تصوف اور انقلاب
صوفی ہمیشہ کردار کی فضیلت پر زور دیتے تھے اور خدمتِ خلق کو اس فضیلت کا معیار ٹھہراتے تھے، بنی نوع انسان کی خدمت کے بغیر خدا پر صوفی کا ایمان ناقص رہتا تھا اس سلسلہ میں میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اخلاقی زندگی انقلابی جذبے کے بغیر بالکل بے معنی ہے جو شخص میری طرح سماج کے صحیح اور غلط کے مروجہ معیار کا خیال رکھتے ہوئے بے کیف زندگی گزار سکتا ہے، وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ اخلاق کسے کہتے ہیں، اخلاقی زندگی کے مروج معیار کو تسلیم کر لینے سے عبارت نہیں ہے بلکہ سماجی نظام کے قیام کی خاطر مروج معیار کی مخالفت کا نام اخلاقی زندگی ہے۔
خدا خود ایک زبردست انقلابی ہے وہ خود کسی چیز کو اس حالت پر نہیں چھوڑتا، ایک مشہور ہندو مقولہ میں یہ خیال اس طرح ادا کیا گیا ہے کہ خدا سمندر کو ہمیشہ بلوتا رہتا ہے، شیخ نظام الدین اؤلیا نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ سماجی نظام چوں کہ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، اس لیے کہ انسان کا اخلاقی ضابطہ بھی اس کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے، حضرت عیسٰی نے کہا تھا کہ میں سکون و قیام لے کر نہیں بلکہ تلوار لے کر آیا ہوں، اس اعلان کی مزید تشریح کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میری تعلیم گھر گھر میں ایک کشا کش پیدا کر دے گی اور روایتی تھماؤ کا باقی رہنا ناممکن ہو جائے گا، خود رسول عربی نے فرمایا تھا کہ مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ میں رسوم و رواج اور پرانی اقدار کو زیر و زبر کر دوں۔
ساتویں سے چودہویں صدی تک تصوف کی نوعیت ایک انقلابی ضابطہ کی سی رہی مگر چودہویں صدی میں شاہی مراعات کے خنک سایے میں وقت کاٹنا ان کا مطمح نظر ہوگیا اور فقر و فاقہ کی زندگی عہد ماضی کی ایک داستان بن کر رہ گئی۔
صوفیہ کے ترقی پسندانہ رجحانات :
(۱) صوفیہ نے ان مروج اخلاقی اور سماجی قوانین کو رد کر دیا جو ان کے روحانی مطمح نظر سے ٹکرائے۔
(۲) شخصی ملکیت کے اصول کی تمام صوفیہ نے مخالفت کی، بڑے بڑے صوفیہ مثلاً شیخ نظام الدین اؤلیا کسی کو اس وقت تک مرید ہی نہ کرتے تھے جب تک وہ اپنی ہر چیز کو بیچ کر رو پیر غربا میں تقسیم نہ کر دے۔
(۳) شخصی حکومت کی ملازمت اختیار کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، شیخ نظام الدین اؤلیا نے اپنے ایک مرید سے خلافت نامہ صرف اس بنا پر واپس لے لیا تھا کہ اس نے اپنے کنبہ کی فاقہ زدگی کو دیکھ کر دو روز تک علاؤالدین خلجی کے اس فرمان پر غور کیا تھا جس کی رو سے اسے اودھ کا قاضی مقرر کر دیا گیا تھا۔
(۴) شیخ نظام الدین اؤلیا کے جماعت خانے میں تمام لوگ، ایک اشتراکی اصول پر زندگی بسر کرتے تھے، کپڑے تسبیح، جا نماز اکل و شرب کے چند برتن اور کتابوں کے علاوہ ملکیت کا تصور کسی طرح بھی روانہ سمجھا جاتا تھا، سب ایک کمرہ عام میں رہتے اور سب مل کر کھانا کھاتے تھے، تمام لوگ محنت مزدوری کرتے تھے اور ہر شخص کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ طعام مشترک کے لیے کچھ نہ کچھ مہیا کرے۔
(۵) تمام صوفیہ عالم و فاصل ہوتے تھے صوفیہ کا عوام سے گہرا تعلق ہوتا تھا کیوں کہ تصوف زیر دستوں اور مظلوموں کا مسلک تھا (چین کی عوامی جمہوریہ کے صدر) چیرمین
ما و سی تنگ کا کہنا ہے کہ ’’کمیونزم ایک ایسا ملک ہے جس کا منشا انسانیت کی خدمت ہے۔
(۶) قرون وسطیٰ کے ادب میں عورت سے شدید نفرت کا اظہار ملتا ہے لیکن صوفیہ نے عورتوں کے سلسلے میں ایک بالکل متضاد نظر یہ اختیار کیا، وہ عورتوں کی بڑی برت کرتے تھے۔
(۷) ہر جماعت خانہ میں مہمان خانہ ہوتا ہے، ساکنین کا یہ فرض ہوتا تھا کہ وہ مہمان سے جا کر بیشست و برخاست کے آداب ہر شخص پر سختی سے عائد کیے جاتے تھے ہر جاندار کا احترام کیا جاتا تھا، جماعت خانہ میں ہر قسم کی گفتگو کی اجازت تھی لیکن مناظرہ کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
(۸) سفر صوفیہ کی تعلیم کا نہایت ہی اہم جزو تھا، جس زمانہ میں منگولوں کے حملہ کی وجہ سے سفر نا ممکن ہو گیا تھا، اس وقت بھی صوفیہ لمبے لمبے سفر کرتے تھے،
(۹) صوفیہ انفرادی آزادی کے بعد بھی زبردست علم بردار ہوتے تھے، بعض صوفیہ تو اس حد تک انفرادیت پسند تھے کہ سلسلہ کی روایات سے بھی ان کا جی اکتا گیا تھا، نہ ان کا کوئی مرشد ہوتا تھا اور نہ کوئی مریدہے، یہ لوگ اویسی کہلاتے تھے۔
(۱۰) صوفیہ طبعاً امن پسند ہوتے تھے، قرآن کہتا ہے کہ ’’اے رسول! ہم نے تجھے انسانیت کے لیے رحم و اتمنان بنا کر بھیجا ہے‘‘ خود اللہ تعالیٰ کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے کہ ’’رحم و کرم اس کا مزاج ہے‘‘ چنانچہ ایک صحیح قسم کے صوفی کا فرض یہ ہے کہ وہ لوگوں کے لیے رحمت ثابت ہو۔
شیخ نظام الدین اؤلیا کا کہنا ہے کہ درویش دوست اور دشمن دونوں کا درست ہوتا ہے‘‘
القصہ وحدت الوجود کا مسئلہ ایک ایسا صحیح فلسفیانہ نقطہ نظر ہے جو اپنے انقلابی افتاد و رحجان کے باعث انسان کے لیے ناگزیر ہے، دوم یہ کہ تصوف کی روایات ایک جیتے جاگتے ضابطہ کی حیثیت سے اس باب میں ہماری مدد کر سکتی ہے کہ ہم ماضی اور حال کے سماجی مسائل کا صحیح انقلابی عمل تلاش کر لیں اور یہ حل صوفیہ کی خدمت خلق کے شعار کے مطابق ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.