حضرت بابا فریدالدین گنج شکر
دلچسپ معلومات
پنجاب کے عظیم صوفی شعرا۔
حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ایک ایسا نامِ مبارک اور روشن آفتاب ہے جس نے دامانِ نبی الرحمۃ صلی اللہ علیہ وسلم سے جِلا پائی اور خواجہ معین الدین حسن چشتی نے ضیا بخشی اور خواجہ قطب الدین بختیار کاکی چشتی نے اپنی محبت اور عشق کی گود میں پروان چڑھایا بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ایک ایسا آفتاب بن کر عالمِ رنگ و نور میں طلوع ہوا جو تا قیامت روشن ہے اور اس آفتاب سے کئی چراغِ حق روشن ہوئے اور دنیا کو اپنی نورانیت اور کیف محبت سے بھر دیا۔
بابا فریدالدین گنج شکر 582 ہجری میں ملتان کے قریب ایک قصبہ کیتھولا میں پیدا ہوئے آپ کے والدِ محترم حضرت قاضی جمال الدین تھے اور دادا محترم قاضی شعیب تھے جو کہ کوٹھوال/کیتھوال ہی کے قاضی تھے۔
بابا فرید ظاہری علوم سے فراغب کے بعد سیر و سیاحت کے لئے نکلے اور غزنی قندھار بدخشاں اور دوسرے علاقوں میں اہلِ علم اور اہلِ کمال و عرفان سے ملاقاتیں کر تے ہوئے بغداد میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے، بعد میں آپ خراستان، کرمان، چشت اور بصرہ وغیرہ سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ اور مدینہ میں تشریف لے گئے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ تقدیس و جمال میں حاضری دی آپ نے تین سال تک حرمین الشرفین میں چلہ کشی کی بیت المقدس اور وسطی ایشا کی سیاحت کے بعد آپ دہلی میں اپنے مرشدِ کامل خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے انوار و برکات کے ساتھ ساتھ خواجگانِ چشتیہ کی نعمتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔
حضرت فریدالدین مسعود گنج شکر بچپن سے ہی بہت زیادہ عبادت گزار تھے اکثر روزے سے ہوتے، نوافل پڑھتے اور چلے کیا کرتے تھے، بڑے بڑے مجاہدے فرمائے اور ریاضتیں کیا کرتے آپ نے چلہ ہائے معکوس بھی ادا فرمائے یعنی بڑے بڑے سخت اور جان جوکھوں والے مجاہدے فرمائے اور ان مجاہدوں اور ریاضتوں کی وجہ سے آپ کا ایک لقب زہدالانبیا مشہور ہے، کہا جاتا ہے کہ آپ نے مٹھی بھر کر کنکر اٹھا کر منہ میں ڈال لئے جو پھر شکر بن گئے آپ نے ان کو کھا لیا اور اپنے مرشدِ عالی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا عرض کیا خواجہ عالی نے ارشاد فرمایا کہ تم نے اچھا کیا جو ان سے روزہ افطار کیا جو کچھ غیب سے ہوتا ہے اچھا ہی ہوتا ہے، پھر ارشاد فرمایا ”جاؤ شکر کی طرح شیریں رہو گے؟ اس کے بعد آپ کا لقب پیر شکر گنج مشہور ہوگیا۔
بابا فرید اتحاد اور رواداری کے سفیر تھے : بابا فرید ہماری شناخت کا ایک معتبر، مقدس اور گراں قدر حوالہ ہے، یہ مقام اس فردِ فرید نے بڑی محبت کے بعد حاصل کیا انہوں نے اپنے سلسلہ میں رائج اقدار اور وراثت میں حاصل ہونے والے فلسفہ پر بھر پور عمل کرکے بر صغیر پاک و ہند میں انسان دوستی اور اتحاد کا درس دیا، بابا فرید کا بلا شبہ ان معدودے چند افراد میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے دوربینی اور تاریخی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بر صغیر میں رواداری کی بنیاد رکھی تاکہ انسان مشترکہ جدوجہد سے درد اور دکھ کا مداوا کر سکے، طویل مجاہدہ، مسلسل غور و فکر اور ابن آدم کے شب و روز کا گہرا مشاہدہ انہیں اس مقام پر لے آیا جہاں انہوں نے کہا۔
میں جانیا دکھ مجھ کوں دکھ سبھائے جگ
اچے چڑھ کے دیکھیا تاں گھر گھر ایہا اگ
یعنی میں نے تویہی جانا تھا کہ دنیا بھر کا دکھ میرے ہی لئے ہے لیکن دکھ تو اس دنیا کا حصہ بن گیا ہے میں جب اپنی ذلت سے بلند ہوکر دنیا کا مشاہدہ کرنے لگا تو مجھے ہر گھر درد اور دکھ کی آگ میں ہوا نظر آیا۔
بابا فرید کو ایک عظیم ذمہ داری کا احساس تھا، ذمہ داری یہ تھی کہ خدا کی اس بستی میں جو کرۂ ارض پر آباد ہے انسان سکھ اور چین سے زندگی بسر کرسکے یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے اگر اسے رواداری کے تصور اور ثمرات سے روشناس کرا دیا جائے تاکہ امن اور سکون کے ماحول میں انسان ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر دے۔
مشاہدہ بتا رہا تھا کہ بر صغیر میں رنگ رنگ کی بولیاں بولی جاتی ہیں اور ہر بولی اپنے اپنے علاقے اور لوگوں میں مقبول ہے یہ بولیاں ثقافت کی ترقی کی ضامن ہیں اس دھرتی پر طرح طرح کی قومیں اور نسلیں آباد ہیں اور ہر ایک کو اپنی قوم اور نسل سے پیار ہے اس زمین پر بسنے والوں کے مختلف مسلک 'مذہب' ادیان ہیں، نظریات الگ الگ ہیں، مکاتبِ فکر مختلف ہیں، نظریات و ایمان اور دھرم ہر ایک کو پیارا ہے۔
اختلاف کی اس صورت میں صرف ایک چیز ہی مشترک ہے اور وہ قیمتی قدر خود انسان کی ذات ہے، ہر رنگ، نسل، زبان، عقیدے، نظریہ کا انسان ایک ہی خدا کی مخلوق ہے اور یہ کائنات ماضی، حال اور مستقبل سب کا مشترکہ ورثہ ہے، عقیدوں کے اختلاف کے باوجود، رنگ اور زبان کے اختلاف کے باوجود انسان کا انسان سے رابطہ رہتا ہے، اس کائنات کا کام آگے بڑھنا ہے انسان نے ترقی کرنا ہے باطل نظریات اور منفی رجحانات پر فتح حاصل کرنا ہے۔
صوفیائے کرام کے سامنے یہ کیفیت ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کر جاتی ہے، تعصب اور امتیازی سلوک انسانوں کو تقسیم کرتا ہے، افقی سطرح پر اور عمودی سطح پر انسان پھر طبقات میں تقسیم ہوجاتا ہے، مفادات پیدا ہوتے ہیں جو اخوت و یگانگت کے درمیان دیوار بن جاتے ہیں اس طرح انسان انسان کا دشمن بن جاتا ہے اور فسادات جنم لیتے ہیں، انسان اپنی نسل کا دشمن بن جاتا ہے، حالتِ امن حالتِ خوف میں بدل جاتی ہے اور اس تبدیلی میں انسان بھول جاتا ہے کہ ایسے بد اعمال کر کے اللہ تبارک تعالیٰ کی صفت خلاقی کے لئے چیلنج بن جاتاہے۔
اس پس منظر میں بابا فرید ہمیں ایک ایسے انسان دوست کی شکل میں نمایاں نظر آتے ہیں جو ایک لمحہ ضائع کئے بغیر انسان کو علم 'حلم' ’تدبر' انصاف اور توازن کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، بابا صاحب ہی کی زندگی کو ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف ادیان کے پیروکار آپ کے پاس آتے ہیں اور باقاعدہ باہمی گفتگو کا آغاز ہوتا ہے اور گفتگو اور ڈائیلاگ کا مقصد مناظرہ بازنی نہیں ہے بلکہ حقیقت کا ادراک اور ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کا جذبہ کار فرما ہے اور اس ربط اور میل جول کی وجہ سے تہذیبی اتحاد و رابطے کی بنیاد رکھی گئی اور اس طرح اقلیتی گروہوں کا تحفظ شروع ہوا۔
بابا گورو نانک نے صدیوں بعد جب بابا فرید کے تصورات، کلام اور کام سے آگاہی حاصل کی تو وہ ان کی ذات سے اتنے متاثر ہوئے کہ پاک پتن شریف خود جاکر انہوں نے بابا جی کا کلام حاصل کیا اور اسے اپنے پیروکاروں کے لئے بطور میراث منتقل کیا، بابا جی کا کلام آج گرو گرنتھ صاحب کا حصہ ہے اور اس طرح بابا صاحب کا کلام روحانی حصہ بن چکا ہے، بابا فرید کا کلام چونکہ الٰہی مقاصد کے حصول کے لئے اور خدائی مشن کو آگے بڑھانے کا ذریعہ تھا لہٰذا اس گرو گرنتھ کا حصہ بن جانا تعجب نہیں ہے اس سے یہ اندازہ بھی لگتا ہے کہ گورو نانک کی طرف سے بھی بابا فرید کو کتنا بڑا نذرانۂ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، وہ بھی انسان کو جھوٹے بندھنوں سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔
کوک فریدا کوک : یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آقائے نامدار سرورِ کون و مکاں نبی آخرالزماں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد سلسلہ رشد و ہدایت جاری رہا اور خداوند کریم کے فضل و کرم سے اب تک جاری ہے یہ کام اؤلیااللہ اور صوفیائے کرام نے بہ احسن طریق سر انجام دیا اور بزرگانِ دین نے دین اسلام کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچایا اس بر صغیر میں یہ کام ہمارے صوفی شعرا نے اپنے علاقے میں رائج زبانوں میں تبلیغ اسلام کو جاری و ساری رکھا، ان صوفیائے کرام میں بابا فرید کا نام خاصا نمایاں ہے، آپ کا مشن رب ذوالجلال کی وحدانیت اور نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام تک پہنچانا تھا، آپ کی تصنیفات اور فرمودات میں درج ذیل کتب خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
1۔ راحت القلوب : یہ کتاب آپ کے ارشادات پر منبی ہے جس کو خواجہ نظام الدین اؤلیا نے مرتب فرمایا۔
2۔ اسرارالاؤلیا : یہ بھی آپ کے ارشادات ہیں جن کو آپ کے صاحبزادے شاہ بدرالدین دیوان نے کتابی صورت میں چھپوایا۔
3۔ فوائدالسالکین : یہ کتاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے فرمودات پر مشتمل ہے جن کو بابا فرید نے خود اکٹھا کیا اور کتابی روپ دیا۔
4۔ شکول فرید۔
اس خطبے کے لوگ یہ موسیقی سے اچھی طرح واقف تھے، وہ سرتال کو سمجھتے تھے، اس لیے بابا فرید نے عوام کے ذہنوں اور مزاج کو سامنے رکھ کر دین کی تبلیغ کے لئے شاعری کو اپنایا پھر یہ کہ انہوں نے شاعری راگوں اور راگنیوں میں کی عوام نے آپ کے شعروں کو اپنایا، گایا اور اصل مطلب کو پایا آپ کی شاعری رشد و ہدایت سے لبریز اور پنجابی زبان کا بہت بڑا سرمایہ ہے، حضرت شاہ مادھو لعل حسین فرماتے ہیں۔
نی تینوں رب نہ بھلے دعا فقیراں دی ایہا
رب نے بھلے ہور سب کجھ بھلے رب نہ بھلن جیا
آپ فرماتے ہیں اے انسان ! تو ہر وقت سچے رب کو یاد رکھ، اس کی یاد سے غافل نہ ہو اس لیے کہ رب سچا بھولنے والی چیز نہیں ہے۔
بابا فرید فرماتے ہیں۔
فریدا پچھل رات نہ جاگیو جیوند ڑو مویئو
جے تیں رب و ساریا تین رب نہ وساریو
آپ رب ذوالجلال کی عبادت کی تلقین فرماتے ہیں اور عبادت کے لئے رات کے پچھلے پہر کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے کہ اس وقت دنیا دار لوگ گہری نیند کے مزے لے رہے تھے، ہر طرف چپ کا پہرہ ہوتا ہے کسی قسم کا شور و غل نہیں ہوتا بندہ اگر سچے دل اور نیک نیتی سے رب ذوالجلال کے حضور سجدہ ریز ہو تو یہی اصل وقت اور صحیح عبادت ہوتی ہے، بابا جی ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں۔
اٹھ فریدا وضو ساز صبح نماز گزار
جو سر سائیں نہ نویں سو سرکپ اتار
آپ فرماتے ہیں کہ اے انسان! خوابِ غفلت سے اٹھ وضو کر اور صبح کی نماز ادا کرو اپنے سر کو رب سچے کے حضور جھکا دے، پھر فرماتے ہیں جو سر خداوند کریم جل شان کے حضور جھکتا نہیں اسے کاٹ دے، ایک دوسری جگہ پر فرماتے ہیں۔
کوک فریدا کوک توں جیوں راکھا جوار
جب لگ ٹانڈانہ نہ گرے تب لگ کوک پکار
فرماتے ہیں کہ بندے تو رب ذوالجلال کی بارگاہ میں کوک پکار کر جس طرح کے جوار کے کھیت کا نگراں چڑیوں اور کوؤں سے اونچا بول کر کھیت کو بچاتا ہے پھر فرماتے ہیں کہ ربِ کریم کا ورد اس وقت تک کرتا رہ جب تک کہ ترے دم میں دم ہے۔
بابا فرید اپنی شاعری کے ذریعہ دنیا میں پیار اور محبت بانٹتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ دکھ درد ساجھا کرنے کی تلقین فرماتے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سبق دیتے ہیں، ایک ٹکڑا ملاحظہ فرماتے ہیں۔
فرید اجے تیں مارن مکیاں توں نہ ماریں گھم
اپنے گھر جایئے پیر تنہاں دے چم
آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص آپ سے زیادتی کرتا ہے تو تم برداشت کرو اور اس کو مارنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اس کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو کہ وہ خود ہی پریشان ہوکر واپس چلا جائے، بابا جی کا یہ فرمان بالکل تر و تازہ ہے آج دوسروں کے ساتھ ایسے سلوک کی انتہائی ضرورت ہے اگر ہم بابا جی کی تعلیمات پر عمل کریں تو یہ مار دھاڑ اور قتل و غارت ختم ہوسکتا ہے اور ہم بہ حیثیت قوم سکھ کی نیند سو سکتے ہیں، بابا فرید انسان کو صبر اور قناعت کا سبق دیتے ہیں وہ انسان کو چادر کے مطابق پاؤں پھیلانے کی تلقین فرماتے ہیں، ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو۔
رکھی سکھی کھائے کے ٹھنڈا پانی پی
فریدا ویکھ پرائی چو پڑی نہ ترساویں جی
اس شعر میں بھی بابا جی نے آج کی بات کی ہے اگر آج ہم بحیثیت قوم یہ تہیہ کرلی کہ ہمیں پانے وسائل کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں دوسروں کے دروازوں پر جاکر کشکول پھیلانا پڑے ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں۔
فریدا روٹی میری کاٹھ دی لاہوں میری بھکھ
جنہاں نے کھاہدی چوپڑی گھنے سہن گے دکھ
یہ بھی وہی بات ہے کہ مانگے تانکے کی چپڑی روٹی کھانے سے بہتر ہے کہ اپنی روکھی سوکھی کھائی جائے اگر ہمیں قرض لے کر چپڑی روٹیاں کھانی ہیں تو پھر دکھ بھی زیادہ ہوں گے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا بلکہ ہمارا نانڈا گر پڑے گا، دنیا کی بے ثباتی اور اس چند روزہ زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
فریدا کوٹھے منڈپ ماڑیاں اسار دے بھی گئے
کوڑا سودا کر گئے گوریں جا پئے
بابا جی فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے راہِ حق کو چھوڑ کر دنیا کے جاہ و جلال کو اپنایا انہوں نے گھاٹے سودا کیا یہ سب دنیاوی چیزیں یہ حویلیاں یہ محل ماڑیاں سب دنیا ہی میں رہ جائیں گی اور انسان خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوگا، آگے جاکر اگر کوئی شے اس کے کام آئے گی تو وہ اس کی نیکیاں ہوں گی۔
بابا بلہے شاہ انسان کو اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتے ہیں آپ فرماتے ہیں ”تیری بکل دے وچ چور“ یعنی اے انسان جن مصائب میں تو گھرا ہوا ہے یہ تیری اپنی کرتوتوں کا سبب ہے، تیرا من صاف نہیں ترے اندر ایک چور چھپا بیٹھا ہے پہلے اسے باہر نکال پھر تجھے سکھ کا سانس آئے گا۔
بابا فرید فرماتے ہیں۔
فریدا کالے مینڈے کپڑے کالا مینڈا ویس
گناہیں بھریا کیں پھراں کوک کہن درویش
بابا جی فرماتے ہیں اے انسان! تیرا اندر باہر کالا ہے، تو دنیاوی جاہ و جلال اور لشک پشک کا غلام ہوکر رہ گیا ہے، تیرا بال بال گناہوں میں پھنسا ہوا ہے تونے دکھاوے کے لئے کالا بانا پہنا ہوا ہے تاکہ لوگ تجھے درویش اور فقیر سمجھیں۔
ایک لوک ٹکڑا ہے۔
قبراں اڈ یکدیاں جیوں پتراں نوں ماواں
وارث شاہ فرماتے ہیں۔
جو کوئی جمیا مرے گا سب کوئی
گھڑیا بھجی واہ سب وہیں گاوے
خداوند کریم جل شان کا فرمان ہے۔
’’موت کا ذائقہ سب نے چکھنا ہے‘‘
بابا فرید فرماتے ہیں۔
فریدا گورنمانی سہ کرے نگھریا گھر آ
سر پہ میتھے اوناں موتوں ڈر آ
بابا جی فرماتے ہیں اے انسان! تیرا کوئی گھر نہیں تیرا کوئی تھان ٹھکانہ نہیں تجھے قبر آوازیں لگا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تیرا اصل گھر قبر ہی ہے تونے اس میں سمانا ہے گھبرا نہ اور میری طرف آ جا۔
بابا فرید کا کلام آج بھی تر و تازہ ہے، یہ کلام آج بھی ہماری رہنمائی کر رہا ہے آج ہم جن بیرونی اور اندرونی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اگر ہمیں ان سے نجات پانا ہے تو پھر ہمیں بابا فرید اور دیگر صوفیائے کرام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ (راجہ رسالو روزنامہ جنگ 13 مئی 1997)
بابا فرید نے انسانوں کو محبت اور رواداری کا درس دیا : پاکسان میں صوفیائے کرام کے قافلہ سالار بابا فرید نظر آتے ہیں جن کی زندگی اور پیغام میں ہماری مشکلات کا حل نظر آتا ہے، بابا فرید آٹھ صدیاں قبل ایک ایسے معاشرے میں جنم لیتے ہیں جو کثیر المذاہب، کثیر القومی، کثیر السانی اور توہمات کی زد میں تھا، انسانی زندگی کی کوئی وقعت نہ تھی اور بادشاہی نظام کو لوٹ گھسوٹ اور جنگ و جدل میں انسانی ایندھن بلا دریغ استعمال ہوتا تھا، ان حالات میں بابا فرید نے اعلیٰ مقاصد کی تعلیم دی، رواداری کا کلچر پیدا کیا، علم و حکمت کی طرف لوگوں کو مائل کیا، دھرتی سے پیار کرنے اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا درس دیا، ایک اللہ کی عبادت کی تلقین کرکے فرسودہ رسومات کو ترک کرنے کی تلقین کی تاکہ عام آدمی استحصال سے نجات پا سکے اور متوازن معاشرہ قائم کرنے کی بنیاد ڈالی جاسکے۔
بہشتی دروازہ : بابا فرید کی ذاتِ گرامی کے بارے میں لکھی ہوئی بہت سی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ بابا فرید کی اولاد میں سے ایک محترم شخصیت پیر علی گوہر چشتی نے ایسی ہی کتب کے حوالے سے بتایا تھا کہ بابا فرید کے انتقال کے بعد مزارِ مبارک کی تعمیر کرائی جس کا بندوبست اس طرح کیا گیا کہ قریب ہی واقع دریا کے کنارے اینٹوں کی تیاری کا اہتمام تھا، تمام راج اور مزدور قرآن حکیم کے حفاظ تھے، دریا کے کنارے سے مزار تک حفاظ کرام کی ایک قطار تھی، اینٹ جب دریا کے کنارے سے چلتی تو حفاظ کرام اس پر تلاوت شروع کر دیتے اور مزار والی جگہ پر پہنچتے پہنچتے ہر اینٹ پر قرآنِ حکیم ختم ہوجاتا اور باوضو تلاوت میں مصروف راج مزدوران اینٹوں کو مزار کی تعمیریں استعمال کرتے جاتے، اس طرح بابافرید کے مزار میں استعمال ہونے والی ہر اینٹ پر ایک قرآنِ حکیم پڑھا گیا اور خواجہ نظام الدین اؤلیا نے ہی اس دروازہ کو ”بہشتی دروازہ“ کا نام دیا تھا، عطائے بہشت ذاتِ باری تعالیٰ کی صوابدید اور فیصلہ پر منبی ہوگا مگر ایک بزرگ دینی شخصیت کے مزار کو خواجہ نظام الدین اؤلیا جیسے بزرگ دینی رہنما اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انسان نے احترام محبت اور عقیدت کے ستھ تعمیر کرایا اور اس عقیدت کے جذبہ کے ساتھ اس دروازہ کو بہشتی قرار دیا گیا، جس عمارت کے ایک ایک ذرہ پر کلام اللہ کی تلاوت کی گئی ہو اس کی پاکیزگی اور طہارت پر کس کو اعتراض ہوسکتا ہے، رہی یہ بات کہ جنت میں کون جاتا ہے اور کون نہیں جاتا یہ باتیں انسانی بس سے باہر ہیں اور اس راز کو خدائے باری تعالیٰ اور ان کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم سب کے ہادی رہبر و رہنما صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، بر صغیر پاک و ہند میں اسلام صوفیائے کرام کی کوششوں اور قربانیوں سے پھیلا۔
صفدر میر : بابا فرید کا پایہ بہت بلند ہے، ان کے شلوکوں میں جو پنجابی شاعری کا سر آغاز سمجھے جاتے ہیں، یہ کیفیت بار بار جھلکتی ہے، مثلاً
فریدا رت پھری دن کہنیا پٹ چھڑ پائیں
چارے کنڈاں ڈھونڈیاں رہن کتھاؤ ناہیں
یعنی اے فرید! موسم بدلا ہے تو جنگل اس کے اثرات سے کانپ اٹھا ہے، اتنے لاتعداد پتے جھڑے ہیں کہ جھڑ ہوگیا ہے جیسے بادل کا اندھیرا چھا گیا ہو، ان ننگی ڈالیوں اور بے برگ درختوں میں چاروں طرف تلاش کرکے دیکھ لیں کہیں بھی رہنے کی جگہ نہیں ہے، ایک ایسی ظالمانہ معرشرے کی اس سے بہتر جذباتی تصویر پیش نہیں کی جاسکتی جس میں کسی راست باز اور نیک دین شخص کے لئے کوئی جائے فرار باقی نہیں رہتی، ان کا ایک دوہا ہے۔
رکھی سکھی کھائے کے ٹھنڈا پانی پی
فریدا دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
اور اس کے ساتھ ہی فرماتے ہیں۔
فریدا روٹی میری کاٹھ دی لاہوں میری بھکھ
جنہاں نے کھاہدی چوپڑی گھنے سہن گے دکھ
لیکن صرف اتنے ہی بے غرض اور بے تعلقی کے انداز سے انسان کا گزار نہیں ہوسکتا، ایسے معاشرے میں جہاں نفسا نفسا کا دور دورہ ہو، جذباتی اور روحانی خشک سالی اور قحط ایک اور قسم کی ہلاکت کا باعث بنتے ہیں، ان اشعار میں جو جذباتی، فکری اور روحانی انداز نظر ہمارے سامنے آتا ہے، اسے ہم اسلامی تصوف کی طویل روایت کا نچوڑ قرار دے سکتے ہیں جو ہمارے علاقے میں خصوصی طور پر بزرگوں کی زندگی اور عمل میں جاری و ساری پاتے ہیں۔
بابا فرید اجودھن نامی گاؤں جسے اب پاکپتن کہتے ہیں قیام پذیر ہوئے، بلبن نے ایک مرتبہ سلطان ناصرالدین کی طرف سے ان کو جاگیر کی صورت کچھ گاؤں تفویض کرنا چاہا لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا، آپ پھل پھول پر گزارا کرتے رہے، یہی طریقہ ان کے خلیفہ اور جانشین حضرت نظام الدین اؤلیا کا تھا، وہ ساری عمر دہلی میں رہے لیکن نہ کسی دربار میں گئے اور نہ کسی سلطان کو اپنے جماعت خانے میں آکر ملنے کی اجازت دی، اس طرح وہ اپنے مرشد کی تعلیمات اور اپنے مسلک کے اصولوں پر کاربند رہے اور فیوڈل ازم اور ملوکیت کے ساتھ کسی طرح کا تعاون نہیں کیا۔
فخرِ زمان : بابا فرید کی زندگی، شاعری اور تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو روحانی طور پر ایک ایسی پاکیزہ شخصیت سامنے آتی ہے جس کے فکر و عمل کا محور ہی رواداری کا اصول تھا، اس اصول کے حوالے سے انہوں نے بر صغیر کے مختلف مذہبی گروہوں، نسلی طبقوں اور ذات پات کی لعنت کے شکار معاشرے میں انسانوں کو محبت اور رواداری کا درس دیا تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہ سکیں، ایک دوسرے کا احترام کریں، یوں وہ مثالی معاشرے کی تشکیل کریں جس میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور جس میں انسان دوستی کو بنیادی قدر کا درجہ حاصل ہو، اس اندازِ فکر کے حوالے سے بابا فرید نے تصوف کو انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے فروغ کی تحریک بنا دیا، پنجاب میں روحانیت کی روایت پہلے ہی انسان دوستی اور رواداری پر مبنی تھی، اس لیے بابا صاحب کی تعلیمات کو عوام میں مقبولیت حاصل ہوئی اور وہ سب گروہوں کے محبوب بزرگ بن گئے، یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات کے دو صدیاں بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب تر لانے کی جدوجہد کرتے ہوئے بابا نانک نے سکھ مت کی بنیاد رکھی تو بابا صاحب کے کلام کے ایک بڑے حصے کو نئے مذہب کی مقدس کتاب میں شامل کرلیا، بابا فرید سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتے کیونکہ وہ خوب سمجھتے تھے کہ مذہبی فرقہ بندیوں اور نفرتوں کو زبردستی ختم نہیں کیا جاسکتا، انسانوں کے دل صرف محبت سے جیتے جاسکتے ہیں جب آپ ان کے دل جیت لیں تو پھر انہیں گمراہی سے نکال کر سچی راہ پر بھی لا سکتے ہیں، بابا فرید کا ورثہ ان کی روشن تعلیمات ہیں جو ہمیں مل جل کر رہنے اور نفرتوں کو ختم کرنے کا درس دیتی ہیں، یہ تعلیمات انسانیت کا عظیم ورثہ ہیں۔
شفقت تنویر مرزا : اگر بابا فرید کے ساتھ روادادی کی روایات وابستہ نہ ہوتیں یا ان سے رواداری کی نئی روایات شروع نہ ہوتیں تو بابا نانک کو پاکپتن جانے کی کیا ضرورت تھی اور اگر چلے ہی گئے تھے تو بابا فرید کے پنجابی کلام کو محفوظ کرنا کیا ضروری تھا اور اگر یہ کالم حاصل کرہی لیا تھا تو پھر ان کے بعد آنے والوں نے اسے گرنتھ صاحب کا حصہ کیوں بنایا؟ بابا فرید نے کہا تھا۔
فریدا برے دا بھلا کر غصہ من نہ ہنڈا
دیہی روگ نہ لگ ای پلے سبھ کجھ پا
برا کون ہے؟ جو لوگوں سے برا سلوک کرے، منافق، بد دیانت، بے دین گمراہ، حد سے گزر نے والا، لاقانونیت کی علامت، اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے والا اور اپنے محدود اختیار میں جبر کرنے والا، عقیدے کا اختلاف غیر اخلاقی حد تک رکھنے والا، بابا فرید کا مسئلہ یہ نہیں کہ اس برے کی برائی کریں اسے من ہی من میں ناقابلِ برداشت قرار دیں اور اگر کبھی اختیار حاصل ہو جائے تو اس برے کو جسمانی طور پر صاف کردیں، نہیں ! بابا فرید کا نظریہ طریقہ، طرزِ حیات اس کے بالکل برعکس ہے، وہ برے کو بھی ناقابلِ برداشت قرار نہیں دیتے اس کا بھی بھلا چاہتے ہیں، دوسرے لفظوں میں اس کی ذات کے اندر ایک مثبت پہلو کے تار کو اپنے عمل سے چھیڑ کر یہ چاہتے ہیں کہ اس کی برائی پر اسی اچھائی غالب آ جائے، نفی کو اثبات پر برتری حاصل ہوجائے۔
فریدا تن سکا، پنجر تھیا تلیاں کھونڈی کاگ
اجے سو رب نہ بو ہڑیو، ویکھ بندے کے بھاگ
یا
فریدا میں جانیا دکھ مجھ کوں دکھ سبھائے جگ
اچے چڑھ کے ویکھیا تاں گھر گھر ایہا اگ
رواداری یا ناپسندیدہ کو برداشت کرنے کا یہ وہ عمل ہے جسے ایک دوسرے معنوں میں اپنی ذات کی نفی بھی کہا جاتا ہے، ذات کی کسی حدتک یا کسی شعبہ میں نفی دوسرے کی نفی یا اثبات کو برداشت کرنے یا تسلیم کرنے کا دوسرا نام ہے، روادارانہ رویہ کا جنم اسی کو کوکھ سے ہوتا ہے، کائنات اور اس کی ہر شے نفی اثبات کے آمیز سے بنی ہے جیسے سلطان باہو نے کہا۔
نفی اثبات دا پانی ملیوس ہر رگے ہر جائی ہو
اگر حقیقتِ حیات یہی ہے تو پھر رواداری انسانیت کا لازمی ہے جزو ہے اور ربِ کائنات نے خود اثبات سے اس کھیل کو تخلیق بھی کیا اور روا بھی رکھا ہے اور پھر وحدت الوجود کے حوالے سے رواداری اور انسان دوستی کی معراج وہ حد ہے جو خود خالقِ کائنات نے مقرر کر رکھی ہے، اس حد کے اندر رہتے ہوئے بابا فرید کی حیات اور فکر کی تجسیم یوں ہوگئی ہے۔
فرید خالق میں خلق و سے رب مانہ
مندا کس نواں آکھیئے جاں تس بن کوئی نانہ
مظہر جعفری : پنجابی شاعری کے بارے میں ابھی تک جتنی تحقیق ہوئی ہے اس کے مطابق بابا فرید ہی پنجابی کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر مانے جاتے ہیں، آپ موضوع کھوتوال 575 یا 569 ہجری میں پیدا ہوئے، شاعری کے علاوہ آپ نے فوائدالسالکین، رحۃ القلوب اور اسرارلاؤلیا جیسی کتابیں تحریر کیں، آپ کے دوہوں پر منبی کلام شائع ہوا، آپ کا کلام پورے انسانی تمدن کا احاطہ کئے ہوئے ہے، آپ نے انسان کو زندگی گزارنے کے ایسے ایسے طور طریقے بتائے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر انسانی زندگی، روحانی اور دنیاوی خوش حالی کا اونچا اور سچا نمونہ بن جاتی ہے، آپ نے انسان کو قناعت، صبر و استقلال، مسلسل محنت اور ریاضت کا درس دیا ہے۔ (روزنامہ جنگ 13 مئی 1997)
بابا فرید دی نذر (منظور وزیر آبادی)
اسلام دا پیام سنایا فرید نے
ستے ہوئے دلاں نوں جگایا فرید نے
ہر شہر ہر مکاں چ پہنچی اے روشنی
دیوا اوہ حق تے سچ دا جلایا فرید نے
ورلے ای لوگ ہون گے جنہاں نو مل گیا
رب دے حضور رتبہ جو پایا فرید نے
ڈگیا اے درتے آ کے جو مسکین آدمی
سینے دے نال اوس نوں لایا فرید نے
دینا دے حکمراں نہ لیا نگاہ وچ
بس رب دے درتے سیس جھکایا فرید نے
جاگے نین جس دے نال مقدر عوام دے
ایہو جہیا سبق پڑھایا فرید نے
منظور سوہنے پاک پتن دے نصیب نے
اپنا مکان جس تے بنایا فرید نے
کلام بابا فرید :
جاں تو کٹھ ویل تاں توں رتا دنی سیوں
مرگ سوائی نینہ جاں بھریا تاں اریا
ترجمہ : اے فرید! جب تیرا کمائی کا وقت تھا تب تو رنگا (مصروف) رہا، دنیا میں موت کی قربت بڑھتی گئی جب گھر گئی (انتہا کو پہنچی) تو کوچ ہوگیا۔
شکر کھنڈا نوات گڑ ماکھیوں ما جھا دودھ
سبھے دستو مٹھیاں رب نہ پنجن تدھ
ترجمہ : (شک نہیں کہ) شکر کھانڈ، مصری، گڑ، شہد اور ماجھا دودھ یہ سب چیزیں میٹھی ہیں لیکن اے رب یہ تیرے نام کی مٹھاس کو نہیں پہنچتیں۔
روٹی میری کاٹ دی لاہون میری بھکھ
جنہاں کھا دی چوپڑٰ گھنے سہن گے دکھ
ترجمہ : میری روٹی لکڑی کی ہے اور میری بھوک ہی اس کا سالن ہے جنہوں نے چیڑی روٹی کھائی انہیں (آگے چل کر) بہت دکھ سہنے پڑیں گے۔
برہا برہا آ کھیے برہا توں سلطان
جت تن بر ہوں نہ ایجے سوتن جان مسان
ترجمہ : لوگ فراق فراق کہتے ہیں یعنی فراق کو نام دھرتے ہیں لیکن در حقیقت فراق سلطان (نہایت بلند قدر شے) ہے جس تن یعنی انسان میں احساس فراق نہیں پیدا ہوتا اسے مسان ہی جانو۔
کوٹھے دھکن کینڑا پر نند ڑی نوار
جو دینہ لدھے گانویں گئے ولاڈ ولاڈ
ترجمہ : محل ماڑیوں پر اچھک کود (لہو و لعب کے جلسے) کب تک اس نیند (خوابِ غفلت) کو دور پھینک جو گنتی کے دن تمہیں (عمر کے) ملے ہیں وہ دن چھلانگیں مارتے ہوئے (تیزی سے) گزر رہے ہیں۔
صاحب دی کر چاکری دل دی لاہ بھراند
درویشاں نوں لوڑیئے رکھاں دی جیراند
ترجمہ : اپنے مالک کے کاموں کو (ان کی بھلائی پر) پورا یقین رکھتے ہوئے کرتے رہو اگر اس میں لوگوں کی مخالفت بھی سہنی پڑے تو سہ لینا کیونکہ درویش کہلانے والے کو درختوں جیسے حوصلے اور صبر کا مظہر ہونا چاہیے۔
فریدا من میدان کر ٹوئے ٹبے لاہ
اگے مول نہ آوسی دوزخ سندی بھاہ
ترجمہ : اے فریدا اپنے دل کو میدان کی (طرح ہموار) کر اور اس میں جو نیچ اونچ ہے اسے دور کر (اگر یہ کر لو گے) تو تمہارے آگے دوزخ کی آگ بالکل نہیں آئے گی یعنی تم اس سے بچے رہو گے۔
فریدا برے دا بھلا کر غصہ من ہنڈھا
دیہی روگ نہ لگ ای پلے سبھ کجھ پا
ترجمہ : اے فرید! جو تجھ سے برائی بھی کرے تو اس کا بھلا کر اور اپنے دل میں غصہ نہ آنے دے (اس کا نتیجہ یہ ہوگا) کہ تمہارے جسم کو کوئی روگ نہیں لگے گا (اس کے علاوہ تم دیکھو گے کہ اس سے گم پر روحانی برکتیں نازل ہونے لگتی ہیں) تم ان سب کو سمیٹ لو۔ (یہ تمہارا حصہ ہیں)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.