Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

مشائخ چشت کا طریقۂ تبلیغ

خلیق احمد نظامی

مشائخ چشت کا طریقۂ تبلیغ

خلیق احمد نظامی

MORE BYخلیق احمد نظامی

    اسلام اور اسلام کے اصولوں کی اشاعت کے لیے جو طریقۂ کار مشائخ چشت نے اختیار کیا تھا وہ مروجہ طریقوں سے بالکل مختلف تھا، وہ زبان سے کسی اصول کی تبلیغ و اشاعت کو بے سود و بے کار سمجھتے تھے، وہ کہتے تھے کہ جب تک انسان کی زندگی خود ان اصولوں کی تفسیر نہ بن جائے کسی ان اصولوں سے دلچسپی پیدا نہیں کرائی جا سکتی، عمل میں ایک جاذبیت ہے اس کا اثر زیادہ گہرا اور پائدار ہوتا ہے کار لائل نے رسول مقبول کے متعلق لکھا ہے کہ وہ نور کے ایک بہتے ہوئے چشمہ کے مانند تھے جو ان کے نزدیک آجاتا منور ہو جاتا، مشائخ کی بھی کوشش یہی تھی کہ ان کے عمل کی کشش خود بخود لوگوں کو کھینچ لے، انہیں زبان سے نہ کہنا پڑے، شیخ نظام الدین اؤلیا فرمایا کرتے تھے کہ

    ’’ہر چہ علما بزبان دعوت کنند مشائخ بہ عمل دعوت کنند‘‘ (سیرالاؤلیا، ص؍۳۲۱)

    ایک دن ایک مسلمان ایک ہندو کو لے کر شیخ نظام الدین اؤلیا کیا خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ’’یہ میرا بھائی ہے‘‘ حضرت نے پوچھا کہ ’’ایں برادرِ تو ہیچ میلے بہ مسلمانی دارد‘‘ (تیرا یہ بھائی مسلمانی سے بھی کچھ رغبت رکھتا ہے؟) اس شخص نے عرض کیا نہیں، اسی غرض سے اسے یہاں لایا ہوں کہ جناب کی نظر التفات سے وہ مسلمان ہو جائے، شیخ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے فرمایا کہ ’’اس قوم پر کسی کے کہنے کا اثر نہیں ہوتا ہے، ہاں! اگر کسی صالح مرد کی صحبت میں آیا جایا کریں تو شاید اس کی برکت سے مسلمان ہو جائیں‘‘ اس کے بعد انہوں نے ایک طویل حکایت بیان کی جو تبدیلی مذہب کے بنیادی اصولوں پر ان کے خیالات کی بہترین ترجمانی کرتی ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ نہ تو کسی کو تلوار کے زور سے مسلمان بنایا جا سکتا ہے نہ زبانی تلقین سے، اچھا کردار تلوار اور زبان سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے، اس کی مقناطیسی قوت اعتقاد و عمل میں انقلاب برپا کر سکتی ہے، دوسروں کو مسلمان بنانے سے پہلے خود مسلمان بننا ضروری ہے پھر تمہاری صحبت میں جو آئے گا خود مسلمان ہو جائے گا۔

    مشائخ چشت ہدایت فرماتے تھے کہ اگر کوئی ہندو تمہاری صحبت سے گرویدگی یا عقیدت کی بنا پر تمہارے پاس آنے جانے لگے اور تم سے ذکر وغیرہ کے متعلق پوچھے تو فوراً بتا دو، اس فکر میں نہ رہو کہ وہ باقاعدہ مسلمان ہو جائے، جب اسے روحانی تعلیم دی جائے، حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ

    ’’صبلح یا ہندو و مسلمان سازند دہر کہ ازیں دو فرقہ کہ اعتقاد بہ شما داشتہ باشذ ذکر و فکر، مراقبہ و تعلیم او بگویند کہ ذکر نجاصیت خود او را بربقہ اسلام خواہد کشید‘‘

    (مکتوباتِ کلیمی، ص؍۷۴)

    شیخ نظام الدین اؤلیا کی ایک عبادت ہم اوپر نقل کر آئے ہیں کہ فرماتے تھے کہ اگر بیعت کے شرائط و قواعد کو وہ پہلے ہی سے بیان کر دیں تو بہت سے لوگ محروم رہ جائیں، دینی معاملات میں سہولت پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، انسانی فطرت کو بیک وقت بہت سے اصول و قواعد کی بندش میں جکڑنا اچھا نہیں، کسی نئی قوم کو دعوت دیتے وقت شریعت کے تمام احکامات کا بوجھ ایک دفعہ ان پر ڈال دینا، نفسیاتی مصلحتوں کے خلاف ہے، مشا ئخ چشت اشاعتِ دین کے اسی اصول پر عامل تھے اور اسی کو زیادہ مؤثر خیال کرتے تھے۔

    ملفوظات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شیخ نظام الدین اؤلیا کے زمانہ سے لے کر حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی کے زمانہ تک مشائخ کو ایسے لوگوں کی اصلاح و تربیت کرنی پڑی ہے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اپنے قبیلے کے ڈر سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے، فوائدالفواد میں لکھا ہے کہ

    ’’یکے از حاضران پرسید کہ ہندوے کہ کلمہ میگوید و خدائے را بوحدانیت یاد می کند رسول را برسالت، اما ہمیں کہ مسلمان می آیند ساکت میشود۔ عاقبت اوچہ باشد‘‘

    (فوائدالفواد، ص؍۱۳۵)

    ترجمہ : حاضرین میں سے ایک شخص نے پوچھا کہ ایک ہندو کلمہ پڑھتا ہے اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت پر اعتقاد رکھتا ہے لیکن جوں ہی مسلمان آتے ہیں خاموش ہو جاتا ہے اسکی عاقبت کیسی ہوگی۔

    حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی ایک خط میں شاہ نظام الدین اورنگ آبادی کو لکھتے ہیں کہ

    ’’و دیگر مرفوم بود بہیہ دیارام و ہندو ہائے دیگر بسیار درابقہ اسلام در آمدہ اند امابر مردم قبیلہ پوشیدہ می مانند‘‘ (مکتوباتِ کلیمی، ص؍۲۵)

    حضرت شاہ کلیم اللہ اس چیز کو پسند نہیں کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ آہستہ آہستہ تبدیلی مذہب کا اظہار ہو جانا بھی ضروری ہے۔ (مکتوباتِ کلیمی، ص؍۲۵)

    حضرت نظام الدین اؤلیا نے ایسے لوگوں کے متعلق صرف اتنا فرمایا تھا کہ

    معاملۂ او بحق است تا حق چہ کند

    انشاء و عفا و انشاء و عذب

    حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے ہوئے ہدایت فرماتے ہیں کہ

    ’’انک تاتی قوماً من اھل الکتاب۔۔۔فاند لیس بینھا و بین اللہ حجاب‘‘

    تم اہل کتاب کے پاس جاتے ہو، پہلے ایک کلمۂ توحید کی دعوت دو، اگر وہ اس کو قبول کر لیں تو ان کو بتاؤ کہ خدا نے رات دن میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، گر وہ اس کو بھی مان لیں تو ان کو بتاؤ کہ خدا نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے امرا سے لے کر ان کے غربا پر تقسیم کر دیا جائے گا، اگر وہ اس کو بھی تسلیم کرلیں تو ان کے بہترین ماہر سے احتراز کرنا اور مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیوں کہ اس میں اور خدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے