کرتے تھے کہ

    حافظ گر وصل خواہی صلح کن با خاص و عام

    با مسلماں اللہ اللہ با برہمن رام رام

    (نافع السالکین، ص؍۱۷۶)

    ان کے نزدیک یہ تقاضہ سماج اور سیاست کا نہ تھا بلکہ اخلاق و انسانیت کا مطالبہ تھا، وہ عملاً الخلقُ و عیال اللہ کے قائل تھے اور چاہتے تھے کہ عقائد و نظریات کے اختلافات انسانی برادری کے رشتے پر اثر انداز نہ ہوں، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ ’’وکونوا عباد اللہِ اخواناً‘‘ اے خدا کے بندو آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ (بخاری) ان کا ایمان تھا، وہ مہر و محبت خلوص و مروت، ہمدردی و روا داری سے انسانی قلوب کو ایک رشتۂ الفت میں پرونے کی کوشش کرتے تھے۔۔۔۔ ایک شخص نے بابا فرید کی خدمت میں قینچی پیش کی، فرمایا کہ ’’مجھے تو سوئی دو، میں کاٹتا نہیں جوڑتا ہوں‘‘ (فوائدالفواد)

    ہندو مذہب کی طرف مشائخِ چشت کا جو رویہ تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگائیے کہ ایک دن صبح کے وقت شیخ نظام الدین اؤلیا امیر خسروؔ کے ساتھ اپنے جماعت خانے کی چھت پر چہل قدمی فرما رہے تھے کہ دیکھا کہ پڑوس میں کچھ ہندو بتوں کی پوجا کر رہے ہیں فرمایا کہ ’’ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے‘‘

    امیر خسروؔ نے فوراً ہی دوسرا مصرعہ کہا۔

    مصرع : من قبلہ راست کردم ہر طرف کجِ کلاہے

    کہتے ہیں کہ اس وقت شیخ نظام الدین اؤلیا کے سر پر ٹوپی رکھی ہوئی تھی، ملاحظہ ہو قلمی نسخہ انوارالعیون نیز تزک جہاں گیری۔

    یہ جملہ ان کے افکار کا مکمل ترجمان ہے اور چشتیہ سلسلے کے اصولوں کا بہترین آئینہ وار ہے، مشائخ چشت کی وسعتِ نظر اور رواداری کا یہ حال تھا کہ ہندؤں کی کوئی بات پسند آتی تو اس کے بے تکلف تعریف کرتے، بابا فرید کی خانقاہ میں جوگی اکثر حاضر ہوتے تھے، دو مرتبہ شیخ نظام الدین اؤلیا کی ان سے وہاں گفتگو ہوئی (فوائدالفواد، ص۸۵،۲۴۵)

    ایک بار عالم علوی اور سفلی پر بات چیت چھڑ گئی، جوگی نے اپنے خیالات کی جو وضاحت کی تو شیخ نظام الدین اؤلیا پر بڑا اثر ہوا اور فرمایا کہ ’’مرا سخنِ او خوش آمد‘‘ (فوائدالفواد، ص؍۸۵)

    مذہبی معاملات میں خلوص اور استقامت کو مشائخ چشت بیحد پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، غالبؔ کی طرح انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ

    وفا داری بشرطِ استواری اصلِ ایمان ہے

    مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑ و برہمن کو

    لیکن اس استواری کی ہمیشہ تعریف کی، ایک مرتبہ امیر حسن سجزی (جامع الفوائد) کو کچھ دنوں تک تنخواہ نہ ملی، جس کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہوئے، شیخ نظام الدین اؤلیا کو اس کا علم ہوا تو فرمایا کہ

    ’’ایک شہر میں کوئی مالدار برہمن رہتا تھا، شاید اس پر شہر کے حاکم نے جرمانہ کیا، اس کا سارا مال و اسباب لے لیا، بعد ازاں وہی برہمن مفلس و مضطرب کسی راستے چل رہا تھا، سامنے سے اسے ایک دوست ملا، پوچھنے لگا کیا حال ہے، برہمن نے کہا کہ اچھا اور بہت عمدہ ہے، اس نے کہا کہ ساری چیزیں تو تجھ سے چھن گئیں، اب کیا خاک اچھا ہوگا، بولا کہ زنّار من بامن است‘‘ (میرا جنیو تو میرے پاس ہے) فوائدالفواد، ص؍۵۶۔

    یہ حکایت سن کر امیر حسن کے دل کو بڑی تسکین ہوئی، علامہ اقبال امیر خسرو کے اس شعر کو بہت پسند کرتے تھے کہ مذہبی رواداری اور بے تعصبی کے جذبات کا بہترین آئینہ دار ہے۔

    اے کہ ز بت طعنہ بہ مہذو بری

    ہم زوئے آموز پرستش گری

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے